زی۔ کے

آج ہم ثور انقلاب کی 42 ویں سالگرہ ایک ایسے وقت میں منارہے ہیں جب پوری سرمایہ دارانہ دنیا اپنی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی سے دنیا بھر میں خوف، دہشت اور بربادی پھیلانے کے باوجود ایک چھوٹے سے وائرس کے خوف سے سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ا نقلابات کو دیکھنے اور پرکھنے کے مختلف زاویے اور پیمانے ہوسکتے ہیں۔ مثلاً انقلاب کی عمومی تشریح کسی سماج پر پڑنے والے اسکے فوری معاشرتی، معاشی، نفسیاتی اور سیاسی اثرات کے حوالے سے کی جاسکتی ہے۔ اسے بطور ایک ایسے انوکھے اور منفرد تاریخی واقعہ کے طورپرسمجھا جاسکتا ہے جو ایک جدلیاتی جست کے ذریعے تاریخ میں نجانے کب سے رونما ہونے والے تغیرات اور تحریکوں کو ایک فیصلہ کن سمت اور منزل فراہم کرتا ہے۔ انقلابات کے پس منظر میں جاری تغیر کے یہ سلسلے ہر قدم پر انقلابی جدوجہد کے مرہون منت ہوتے ہیں‘ نہ کہ یہ ایسے خود رو طریقے سے وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ جس میں انسانی سرگرمیوں کا عمل دخل نہیں ہوتا (جیسا کہ جبریت پسندسمجھتے ہیں)۔ کسی سماج میں وقوع پذیر تبدیلیاں مادے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے اسی حوالے سے مختلف ہوتی ہیں۔ دوسری طرف ایک انقلاب ایک ایسے بڑے کُل کی تشکیل کے لئے جُزیات کی فراہمی کر رہا ہوتا ہے جسے آئندہ ایک زیادہ بڑی اور عالمی شکل میں ظہور پذیر ہونا ہوتا ہے۔ عین اسی وجہ سے انقلابات حکمران طبقات کے لئے درد سر قرار پاتے ہیں کہ انہیں کسی مخصوص خطے اور زمانے تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ انقلاب دشمن قوتیں انقلابات کے اثرات کو محدود کرنے کے لئے کبھی گمراہ کن پروپیگنڈے کا سہارہ لیتے ہیں (جیسے کہ انقلابی ادوار کے دوران) تو کبھی اسکی غیر سائنسی تشریح کرکے اسے قصہ پارینہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کسی انقلاب کی روح کو مسخ کرنے یا اسکے اثرات کو زائل کرنے کی ناپاک کوششیں اکثربے سود ہی ٹھہرتی ہیں۔ دوسری طرف ایک انقلابی دور کتنا بھی مختصر کیوں نہ ہو سماج کی ثقافت، اقدار، ادب، معاش اور معیار زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ جن سے انکار تب ہی ممکن ہوتا ہے کہ اگر اس سے بہتر نتائج دیے جاسکیں۔ اور ایسا کرنا ایک بیمار، متروک اور زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام میں ممکن نہیں۔ لہٰذا سرمایہ داری کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے تباہی اور بربادی کا۔ چنانچہ دنیا بھر میں انقلابات کا راستہ روکنا ہو یا انہیں زائل کرنا ہو‘ اسکے لئے یہ سرمایہ داری کبھی رجعتی قوتوں کی پشت پناہی کرتی ہے تو کبھی بورژوا میڈیا اور کاسہ لیس ادب کا سہارا لیتی ہے۔ کہیں یہ براہ راست مداخلت کرکے ہنستی بستی وادیوں کو آگ اور بارود کے خون آشام کھیل سے کھنڈروں اور قبرستانوں میں تبدیل کرتی ہے تو کبھی سامراجی جارحیت کے نتیجے میں برباد اور تباہ حال سماجوں اور بد نصیب خطوں میں نام نہاد آبادکاریوں کا ڈھونگ رچا کر منافع بخش سرمایہ کاری اور لوٹ کھسوٹ کی نئی راہیں ہموار کرتی ہے۔ اس دوران یہ سامراجی سرمایہ داری خود اپنے ہاتھوں تباہ کردہ خطوں اور سماجوں میں لوگوں کے ”دل و دماغ“ جیتنے کے لئے پروپیگنڈے کے زہریلے طریقے (مثلاًایڈورڈ برنےز کی تکنیک) کا استعمال کرتے ہوئے افراد کی ذہن سازی کی کوشش کرتی ہے یا پھر مذہبی و تعلیمی نصاب اور تدریسی اداروں میں زیادہ گہری اور غیر محسوس سرایت کرکے سرمایہ دارانہ مفادات کے تحت سوشل انجینئر نگ کرتی ہے۔ یوں نئی نسلوں کو یہ یاد بھی نہیں رہتا کہ انکا تاریخ کے ساتھ کیا رشتہ ہے یا پھر انکی کوئی انقلابی تاریخ بھی رہی ہے۔

