اداریہ جدوجہد

ایک ایسے عہد میں جہاں رجائیت پر مبنی سوچیں مقید ہوں اور جہاں انقلابات اور سماج بدلنے کی گفتگو عام فہم میں تضحیک کا نشانہ بنتی ہو وہاں مثبت اور عوام کی نجات کی بات کرنا، عمومی سوچ، سیاست اور لائحہ عمل میں تبدیلی کی جدوجہد کو تمام کٹھنائیوں کے باوجود جرات سے بیان کرنا اور طبقاتی جدوجہد کو لیکر آگے بڑھنا مضحکہ خیز بنا دیا جاتا ہے۔ روس میں 1917ء کابالشویک انقلاب دنیا بھر کے محنت کشوں کے لئے باعث تقویت بنا تھا لیکن 1991ء میں روس میں ”سوشلزم کا انہدام“ عمومی طور پر نہایت ہی منفی اثرات مرتب کرنے کا موجب بنا۔ سٹالنزم کی اس ٹوٹ پھوٹ کی پیشین گوئی بھی سب سے پہلے اسی بالشویک انقلاب کے قائدین لینن اور ٹراٹسکی نے ہی کی تھی۔ لیکن حکمران طبقات، ان کی ریاست، ان کی سیاست، ان کی دانش اور تحریک میں جنگوں کی طرح سب سے پہلا قتل ”سچائی“ کا ہوتاہے۔ ان اہل دانش، مورخین اور رائے عام استوار کرنے والی صحافت کی طرف سے سوشلزم، کمیونزم اور مارکسزم کے خلاف جو یلغار اور مہم چلائی گئی اس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔

پاکستان اور جنوب ایشیا کی تاریخ میں سے 1946ء(جہازیوں کی بغاوت) اور 1968-69ء کی محنت کشوں کی تحریک کونصاب، تاریخ اوریہاں کے انقلابی واقعات کی فہرست سے ایسے غائب کردیا گیا ہے جیسے یہ واقعات کبھی ہوئے ہی نہ ہوں۔ لیکن جنوب ایشیا کے محنت کشوں کی تاریخ انہی تحریکوں پر محیط ہے۔ 6 نومبر 1968ء سے لیکر 25 مارچ 1969ء  تک 139 ایسے دن تھے جن کو پاکستان کے محنت کشوں کی تاریخ قرار دیا جاسکتاہے۔ باقی 72 سال حکمران طبقے کی تاریخ ہے جو طبقاتی کشمکش اور محنت کشوں کی کئی تحریکوں کے خون کی لالی سے سرخ ہے۔ آج کے دور کے مفکرین اور دانشوروں کی ذہنیت اتنی گرچکی ہے اور انکی سوچ سے ہر رجائیت کا رحجان اس طرح مٹا دیا گیا ہے کہ ماضی تو ماضی مستقبل میں بھی ایسی قیاس آرائی کرناایک جرم بنا دیا گیا ہے۔

آج دنیا بھر میں ایک نیا ہیجان، عدم استحکام، سماجی تحریکیں اور انقلابی سرکشیاں ہمیں ہانگ کانگ سے ایکواڈور اور لبنان سے ایران تک ابھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ تجارتی جنگوں کا ایک نیا آغاز ہے، چین میں سرمایہ داری کی استواری نے چین کے نوجوانوں اور محنت کشوں میں ایک نیا اشتعال پیدا کیا ہے۔ لاطینی امریکہ میں پچھلی دو دہائیوں سے دائیں اور بائیں بازو کی تحریکوں کا اتار چڑھاؤ چل رہا ہے۔ یورپ، امریکہ اور ترقی یافتہ ممالک میں ہر طرف ہلچل ہے۔ غرضیکہ دنیا بھر میں محنت کشوں کی تحریکوں اور طبقاتی تصادم کے لئے طوفان اور سرکشیاں ابھر رہی ہیں۔ غربت، محرومی، مہنگائی، بیروزگاری اور ذلت کے نئے ریکارڈٹوٹ اور بن رہے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں نے مذہب سے لیکر قوم پرستی اور ریاست سے لیکر سیاست اور دانش کے بھرپور استعمال سے اس طبقاتی کشمکش کو مٹانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن حکمرانوں کے نظام ِسرمایہ داری میں اتنے تضادات اوراتنا انتشار ہے کہ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں میں باہمی لڑائیاں تیز ہورہی ہیں اور تضادات پھٹ رہے ہیں۔ ہر طرف بددلی اور قنوطیت کو مسلط کرکے محنت کش عوام اور نوجوانوں میں مایوسی کو ٹھونسا گیا ہے۔

حکمران طبقات کے جھوٹے تضادات اور فریبی تناؤ کے باوجود محرومی، بھوک، بیروزگاری اور مانگ کے خلاف اور اس ذلت آمیز زندگی سے نجات کے لیے نئی طبقاتی جدوجہد کے ریلے ابھر رہے ہیں۔ ان کا آغاز تاریخ میں ہمیشہ کی طرح طالب علموں اور نوجوانوں کی تحریکوں سے ہورہا ہے۔ حکمرانوں کے جعلی تضادات کو ابھار کر ان تحریکوں کو جتنا بھی زائل اور مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، عمومی توجہ ان تحریکوں سے مبذول ہونے کا نام تک نہیں لے رہی۔ آج کے عہد میں پہلے سے کہیں زیادہ واضح انداز میں ثابت ہورہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اب انسانی معاشرے میں کوئی بہتری، کوئی اصلاح اورکوئی ترقی لانے میں ناکام ہے۔ یہ نظام معاشرے کو چلانے اور کوئی استحکام وسکون دینے سے قاصر ہے۔ حکمران اپنے نظام کے اس تاریخی استرداد کو تسلیم نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کا ایک ایک غنچہ، ایک ایک پہلو اور ایک ایک لمحہ یہ چلا کرپکار رہا ہے کہ اب مسئلہ نظام بہتر کرنے سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔ اب سوال نظام بدلنے کا ہے۔ اس میں اصلاحات کرنے کاوقت گزر چکا ہے۔

اس نظام میں ٹیکنالوجی سے لیکر صنعت تک‘ سیاسی نظام سے لیکر اقتصادی نظام تک سبھی حکمران طبقات کی مختلف تراکیب ہیں جن سے محنت اور انسانیت کا استحصال جاری رکھا جاسکے۔ لیکن ملک کی جمہوریت، ریاست، دولت، ثقافت، اخلاقیات اور سماجی اقدار اسی طرح گل سڑچکی ہیں جس طرح یہاں کی معاشی، سیاسی و سماجی اقداراور یہ نظام گل سڑ چکا ہے۔ یہاں کے عوام طبقاتی کشمکش کی ایک درخشاں میراث، تحریک اور تاریخ کے امین ہیں۔ محنت کش اس نظام سے مکمل مایوس ہیں اور اس کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ یہاں کی سیاست، ثقافت، معیشت اور ریاست ان کے شعور میں بے نقاب ہوگئی ہے۔ وہ اسے مسترد کرتے ہیں۔ صرف مسئلہ اس جرأت ہمت اور رجائیت کے فقدان کا ہے جس کی اس انقلاب اور نظام کی تبدیلی کے لیے ضرورت ہے۔ محنت کش عوام نے صبر کی انتہا کی ہے۔ اب انکے تحمل اور برداشت کی انتہا ہو رہی ہے۔ اب اس معاشرے میں سوشلسٹ انقلاب کے پھٹنے میں شاید دیر بھی نہیں اور اندھیر بھی نہیں ہوگا۔