اداریہ جدوجہد

7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے دو سال بعد عرب حکمرانوں اور چین اور روس سمیت ساری سامراجی دنیا غزہ میں جنگ بندی پر شادیانے بجا رہی ہے۔ اس دوران اسرائیل کی بے لگام و بے نظیر جارحیت نے غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔ 92 فیصد رہائشی اور 88 فیصد کمرشل عمارات یا تو تباہ ہو چکی ہیں یا انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ بنیادی سماجی و مادی انفراسٹرکچر برباد ہو چکا ہے۔ ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد کم از کم 85 ہزار ہے۔ بالواسطہ وجوہات کو شمار کریں تو یہ ہلاکتیں کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہیں۔ یہ مسلح تنازعہ، جسے ’غزہ جنگ‘ کا نام دیا جاتا ہے، بنیادی طور پر صیہونی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں کے یکطرفہ قتل عام کے مترادف ہے۔ جس میں بارود کے ساتھ ساتھ علاج معالجے کی عدم فراہمی، بھوک اور پیاس کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا ہے اور بچوں، بوڑھوں، خواتین، مریضوں، زخمیوں کا کوئی لحاظ روا نہیں رکھا گیا۔ بلکہ بیشتر صورتوں میں دانستہ طور پر ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ عام لوگ بڑی تعداد میں ایک جگہ جمع ہوں تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہلاک کیا جا سکے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوامِ متحدہ جیسے ’امن‘ اور ’انسانی حقوق‘ کے سامراجی اداروں نے بھی اس صورتحال کو دانستہ نسل کشی قرار دیا ہے۔ تاہم اس عرصے میں اسرائیل کی جارحیت صرف غزہ تک محدود نہیں رہی بلکہ امریکہ کی مدد سے خطے کے دوسرے ممالک (لبنان، شام، ایران، قطر وغیرہ) میں بھی حماس، حزب اللہ اور ایران کی عسکری و سیاسی قیادت کے اہم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران کی اہم جوہری اور فوجی تنصیبات پر کیے جانے والے تباہ کن حملے اس کے علاوہ ہیں۔ جس کے جواب میں ایران نے اپنے میزائلوں اور ڈرون جہازوں کے ذریعے اسرائیل کو نشانہ بنایا اور دونوں ممالک کے درمیان بار بار جنگی تصادم کی صورتحال پیدا ہوتی رہی۔

اگر غور کریں تو 7 اکتوبر 2023ء کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں ایسے حالات و واقعات نے جنم لیا ہے جن کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی اور جو مستقل نوعیت کی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار اسرائیل اور ایران کے ایک دوسرے پر براہِ راست حملے تو ایک طرف رہے‘ ان حالات میں قطر جیسے انتہائی امیر، بااثر اور امریکہ کے قریبی اتحادی ملک کی سرزمین بھی محفوظ نہیں رہی۔ جہاں رواں سال جون میں پہلے ایران نے امریکہ کے ایک کلیدی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔ پھر ستمبر میں اسرائیل نے دارالحکومت دوحہ میں حماس کی قیادت کے ایک اجلاس کو نشانہ بنایا۔ یوں سعودیوں کا بھاگ کر پاکستان کی عسکری چھتری تلے پناہ لینا بے سبب نہیں ہے۔

