اداریہ جدوجہد

سب جانتے تھے کہ اقتدار میں آ کے ڈونلڈ ٹرمپ طوفانِ بدتمیزی برپا کرے گا۔ لیکن بیشتر کو اندازہ نہیں تھا کہ طوفان اس قدر شدید بھی ہو سکتا ہے۔

اپنا دوسرا اقتدار سنبھالنے کے بعد گزشتہ تقریباً تین ہفتوں سے وہ جو کچھ کرتا چلا آ رہا ہے اس کی کوئی نظیر کم از کم دوسری عالمی جنگ کے بعد سے مغربی سرمایہ داری میں ڈھونڈنا محال ہے۔ ہر روز ایک نیا ہیجان‘ نیا تنازعہ ہے۔ پہلے سے بحران زدہ عالمی لبرل آرڈر کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل کئی گنا تیز ہو گیا ہے۔ لیکن ٹرمپ اکیلا نہیں بلکہ اس کے قریبی حلقے کے کم و بیش 20 افراد سمیت ایک پورا ٹولہ ہے۔ جس نے پوری تیاری کیساتھ وارد ہو کے امریکی ریاست میں ایک کُو (Coup) جیسے حالات پیدا کر دئیے ہیں۔ ان لوگوں میں سر فہرست ایلون مسک ہے۔ جس نے 20 جنوری کی تقریب حلف برداری کے دوران سرشاری اور بے ساختگی کے عالم میں ’نازی سیلوٹ‘ تک پیش کر ڈالا ہے۔ سامراجی سرمایہ داری کے روایتی نمائندے اور پالیسی ساز خود ششدر ہیں کہ ہو کیا رہا ہے اور اس کا انت کیا ہو گا۔ لیکن فی الوقت دانت پیسنے کے علاوہ کچھ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

ٹرمپ کے عزائم کو اگر کھلا پاگل پن قرار دیا جائے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی۔ لیکن اس پاگل پن کے اندر بھی ایک منطق اور ’میتھڈ‘ پنہاں ہے۔ کامریڈ لال خان کے سنہری الفاظ میں یہ حکمران پاگل نہیں ہوتے‘ ان کے نظام کا بحران انہیں پاگل کر دیتا ہے۔

ٹرمپ اس بار بھی پاپولسٹ/فار رائٹ کے روایتی نعروں، وعدوں اور دعووں کے ساتھ ہی برسر اقتدار آیا ہے۔ لیکن اس کی روش غیر معمولی طور پر جارحانہ ہے۔ ہر روز کوئی نیا جھگڑا‘ نیا محاذ کھولنے کے پیچھے کئی تذویراتی اور سیاسی وجوہات کارفرما ہیں۔ مثلاً اس نوعیت کے رجحانات کیلئے اپنے پیروکاروں کو ”دشمن“ کے خلاف ایک ہیجان، عدم تحفظ اور جنگ کی نفسیات میں مسلسل مبتلا رکھنا ضروری ہوتا ہے (پاکستان میں عمران خان!)۔ جس کیلئے جھوٹ، بہتان اور مبالغہ آرائی کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے اناپرست اور خود پسند لوگ خبروں میں رہنے کیلئے بھی الٹی سیدھی حرکتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کی پلاننگ اس سے آگے کی معلوم ہوتی ہے۔ جس میں ایک طرف اچانک اور غیر متوقع جارحیت کیساتھ ہر ممکن حد تک پیش قدمی کی کوشش شامل ہے (عسکری زبان میں ’بلٹز کریگ‘، جو دوسری عالمی جنگ میں نازی جرمنی کی بنیادی حکمت عملی تھی)۔ جبکہ دوسری طرف ایک کثیر جہتی انتشار کے اندر حقیقی واردات کو چھپانا مقصود ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اپنے بیشتر حالیہ اقدامات کا عندیہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں پیشگی دے دیا تھا۔ مضحکہ خیزی یہ بھی ہے کہ اسے امریکی تاریخ میں اپنے وعدوں کا سب سے زیادہ پاس رکھنے والا صدر قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ خیال اتنا غلط بھی نہیں ہے۔ درحقیقت نہ صرف اس کے بہت سے ناقدین بلکہ حمایتی بھی یہ گمان کیے ہوئے تھے کہ اس کی باتیں زیادہ تر بڑھک بازی پر مبنی ہیں اور وہ برسر اقتدار آ کر اس نہج تک نہیں جائے گا۔ جیسا کہ اس کا روایتی طریقہ کار رہا ہے کہ وہ بہتر ڈِیل کیلئے پہلے پہل دھمکیوں اور الزام تراشی سے کام لیتا ہے۔ لیکن اس بار وہ ہر حد سے تجاوز کرتا جا رہا ہے۔

