اداریہ جدوجہد

آج پاکستان کے عوام اور معاشرہ جن عذابوں میں سلگ رہا ہے وہ اس انتہا پر پہنچ گئے ہیں کہ حکمرانوں کے نمائندے بھی اس سے انکار کرنے کے لئے بہت محنت سے جھوٹ اور فریب تراشتے ہیں۔ جب کوئی سماجی نظام اس قسم کے شدید بحران کا شکار ہو جائے تو اسکی حکمرانی کا سب سے اہم خاصہ جھوٹ‘ مکروفریب اور دھوکہ دہی بن جاتا ہے۔ معیشت 70 سال کے بدترین زوال سے گزر رہی ہے۔ اسکی صحت یابی کے امکانات مخدوش ہیں۔ ایسے میں سماجی رشتوں میں منافقت‘ بدمعاشی‘ بے ہودگی‘ تشدد اور فراڈ معاشرے کے باہمی تعلق کا تعین کرتے ہیں۔ ہر سطح پر طاقتور کمزورکو عتاب کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ مالیاتی‘ ثقافتی‘ اخلاقی‘ معاشرتی اور طبقاتی جبر واستحصال اپنی انتہا پر ہے۔ سماجی وثقافتی گھٹن نے یہاں کے باسیوں کی روح اور احساس کو مجروع کردیا ہے۔

جمہوریت کے نام پر اس آمریت نے ایوب خان اور مشرف جیسی آمریتوں کے ظلم وبربریت کو بھی ماند کردیا ہے۔ مزدوروں کی وسیع اکثریت یونین سازی‘کم از کم اجرت اور بنیاد ی حقوق سے محروم کردی گئی ہے۔ ٹھیکیداری نظام‘نجکاری اور مہنگائی نے پرولتاریہ کی زندگی سے ہر سہل لمحہ چھین لیا ہے۔ دہقانوں کی زندگیاں اجیرن ہوگئی ہیں۔ پورے معاشرے کو غذا فراہم کرنے والاکسان خود بھوک اور ننگ کا شکار ہے۔ اس بیمار معاشرے میں جنسی ہوس ایک درندگی کا روپ اختیار کر گئی ہے۔ محنت کش طبقے کی خواتین دوہرے یا تہرے استحصال کا شکا ر ہو کر مظلوم ترین پرت بن چکی ہیں۔ بیروزگاری نے یہاں کی آبادی کے 60 فیصد نوجوانوں کی زندگیوں سے ہر رجائیت اور امید چھین لی ہے۔ پچھلے40 سال کی نجکاری نے تعلیم میں طبقاتی تفریق کی انتہا کردی ہے۔ پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں پچھلے کئی سالوں میں شرح خواندگی گری ہے۔ حتیٰ کہ اب درمیانے طبقے کے لئے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ صحت اور علاج کی سہولیات کی نجکاری سے پرائیویٹ ہسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ لیکن عوام کی بھاری اکثریت کے لئے بچوں اور بزرگوں کا علاج انکی مالیاتی پہنچ سے بہت دور ہوگیا ہے اور مزید ہوتا جار ہا ہے۔ تعلیم او ر علاج سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن گئے ہیں۔ بس کالا دھن اور رئیل اسٹیٹ ہی آگے ہیں۔ ریاست گل سڑ چکی ہے۔ سماجی معاملات پر اس کا اختیار بہت قلیل ہو کر رہ گیا ہے۔ جرنیلوں‘ ججوں اور بیوروکریٹوں کی بڑی تعداد کالے دھن کے زور پر حکمران طبقے کا حصہ بن رہی ہے اور سرکاری وغیر سرکاری (کالی اور ”سفید“) معیشت واقتصادیات کی ملکیت کا وسیع تر حصہ جرنیلوں کی جائیدادیں بن چکی ہیں۔ اس بحران سے پیدا ہونے والی گھٹن نے معاشی وسیاسی استحصال اور ریاستی جبر کے شکار محنت کش عوام کی زندگیوں سے ہر خوشی چھین لی ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے مایوس کیا ہے۔ مذہبی پارٹیوں اور رجعتی قوتوں نے عوام کی محرومیوں میں مذہبی انحصار کو پوری طرح استعمال کرکے ایک دیوہیکل”ملاں اکانومی“ کھڑی کر لی ہے۔