لیکن مشرقِ وسطیٰ کے ان واقعات کو عالمی منظر نامے میں ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کی سرزمین پر پہلی بڑی اور روایتی جنگ روس اوریوکرائن کے درمیان گزشتہ ساڑھے تین سال سے جاری ہے۔ جس میں دونوں اطراف سے ڈھائی تا تین لاکھ فوجی ہلاکتوں سمیت تقریبا 15 لاکھ لوگ ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ مالی نقصان، انفراسٹرکچر کی تباہی اور دربدر ہو جانے والوں کی تعداد کا کوئی شمار نہیں۔ اسی طرح رواں سال مئی میں خوفناک ایٹمی جنگ کے خطرات کے ساتھ چار دن تک جاری رہنے والا پاک بھارت تصادم ہے۔ جس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات تاحال کشیدہ ہیں اور کسی نئے جنگی ایڈونچر کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان دھماکوں کی گونج ابھی پوری طرح ماند نہیں پڑی تھی کہ اب افغانستان کے ساتھ جنگی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ جس میں خونریز سرحدی جھڑپیں بھی شامل ہیں اور پاکستان کے فضائی حملوں میں کابل اور قندھار سمیت افغانستان کے کئی شہروں میں اہداف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ، جو گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستانی ریاست کی اپنی افغان پالیسی کی پیداوار ہے، خطے میں عدم استحکام اور خونریزی کے نئے سلسلے کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ ان سطور کے تحریر کے وقت ٹرمپ کی جانب سے وینزویلا میں ”جان لیوا نوعیت کے خفیہ آپریشن“ یا انتہائی صورت میں براہِ راست حملے کی باتیں عالمی میڈیا پر موضوعِ بحث بنی ہوئی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ایسی کوئی کاروائی پورے لاطینی امریکہ کو تہہ و بالا کر دینے والے حالات پیدا کر سکتی ہے۔

لیکن مسئلہ صرف جنگوں اور سامراجی خونریزیوں کا نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مروجہ سیاست و سفارت بھی گہری ٹوٹ پھوٹ سے دوچار ہے۔ امریکہ چین تجارتی جنگ شدید ہوتی جا رہی ہے اور بین السامراجی تناؤ بڑھ رہا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے جو 2008ء کے بعد شدید ہوتا چلا گیا ہے۔ دو دہائیاں قبل یہ سوچنا بھی محال تھا کہ عالمی سرمایہ داری کی باگ ڈور ٹرمپ جیسے شخص کے ہاتھوں میں بھی آ سکتی ہے۔ جس کا رویہ اور حرکتیں کسی امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والے احساس برتری کے شکار لاڈلے، ضدی اور ہٹ دھرم بچے سے مختلف نہیں ہیں اور جس کے لئے سامراجی نظام کے طویل مدتی اہداف اور اغراض و مقاصد سے زیادہ اہم شارٹ ٹرم فائدے، نجی و گروہی مفادات اور ذاتی انا کی تسکین ہے۔ اپنے انہی رویوں کی بنیاد پر وہ بین الاقوامی تعلقات و معاملات کی ازسرِ نو تشکیل کے ذریعے سامراجی لبرل آرڈر کے بحران کو ایک موضوعی شکل دے رہا ہے۔ لیکن ٹرمپ کو وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو وہ فار رائٹ کے نئے رجحانات کے ابھار کا تسلسل ہے جو (نیو) لبرل سیاسی معیشت کے گہرے بحران کی پیداوار ہے اور ایک کے بعد دوسرے ملک (بالخصوص ترقی یافتہ مغرب) میں اس قبیل کے قدامت پسند، لاابالی، ہٹ دھرم اور نسل پرست قسم کے افراد یا پارٹیوں کو مقبولیت دے رہا ہے۔ یوں امریکہ پر سے اعتبار اٹھ جانے اور پرانے سامراجی آرڈر کی مفاہمتوں اور معاہدوں کے ٹوٹ کے بکھر جانے کے ماحول میں علاقائی طاقتیں بعض صورتوں میں زیادہ وحشی اور خود سر ہو گئی ہیں (جیسا کہ اسرائیل کا معاملہ ہے) یا عدم تحفظ اور گھبراہٹ کے عالم میں نئے اتحاد بنانے اور نئی عسکری چھتریاں ڈھونڈنے میں مصروف ہیں (جیسا کہ یورپ اور خلیجی ریاستوں کی صورتحال ہے)۔ اس کیفیت کا فائدہ چین اور روس بھی اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ ’برکس‘ اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے اتحادوں کا کافی چرچا ہے۔ اگرچہ سرمایہ داری کے اتحاد سامراجی جبر و استحصال کے نظام کا متبادل نہیں ہو سکتے۔

