ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کی اس ترقی کو نہ صرف بہت مبالغہ آرائی سے پیش کیا جاتا ہے بلکہ یہ کسی صحتمند کردار سے عاری ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی غیر مستحکم اور ناہموار بھی ہے۔
تجزیہ
حماقت کا راج
قدامت پرست اور نیم فسطائی سوچ رکھنے والے سیاستدانوں اور پارٹیوں کا ابھار ہو رہا ہے۔
ہانگ کانگ: سر کش نوجوانوں کے’غیر قانونی‘ مظاہرے
چینی ریاست کی جانب سے یہ صورتحال مرکزی حکومت کی رِٹ پر حملہ تصورکی گئی اور تحریک کو کچلنے کے لئے مزید پرتشدد ذرائع استعمال کیے گئے۔
یہ داغ داغ اجالا…
1947ء کے بعد کوئی ہندوستان نہیں رہا۔ صرف پاکستان، مشرقی بنگال اور بھارت ہی باقی بچے۔
پاک امریکہ تعلقات: مطلب کی سفارتکاری کے 72 سال
حکمرانوں نے جوا مداد حاصل کی وہ ایک ایسا زہر ِ قاتل تھی جس سے پاکستانی معیشت مسلسل سامراجی جکڑ میں دھنستی چلی گئی۔
بارانِ رحمت‘ زحمت کیوں؟
بارش کا پہلا قطرہ زمین کو چھوتا ہے اور مسائل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
کشمیر کے سوداگر
المیہ یہ ہے کہ 72 سال بعد بھی یہاں پر ایک سامراجی طاقت کے جارح، مغرور، نسل پرست اور ناقابلِ اعتماد حکمران سے توقعات وابستہ کی جا رہی ہیں۔
بیرونی سرمایہ کاری: تریاق یا زہر؟
ان کارپوریشنوں نے محنت کشوں کا خون پسینہ نچوڑ کر دولت کے انبار لگائے ہیں لیکن ان کی پیاس نہیں بجھتی۔
کشمیر کب تک سلگتا رہے گا؟
جس آگ میں کشمیر کے محنت کشوں کا لہو جل رہا ہے، سامراجی منافع خوری اور برصغیر کے حکمرانوں کا تسلط اس طرح سے بہتر ہو رہی ہے۔
تعلیم کا کاروبار
ماضی میں جن مقاصد کے لئے تعلیم کو اتنی اہمیت حاصل تھی آج کے موجودہ عہد میں تعلیم کی افادیت اور وہ مقاصد اب نظر نہیں آتے۔
کرہ ارض پہ سرمائے کا کہرام!
مسئلہ یہ ہے کہ دولت کا یہ نظام مزید چلنے کی سکت نہیں رکھتا اور لہو بہا کر اس کو زبردستی عوام پر مسلط کیا جارہا ہے۔
عوام کی عدالت سے فرار!
ایک تماشا لگا ہواہے جس کے گرد ریٹنگ بنتی ہے اور ٹیلی ویژن چینلوں کے اداکاروں کو صحافی اور سیاستدان بنانے کے معیار طے کرتی ہے۔
معراج محمد خان کی جدوجہد!
ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انہوں نے ہمیشہ ہار ماننے سے انکار کیا۔
دربارِ ٹرمپ میں….
معاشی امداد کی استدعا بھی کی جائے گی، چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور سی پیک پر بھی پوچھ گچھ ہوگی۔
جب نظام ہی متروک ہو !
مروجہ دانش اپنی محدود سوچ اور تناظر کی وجہ سے کسی دور رس حل یا تناظر کو تخلیق کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