آصف رشید/عماریاسر

پوری دنیا میں دائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹیوں، تحریکوں اور نیو فاشسٹ رحجانات کا ابھارسرمایہ داری کے شدید معاشی بحران کا نتیجہ ہے۔ سرمایہ داری کے شدید بحران نے اپنے طبقے سے ہی سیاست کرنے کے کلاسیکل طریقے چھین لیے ہیں اور ان کو زیادہ رجعتی طریقہ کار اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ جس کا اظہار آج کی نیولبرل نیم فاشسٹ حکومتوں کی صورت میںنظر آتا ہے۔ سرمایہ داری کو ایک نامیاتی بحران کا سامنا ہے جس نے پوری دنیا میںسماجی سطح پر بائیں اور دائیں بازو کی پولرائزیشن کی شکل میں اپنا اظہار کیا ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے فاشسٹ رحجانات کا طبقاتی کرداربیسویں صدی کے فاشزم سے زیادہ مختلف نہیں ہے لیکن یہ ان جتنے مضبوط نہیں ہیں۔

1970ء کی دہائی کے سٹرکچرل بحران سے نکلنے کے لیے سرمایہ داری نے گلوبلائزیشن کو استعمال کیا تھا جس کے نتیجے میں عالمی مالیاتی نظام سرمایہ داری کا خاصہ بن کر سامنے آیا جس نے بلند شرح منافع کے حصول کے لیے قومی ریاست کی پابندیوں کو توڑتے ہوئے آزاد منڈی کی ایک اندھی معیشت کو قائم کیا۔ گلوبلائزیشن نے اس بحران سے نکلنے میں کچھ مدد تو فراہم کی لیکن اس نے نئے اور زیادہ گہرے بحران کے حالات بھی تیار کیے۔ قومی ریاست کی تنگ حدود اور کنٹرول سے سرمائے کو آزادکر کے سرمایہ دارانہ گلوبلائزیشن نے پوری دنیا میں سماجی تفریق کو انتہاﺅں تک پہنچا دیاہے۔ آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کی 94.5 فیصد دولت پر اوپر کے 20 فیصد لوگوں کا قبضہ ہے اور دنیا کی 80 فیصد آبادی کی دولت محض 4.5 فیصد ہے۔ دولت کے اس خوفناک اجتماع کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ داروں کے پاس اس زائد دولت کی منافع بخش بنیاد پر سرمایہ کاری کرنے کی کوئی جگہ موجود نہیں اوریہی سرمایہ داری کے موجودہ بحران کی بنیادی وجہ ہے۔ امارت اور غربت کی اتنی زیادہ خلیج خود سرمایہ دارانہ نظام کے لئے وبال جان بن گئی ہے۔ قرضوں کی بھرمار ہے۔ پیسے سے پیسہ بنانے کا رحجان حاوی ہے۔ نجکاری اور ’آسٹیریٹی‘ کی پالیسیاں پوری دنیا میں نافذ کی جا رہی ہیں جو دولت کے ارتکاز میں مزید اضافہ ہی کر رہی ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی طریقہ کا ر اس منافع خوری کے بحران سے نکلنے کے لیے کار گر ثابت نہیں ہو رہا۔ صورت حال ایسی ہے کہ جس میں کسی ایک اشاریے کو ٹھیک کرنے کی طرف جاتے ہیں تو دوسرا خراب ہو جاتا ہے۔

اس شدید معاشی بحران کے پیش نظر پوری دنیا کے بڑے سرمایہ دار اس خوف میں مبتلا ہیں کہ کہیں یہ حالات نیچے سے عوامی انقلابات کو جنم نہ دے دیں اور اس سلسلے میں تحریکوں کے خدشات کو کم کرنے کے لئے کچھ سبسڈیاں بھی دی جاتی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے میں کئی ممالک میں انقلابی تحریکیں ابھری بھی ہیں جو ایک انقلابی پارٹی کے بحران کی وجہ سے زوال کا شکار ہو گئیں۔ عالمی سطح پر اس نظام کو جاری رکھنے کا واحد طریقہ جبر اور تقسیم کے ذریعے سماجی کنٹرول کو قائم کر نا ہے جس کا اظہار ہمیں اس وقت پوری دنیا میں دائیں بازو کی حکومتوں کی طرف سے نظر آتا ہے۔ لیکن حالات صدا ایسے نہیں رہتے۔ بعض اوقات حکمرانوں کے یہی تقسیم کے طریقے ان کو الٹے پڑتے ہیں اور عوام کی جڑت کا باعث بن جاتے ہیں جو طاقت کے ایوانوں کو ہلا دینے کا باعث بن سکتی ہے۔