اس سیاسی ”ثقافتی“ اخلاقی‘ معاشی اور سماجی جبر میں یاس وناامیدی کا ابھرنا ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ لیکن چونکہ انسان کی سب سے گہری اور دور رس مدافعت بقا میں ہوتی ہے اس لیے ایک طویل عرصے کی خاموشی اور جمود کے باوجود معاشرے میں اس نظام سے نجات کی جستجو مٹ نہیں سکتی۔ اس بھیانک کیفیت میں 29 نومبر کو ہونے والا طلبہ مارچ اس گھٹن میں بادِ نسیم کے جھونکے کی طرح ابھرا۔ یہ مارچ محض احتجاجی نہیں تھا۔ بلکہ یہ ایک سندیسہ تھا۔ دوستوں کو بھی‘ دشمنوں کو بھی۔ سٹوڈنٹس یونینوں کی بحالی ان کا پہلا مطالبہ تھا۔ آگے جا کر پھر طبقاتی نظام تعلیم کے خاتمے کامطالبہ بھی آنا ہے۔ میڈیا نے شعوری طور پر ساری بحث کو یونینوں کی بحالی تک محدود کردیا۔ سیاستدان بھی اس کھلواڑ کا حصہ بن گئے۔ لیکن ریاست اپنے ننگے جبر میں کمی نہیں لائی اور گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ اگر ہم ان طالب علموں کے مطالبات کا جائزہ لیں تو ان میں کوئی بھی ٹھوس اور معاشی مطالبہ پورا کرنے کی اس نظام میں نہ تو سکت ہے اور نہ ہی گنجائش۔ تعلیم سے لیکر علاج‘کم از کم اجرت سے لیکر خواتین کے حقوق‘ جمہوریت سے لیکر انسانی حقوق‘سماجی انصاف سے لیکر معاشی مساوات‘ مہنگائی سے لیکر بیروزگاری تک۔ ۔ ۔ ان میں سے کوئی بھی مسئلہ موجودہ ریاست‘ سیاست‘ معاشرت اور اقتصادیات کے ڈھانچوں کی جکڑ میں پورا نہیں ہوسکتا۔ ایسے میں جمہوریت اور حقوق کی تحریکوں میں مداخلت کرنا اور جدوجہد میں ہراول کردارادا کرنا اس نظام کے خلاف لڑنے والوں کا جہاں کلیدی فریضہ ہے وہاں یہ سمجھنا اور اس سوچ کو پروان چڑھانا کہ سویلین سپرمیسی اور مکمل جمہوریت کے تحت یہ مسائل حل ہونگے محض خود فریبی اور عوام سے دھوکہ دہی ہے۔ جہاں اس ریاست اور حاکمیت کے خلاف جدوجہد میں حصہ لینا ضروری ہے وہاں ان مسائل کے حل کے لئے پورے نظام وسماج کو بدل ڈالنے کا پروگرام دینے سے گریز ایک جرم بن جاتا ہے۔ جب اس نظام میں اصلاحات کی گنجائش ہی نہیں تو اسی نظام کی سیاست میں انقلابی قوتوں کو غرق کرنے کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ طلبہ مارچ کسی تحریک کا اختتام نہیں تھا بلکہ ایک آغاز اور ایک پیام تھا۔ سچائی یہی ہے کہ اب سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظام کو بدلنے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ جب یہ ریاست‘ سیاست اور معیشت ہی دم توڑ رہی ہے تو پھر انکو درست نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایک سوشلسٹ ریاست‘ سیاست اور معیشت کی استواری لازم ہے۔ انقلابی سوشلزم کے بغیر کوئی راستہ‘کوئی ذریعہ نہیں ہے۔