ظفر اللہ

غالباً انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو گا کہ پورے سیارے پر موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ کرۂ ارض پر انسانی زندگی خوفزدہ ہو گئی ہے۔ کورونا کی دہشت نے انسانوں کو گھروں کے اندر تک محدود کر دیا ہے۔البتہ سائنس اور تکنیک کے موجودہ بلند معیار کے عہد میں ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا۔ لیکن منافع کی ہوس نے اس نظام کو نسل انسانیت کے لئے ایک عذاب بنا دیا ہے۔ سات ہزار سال کی انسانی تہذیب اور کبھی نہ دیکھی گئی مادی ترقی کے عروج میں آج بھی نسل انسان کی بقا کا سوال موجود ہے۔ انسان جہاں آج کہکشاؤں کی کھوج لگا رہا ہے اور پاتال کو کھنگال رہا ہے وہی انسانیت ابھی بھی سسک رہی ہے۔ انسانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت ابھی بھی ایسی بیماریوں سے لڑ رہی ہے جن کو قصہ پارینہ ہو جانا چاہیے تھا۔ یہ نظام اگر انسانی فلاح اور سہولیات پر وسائل خرچ کرتا تو آج بھی اس خطرناک وبا سے نسل انسانی کو بچایا جا سکتا ہے۔ تادم تحریر پوری دنیا میں چار لاکھ سے زائد انسان اس وائرس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ ماضی میں آنے والی وباؤں سے ہونے والی ہلاکتوں کے مقابلے میں اگرچہ یہ تعداد بہت کم ہے مگر وسائل اور ٹیکنالوجی کی موجودہ سطح پر یہ بہت بڑا عددہے۔ ہلاکتیں کہیں کم ہو سکتی تھیں اگر صرف پچھلے بیس برس میں صحت اور تحقیق کے اوپر وسائل خرچ کیے جاتے۔ لیکن سرمایہ داری میں سرمایہ سب سے بڑا خدا ہے۔ سرمائے اور شرح منافع میں بڑھوتری اس نظام کی زندگی ہے اس کے لئے چاہے کروڑوں انسانوں کو موت کے منہ میں ہی کیوں نہ دھکیل دیا جائے۔ یہ سرمایہ داری کی بقا کا بنیادی اصول ہے اور یہاں ساری آفتیں صرف غریبوں کیلئے ہیں۔ اگرچہ کورونا کا علاج نہیں ہے لیکن اس کا شکار پھر بھی زیادہ تر کم قوت مدافعت، غذائی قلت اور کمزور معیشت والے افرادہی ہوتے ہیں جو کہ غربت کے مسائل ہیں۔

اس مرض سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر ہی اتنی مشکل، پیچیدہ اور مہنگی ہیں کہ انسانوں کی وسیع اکثریت کے لئے یہ عیاشی کے مترادف ہیں۔ جو محنت کش اپنی روزانہ کی کمائی سے گھروں میں چولہا جلاتے ہیں اُن کے لئے لاک ڈاؤن زندہ درگور ہونے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور دنیا بھر میں وسیع اکثریت نے لاک ڈاؤن کے تصور کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ لوگوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے۔ پاکستان میں 55 فیصد سے زائد آبادی مختلف قسم کے عارضی روزگار اور کاروبار سے وابستہ ہے۔ جس میں سے بہت بڑی اکثریت کم آمدنی والوں کی ہے۔ ان کے لئے کورونا سے مرنا بیروزگاری سے مرنے کی نسبت زیادہ قابلِ قبول ہے۔ اسی چیز کو بھانپتے ہوئے عمران خان کی حکومت نے فوری طور پر لاک ڈاؤن ختم کر دیاتھا۔ وہ شاید عوامی غم و غصے کو سمجھ گئے تھے کہ لمبے عرصے کے لاک ڈاؤن سے پھیلی بیروزگاری اور تنگدستی سے عاجز آ کر لوگ بغاوت کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ریاست ان حالات میں بے آسرا لوگوں کا مداوا کرنے کے قابل نہیں۔ ان کیفیات نے حکمران طبقے کو بڑے پیمانے پر عام محنت کشوں کے سامنے ننگا کیا ہے۔ لوگوں کے شعور میں تیز ترین تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ لیکن یہ آفتیں اور وبائیں ہمیشہ حکمرانوں کے لئے مواقع بھی کھولتی ہیں جہاں وہ اپنی ناکامیوں کے جواز تراش سکیں۔ انہی صفحات پر ہم نے لکھا تھا کہ پاکستان کی معیشت سکڑ رہی ہے، نشوونما نہیں ہو رہی اور اس کی نامیاتی وجوہات تھیں۔ آسمان کو چھوتے قرضوں کے بلبوتے پر ترقیاتی منصوبے آپ کو ایک گہرے بحران میں ڈال دیتے ہیں اور قرضے آخر کار سود سمیت واپس کرنے ہوتے ہیں۔ یہی بحران کا موجب بنتے ہیں اور یہ ہونا ناگزیر ہے۔ 2020ء کی شرح ترقی منفی 0.38 فیصد رہی ہے۔ یہ ستر سال میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔ اگرچہ اس میں کورونا وائرس کی وجہ سے کی جانے والی بندش کا کردار ہے لیکن وہ بہت معمولی ہے۔ کورونا کو اگر ایک طرف رکھ دیا جائے تو بھی شرح ترقی کے آزاد ذرائع کے تخمینے پہلے ہی 1 سے 1.2 فیصد تک کے تھے۔ یہ ایک بہت بڑا معاشی سکڑاؤ ہے اور یہ سب کچھ جان بوجھ کر اصلاحات کے نام پر کیا جا رہا ہے کہ کچھ سالوں میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن یہ سرمایہ داری نظام کا بالعموم اور پاکستانی سرمایہ داری کا بالخصوص بحران ہے۔ جس کے نتائج بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ قرضوں اور درآمدات سے اگر معاشی نمو ہوتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے اور اگر خسارے کو کم کرنا ہو تو معاشی ترقی اور منصوبوں کی رفتار کو اتنا سست کرنا پڑتا ہے کہ روزگار ختم ہو جاتا ہے۔ اوپر سے سامراجی قرضے اور دفاع کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ پاکستانی ریاست اگلی کئی نسلوں تک ان پرقابو نہیں پاسکتی۔ اس نظام میں ان مسائل سے چھٹکارہ ایک دیوانے کا خواب ہے۔ 2020-21ء کا اعلان کردہ بجٹ اس بات کی گواہی ہے کہ اس ملک کے بد نصیب عوام کی زندگیاں سہل نہیں ہو سکتیں۔ 7100 ارب روپے کے بجٹ میں 4200 ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع کے لئے مختص کیے گئے ہیں۔ ملک کی اپنی ٹیکس کی آمدنی 3900 ارب روپے ہے۔ باقی قرض اور نجکاری کے ذریعے اس خسارے کو پورا کیا جائے گا۔ ان حالات میں کیسے یہ حکمران طبقہ معاشی مسائل پر قابو پا سکتا ہے۔ بد انتظامی، اداروں کا زوال، افسر شاہانہ رکاوٹیں، جدید پیداواری ذرائع اور ہنر مند لیبر فورس کا فقدان اضافی مسائل ہیں جن کو کئی دہائیوں تک حل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک انقلابی اکھاڑ پچھاڑ سے ہر ادارہ اور سماجی تنظیم نئے سرے سے استوار ہو کر اس معاشی و سماجی بحران کو حل کر سکتی ہے۔ صرف یہ حکومت ناکام نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری کی ہر حاکمیت ناکام ہے۔ موجودہ تحریک ِ انصاف کی حکومت بھی اس عہد کے زوال اور گراوٹ کا ایک پرتو ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ میں لکھا ہے کہ کس طرح ہر عہد کی اپنے اعتبار سے حاکمیتیں ہوتی ہیں اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو عہد ان کو تراش لیتا ہے۔ یہ انقلابی اور رجعتی، دونوں طرح کی حاکمیتوں کے لئے درست قانون ہے۔ سرمایہ داری کے زوال اور گراوٹ کے عہد میں عمران خان، ڈونلڈ ٹرمپ، بولسونارو اور مودی وغیرہ جیسے احمق، ڈھیٹ اور مسخرے حکمران ہی نمودار ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے لوگوں کو عمران خان کی ذہنی حالت اور کیفیت پہ شک ہے۔ لیکن مسئلہ شخص کی انفرادی کیفیت اور حیثیت کا نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ شخصیات اور افراد تاریخ میں بہت فیصلہ کن ہوتے ہیں لیکن بہر حال عہد اور معروض آخری تجزئے میں بہت بھاری عوامل ہیں۔ بڑے بڑے انقلابی بعض اوقات حالات کے پیش نظر بہت بے بس ہوتے ہیں۔ بہت ہی بلند سطح اور معیار کی انقلابی تنظیمیں بعض اوقات نا مراد اور خصی معروضی کیفیات کے ہاتھوں سمندری لہروں کی طرح ساحل کی چٹانوں سے ٹکرا ٹکرا کر اپنی توانائی اور قوت لُٹا رہی ہوتی ہیں۔ یہ معروض کا جبر ہے کہ پاکستانی عوام کا حکمران عمران خان ٹولہ ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ایسے حکمران عوام کی کچھ پرتوں میں اپنا خمیر بھی ابھار کر سطح پر لے آتے ہیں۔ کبھی کبھی سماج کے ان قوانین میں تقدیر پرستی کا گمان بھی ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب کسی طے شدہ منصوبے کی بجائے مجموعی طور پر عہد کے کردار کی غمازی کرتا ہے۔ افراد کی پسند اور ناپسند یہاں بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہ واقعتا ایک مسخرے کی حکومت ہے جس کو ریاست کی پشت پناہی سے قائم رکھا گیا ہے۔ ایک ایسا مسخرہ جسے یقین کی حد تک گمان ہے کہ وہ خود مختار اور بااختیار ہے۔ یہ ایک نفسیاتی بیماری ہو سکتی ہے کہ انسان بے بسی کے جواز بھی ڈھونڈ لیتا ہے اور تصور کر لیتا ہے کہ اس کے آقاؤں کی مرضی اس کی منشا سے ہم آہنگ ہے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ آج عملی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں براہِ راست سامراجی اداروں اور ڈیپ سٹیٹ کی حکمرانی ہے۔ یہ کیسی خود مختاری ہے جہاں بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف کی شرائط موجود ہوں کہ کس شعبے میں کتنا حصہ مختص کرنا ہے یا نہیں کرنا۔ عوام کی زندگیوں اور مقدر کے فیصلے عوام اور عوامی نمائندوں کی بجائے ساہو کار کر رہے ہیں۔ یہ غلامی کی بدترین شکل ہے۔ حفیظ شیخ کون ہے جو ہر حکومت اور سیاسی پارٹی کا وزیرِ خزانہ ہوتا ہے۔ یہ سامراج کی مکمل گرفت اور جکڑ بندی ہے۔ جس سے یہ حکمران طبقہ نہیں نکل سکتا اور عوام برباد ہو رہے ہیں۔ آج ہر سیاسی پارٹی اور رجحان نے نیو لبرلزم کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی سے لے کر ن لیگ تک اور جماعت ِ اسلامی سے لے کر تحریک ِ انصاف تک ساری پارٹیاں سرمائے کے آگے سر نگوں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لئے کوشاں ہیں اور اپنے آپ کو قابلِ قبول بنانے کے لئے ایسے تیار ہیں جیسے کوئی طوائف اپنے گاہکوں کے انتظار میں تیار ہو کر بیٹھتی ہے۔ ووٹ کو عزت دو والی تاریخی طور پر خصی قیادت اپنے نازک جسم و جاں پر جیل کی سختیاں نہ برداشت کر کے سر نگوں ہو چکی ہے۔ انقلاب کی سیاست تو دور یہ اس کی لفاظی کی تپش اور حدت بھی برداشت نہیں کر سکی۔ انقلابی سیاست صرف دیوانوں کا کھیل ہوتا ہے جو عظیم مقصد اور نصب العین کی جدوجہد کی بھٹی میں تپ کر کندن بنے ہوتے ہیں۔ اسی طرح زرداری کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں اس کی بڑھکیں صرف گیدڑ بھبکیاں ہی تھیں۔ وہ کسی گھٹیا فلم کے ایک بد کردار ولن جیسا کردار ہے۔ لیکن پارٹی پر مسلط خوش آمدیوں نے اسے مردِ حُر اور پتا نہیں کیا کیا بنایا ہوا ہے۔ بلاول ابھی تک بے اختیار روبوٹ ہی معلوم ہوتا ہے۔ لوگوں کے دردوں کا مداوا کرنے کے لئے عوامی سیاست اور انقلابی پروگرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کو پیپلز پارٹی کی قیادت ایک عرصے سے ترک کر چکی ہے۔ اب محض لفاظی ہے۔ وہ بھی کبھی کبھار اور بہت محتاط ہو کے ہی کی جاتی ہے۔ عملی پالیسی نیو لبرل سرمایہ داری ہی ہے۔