یو ایس ایڈ کا یکلخت خاتمہ، فلسطینیوں کی بے دخلی (بنیادی طور پر نسلی تطہیر)، کبھی گرین لینڈ‘ کبھی غزہ تو کبھی پاناما کینال پر قبضے کی باتیں، عالمی عدالت انصاف پر پابندیاں، اقوام متحدہ کے عالمی صحت اور انسانی حقوق کے اداروں سمیت ماحولیاتی تحفظ کے پیرس ایگریمنٹ اور ممکنہ طور پر ’G-20‘ سے علیحدگی، پچھلے دورِ حکومت میں اپنے ہی کیے ہوئے تجارتی معاہدوں کو برا بھلا کہہ کر کینیڈا اور میکسیکو سمیت تقریباً تمام اتحادیوں کیخلاف تجارتی جنگ کا اعلان، مہاجرین کی فوجی جہازوں کے ذریعے ڈی پورٹیشن اور انہیں قید کرنے کیلئے بدنام زمانہ گوانتانامو جیل کی توسیع… غرضیکہ اشتعال انگیزیوں کی ایک بھرمار جاری ہے۔ جو مروجہ سامراجی سیٹ اپ کے تقاضوں، ضابطوں اور رکھ رکھاؤ سے کھلا انحراف‘ بلکہ بغاوت کے مترادف ہے۔

لیکن شاید اس سے بڑی یلغار داخلی سطح پر جاری ہے۔ جس کا سرغنہ ایلون مسک ہے۔ جو امریکی ریاست کو اپنی نجی کمپنی کی طرح چلانا چاہتا ہے اور اخراجات میں کمی اور شفافیت کے نام پر ایک طرف امریکہ کے انتہائی حساس مالیاتی امور پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف (محکمہ تعلیم اور کئی دوسرے اداروں کے مکمل خاتمے سمیت) وفاقی حکومت کے بیشتر ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ جن میں اعلیٰ ترین فوجی و سویلین بیوروکریسی کے وہ افراد بہرصورت شامل ہیں جو ٹرمپ کو مسیحا اور رہنما ماننے سے انکاری ہیں۔ انتہائی نازک معاملہ ایف بی آئی اور سی آئی اے جیسے حساس ترین اداروں (”ڈیپ سٹیٹ“) کا ہے۔ جنہیں اگر تحلیل نہیں تو گہری تطہیر (Purge) کا نشانہ بنانے کی پوری کوشش جاری ہے۔ اسی طرح صنفی حقوق کی مکمل سلبی اور ریاست کی طرف سے مذہب کو مسلط کرنے کے اقدامات بھی جاری ہیں۔ اس کیلئے نہ صرف تعلیمی نظام میں تبدیلیاں کی جا رہی ہیں بلکہ باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے جس کی قیادت ٹیلیوژن پر مسیحیت کی تبلیغ کرنے والی ایک انتہائی رجعتی اور توہم پرست خاتون کر رہی ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے اقتدار سنبھالتے ہی 6 جنوری 2021ء کو امریکی پارلیمنٹ پر حملہ آور ہونے والے اپنے حمایتی بلوائیوں کی عام معافی کا اعلان بہت کچھ واضح کر دیتا ہے۔