چنانچہ جب ہم افغان ثور انقلاب کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو ہمیں کہانی کچھ مختلف نظر نہیں آتی۔ کئی دہائیوں کی انقلابی جدوجہد پر محیط ثور انقلاب کو نئی نسلوں کے لئے ماضی کی ایک غلطی اور گناہ کے طور پر پیش کرنے یا اسے تاریخ سے یکسر کاٹنے کے لئے بھی ایسی ہی شرمناک کوششوں کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ افغانستان میں پروپیگنڈے اور براہ راست مداخلت کا کھیل ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہا ہے تاہم اسکی شکل اور مقاصد میں سرمایہ دارانہ سامراجی مفادات کے تحت تھوڑی بہت تبدیلی آتی رہی ہے۔ ذیل میں ہم ان سامراجی وارداتوں کا اسی تناظر میں جائزہ لینے کی کوشش کرینگے۔

۱۔ انقلاب ابتدا ہی سے سامراجی پروپیگنڈے کی زد میں آگیا تھا۔ نوخیز انقلاب کے آغاز میں اس پر پہلا حملہ بورژوا کارپوریٹ میڈیا کی جانب سے اس وقت ہوا جب افغان ثور انقلاب کی تشریح ایک”کُو“ (Coup) کے طور پر کی گئی۔ اس وقت کے اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی رپورٹس، دستاویزی فلموں وغیرہ اور یہاں تک کہ انقلابی رہنماﺅں سے انٹرویو لینے والے بورژوا صحافی سب ہی انقلاب کے لئے ”کُو“ کی گمراہ کُن اصطلاح کااستعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ انقلاب ثور ایک کلاسیکل پرولتاری انقلاب نہیں تھابلکہ اس کی نوعیت ایک پرولتاری بوناپارٹسٹ انقلاب کی تھی تاہم یہ کہیں سے بھی ایک کُو اس لئے نہیں تھا کیونکہ اس کے پس منظر میں افغان سماج میں کارفرماکئی دہائیوں کی ریڈیکل اور انقلابی تحریکوں کے اثرات، خصوصاً انقلاب برپا کرنے والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کی دہائیوں پر محیط انقلابی جدوجہد کے اثرات کارفرما تھے۔ انقلاب دشمن بورژوا میڈیا کی جانب سے ثور انقلاب کے لئے کُو جیسی شرمناک اصطلاح کا استعمال ایک طرف تو بالادست طبقات کے انقلاب سے فطری خوف کا اظہار تھا تو دوسری جانب یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ اتنی بوکھلاہٹ اور تعصب کا شکار تھے کہ جلدبازی میں انقلابی رہنماﺅں کا موقف جانے بغیر ثور انقلاب پر کُو کا سامراجی فتویٰ جاری کردیا۔ انہوں نے ثور انقلاب کے اصل تاریخی محرکات، افغان سماج کے اندرپائے جانے والے طبقاتی تضادات یا پھر اس خطے کے ثقافتی، سماجی اور تعلیمی پسماندگی کے عوامل تک کا مشاہدہ کرنا ضروری نہ سمجھا جو اتنی بڑی تاریخی تبدیلی کا سبب بنے تھے۔ چنانچہ انقلابی افغانستان کا دورہ کرنے والے ان صحافیوں اور رپورٹروں کی بہت ہی کم تعداد ایسی تھی جو تعصب اور پروپیگنڈے سے اجتناب کرتی یا پھر انقلابی رہنماﺅں کا نقطہ نظر غیرجانبداری کے ساتھ باقی دنیا تک پہنچاتی۔ جیسے کہ اپنی تصنیف ”Revolutionary Afghanistan“ میں آسٹریلوی صحافی بیورلے میل اس بات کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ کرتی ہیں:

