اویس قرنی

نوجوان خصوصاً طلبہ کسی بھی سماجی صورتحال سے متاثر ہونیوالی اولین پرت ہوتے ہیں۔ سماج کی یہ پرت انتہائی لڑاکا اور جرات مند بھی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان کی نوجوان نسل پچھلی چار دہائیوں سے مسلسل اضطراب کا شکار رہی ہے۔ لیکن حالیہ نسل ان چار دہائیوں کے شاید سب سے پر انتشار عہد سے گزر رہی ہے۔ جہاں انہوں نے روایتی سیاسی اشرافیہ کو دھتکارا ہے وہیں نودولتیوں کی حالیہ سرکار کی طرف بھی اب ان کا رویہ استرداد اور ہتک کا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس معاشی نظام کا بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے اور اس کے رکھوالوں کے مکروہ چہروں سے نقاب بھی سرکتا جا رہا ہے۔ نظام کی معاشی، سیاسی، ثقافتی اور سماجی گراوٹ نوجوانوں کی نفرت کو بھڑکا رہی ہے اور اس نفرت کا اظہار ہمیں مظاہروں اور احتجاجوں کی شکل میں ملتا ہے۔

پاکستان کی حالیہ طلبہ تحریک کے نئے باب کا آغاز نومبر 2019ء میں ہونیوالے ملک گیر طلبہ یکجہتی مارچ سے ہوا۔ لیکن درحقیقت تین سال قبل لاہورکی برکت مارکیٹ کے ایک فلیٹ میں چار نوجوانوں کی ایک غیر رسمی نشست میں سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی تجویز زیر بحث آئی تھی۔ اور گزشتہ دو سالوں کی محنت اور مسلسل مباحثوں کا بعد پچھلے سال اکتوبر میں ملک گیر سطح پر ’سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ عمل یقینا تین دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط طلبہ تحریک میں ایک نیا موڑ ثابت ہوا۔ لیکن کئی سالوں سے بحث میں ہونے کے باوجود اس ایکشن کمیٹی کی حتمی شکل پھر طلبہ تحریک کی اٹھان کا ہی نتیجہ تھی‘ جب خصوصاًبلوچستان کے طلبا و طالبات تعلیمی اداروں میں ہونیوالی جنسی ہراسانی کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ معروضی اعتبار سے اس چھوٹی تحریک نے ’سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی‘ کو تحریک دی اور پھر اس کمیٹی کے زیر اہتمام ملک گیر سطح کے طلبہ یونین بحالی مارچوں نے طلبہ سیاست کو کئی دہائیوں بعد ایک دفعہ پھر عوامی موضوعِ بحث بنا دیا۔

اگر سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا بغور تجزیہ کیا جائے تو یقینی طور پر جہاں یہ انتھک موضوعی کاوشوں کی پیداوار تھی وہیں اس کے قیام کے بعد سے ابھی تک بہت سارے مسائل کا شکار بھی رہی ہے۔ جیسے سماج مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں ویسے ہی سماج میں تشکیل پانے والے رحجانات بھی ہمیشہ کے لئے یکساں نہیں رہتے۔ سیاسی تنظیموں کو شعوری طور پر مسلسل نکھارنے اور بہتر بنانے کی گنجائش بہر حال موجود رہتی ہے۔ آنے والے چند ہفتوں میں پھر طلبہ یونین بحالی کے مظاہروں، احتجاج اور مارچ کی بحثوں کا آغاز ہو سکتا ہے۔ لیکن اس ایک برس میں طلبہ تحریک کئی منازل عبور کر چکی ہے جس میں اس نے اہم اسباق سیکھے ہیں۔ تحریک زیادہ جرأت مند بھی ہوئی ہے اور کئی ابہام بھی دور ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے اہم بلوچستان کے طلبہ کی جدوجہد ہے۔ جنہوں نے سہولیات کی عدم موجودگی میں آن لائن ایجوکیشن کے خلاف ایک صبر آزما ایجی ٹیشن کی ہے۔ بلوچستان کے طلبہ کی ایسے عوامی مسائل کے گرد جڑت اور احتجاج ریاستی اداروں کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن کر ابھرے ہیں۔ اب ان نوجوانوں پر غداری کا ٹھپہ لگانا آسان نہیں ہے۔ یہ نوجوان تعلیم کے حصول کی لڑائی لڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی پاکستان بھر کے نوجوانوں کے ساتھ جڑت بھی بن رہی ہے۔ جس کا اظہار ہمیں ملک بھر کے نوجوانوں کے اس ردعمل میں ملا جو کوئٹہ کے احتجاجی مظاہرین پر ریاستی تشدد کے خلاف دیکھنے میں آیا۔ یہ یکجہتی اور طبقاتی جڑت آنے والے دنوں میں مزید تقویت پکڑے گی۔ اسی طرح ایف سی اہلکاروں کی طرف سے طالب علم حیات بلوچ کے بہیمانہ قتل کے خلاف ملک گیر سطح کے مظاہرے دیکھنے کو ملے ہیں۔