بھارت میں مودی ہندوتوا سرکار اپنے ہم عصر عالمی فاشسٹ دائیں بازو کے حکمرانوں سے بڑھ کر اس وقت سماجی سطح پر مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر سماج کے اندر ایک جارحیت مسلط کر رہی ہے۔ یہ مودی سرکار کی نیولبرل معاشی پالیسوں کو لاگو کرنے میں ناکامی اور بڑھتے ہوئے معاشی بحران کا نتیجہ ہے جس نے ہندوستان کی اکثریتی آبادی کو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مودی نے ہندوتواکو مسلط کرنے کی جو واردات کی ہے یہ ایک آگ اور خون کا کھیل ہے جو پورے سماج کو بربریت میں دھکیل سکتا ہے۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح انڈیا میں بھی مڈل کلاس اور پیٹی بورژوا طبقات کی کچھ حمایت مودی کے ساتھ ہے جو اپنے مستقبل کی غیر یقینی صورتحال سے خوف زدہ ہو کراپنے آپ کو اس موجودہ بحران سے نکالنے کے لئے ماضی کے تعصبات اور رجعت میں پناہ لینے کی کوشش میں مشغول ہیں۔ لیکن آنے والے حالات ان کے اس خبط کا بہت جلد خاتمہ کر دیں گے۔

پہلے کشمیر کے حوالے سے متنازع قانون سازی، پھر بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم اور آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ (این آر سی) پر عملدرآمد کے ذریعے 1971ءکے بعد بھارت میں آنے والے مہاجرین کی شہریت منسوخ کیے جانے کے بعد این آر سی کے پورے ہندوستان میں نفاذنے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔

بی جے پی کی انتہاپسند ہندوحکومت کی طرف سے نافذ کیے جانے والاشہریت ترمیمی ایکٹ (سی اے اے) ہندوستان کی اقلیتوں پر کیا جانے والا ایک رجعتی حملہ ہے جس کا مقصد سماج کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنا ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو، سکھ، مسیحی، پارسی اور دیگر مہاجرین کو ہندوستان کی شہریت دی جائے گی جبکہ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ شمال مشرقی ریاست آسام کے بعد پورے ہندوستان میں این آر سی کے نفاذ کے مطابق ہندوستان کے ہر شہری کو اپنے ہندوستانی شہری ہونے کا دستاویزاتی ثبوت فراہم کرنا پڑے گا۔

شہریت ترمیمی ایکٹ کے بعد قریب بیس لاکھ شہریوں کی بھارتی شہریت منسوخ کر دی گئی ہے۔ جبکہ این آر سی کے پورے ملک میں نفاذ کے بعد ایسے افراد کی تعداد کئی ملین تک پہنچ سکتی ہے جن کے پاس بھارتی شہری ہونے کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ لاکھوں افراد اس دنیا میں شہریت سے محروم ہو کر بھارت میں مہاجرقرار دیئے جائیں گے اور شہری حقوق سے محروم ہو جائیں گے۔ اس مقصد کےلئے مودی حکومت نے مہاجر کیمپوں کی تعمیر کا عمل بھی شروع کر دیا ہے۔ جس کے بعد مہاجر قرار دیئے گئے لاکھوں شہریوں کو ان کیمپوں میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔

اس ایکٹ کے خلاف پورے ہندوستان میں مسلسل احتجاج ہو رہے ہیں۔ لوگ اوپر سے مسلط کی گئی فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر منظم ہو رہے ہیں۔ وہ مذہب کی تفریق سے بالا تر ہو کرایک دوسرے کے شانہ باشانہ کھڑے ہیں اور ایک بھائی چارے کی فضا قائم ہے۔ ہند و شہری مذہب سے بالاتر ہو کر مسلمانوں کی ہر صورت میں مدد کر رہے ہیں۔ مودی حکومت نے آسام میں کرفیو نافذ کیا ہے لیکن مظاہرے زیادہ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اس صورت حال سے بوکھلا کر بھارتی ریاست شہریوں پر ظلم و جبر کی انتہا کر رہی ہے۔ پولیس کی جارحیت زیادہ وحشی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اب تک ان مظاہروں میں28 افراد ہلاک اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ ہزاروں مظاہرین کو جھوٹے مقدمات کے الزام میں جیلوں میں ڈال دیا گیاہے اورصرف اتر پر دیش کی ریاست میں 5500 لوگوں کو پکڑا گیا ہے۔ مظاہروں کو روکنے کے لیے ایک طرف تو تشدد کیا جا رہاہے تو دوسری طرف دفعہ 144 نافذ کر کے لوگوں کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بہت سے بڑے شہروں میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی گئی ہے لیکن اس سب کے باوجود ابھی تک ان مظاہروں پر قابو نہیں پایا جا سکا۔

شہریت ترمیمی ایکٹ اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ کے نفاذ کے خلاف بھارت میں خاص طور پر طلبہ کے احتجاج بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بھی اس احتجاج میں بھرپور شرکت کر رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کئی ترقی پسند شخصیات اور بالی ووڈ ستارے بھی ان میں شرکت کر رہے ہیں اور اس موقع پر ان کے بیانات جرات مندانہ اور بے باک ہیں۔ احتجاجی مظاہروں میں نوجوان بھگت سنگھ کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن مودی حکومت کی رجعتی اور عوام دشمن معاشی و سیاسی پالیسیوں کے انقلابی متبادل کا فقدان موجود ہے اور روایتی بائیں بازو کا پروگرام سیکولرازم اور جمہوریت میں ہی مقید ہے۔

دوسری طرف حکمران بی جے پی کے فسطائی جتھے بھی اس کالے قانون کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں۔ سرکاری سطح پر یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ یہ ایجی ٹیشن اپوزیشن کی چال ہے، اس قانون کے متعلق غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں اور یہ مہاجرین کے لئے فائدہ مند ہے وغیرہ وغیرہ۔ جو کہ سراسر جھوٹ اور فریب ہے۔

کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی محنت کشوں اور نوجوانوں کو کوئی متبادل پروگرام فراہم کرنے کی بجائے اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کےلئے مظاہروں میں بھارتی قومی پرچم لہرا رہی ہیں اور سیکولر آئین کی بات کر رہی ہیں۔ اس سے جہاں کمیونسٹ پارٹیوں کے مرحلہ واریت پر مبنی سٹالنسٹ نظریات کی تاریخی متروکیت کا اظہار ہو رہا ہے وہاں یہ ان کا تاریخی جرم بھی ہے جو تحریک کو آگے لے جانے کی بجائے اس کی پسپائی کاباعث بھی بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے صدر اروند کجریوال نے معاشی بحران کی وجہ اس نظام کی بجائے مہاجرین کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ” ہم اس ایکٹ کی مذمت کرتے ہیں لیکن ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ برصغیر کے دیگر ممالک سے آنے والے مہاجرین کو روکا جائے کیونکہ ان مہاجرین کی وجہ سے مقامی ہندوستانیوں کو روزگار نہیں ملتا۔“ اسی طرح آل آسام سٹوڈنٹس آرگنائزیشن بھی بنگلہ دیش سے آنے والے مہاجرین کو شہریت دینے کے خلاف ہے۔ یہ تاخیر زدہ ہندوستانی سرمایہ داری کی ناکامی ہے جو گزشتہ 73 سال میں ہندوستانی سماج کو ایک جدید معاشرہ نہیں بنا سکی ہے۔