”روایتی طور پر افغانستان کی شناخت یہاں سے رپورٹنگ کرنے یا یہاں کے متعلق معلومات اکٹھی کرنے کے حوالے سے ایک مشکل ملک کے طور پر کی جاتی ہے۔ تاہم یہ مسئلہ 1978ءکے انقلاب کے بعد یہاں کا دورہ کرنے والے ان صحافیوں کی وجہ سے اور پیچیدہ ہوگیا جو یہاں خیالات کی ایسی پیش بینی کے ساتھ پہنچے تھے کہ جن کا انھوں نے خود کبھی جائزہ نہیں لیا تھا۔ وہ جنہوں نے صدر ترہ کئی یا انکے وزیر خارجہ حفیظ اللہ امین کے انٹرویو کیے تھے شاذونادر ہی ان انٹرویوز کی تفصیل جاری کرتے تھے… صحافیوں نے کابل میں قدم رکھنے سے بہت پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ انہیں کیا لکھناہے۔“

اس تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ بورژوا میڈیا کے صحافی ایک منصوبہ بندی کے تحت اپنے سامراجی آقاﺅں کی دی گئی ڈکٹیشن کے مطابق انقلاب اور انقلابی رہنماﺅں کی رپورٹنگ کرنے کیلئے کابل آئے تھے۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ انقلاب سے متعلق انقلابی رہنماﺅں کا نکتہ نظر کابل سے باہر باقی دنیا کے محنت کشوں سے پوشیدہ رہے۔