کورونا وبا نے اس نظام کی ناکامی کو دنیا بھر میں بے نقاب کیا ہے لیکن نام نہاد تیسری دنیا کے ممالک میں اس نے پہلے سے موجود بحران اور عدم تحفظ کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ یہاں کے تعلیمی اداروں کی اشرافیہ اور سیاسی جغادریوں نے طلبہ پر آن لائن ایجوکیشن کا بھونڈا طریقہ نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں آج تک پینے کا صاف پانی مہیا نہ ہوسکا وہاں اس قسم کے اقدامات محرومیوں کا مذاق اڑانے کے مترداف ہیں۔ لیکن بحران ابھی ٹلا نہیں ہے۔ ستمبر کے وسط میں تعلیمی اداروں کو کھولنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ لیکن جس طرح حکمرانوں کے پاس تعلیم ادارے بند کرنے کی اہلیت نہیں تھی اسی طرح یہ تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے اور کورونا کے خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں۔ وبا کے دوبارہ پھیلاؤ کی کیفیت میں حالیہ صورتحال بدتر ہو سکتی ہے۔ لیکن پھر اس نظام میں اب اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ تعلیمی اداروں ا ور دیگر شعبوں کو طویل عرصے کے لئے بند رکھاجائے۔ بالخصوص ایسی کیفیت میں جب تعلیم ایک بڑے کاروبار میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس سے اربوں کے منافعے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ نوجوانوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگائیں گے۔ اورنوجوانوں کے لئے بھی تو تمام راستے بند ہیں۔ تعلیم کا حصول انہیں اپنی زندگیاں داؤ پر لگانے پر مجبور کرے گا۔ نہ ہی نوجوانوں کو کوئی متبادل صحتمند سرگرمی میسر ہے۔ لیکن تعلیمی اداروں کے کھلنے کے بعد کئی دیگر مسائل سر اٹھائیں گے۔ سب سے اہم مسئلہ فیسوں کی ادائیگی ہے۔ پھر آن لائن امتحانات کے نتائج اور اس سے جڑے کئی دیگر عوامل ہیں۔ اس کے علاوہ کیمپس کے اندر اور باہر طلبہ کئی طرح کے دیگر مسائل کا بھی شکار ہیں۔ ان مسائل کے گرد نوجوان پھر متحرک ہوں گے۔ اور اب کی بار ایسے ادارے موجود ہوں گے جن کی وجہ سے تحریک کا کردار ایک جست بھی لے سکتا ہے۔ یہ لڑائی مختلف شہروں کے مختلف کیمپسوں میں لڑی جائے گی۔ اس لئے یہ ناگزیر ہے ’سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی‘ کے کرادر میں وسعت لائی جائے۔ اس کے پھیلاؤ، اثر و رسوخ اور حجم میں اضافہ کیا جائے۔

طلبہ تحریک کے اس تناظر کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے کہ ذیلی سطح پر اسی طرز کی کمیٹیوں کو منظم کیا جائے۔ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کو علاقائی، شہری حتیٰ کہ اداروں کی سطح تک پر منظم کرتے ہوئے ہی طلبہ تحریک کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان تاریخی اعتبار سے ایک ادھورے انقلاب کی اذیت میں مبتلا ہے۔ پانچ دہائیاں قبل یہاں کی انقلابی سرکشی نے بہت سی حاصلات جیتیں لیکن ضیائی آمریت کی شکل میں ردانقلاب نے معاشرے کو رجعت میں ڈبو دیا۔ پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں سے انتقام کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ نودولتیوں کی حالیہ سرکار اسی جبر کی ہی ایک کڑی ہے۔ یہاں ایک انقلابی تحریک اپنا اظہار جلد یا بدیر کرے گی اور ماضی کی نسبت کہیں زیادہ شدت کے ساتھ کرے گی۔ اس لئے لازم ہے کہ اس کی تیاری قبل از وقت کی جائے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں بننے والی مذکورہ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹیاں اسی تیاری کا ہی تسلسل ہیں۔