مختصراً یہ کہ اس ٹولے کا حتمی مقصد ریاست کی ہر ریگولیٹری، انتظامی اور فلاحی ذمہ داری کو منسوخ کر کے اسے ایک آمرانہ طرزِ حکومت کے تحت خالص اور برہنہ انداز میں مسلح افراد کے جتھوں کے طور پر سامنے لانا ہے۔ معاشرتی و ثقافتی طور پر یہ لوگ امریکہ کو سفید نسلی برتری اور تعصب پر مبنی تھیوکریٹک ریاست اور پہلے سے کہیں زیادہ قدامت پرست، رجعتی اور مذہبی سماج میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر وہ رجحان ہے جسے امریکی خانہ جنگی میں شکست دے کر ابراہم لنکن نے جدید امریکہ کی بنیادرکھی تھی۔ یوں بحران زدہ سرمایہ داری آج صدیوں کے گڑے مردے اکھاڑتی جا رہی ہے!

لبرل آرڈر ٹوٹ کے بکھر رہا ہے لیکن ایک انقلابی متبادل کے بغیر اس کی جگہ پہلے سے کہیں بڑی وحشت اوربربادی ہی لے گی۔ جس کا راستہ آخری تجزئیے میں انسان دوست سرمایہ داری اور ترقی پسندی کا ڈھونگ رچانے والی روایتی قیادتوں نے ہی ہموار کیا ہے۔ ٹرمپ اور اس کے گینگ کو اگر قدم جمانے کا موقع مل جاتا ہے تو روس میں پیوٹن، ترکی میں اردگان اور انڈیا میں مودی کی طرح ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا خاصا مشکل ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں اس سے عدم استحکام میں اضافہ ہو گا، ماحولیاتی بربادی بڑھے گی اور دنیا بھر میں فار رائٹ کے مطلق العنان رجحانات کو تقویت ملے گی۔

ایسے رجحانات کے خلاف مزاحمت اصلاح پسندی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ لہٰذا ڈیموکریٹک پارٹی سے امیدیں وابستہ کرنا حماقت ہے۔ جس کا شکار ہو کے امریکی بائیں بازو کے بیشتر حصے آج ایک تاریخی بحران کا شکار اور کوئی متبادل پروگرام اور مزاحتمی لائحہ عمل پیش کرنے سے بڑی حد تک قاصر ہو چکے ہیں۔ فی الوقت اعلیٰ عدلیہ کے کچھ دھڑے ٹرمپ کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن لمبے عرصے میں یہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔ ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کی اکثریت ہے۔ ویسے موقع ملنے پر ٹرمپ ماورائے پارلیمان و آئین اقدامات سے بھی نہیں کترائے گا۔ بلکہ اس طرف پیش قدمی پہلے سے جاری ہے۔ لیکن ’وائلڈ ویسٹ‘ کے اس ماحول میں غیر متوقع، خونی اور دھماکہ خیز واقعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ جس میں ٹرمپ اور اس کے حواریوں کا کچلے جانا بھی خارج از امکان نہیں ہے۔

تاہم اس کیفیت میں سب سے اہم عامل پھر امریکہ (اور دنیا بھر) کا محنت کش طبقہ ہی ہے۔ جسے فسطائی رجعت کے کوڑے بیداری اور عمل پر مجبور کر سکتے ہیں۔ جس سے نئی صف بندیاں ہوں گی اور پہلے سے کہیں زیادہ وسیع بنیادوں پر انقلابی سیاست استوار ہو گی۔ یہی وہ واحد صورت ہے جو فنا کے ان پیامبروں کو ان کے نظام سمیت نیست و نابود کر کے نسل انسان کو زندگی اور نجات بخش سکتی ہے۔

11 فروری 2025ء