حسن جان

حالیہ دنوں میں افغانستان کے دارالحکومت کابل اور دیگر شہروں میں دہشت گرد گروہوں کی جانب سے ہونے والی کاروائیاں صورت حال کی نزاکت اور پیچیدگی کی غمازی کرتی ہیں۔ طالبان امریکہ ”امن معاہدہ“ اس وقت ٹوٹتا ہوا نظر آرہا تھا جب صدر اشرف غنی نے ان واقعات کے ردعمل میں ملکی افواج کو طالبان کے خلاف ”جارحانہ“ کیفیت میں تیار رہنے کا حکم دیا۔ لیکن اشرف غنی کی حکومت اتنی کمزور اور بے بس ہے کہ ابتدائی جارحانہ رویے کی ڈرامہ بازی کے چند دن بعد ہی اس نے ایک ہزار سے زائد طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ دوسری طرف امریکی سامراج طالبان کے ہاتھوں اپنی شکست کے پروانے، جسے ”امن معاہدہ“ کہا گیا، پر دستخط کرنے اور پچھلی دو دہائیوں میں افغان جنگ پر ایک ہزار اَرب ڈالر خرچ کر کے ڈھائی ہزار امریکی فوجیوں کو مروانے کے بعد افغانستان سے دم دبا کر بھاگنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس صورت حال میں جب افغان حکومت کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے، وہ اپنی بقا کی تگ و دو میں مصروف ہے۔

قطر کے دارالحکومت دوہا میں 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں دہشت گرد حملے پہلے کی طرح جاری ہیں۔ ان میں سے چند حملوں کو داعش سے منسوب کیا گیا۔ طالبان نے چند حملوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور کابل میں نوزائیدہ بچوں کے ہسپتال پر ہونے والے حملے کی مذمت بھی کی۔ یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ طالبان امریکہ معاہدے کی ایک شق یہ بھی ہے کہ آج کے بعد طالبان‘ اتحادی اور امریکی افواج پر حملے نہیں کریں گے جبکہ معاہدے میں افغان افواج پر حملے نہ کرنے کی کوئی شق موجود نہیں ہے۔ نتیجتاً جب صدر اشرف غنی نے کابل میں نوزائیدہ بچوں کے ہسپتال پر دہشت گرد حملے کا الزام طالبان پر لگایا تو طالبان نے اس الزام تراشی کے ردعمل میں افغان فوج کے ایک قافلے پر خودکش حملہ کیا جس میں پانچ شہری ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوئے۔ یہ افغان حکومت کی بے بسی اور کمزوری کا حال ہے۔

طالبان امریکہ امن معاہدہ: امریکہ کا اعتراف شکست

طالبان کو دراصل امریکی در پردہ حمایت اور کمک سے ہی پاکستان نے تخلیق کیا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بحیرہ کیسپین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے تیل اور گیس کے ذخائر پر سب رال ٹپکا رہے تھے۔ امریکہ ان وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے لئے ایک گیس پائپ لائن تعمیر کرنے کی ضرورت تھی جو ترکمانستان سے شروع ہوکر افغانستان سے گزرتی ہوئی پاکستان اور پھر بحیرہ عرب تک پہنچتی۔ افغانستان کے اُس وقت کے عبوری صدر برہان الدین ربانی نے پہلے ہی پائپ لائن تعمیر کرنے کا ٹھیکہ ارجنٹائن کی ایک کمپنی بریڈاس کو دے دیا تھا حالانکہ امریکی یونوکال کمپنی بھی ٹھیکہ لینے کی کوشش کررہی تھی۔ جب طالبان نے عبوری صدر برہان الدین ربانی کی حکومت کا خاتمہ کرکے ستمبر 1996ء کو کابل پر قبضہ کرلیا تو جنوبی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے لئے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ روبن رافیل نے اسے ایک ”مثبت قدم“ کہا۔ اس نے متعدد طالبان رہنماؤں بشمول ملا عمر سے ملاقاتیں بھی کیں اور امریکی یونوکال کمپنی کی سربراہی میں گیس پائپ لائن منصوبے کی حمایت بھی کی۔ لیکن تنزانیہ اور کینیا میں امریکی سفارت خانوں پر بم حملوں کے بعد یونوکال نے اس منصوبے کے لئے طالبان سے مذاکرات ترک کردیئے۔

گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے بعد امریکی سامراج اور اس کے دم چھلے برطانیہ نے افغانستان پر حملہ کیا تاکہ طالبان کی حکومت کا خاتمہ کرے۔ ابتدائی طور پر تو وہ طالبان کی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس کی جگہ ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی کا بخار جلد ہی اترنے لگا اور طالبان کی کاروائیوں نے سر اٹھانا شروع کیا۔ پاکستانی ڈیپ سٹیٹ کی پشت پناہی سے طالبان تیزی سے دوبارہ منظم ہونا شروع ہوئے اور نیٹو افواج کے قافلوں اور حکومتی و عسکری تنصیبات پر حملوں کے ذریعے امریکہ کی ناک میں دم کردیا۔ طالبان نے ملک کے ایک بڑے حصے پر قبضہ جما لیا تھا۔ دنیا کی سب سے طاقتور عسکری طاقت اپنی تمام تر تکنیکی جدت، جدید اسلحے اور فضائی برتری کے باوجود طالبان کے سامنے بے بس ثابت ہوگئی۔

علاقائی ریاستوں بالخصوص پاکستان کی جانب سے طالبان کو ملنے والی خفیہ کمک نے امریکی عسکری برتری کو بے معنی کردیا۔ پاکستان کے پالیسی سازوں نے افغانستان کو ہمیشہ اپنی تذویراتی گہرائی کے طور پر دیکھا ہے۔ ان کے سٹریٹجک اثاثے کے طور پر طالبان نے افغانستان کو پاکستان کے لئے تذویراتی گہرائی میں تبدیل کرنا تھا۔ چنانچہ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بھی پاکستانی ریاست کے طاقتور حصوں نے ان کی در پردہ حمایت جاری رکھی۔ امریکہ کے مقابلے میں طالبان کو ایک اضافی فوقیت یہ بھی حاصل تھی کہ ڈیورنڈ لائن کے اس پار ان کے محفوظ ٹھکانے بھی موجود تھے۔ تمام تر جانی نقصانات کے باوجود وہاں کے مدرسوں سے افرادی قوت مسلسل آتی رہی جبکہ منشیات کی لین دین سے حاصل ہونے والی رقم ان گروہوں کے اخراجات کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ طالبان افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں اور علاقے کے جغرافیہ سے زیادہ واقف تھے۔ ثقافتی یگانگت کی وجہ سے وہ مقامی آبادی میں گھل مل جاتے جس کی وجہ سے نیٹو افواج کے لئے طالبان جنگجوؤں اور مقامی آبادی میں فرق کرنا مشکل ہوتا تھا۔