دائیں اور بائیں بازو کے پاس کسی ٹھوس متبادل پروگرام کی عدم موجودگی میں مودی اپنے ایجنڈے کو پروموٹ کرنے میں کسی حد تک کامیاب بھی نظر آتاہے لیکن اس کی قیمت بہت خوفناک اور بھیانک ہے جو اس کو بھگتنا پڑ سکتی ہے۔ جس کا اظہار جھارکنڈ انتخابات کے نتائج کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس شکست کی سب سے بڑی وجہ سی اے اے قانو ن کا نفاذ ہے۔

اس تمام تر سماجی تقسیم کے درپردہ جارحانہ نیولبرل معاشی پالیسیوں کو لاگو کیا جا رہا ہے۔ جس میں بینکنگ سیکٹر کی نجکاری ایک اہم ہدف ہے۔ انڈین بینکنگ سیکٹر اس وقت شدید بحران کا شکار ہے۔ انڈین بینکوں پر اس وقت 200 ارب ڈالر کے’ بیڈ لونز‘ ہیں جن کی واپسی کے کوئی امکانات موجود نہیں ہیں۔ بینکنگ سیکٹر کی نجکاری اور ڈاﺅن سائزنگ اس حکومت کا سب سے بنیادی ٹارگٹ ہے۔ دوسرا اہم کام لیبر مارکیٹ میں ریفارمز  ہیں جس کا مقصد ٹریڈ یونین اور مزدور تنظیموں کا خاتمہ ہے تاکہ سرمایہ کاروں کو منافع بٹورنے کے لیے سازگار حالات فراہم کیے جا سکیں۔

اس وقت ہندوستان کی معیشت شدید مندی کا شکار ہے۔ جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ چھ سال کی کم ترین سطح 4.5 فیصد تک گر چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہندوستان کی معیشت دنیا کی بلند ترین شرح نمو رکھنے والی معیشتوں میں شامل ہوتی تھی لیکن اتنی بلند شرح نمو کے باوجود ہندوستان کی وسیع آبادی انتہائی غربت کا شکار رہی اور امارت اور غربت کی خلیج وسیع ہوتی چلی گئی۔ پچھلے ایک سال میں بیروزگاری کی شرح 3 فیصد سے بڑھ کر اس وقت 8.89 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ گواہ، تریپورا، ہیماچل پردیش اور ہریانہ میں بیروزگاری بالترتیب 20.7, 23.3, 25.9, 34.5 ہے اور ان تمام ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ یہ پچھلے پینتالیس سال کی بدترین بیروزگاری ہے۔ اس حولے سے ان ریاستوں میں بالخصوص اور پورے ہندوستان میں بالعموم سماجی سطح پر شدید بے چینی اور اضطراب موجود ہے۔ جس کا اظہارموجودہ متنازعہ ایکٹ کے خلاف ابھرنے والی تحریک میں بھی نظر آتا ہے۔

صنعتی شعبے کی شرح ترقی منفی 0.1 فیصدتک گر چکی ہے۔ پچھلے سال کی اسی سہ ماہی میں یہ شرح 5.6 فیصد تھی۔ اس کے علاوہ کان کنی، زراعت، تعمیرات، سٹیل، سیمنٹ اور معیشت کے دیگر شعبے بھی تیز ترین گراوٹ کا شکار ہیں جس سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کیا جا رہا ہے۔ پچھلے چار ماہ میں صرف صنعتی شعبے میں دس لاکھ نوکریاں ختم ہوئی ہیں۔ برآمدات پانچ سال پہلے کی سطح پر جا کھڑی ہوئی ہیں۔ یہ شائننگ انڈیا کی کھوکھلی ترقی کی اصل حقیقت ہے جس نے آبادی کی اکثریت کو مزید محروم اور بدحال ہی کیا ہے اور جو اب ہندوستان کے محنت کش طبقے پرقہر بن کر ٹوٹ رہی ہے۔