دوسری طرف محنت کش عوام برباد ہیں اور کوئی پارٹی ان کی امنگوں اور آرزوؤں کی آئینہ دار نہیں ہے۔ اس لئے لوگ مایوس ہیں۔ یہ درست ہے کہ نام نہاد تبدیلی سرکار سے ایک نئی پارٹی کی حیثیت سے لوگوں کی بڑی تعداد نے بہت امیدیں لگائی تھیں۔ اور ہم نے کہا تھا کہ یہ امیدیں ٹوٹیں گی کیونکہ سرمائے کے اس نظام میں پارٹیاں اور شخصیات بدلنے سے حالات نہیں بدلتے۔ اور جلد ہی وہ نتائج نکلنے لگے۔ تبدیلی کے منتظر برباد لوگ طویل عرصے کی معاشی اصلاحات اور نعروں کا انتظار نہیں کر سکتے۔ ان کے سلگتے ہوئے مسائل فوری حل کے متقاضی ہوتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی تلخ حقیقت ہے کہ عوام کے سماجی تبدیلی کے لئے متحرک ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ اصلاح پسند مزدور قیادتیں اور پیپلز پارٹی رہے ہیں۔ لیکن یہ دونوں رکاوٹیں بہت حد تک اب ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ مزدور تحریک اگرچہ کمزور ہے لیکن اس نے ان اصلاح پسند قیادتوں کے بارے ضروری نتائج اخذ کر لیے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کش طبقہ اِس سیاست سے خوفناک حد تک بیزار اور لاتعلق ہے۔ جس کی بدولت اسٹیبلشمنٹ کو اپنی کٹھ پتلیاں بغیر کسی مزاحمت کے مسلط کرنے کے کچھ حالات میسر آئے ہیں۔ لیکن محنت کش طبقہ بھی طویل عرصے کے لئے ایسی سیاست سے لاتعلق نہیں رہ سکتا جو اس کی زندگی کے بارے میں بہت بھیانک فیصلے مسلط کر رہی ہو۔ ایک طویل عرصہ گزر گیا ہے۔ اب محنت کشوں کو جدوجہد کے میدان میں داخل ہونا پڑے گا۔ حکمرا ن طبقہ جتنی مرضی چاہے ان کے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرے‘ زندگی بہر حال اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ان کے سامنے کھڑی ہوتی ہے۔ محنت کشوں کو آخر کار جدوجہد اور انقلاب کے مشکل مرحلے کی طرف آنا پڑتا ہے۔ کورونا جیسے کئی حالات و واقعات دہائیوں سے سلگتے ہوئے مسائل کے بارود کے لئے چنگاری ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہیگل کے بقول کوئی بھی حادثہ در اصل طویل عرصے سے چلی آرہی ضرورت کا اظہار ہوتا ہے۔ انقلابی تحریکیں کبھی بھی صرف غربت اور تنگ دستی کے بطن سے جنم نہیں لیتیں بلکہ انسانوں کے اجتماعی شعور میں ایک معیاری تبدیلی کی پیداوار ہوتی ہیں۔ شعور میں یہ معیاری تبدیلی مختلف پیچیدہ واقعات اور حالات کے ایک مخصوص ترکیب میں رونما ہونے سے برپا ہوتی ہے۔ آنے والے دنوں میں انقلابیوں کے لئے ایسے کئی مواقع میسر آ سکتے ہیں جہاں ایسی کسی تبدیلی کے امکانات کو پہلے سے بھانپ کر سرگرم عمل ہوا جائے تو موضوعی عنصر کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ در اصل یہی انقلاب کا وہ سالماتی عمل ہے جس کی طرف ٹراٹسکی نے اشارہ کیا تھا۔ کیا خبر کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج!