اویس قرنی

4 اگست کو لبنان کے دارلحکومت بیروت میں ہونے والے دیوہیکل دھماکے نے پل بھر میں ہی شہر کے بیشتر حصے کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا۔ کیمروں میں قید دھماکے کے مناظر لرزہ خیز تھے۔ یکے بعد دیگرے ان دو دھماکوں میں سینکڑوں لوگ مارے گئے جبکہ کئی ہزار زخمی اور لا پتہ ہیں اور لاکھوں بے گھر ہیں۔ ان دھماکوں سے متاثرہ انسانوں کی یقینی تعداد بتانا شاید ابھی تک نا ممکن ہے۔ جبکہ سرکاری اعداد و شمار آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔ ان دھماکوں کے ساتھ ہی عالمی پیمانے پر سازشی تھیوریاں گردش کرنے لگیں۔ تاہم دھماکوں کی وجہ 2750 ٹن کا امونیم نائٹریٹ کا ذخیرہ بنا۔ اس دھماکہ خیز ذخیرے کا گزشتہ چھ سال سے ایک گنجان آباد علاقہ میں پڑا رہنا لبنانی فرقہ پرور حاکمیت کی نااہلی کی کلی کھول دیتا ہے۔ جبکہ پورٹ پر موجود ملازمین کے مطابق چھ مہینے پہلے ہونے والے سروے میں باقاعدہ طور پر اعلامیہ جاری کیا گیا تھا کہ یہ مواد پورے شہر کی تباہی کا موجب بن سکتا ہے۔ یوں لبنان کے محنت کشوں پر اتری اس آفت کا ذمہ دار یہ نااہل نظام اور اس کے پروردہ حکمران ہیں۔

لیکن لبنان میں ایک اور آتش فشاں بھی مسلسل سلگ رہا ہے۔ یہ لبنان کے عوام ہیں جو پچھلے سال سے مسلسل سڑکوں اور چوراہوں پر حکومت کی نااہلی اور ظالمانہ معاشی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ کورونا وبا سے پیشتر ہی لبنان عوامی تحریک کی لپیٹ میں تھا اور ان چند ممالک کی فہرست میں شامل تھا جو وبا کے دوران بھی مزاحمتی احتجاجوں کی زد میں رہے۔ ان مظاہروں کا آغاز اکتوبر 2019ء میں ہوا تھا جب پٹرول، تمباکو اور واٹس ایپ کالوں پر ٹیکسوں کے نفاذ کی حکومتی تجویز نے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا تھا۔ 29 اکتوبر کو وزیر اعظم سعد حریری نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی یہ مظاہرے ملک کے طول و عرض میں جاری رہے ہیں اور وقتاً فوقتاً پرتشدد کیفیت بھی اختیار کرتے رہے ہیں۔ اس دوران پولیس کے ساتھ تصادموں میں اب تک 10 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان کی طرح لبنان کی معیشت بھی پچھلے لمبے عرصے سے خساروں کی زد میں ہے اور اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 14 فیصد جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے 25 فیصد سے تجاوز کر رہا ہے۔ ان خساروں نے ملک پر قرضوں کے بوجھ کو جی ڈی پی کے 170 فیصد تک پہنچا دیا ہے۔ اکتوبر 2019ء کے بعد سے بلیک مارکیٹ میں لبنانی پاؤنڈ اپنی 80 فیصد قدر کھو چکا ہے جبکہ افراطِ زر کی شرح 52 فیصد سے تجاوز کر رہی ہے۔شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے لبنانی معیشت سست روی کا شکار رہی ہے۔ جبکہ 2020ء میں معیشت کے 12 فیصد تک سکڑ جانے کے امکانات ہیں۔ بیروت سے باہر عوام کو بارہ گھنٹے روزانہ تک کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ تقریباً نصف آبادی غربت کا شکار ہے اور سال 2020ء کے آخر تک غربت کی شرح کے 60 فیصد تک پہنچ جانے کے قوی امکانات ہیں۔ جبکہ بیروزگاری 33 فیصد کی شرح تک پہنچ چکی ہے۔ لبنانی حکومت نے مئی 2020ء میں آئی ایم ایف سے 10 ارب ڈالر قرض کا مطالبہ کیا تھا لیکن ابھی تک دونوں اطراف کسی معاہدے تک نہیں پہنچ پائی ہیں کیونکہ آئی ایم ایف سخت شرائط عائد کر رہا ہے۔

دھماکوں کی حالیہ تباہ کاری نے مہنگائی اور بیروزگاری سے انتہائی تنگدستی کے شکار عوام کے غم و غصے کو مزید بھڑکا دیا ہے اور ایک دفعہ پھر بیروت مظاہروں کی زد میں ہے۔ گزشتہ دنوں میں لبنان کی شاہراہوں پر بانٹے جانے والے لیف لیٹوں پر درج تھا کہ ”آج بیروت کو صاف کرنے کا آخری دن ہے۔ کل سے ہم بیروت سے بدعنوان حکمرانوں کا صفایا کریں گے۔“ 8 اگست کو ہزاروں لوگ بیروت شہر کے وسط میں شہید چوک پر جمع ہوئے منگل کے روز ہونے والی تباہی کا جواب مانگتے رہے۔ ان کے ہاتھوں میں پھانسی کے علامتی پھندے تھے۔ گویا انہوں نے مجرموں کے ساتھ ساتھ ان کی سزا کا تعین بھی کر لیا تھا۔ پارلیمنٹ کے سامنے انصاف کے طلب گار ان مظاہرین پر ریاستی پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ سارا دن مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپیں جاری رہیں۔ موقع پر موجود الجزیرہ کے رپورٹر کے مطابق ”لوگوں میں بہت غصہ ہے اور وہ انصاف کے طلبگار ہیں۔ یہ لوگ منگل کے روز شہد ہونے والوں کے خون کا حساب چاہتے ہیں، یہ سیاست دانوں کو لٹکانا چاہتے ہیں، یہ انہیں ختم کر دینا چاہتے ہیں۔“ پولیس کی لاٹھیوں اور آنسو گیس کی بھاری شیلنگ کے باوجود لوگ پیچھے ہٹنے سے انکاری رہے اور سہ پہر تک انہوں نے لبنان کی وزارت ِ خارجہ کی عمارت پر قبضہ کر لیا۔ ان مظاہرین کی قیادت آرمی کے ریٹائرڈ اہلکار کر رہے تھے۔ جبکہ دن میں ہی لبنان آرمی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے مظاہرین کو پیچھے ہٹنے کا واضح پیغام دیا جا چکا تھا۔ لیکن مظاہرین نے وزارتِ خارجہ کی عمارت پر قبضہ کر کے اس کو ”انقلاب کا ہیڈ کوارٹر“ قرار د یتے ہوئے اپنا جوابی پیغام زور دار انداز میں ریکارڈ کروایا۔ لبنانی صدر ’مائیکل عون‘ کی تصاویر کو جلا دیا گیا۔ مظاہرین نے سپیکروں پر پیغام دیا کہ ”ہم یہیں رہنے والے ہیں اور لبنان کے عوام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام وزارتوں پر قبضہ کر لیں۔“ اسی اثنا میں وزات ماحولیات کی عمارت پر بھی مظاہرین نے قبضہ جما لیا۔ ان اونچی عمارتوں سے صدر اور دیگر حکام کی تصاویر اور سرکاری دستاویزات کو نیچے پھینکا جا تا رہا۔ اسی طرح کے قبضوں کی کوششیں بینکوں اور دیگر وزارتوں کی عمارات پر بھی ہوتی رہیں۔ مظاہرین کو کچلنے کے لیے باقاعدہ فوجی دستے منگوائے گئے اور سرکاری دفاتر پر قبضہ چھڑوانے کے لیے رات گئے تک جھڑپیں جاری ہیں جن میں سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے۔

تحریکوں میں عوامی غضب کا نشانہ وہ سارے ادارے، عمارتیں، مجسمے اور دفاتر بنتے ہیں جنہوں نے اب سے پہلے انہیں دبایا اور کچلا ہوتا ہے، جہاں پہلے انہیں قدم رکھنے کی اجازت تک نہیں ہوتی اور جہاں ان کے دکھوں اور تکلیفوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہوتا ہے۔ لیکن انقلابی تحریکوں میں استحصالی ریاست کے یہی نشان عام لوگوں کے قدموں کی خاک بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ تحریکیں اگر انقلابی فتح سے ہمکنار نہیں ہوتیں اور نظام کو بنیادوں سے نہیں اکھاڑتیں تو یہی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ وحشت سے انتقام بھی لیتی ہے۔

بیروت کے یہ مناظر پورے ملک میں انقلابی کیفیت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ عرب بہار کی ایک دہائی بعد سرمایہ دارانہ حکومتوں کے خلاف پھر سے بغاوتیں ابھر رہی ہیں۔ کیونکہ نہ صرف لوگوں کے مسائل بدستور موجود ہیں بلکہ گزشتہ دس سالوں کے دوران شدید تر ہی ہوئے ہیں۔ لبنان کے محنت کش مقامی حکمران طبقات اور سامراجی طاقتوں کی مسلط کردہ مذہبی فرقہ واریت میں گھائل ہوتے رہے ہیں۔ ملک 1975ء سے 1990ء کے درمیان پندرہ سال کی خونی خانہ جنگی سے گزرا ہے۔ دوسری طرف بحران زدہ سرمایہ داری سے جنم لینے والی معاشی بدحالی انہیں برباد کر رہی ہے۔ آسٹیریٹی پر مبنی نیو لبرل معاشی پالیسیاں، جو بحران کا سارا بوجھ عام لوگوں کے ڈالتی ہیں، انہیں کچل رہی ہیں۔ امریکی اور یورپی حکام نے لبنان کے لئے آئی ایم ایف کے پیکیج کو ”اصلاحات“ سے مشروط کیا ہے۔جس کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی صورت میں کٹوتیوں کی پالیسیاں زیادہ جبر سے مسلط کی جائیں گی۔ کورونا وبا نے نہ صرف معاشی بحران کو شدید تر کر دیا ہے بلکہ پہلے سے مفلوک الحال صحت کے نظام کو بھی مزید برباد کر دیا ہے۔ ان حالات میں بیروت میں حالیہ دھماکوں نے لبنانی عوام کے زخموں کو مزید کرید دیا ہے۔ حالات کے قابو سے باہر ہو جانے سے خوفزدہ حکمرانوں کی جانب سے لوگوں کو قبل ازوقت انتخابات کا جھانسہ دینے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔تحریک کو انتخابات میں زائل کرنے اور موقع پا کر جبر سے کچل دینے کے لئے حکمران کسی بھی حد تک جائیں گے۔ لیکن لبنان کی تحریک خطے کے دوسرے ممالک میں نئی تحریکوں کو مہمیز بھی دے سکتی ہے۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں لبنان کی صورتحال میں تیز تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں جن میں تحریک کے مزید شدت کے ساتھ بھڑک اٹھنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ یہ وقت اور حالات ملک کے انقلابیوں پر تاریخی ذمہ داری عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنی محدود قوتوں کے باوجود تحریک میں مداخلت کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کا واضح پروگرام عوام کے سامنے رکھیں اور اس انقلابی قوت کی تعمیر کا عمل آگے بڑھائیں جو نہ صرف لبنان بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو سرمایہ داری کی بربادیوں سے نجات دلانے کے لئے ناگزیر ہے۔