مودی حکومت نے جن مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ہندوتوا کے ایجنڈے پر عملدرآمد کر کے معاشرے کو تقسیم کرنے کا عمل شروع کیا ہے اور پس پردہ معاشی حملوں کی منصوبہ سازی کر رکھی ہے ‘ ان میں بورژوا اپوزیشن اور روایتی بایاں بازو اپنے اصلاح پسندانہ پروگرام کے باعث سہولت کاری کا کردار ہی ادا کر رہے ہیں۔ مئی کے انتخابات میں ان کی بدترین ناکامی ان کی اصلاح پسندانہ روش کی نامرادی کا اظہار تھی۔ اب مختلف ریاستوں میں کمیونسٹ پارٹیاں کوئی آزادانہ انقلابی پروگرام دینے کی بجائے کانگریس اور دوسری دائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ الائنس بنا کر مودی کے خلاف مظاہرے کر رہی ہیں۔ ان کے پاس محنت کش طبقے کو دینے کے لیے کوئی متبادل پروگرام نہیں ہے اور وہ اپنی اس ناکامی کو سیکولرازم اور لبرل جمہوریت کے کھوکھلے نعرے کے پیچھے چھپانے میں مشغول ہیں۔ اس وقت دو بڑی کمیونسٹ پارٹیوں کے پاس لوک سبھا میں صرف پانچ نشستیں بچی ہیں۔

گزشتہ 73 سال میں بھارتی سرمایہ داری ایک سیکولر آئین ہونے کے باوجود سیکولر معاشرہ تعمیر کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ کیونکہ حکمران طبقہ اپنی تاریخی تاخیر زدگی کے باعث وہ وسیع اور ہم آہنگ ترقی دینے کی اہلیت و صلاحیت سے عاری تھا جو سرمایہ داری نے کبھی یورپ اور امریکہ میں دی تھی۔ آج جب مغربی ترقی یافتہ ممالک میں بھی معاشی بحران اپنا اظہار فسطائی رجحانات کے ابھار کی صورت میں کر رہا ہے تو ہندوستان اور پاکستان جیسے ممالک میں یہ نظام ایک صحت مند معاشرہ کیسے کر سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں آئین کی حیثیت حکمران طبقات کےلئے کاغذ کے چند ٹکڑوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔ جمہوریت حکمران طبقات کے گھروں کی لونڈی ہوتی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے استحصال اور لوٹ مار کو تقویت پہنچاتے اور اقتدار کو دوام و طوالت فراہم کرتے ہیں۔ جبکہ محنت کش طبقے کےلئے فریب کے سوا اس نام نہاد آئین اور جمہوریت میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔

آٹھ جنوری کو کمیونسٹ پارٹیوں اور کانگریس کے ساتھ منسلک ملک کی دس مرکزی ٹریڈ یونینز کی کال پر تقریباً پچیس کروڑ محنت کشوں کی ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے۔ گزشتہ چند سال سے تسلسل کے ساتھ ٹریڈ یونینز کی طرف سے ایک روزہ عام ہڑتال کی کال دی جا رہی ہے۔ ان ہڑتالوں میں کروڑوں محنت کشوں نے شرکت کرتے ہوئے اس نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اصلاح پسند ٹریڈ یونین اور سیاسی قیادتوں کی نظریاتی محدودیت اور نظام کے اندر رہتے ہوئے مسائل کے حل کی تلاش پھر عام ہڑتال کی اہمیت اور افادیت کو ہی زائل کر دیتی ہے۔

مودی حکومت کی فسطائی یلغار کے خلاف سراپا احتجاج نوجوانوں اور محنت کشوں کو انقلابی سوشلزم کے نظریات کی بنیاد پر اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو گا۔ اسی صورت میں اس نظام کی سیاست کے متبادل انقلابی قوت تخلیق کی جا سکتی ہے جو نہ صرف ہندوستان میں سرمایہ دارانہ جبر و استحصال کے خاتمے کا باعث بنے گی بلکہ پورے خطے کے لئے روشنی کا ایک مینارہ ثابت ہوگی۔