طالبان کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں کی وجہ سے امریکی سامراج کو مجبوراً مزید فوج تعینات کرنا پڑی لیکن زیادہ فوج کا مطلب طالبان کے لئے نئے آسان اہداف تھے۔ 2010ء میں افغانستان میں تعینات امریکی افواج کی تعداد ایک لاکھ سے بھی اوپر چلی گئی۔ اتنی زیادہ تعداد کے باوجود امریکہ کے درد سر میں کمی نہیں آئی۔ اس دوران طالبان نے مزید علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ نتیجتاً امریکہ نے 2011ء میں اپنی افواج کو نکالنا شروع کیا جو 2014ء میں مکمل ہوا۔ یہ دراصل ایک اعتراف شکست تھا۔ صرف 8400 فوجی افغانستان میں رہ گئے جو صرف افغانستان کی فوج کی تربیت اور کمک کے لئے تھے۔
2016ء میں ٹرمپ انتظامیہ کے آنے کے بعد ٹرمپ نے چند ہزار مزید فوجی تعینات کیے لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑا۔ دنیا کی سب سے رجعتی کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں امریکی سامراج کی شکست طے ہوچکی تھی۔ امریکی سامراج کی داخلی شکست و ریخت، بحران اور طالبان کے سامنے مسلسل پسپائیوں کے بعد انہیں مجبوراً ملک سے بھاگنا پڑا۔ طالبان کے ساتھ موجودہ معاہدہ دراصل ”امن“ سے زیادہ امریکی افواج کو انخلا کا محفوظ راستہ دینے کے لئے ہے۔ نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر اور کابل میں امریکی کمانڈروں کے سابقہ مشیر سٹیفن بائیڈل نے ایسو سی ایٹڈ پریس سے کہا، ”بات کا خلاصہ یہ ہے: کیا امریکہ طالبان معاہدہ کوئی سنجیدہ مذاکرات تھے یا محض ایک ذلت آمیز انخلا پر پردہ ڈالنا تھا؟ میرے خیال میں مؤخر الذکر بات درست ہے۔“ اس طرح 2001ء میں سابق امریکی صدر جارج بش کی شروع کی ہوئی ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ اپنے ذلت آمیز انجام کو پہنچی۔

افغان حکومت طالبان کے رحم و کرم پر…

امریکی سامراج افغانستان میں جمہوریت اور جمہوری حکومت کے بارے میں کتنا سنجیدہ ہے اس بات کا پتہ اس حقیقت سے چلتا ہے کہ طالبان کے ساتھ ”امن مذاکرات“ کے پورے عمل کے دوران افغان حکومت کو باہر رکھا گیا۔ امریکہ اور طالبان دونوں نے اسے گھاس ہی نہیں ڈالا۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے کسی بھی معاہدے پر کابل حکومت نے کسی چوں چراں کے بغیر عمل کرنا تھا۔ کابل حکومت اور کر بھی کیا سکتی تھی؟ وہ خود عالمی سامراجی اداروں کی خیرات پر زندہ ہے۔ اس کی فوج سالانہ 4 اَرب ڈالر کی امریکی امداد پر چلتی ہے۔ اشرف غنی نے پہلے تو مذاکرات اور پھر معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی بہت کوشش کی تاکہ امریکی انخلا کو روک کر اپنی حکومت کو گرنے سے بچا سکے۔ اس نے کابل میں بچوں کے ہسپتال پر حملے کا الزام طالبان پر لگایا لیکن طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ امریکہ نے اس حملے کا الزام داعش پر لگایا۔ اشرف غنی نے طالبان کے خلاف ازسرنو فوجی کاروائیاں کرنے کا اعلان کیا تاکہ انہیں معاہدے کو ترک کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔

کابل حکومت کی تمام تر خواہشات کے برعکس نہ تو امریکہ اپنی تاریخی زوال پذیری کی وجہ سے افغانستان میں اپنے ذلت آمیز قیام کو مزید طول دینا چاہتا ہے‘ نہ ہی طالبان سالہا سال کی لڑائیوں کے بعد ملنے والی کامیابی کے ثمرات کو ٹھکرانے کے موڈ میں ہیں۔ اشرف غنی کی اشتعال انگیزی کے باوجود طالبان اور امریکہ معاہدے پر قائم ہیں۔

کابل کی کٹھ پتلی ”جمہوری“ حکومت کے خصی پن کا یہ حال ہے کہ وہ سامراجی ممالک کی خیرات کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ 2014ء کے صدارتی انتخابات میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں نے جیت کا دعویٰ کیا تھا۔ اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کابل کا دورہ کرکے دونوں کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے مل کر اتحادی حکومت تشکیل نہیں دی تو افغانستان کی تمام تر بیرونی امداد روک دی جائے گی۔ دونوں اس دھمکی سے سہم گئے اور اتحادی حکومت تشکیل دی۔ اس دفعہ کے انتخابات میں بھی دونوں نے جیت کا اعلان کیااور دونوں نے صدارت کا حلف بھی لیا۔ لیکن اس بار امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے دونوں امیدواروں سے ناکام مذاکرات کے بعد اُن کو نہ صرف شدید تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ افغانستان کی سالانہ عسکری امداد میں ایک اَرب ڈالر کی کٹوتی کا بھی اعلان کیا۔ اس بار بھی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ اپنے آقا کے سامنے جھک گئے اور اقتدار میں حصہ داری پر رضامند ہوگئے۔ اسی طرح اشرف غنی طالبان قیدیوں کی رہائی کے لئے راضی ہوگیا۔

امریکی انخلا کے بعد کا افغانستان

2001ء میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو انہوں نے طالبان کا دھڑن تختہ کرکے ملک میں اپنا مضبوط ٹھکانا بنانا تھا‘ جہاں سے ہمسایہ حریف ممالک کی ناک میں دم کرنا تھا جس کے بعد معاملات طے شدہ منصوبوں کے ساتھ چلتے۔ لیکن دو دہائیوں، ایک ہزار اَرب ڈالر کے عسکری اخراجات اور ملک کی تعمیر نو پر سینکڑوں ارب ڈالر (جن کا بڑا حصہ کرپشن کی نذر ہوا) لگانے کے بعد نہ تو دہشت گردی ختم ہوسکی اور نہ ملک کی ”تعمیر نو“ ہوسکی۔ آج طالبان کے زیر تسلط علاقے 2001ء میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد کے کسی بھی دورانیے کی نسبت زیادہ ہیں۔ دوسری طرف امریکی سامراج کا تاریخی زوال اتنا گہرا اور ان کی سراسیمگی اتنی زیادہ ہے کہ وہ مقررہ وقت سے پہلے ہی اپنی افواج نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نومبر کے امریکی صدارتی الیکشن سے پہلے ہی انخلا کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ اپنی تمام تر عسکری، تکنیکی اور معاشی برتری کے باوجود وہ ان طالبان کے سامنے ڈھیر ہوگیا ہے جن کے پاس صرف بنیادی ہتھیار ہی ہیں۔ یہ امر منفی انداز میں اس بات کو صحیح ثابت کرتا ہے کہ امریکی سامراج ناقابل شکست نہیں ہے۔

مندرجہ بالا حقائق کی بنیاد پر یہ تصور کرنا مشکل نہیں ہے کہ مستقبل میں کابل حکومت کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ جب طالبان اپنے سے کئی گنا طاقتور عسکری اور معاشی طاقت امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتے ہیں تو کمزور اور لاغر افغان حکومت کے ساتھ وہ کیا کرسکتے ہیں اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو ہٹائے بغیر وہ اپنی جیت کو نامکمل تصور کریں گے۔ اس بات کا امکان ہے کہ طالبان اُن کی جگہ اپنے ہی بندے تعینات کریں گے۔ بہر صورت یہ حکومت بھی عالمی مالیاتی اداروں پر اپنے انحصار کی وجہ سے اپنے پیشروؤں سے زیادہ مختلف نہیں ہوگی۔ طالبان کے پاس موجودہ اشرف غنی کی حکومت سے مختلف کوئی سماجی و معاشی پروگرام نہیں ہے۔