۲۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA ) کے سامنے انقلاب (جس کا آغاز 27 اپریل 1978ءکو ہوچکا تھا) کی تکمیل کے لئے ان انقلابی اصلاحات کے نفاذ کا مرحلہ تھا جن کی بدولت ایک طرف افغان سماج میں پائی جانے والی صدیوں پرانی پسماندگیوں او ر جنسی امتیازات پر مبنی اقدار اور روایات کو چیلنج کیا گیا تو دوسری طرف افغان سماجی ڈھانچے میں موجود طبقاتی ناہمواری پر مشتمل بالادست سماجی رُتبوں اور استحصال کی مختلف صورتوں سے کسانوں، محنت کشوں اور خانہ بدوشوں کو نجات دلانے کا آغاز کیا گیا۔ بلا شبہ یہ ریڈیکل اقدامات ان پسے ہوئے طبقات کے لئے ایک بہت بڑی نوید تھی جو پشت در پشت اپنے آقاﺅں کے قرضوں اور سود کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے یا جن کے پاس کاشت کرنے کے لئے کو ئی زمین تھی نہ اختیار۔ پی ڈی پی اے کی انقلابی حکومت کے تحت شاہی خاندان، اشرافیہ، اجارہ داروں، ذخیرہ اندوزوں اور جاگیرداروں کی زمینیں ضبط کر لی گئیں اور بے زمین کسانوں میں تقسیم کی گئیں۔ نیز انکے قرضے اور سود منسوخ کر دیے گئے۔ پسماندہ پدرشاہی افغان سماج میں پہلی مرتبہ عورتوں کی جبری شادیوں اور ولور (ایسا جہیزجسکا مطالبہ دلہن کے والد یا سرپرست دلہاسے کرتے ہیں) پر پابندی لگائی گئی۔ اسکے علاوہ ایسی ریڈیکل پالیسیاں ترتیب دی گئیں جن کے تحت موسیقی، انقلابی ادب، شاعری اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں میں محنت کش طبقے کی خواتین کو آگے لایا گیا اور انکی حوصلہ افزائی کی گئی۔ آرٹ اور موسیقی کے شاندارپروگراموں کا انعقاد کیا جانے لگا جن میں انقلابی رہنما باقاعدہ شرکت کرکے فنکاروں، شاعروں اور گلوکاروں کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ انقلاب سے پہلے کے ادوار میں آرٹ صرف شاہی خاندانواں اور کابل میں موجود اشرافیہ تک محدود تھا۔ نیز شاعری اور ادب شاہوں اور اُمرا کے قصیدوں یا داستانوں پر ہی مشتمل ہوتا تھا۔ لیکن بعد از انقلاب آرٹ کی نوعیت بدلنے لگی تھی۔ اس میں پرجوش انقلابی ترانوں اور دھنوں کا جو اضافہ ہوا تھا اس کی توانائی سے ہر طرف انقلابی جشن کا سماں چھانے لگا تھا اور سماج میں موجود گھٹن اور ٹھہراﺅ کا خاتمہ ہونے لگا تھا۔

انقلابی اقدامات کی بدولت وسیع پیمانے پر رونما ہونے والی تبدیلی سے ماضی کے وہ تمام بُت ٹوٹنے لگے تھے جو اپنے جاہ و جلال، سماجی حیثیت اور استبدادی دہشت کے باعث پورے سماج پرحاوی و قابض تھے۔ اگرثور انقلاب شاہی ایوانوں میں زلزلے لانے کا سبب بنا تھا تو انقلابی اصلاحات سے پسماندہ سماج کے وہ تمام بوسیدہ مینار ہلنے لگے تھے جو جبر اور رجعتی امتیازات کی بنیاد پر صدیوں سے کھڑے تھے۔ خطے میں مظلوم طبقات کی اتنی بڑی جیت کے ردعمل میں انقلاب کے داخلی اور خارجی دُشمن اور رد انقلابی قوتوں کو اپنا وجود خطرے میں پڑتا محسوس ہونے لگا تھا۔ انقلابی فرمانوں کے تحت کئے گئے ریڈیکل اقدامات ابھی ابتدائی مراحل میں ہی تھے جب داخلی اور بیرونی طور پر موجود رد انقلابی قوتیں انکے خلاف متحد ہونے لگیں۔ وہ رُجعتی مذہبی پیشوا جن کے تانے بانے سرحد پار جماعت اسلامی وغیرہ سے ملتے تھے ان کے علاوہ زرعی اصلاحات سے خائف قبائلی سردار، جاگیردار، سامراجی قوتیں ان کے اتحادی اور سہولت کار سب نے مل کر انقلابی اقدامات کو داخلی اور خارجی پروپیگنڈے کے ذریعے قبائلی روایات اور مذہبی اقدار و عقائد کے ساتھ شدید تضاد میں دکھایا۔ انقلابی رہنماﺅں کے خلاف کُفر و الحاد کے فتوے جاری کیے گئے اور انکی پالیسیوں کو ایمان اور ثقافت کے لئے سنگین خطرے کے طور پر پیش کیا گیا۔ دوسری طرف بی بی سی ریڈیو جیسے سامراج کی ایما پر کام کرنے والے اداروں کے ذریعے اس رد انقلابی پروپیگنڈے کی خوب تشہیر کی گئی۔ کارپوریٹ میڈیا کا انقلابی اقدامات کے خلاف یہ زہر آلود پروپیگنڈہ افغانستان میں روسی مداخلت کے بعدیہاں سے افغان مہاجرین کی بڑی تعداد میں ہجرت کرنے اور انکے پاکستان، ایران اور دیگر ممالک میں منتقل ہونے کے بعد تک جاری رہا۔ چنانچہ پشاور کے قریب واقع مہاجر کیمپوں میں امریکہ اور یورپی ممالک سے آئے ہوئے سامراج کے کاسہ لیس صحافی اور نام نہاد تجزیہ نگار مہاجروں سے انقلاب دُشمن بیانات اُگلواتے اوران سے اپنے من پسند انٹرویو لیتے اور پھر افغانستان کی انقلابی حکومت کا موقف جانے بغیر بورژوا مین سٹریم اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے ان من گھڑت اور مسخ شدہ حقائق کی تشہیر کرتے۔

۳۔ خارجی اور داخلی پروپیگنڈے کا نشانہ انقلاب اور اسکی آئیڈیا لوجی کے ساتھ ساتھ خود انقلابی رہنما بھی بنے رہے۔ اگرچہ نور محمد ترہ کئی کے دور صدارت اور انقلابی کمان کے دوران انقلاب دُشمن پروپیگنڈے کا زیادہ تر زور انقلابی اصلاحات کی طرف رہا اور خود ترہ کئی یا دیگر انقلابی رہنما اس سے ذاتی طور پر نسبتاًمحفوظ رہے۔ تاہم جب روسی سٹالنسٹ بیوروکریسی کی ایما پر ’کے جی بی‘ اور پی ڈی پی اے میں موجود چند موقع پرست داخلی عناصر کی ملی بھگت سے پہلے حفیظ اللہ امین پر حملہ کیا گیا اور پھر اسی کے تسلسل میں نور محمد ترہ کئی قتل کر دیے گئے تو پروپیگنڈے کی نہ صرف یہ کہ شدت بڑھ گئی بلکہ اسکا رُخ نئے صدر حفیظ للہ امین کی جانب ہوگیا۔ مثلاً بیورلے میل لکھتی ہیں، ”شاذونادر ہی کوئی انقلاب اتنے بڑے پیمانے پر غلط رنگ میں پیش ہوا ہوگا جتنا کہ افغان ثورانقلاب اور شاید ہی کوئی انقلابی رہنما اتنی بددیانتی کے ساتھ بدنام کیا گیا ہوگاجتنا کہ حفیظ اللہ امین۔“