حالیہ عرصے میں جہاں حکمرانوں نے طلبہ پر مظالم ڈھائے ہیں وہیں محنت کشوں پر بھی تابڑ توڑ حملے کیے ہیں۔ یہ مزدور دشمن اقدامات پچھلی جمہوریتوں اور آمریتوں کا ہی تسلسل ہیں۔ لیکن حالیہ حکومت نے انتہا کر دی ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا بے لگام اطلاق کیا جا رہا ہے۔ سٹیل ملز سے لے کے پی آئی اے، ریلوے، ہسپتالوں اور سکولوں سمیت درجنوں پبلک اداروں کی نجکاری کے اعلامیے جاری کیے جا رہے ہیں۔ ان اداروں سے لاکھوں مزدوروں کو جبری طور پر نکالنے کی پالیسیاں مرتب کی جا رہی ہیں۔ تعلیم اور صحت جیسے کلیدی شعبہ جات کی نجکاری سے یہاں کے کروڑوں محنت کشوں کو ان بنیادی ترین ضروریات کے حصول سے محروم کیا جا رہا ہے۔ لیکن حالیہ سالوں میں محنت کشوں نے ثابت کیا ہے کہ مزاحمت اور جدوجہد کے ذریعے آج بھی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف لڑا جا سکتا ہے اور اپنے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔ گرینڈ ہیلتھ الائنس کے پلیٹ فارم سے نجکاری کے خلاف ڈاکٹروں، نرسوں ا ور پیرامیڈیکل سٹاف کی جفا کش تحریک اور وبا کے دنوں میں حفاظتی سامان کے حصول کے لئے مسلسل اور کامیاب ایجی ٹیشن اور ریل مزدوروں کی اپنے مطالبات منوانے میں حالیہ کامیابی اس کی واضح مثالیں ہے۔ جہاں گزشتہ برس سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا قیام طلبہ تحریک میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوا وہیں اس برس درجنوں اداروں اور شعبہ جات کی مزدور تنظیموں پر مشتمل ”آل پاکستان ایمپلائز، پنشنرز اینڈ لیبر تحریک“ مزدور تحریک کی سمت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ مزدوروں کا یہ اتحاد نجکاری سمیت تمام مزدور دشمن اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

ایسے میں جہاں شہری اور علاقائی سطحوں کی سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹیوں کا قیام وقت کی ایک اہم ضرورت ہے وہیں ان طلبہ و نوجوانوں کا محنت کشوں کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل یقینی طور پر ملکی صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ سکتا ہے۔ اس لئے اس سال ہونیوالی طلبہ تحریک کی سرگرمیوں کو محنت کشوں کے اس اتحاد سے جوڑنا نہایت اہم اقدام ہوگا۔ طلبہ کی ڈاکٹروں، نرسوں، اساتذہ، وکلا اور کلرکوں کیساتھ ساتھ تمام اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ جڑت عوام دشمن سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے خلاف نفرت کو ایک سرکشی میں بدلنے کا موجب بن سکتی ہے۔

ہمارا نعرہ ’طلبہ مزدور یکجہتی‘ پر مبنی ہونا چاہیے۔ جیسا کہ گزشتہ برس کے تاریخ ساز طلبہ مارچ کے دوران کامریڈ لال خان نے لاہور میں کہا تھا کہ ”یقینی طور پر تحریک کا آغاز نوجوانوں اور طلبہ سے ہوتا ہے لیکن تحریکوں کی فتح اور کامیابی مزدور طبقے کی شمولیت سے ہوتی ہے۔ “ اس تناظر کو تاریخ نے بار بار درست ثابت کیا ہے۔ پاکستان میں 1968-69ء کی تحریک کا آغاز حمید خان نامی نوجوان کے ریاستی قتل کے بعد راولپنڈی کے طلبہ کے مظاہروں سے ہوا تھا اور اس میں مزدوروں کی شمولیت نے وقت کے سب سے جابر آمر کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ آج بھی ممکن ہے۔ تاریخ خود کو دہراتی ہے لیکن ایسا وہ پہلے سے کہیں زیادہ بلند پیمانے پر کرتی ہے۔ ہم تاریخ کے اس دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں نسلوں کے مقدر کا فیصلہ ہونا ہے۔ یہ مواقع بار بار میسر نہیں آتے۔ لمحوں کی خطا کا خمیازہ صدیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آج جب سرمایہ داری پوری دنیا میں متروک ہو چکی ہو اور پورا کرہ ارض انقلابی تحریکوں کی لپیٹ میں ہو تو ایک جرأت مندانہ انقلابی قیادت کی حامل تحریک پاکستان جیسی پسماندہ سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینک سکتی ہے۔