طالبان کی رجعتی بنیادیں، منشیات اور جرائم کے کالے دھن پر انحصار اور ان کے مختلف دھڑوں کا علاقائی ریاستوں کی پراکسیوں کا کردار وہ حقائق ہیں جو مستقبل میں مسلسل انتشار کا باعث بنیں گے۔ معاہدے کے بعد داعش نے متعدد وحشیانہ حملے کیے ہیں۔ افغانستان میں داعش دراصل امریکہ کے جرائم کی باقیات ہیں۔ داعش کے جنگجوؤں کو عراق اور شام سے افغانستان لایا گیا تاکہ طالبان کو کنٹرول کیا جاسکے۔ گزشتہ سالوں میں متعدد طالبان کمانڈروں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اگر امریکہ داعش کی پشت پناہی نہ کرے تو وہ داعش کا جلد ہی صفایا کرسکتے ہیں۔ اب جبکہ امریکہ انخلا کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، داعش نے اپنے حملوں میں تیزی کی ہے۔ طالبان کے دیگر ناراض یا متحارب گروہ بھی جلد ہی میدان میں آئیں گے جو مزید انتشار پھیلائیں گے۔ ان تمام تر عوامل کی موجودگی کا مطلب یہی ہوگا کہ انتشار اور بدامنی مزید بڑھے گی۔

کیا بربادی افغانستان کا مقدر ہے؟

پچھلے چالیس سالوں سے افغانستان خانہ جنگی، تشدد اور علاقائی ریاستوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار رہا ہے۔ 27 اَپریل 1978ء کو خلق پارٹی کی قیادت میں برپا ہونے والا ثور انقلاب افغانستان کو ایک جدید، خوشحال اور معاشی برابری پر مبنی سماج بنانے کی ایک انقلابی کوشش تھی۔ لیکن بعد میں سامراجیوں کی جانب سے انقلاب کے خلاف ڈالر جہاد کے آغاز اور پھر سوویت یونین کی مداخلت نے انقلابی عمل کو سبوتاژ کیا۔ 1992ء میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہدین کے مختلف دھڑے آپس میں کئی سالوں تک لڑتے رہے اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بعد میں پاکستان اور امریکہ کی حمایت سے طالبان کا ابھار ہوا جنہوں نے جلد ہی کابل اور افغانستان کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرلیا اور افغانستان پر سیاہ ترین رجعت چھا گئی۔

امریکی جارحیت اور بعد از طالبان کا دور بھی انہی محرومیوں اور بربادیوں کا تسلسل تھا۔ البتہ یہ سب ایک جمہوری پردے میں جاری رہا۔ یہ جمہوری حکومت انہی سابقہ خونخوار جہادیوں پر مشتمل رہی جنہوں نے ثور انقلاب کو خون میں نہلایا تھا۔ خانہ جنگی جاری ہے اور اس کی قیمت عام لوگ اپنی جانوں سے ادا کر رہے ہیں۔ امریکی انخلا کے بعد نئی حکومت بھی عوام کے بنیادی ترین مسائل کو حل نہیں کر پائے گی۔

افغانستان ایشیا کے پسماندہ ترین ممالک میں شامل ہے جہاں صنعت کاری اور جدید انفراسٹرکچر ناپید ہیں۔ منشیات پر مبنی معیشت ہے اور ہمسایہ ریاستوں کی گہری مداخلت ہے۔ اس سب کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں کوئی بنیادی تبدیلی اس وقت تک آ نہیں سکتی جب تک ہمسایہ ریاستوں، بالخصوص پاکستان میں کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آتی۔ پاکستان آج اپنی تاریخ کے سب سے گہرے معاشی، سیاسی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ کورونا کی وبا نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ سماج کئی حوالوں سے ایک انقلابی اتھل پتھل کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اسی طرح ایران میں پہلے ہی ایک سماجی تحرک موجود ہے جو کورونا کی وبا کی وجہ سے عارضی طور پر تھما ہے لیکن دوبارہ ابھرے گا۔ پاکستان میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب افغانستان کے اندر بنیاد پرستی کی جڑوں کو ہی کاٹ دے گا۔ رجعت ریت کے گھروندے کی مانند ڈھے جائے گی۔ یہ تبدیلی افغانستان کے انقلابیوں میں ایک نئی روح پھونکے گی۔ یہی انقلابی لہر افغانستان میں سماجی اورمعاشی تبدیلی کا راستہ ہموار کرے گی۔