کامریڈ حفیظ اللہ امین کے خلاف کیے گئے پروپیگنڈے کی نوعیت الزام تراشی پر مبنی تھی۔ ایسے دعوے کئے گئے جنہیں کبھی بھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔ مثلاً حفیظ اللہ امین پرالزام لگایا گیاکہ وہ جنون کی حد تک سوویت نواز تھے یا یہ کہ وہ سی آئی اے کے ایجنٹ تھے۔ اس قسم کے مضحکہ خیز اور متضاد دعووں یا میڈیا پر ان کے پرچار کی اصل کہانی یہ بھی تھی کہ صحافی یا تو جان بوجھ کر حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے تھے یا پھر کسی الزام کو سمجھنے اور پرکھنے کی مشقت سے بچنے کے لئے سہل پسندی سے کام لیتے ہوئے شخصیات کو نشانہ بناتے تھے۔ بعد میں افغانستان پر بنائی گئی امریکی و روسی دستاویزی فلموں میں ان دونو ں قسم کے الزامات کی باقاعدہ طور پر امریکہ اور روس کے متعلقہ حکام کی طرف سے تردیدکی گئی۔ اس قسم کا بے بنیاد پروپیگنڈا بعض اوقات کارپوریٹ میڈیا کے علاوہ دیگر نام نہاد معتبرسامراجی اداروں کی طرف سے بھی ہوتا رہا۔ مثلاً ستمبر 1979ءمیں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کابل کے پُل چرخی جیل میں موجود قیدیوں کی تعداد 12000 بتائی گئی تھی اور اسکے ساتھ ہی حفیظ اللہ امین کی حکومت پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے الزامات لگائے گئے تھے۔ رپورٹ میں بیان کئے گئے اعداد و شمار کو حفیظ اللہ امین نے رد کر دیا تھا۔ کارپوریٹ میڈیا بار ہا ان اعداد و شمار کا حوالہ دے کر امین کو ایک ظالم اور استبدادی حکمران کے طور پرپیش کر کے لوگوں کو گمراہ کرتا رہا لیکن سوویت مداخلت اور حفیظ اللہ امین کے سوویت فوجوں کے ہاتھوں قتل کے بعد جب پُل چرخی جیل کے دروازے کھولے گئے تو اس میں سے صرف 2000 قیدی برآمد ہوئے۔ بعد میں جب غیر جانبدار ذرائع سے ان اعداد و شمار کی تحقیق کرائی گئی تو اسکے تانے بانے کابل میں موجود ایک غیر ملکی سفارت خانے سے ملتے تھے۔ حفیظ اللہ امین کو ایک ظالم اور لاکھوں انسانوں کے قاتل اور خون آشام جابرکے طور پر پیش کرنے میں کارپوریٹ میڈیا، سٹالنسٹ بیوروکریسی اور پی ڈی پی اے میں موجود انکے گماشتے پیش پیش رہے۔

۴۔ پسماندہ خطوں اور ترقی پذیر ملکوں کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ یہ علمی اور سائنسی حوالے سے ترقی یافتہ دُنیا کے دست نگر ہوتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ابلاغ عامہ کے شعبے کے حوالے سے بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ چنانچہ لوگ”مستند خبر“ کے لئے کارپوریٹ مین سٹریم میڈیا کو اہمیت دیتے ہیں۔ جب حالات کشیدہ ہوتے ہیں یا ریا ست کی جانب سے سنسرشپ میں زیادہ شدت سامنے آتی ہے تو بیرونی ذرائع پر انحصار اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ ملک میں کسی انقلابی پارٹی یا ایسے لٹریچر کا فقدان ہوتا ہے جس سے کسی دیے گئے معروض کی وضاحت اور تشریح کی جاسکتی ہو۔ ان حالات میں رجعتی پروپیگنڈا مشینری اور زیادہ متحرک ہوتا ہے، سماج میں زیادہ گہرائی کے ساتھ سرایت کرکے سامراجی مفادات کے تحت اسکی سوشل سٹرکچرنگ کرتاہے اور تعلیمی سرگرمیوں کے بہانے اسے مخصوص شکل میں ڈھالتا ہے۔ کچھ ایسے ہی سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لئے افغانستان میں 1972ءمیں امریکی ’یونیورسٹی آف نبراسکا‘ نے ملک کے جغرافیہ، ثقافت اور عوام کے مطالعے کے غرض سے سنٹر آف افغانستان سٹڈیز (CAS) کے نام سے ایک مستقل ادارہ قائم کیا تھا۔ افغانستان میں روسی مداخلت اور خانہ جنگی کے دوران اس سنٹر نے افغانستان اور پاکستان میں افغان مہاجرین کے لئے یونیورسٹی کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 1300 تعلیمی مراکز قائم کئے اور 130000 مہاجرین کو”تعلیمی خدمات“ اور درسی کُتب فراہم کیں۔ ان سرگرمیوں کی فنڈنگ یو ایس ایڈ کی طرف سے ہوتی تھی اور سرگرمیوں کی نگرانی بورژوا دانشور و سیاست دان وغیرہ کرتے تھے۔ مہاجر کیمپوں میں موجود درسی کُتب کے حوالے سے کریگ ڈیوس نے ””A” Is for Allah, "J” Is for Jihad“ میں لکھا ہے:

”ان درسی کُتب نے مجاہدین کو اپنا سیاسی پروپیگنڈا اور جارحیت پسند مذہبی اقدار مقدس جنگجوﺅں کی نئی نسل تک پہنچانے کا ذریعہ فراہم کیا… فارسی حروف تہجی کے تعارف کے بارے میں اس پہلی جماعت کی کتاب پر غور کریں: ”ت۔ تفنگ (بندوق)۔ جواد مجاہدین کے لئے بندوق حاصل کرتا ہے“، ”ج۔ جہاد۔ جہاد فرض ہے“، ”میری ماں جہاد پر گئی“، ”میرے بھائی نے مجاہدین کو پانی دیا“، ”د۔ دین (مذہب)۔ ہمارا مذہب اسلام ہے“، ”روسی اسلام کے دُشمن ہیں“، ”ش۔ شاکر۔ شاکر تلوار سے جہاد کرتا ہے۔“، ”روسیوں کی شکست سے خُدا خوش ہوتا ہے“، ”و۔ وطن۔ مجاہدین نے ہمارے وطن کو شہرت دی“، ”مجاہدین ہمارے پیارے وطن کو آزاد کرا رہے ہیں۔“

غرضیکہ یونیورسٹی آف نبراسکا اپنے افغان سنٹر میں کبھی تو نیشنل جیوگرافک کے ساتھ مل کر زبانوں اور قومیتوں کی بنیاد پر افغانستان کے نئے نقشے بناکر اس میں مزید پھوٹ ڈالنے کے نیو ورلڈ آرڈر کے لئے راہیں ہموار کرنے میں مصروف نظر آتی ہے تو کبھی قندھار اور بامیان میں توانائی سے متعلق ملٹی نیشنل کمپنی ’یونوکول‘ کے ساتھ اساتذہ کے تربیتی پروگرام منعقد کراتی ہے۔ افغانستان میں 600 سے زائد امریکی فوجی اور دیگر عملے کو افغان ثقافت، زبان اور تاریخ سے روشن کرانا ہو، 8000 افغان اساتذہ کو تربیت دینا ہو، خود نبراسکا میں امریکی فوجیوں کی تربیت کے لئے سیمینار منعقد کرانا ہو یا کابل یونیورسٹی میں صحافیوں کی نئی کھیپ تیار کرنی ہو، یہ سنٹر آپ کو ہر جگہ اور ہر میدان میں متحرک نظر آئیگا۔ اور یونیورسٹی آف نبراسکا افغانستان میں کارفرما پس پردہ ایکٹرز کی صرف ایک مثال ہے۔

۵۔ افغانستان میں رجعت پسندی کو فروغ دینے کے لئے فلم اور ٹیلی ویژن ڈراموں کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اس سلسلے میں پاکستان ٹیلی ویژن کا بنایا گیا ڈرامہ”پناہ “ افغان مہاجرین پر بنایا گیا پہلا ڈرامہ تھا جس میں طلعت حسین اور عظمیٰ گیلانی نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ ڈرامے میں مجاہدین کو افغانستان کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ ضیا آمریت میں پی ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ کیا جانے ولا خبر نامہ مجاہدین کی حمایت میں ایک بڑی پروپیگنڈا مشین کے طور پر چلتا رہا۔ اسکے علاوہ ہالی وڈمیں پہلے تو جہادیوں کی حمایت میں فلمیں بنائی گئیں (مثلاً ریمبو وغیرہ ) اور پھر 9/11 کے بعد ہالی وڈ نے پینترا بدل کر نئی رجعت یعنی طالبان (جو پرانی رجعت کا تسلسل تھا) کو اپنی فلموں میں نشانہ بنایا۔

۶۔ ثور انقلاب کی روح کو مسخ کرنے کی ایک کوشش یہ بھی کی جاتی رہی ہے کہ انقلاب اور انقلابی رہنماﺅں کے تشخص کو کسی نہ کسی طرح قومیت اور قوم پرستی کے محدود سانچے میں ڈھالا جائے۔ ثور انقلاب اور اسکے قائدین کے ساتھ یہ کھلواڑ کھیلنے والے اگر چہ ایک طرف طبقاتی جدوجہد کی وسعت سے خائف نظر آتے ہیں تو دوسری طرف اپنے رومانویت پرستانہ جنون میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ انقلاب کوئی بے جان زمین کا ٹکڑا یا سنگ و خشت نہیں کہ اس کے ساتھ کسی قومی ملکیت کا لیبل لگا کر کسی بے جان بورژوا آئکن کے طور پر لیا جائے۔ نہ ہی انقلابی رہنما بے جان مجسمے اور یادگاریں ہیں جنہیں زمین میں نصب کر کے پرستش کی جائے۔ انقلابات طبقاتی تحریکوں اور جدوجہد کا نتیجہ اور سارے جہاں کے محنت کشوں کی یکجہتی کی علامت ہوتے ہیں۔ ثور انقلاب کی طبقاتی روح کو سمجھ کر ہی اسکے خلاف ہونے والے سازشی پروپیگنڈے کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔

افغان ثور انقلاب کو 42 سال ہوچکے ہیں لیکن سامراجی اور ان کے زر خرید دانشور اور گماشتہ سیاسی اشرافیہ آج بھی انقلاب سے اپنی ازلی طبقاتی نفرت کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ثور انقلاب کو ایک مہم جوئی اور ”قبل از وقت اقدام“ اور افغان سماج کی ”روایات“ سے متصادم قرار دیا جاتا ہے اور افغانستان کی موجودہ تباہ حالی اور پسماندگی کا تمام تر ملبہ ثور انقلاب پر ڈالا جاتا ہے۔ لیکن اسی اثنا میں یہ زرخرید دانشور اور تجزیہ نگار امریکی سامراج اور اس کی گماشتہ ریاستوں کی نام نہاد مجاہدین کی شکل میں افغانستان میں ردانقلابی مداخلت، قتل و غارت اور تباہ کاری کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ وہ اس بات کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے کہ امریکی سامراج نے ہی ان جہادی گروہوں کے اسلحے اور تباہ کاری کے آلات کے لئے رقم کا بندوبست کرنے کے لئے افغانستان میں منشیات کے کارخانے لگائے تھے۔ صرف اسی منشیات سے ہر سال اس خطے میں لاکھوں خاندان تباہ و برباد ہوجاتے ہیں جبکہ اس کالے دھن سے ہونے والی دہشت گردی اور پراکسی جنگیں اس کے علاوہ ہیں۔ آج امریکی سامراج افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر بیس سال تک بربادی پھیلانے کے بعد انہی طالبانوں سے معاہدے کرکے دم دبا کے بھاگ رہا ہے۔ ایسے میں افغان عوام کے سامنے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ نہ تو سامراج کی کٹھ پتلی کابل حکومت، نہ طالبان اور نہ ہی خود امریکہ کے پاس افغانستان کو اس بربادی اور پسماندگی سے نکالنے کا کوئی قابل عمل حل ہے۔ بلکہ بربادی اور تنزلی کا سفر اور بھی شدت اختیار کرے گا۔ ایسے میں ثور انقلاب آج بھی افغانستان کو اس بربریت اور وحشت سے نکالنے کا واحد راستہ واضح کرتا ہے۔ آنے والے دنوں میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں ابھرنے والی انقلابی تحریکیں فیصلہ کن انداز میں افغانستان پر اپنے اثرات مرتب کریں گی اور یہاں وہ مادی حالات تیار ہوں گے جن میں ثور انقلاب کا ادھورا مشن پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