اس حوالے سے غور کریں تو یہ عدم استحکام کا نیا سلسلہ ہے۔ جس میں جنگ، خونریزی، جارحیت اور نسل کشی جیسے عوامل معمول کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ سرِ عام پچاس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بطور قوم ختم کرنے کی نہ صرف باتیں کی جا رہی ہیں بلکہ اس منصوبے کو عملی جامہ بھی پہنایا جا رہا ہے۔ غزہ کی حالیہ نام نہاد جنگ بندی بھی اسی طویل مدتی منصوبے کی کڑی ہے۔

دراصل گزشتہ دو سال کے دوران دنیا بھر میں اسرائیلی صیہونی ریاست کے خلاف شدید غم و غصے اور احتجاجوں نے جنم لیا ہے۔ جس میں حالیہ دنوں کے دوران عالمی صمود فلوٹیلا کی مہم اور اٹلی میں فلسطینیوں کیساتھ یکجہتی کی ہڑتالوں اور بندرگاہوں کی بندش کیساتھ شدت آئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی گزشتہ عرصے میں آسٹریلیا اور یورپ کے کئی ممالک میں عوام نے اسرائیلی بربریت کے خلاف بہت بڑے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ اس سے قبل امریکہ کے تعلیمی اداروں میں یکجہتی دھرنوں کا سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ دنیا بھر میں اسرائیل کا نام ایک گالی بن کے رہ گیا ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ اسے ایک بدمعاش (’روگ‘) اور ناجائز ریاست کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ صیہونیت اس سے قبل اتنی تنہا، بدنام اور مذمت و تنقید کا شکار تاریخ میں پہلے کبھی نہیں تھی۔ 21 ویں صدی میں ساری دنیا کی نظروں کے سامنے جاری نسل کشی نے روز روز کی معاشی ذلتوں اور محرومیوں کیساتھ مل کر سرمایہ داری اور اس کے عالمی سیاسی بندوبست کے خلاف عوام کی نفرت اور بغاوت میں اضافہ ہی کیا ہے۔ حتیٰ کہ خود بورژوا حلقوں میں بداعتمادی بڑھی ہے اور تلخ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ عرب ممالک میں بھی فلسطین کے معاملے پر اپنے حکمرانوں کی بے عملی، کاسہ لیسی اور خاموش شراکت داری کے خلاف ایک خاموش غصہ اور شورش موجود ہے۔ جو 2011ء کی طرح کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔ یہ عوامل سامراجی پالیسی سازوں کے لئے شدید بے چینی اور دباؤ کا باعث ہیں۔ یہی وجہ ہے گزشتہ دو سال کے دوران برطانیہ، ناروے، فرانس، سپین، آئر لینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ جیسی طاقتور مغربی ریاستوں کو بھی (ایک منافقانہ حربے کے طور پر) فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا پڑا ہے۔ غزہ کی حالیہ جنگ بندی کو بھی اسی پیرائے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جو سامراجی منافقت اور عیاری کی ایک اور واردات ہے۔

اس جنگ بندی پر گزشتہ دو سال سے مسلسل موت اور بربادی سے دوچار فلسطینی عوام کی خوشی کی وجوہات کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ یہ وقتی ریلیف یقینا خوش آئند ہے۔ لیکن تلخ حقیقت یہ بھی ہے یہ فلسطینی جدوجہد کی فتح نہیں ہے۔ جیسا کے کچھ حلقوں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے۔

امریکی دباؤ اور قطر، مصر اورترکی کی معاونت سے طے پانے والے معاہدے کے پہلے مرحلے میں دونوں اطراف سے قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے اور لاشیں ایک دوسرے کے حوالے کی جا رہی ہیں۔ لیکن بالفرض جنگ بندی برقرار رہتی ہے تو آگے کے مراحل اسرائیلی قبضے کو جواز دینے، ٹرمپ اور ٹونی بلیئر (جو خود ایک جنگی مجرم ہے) کی قیادت میں غزہ کو امریکی پروٹیکٹوریٹ بنانے اور اس کا انتظام ”غیر سیاسی“ فلسطینی ٹیکنوکریٹس اور بین الاقوامی ”ماہرین“ کے تحت چلانے، حماس کو غیر مسلح کرنے اور غیر ملکی فوج کی تعیناتی جیسے نکات پر مبنی ہیں۔ یوں یہ فلسطینیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے انہیں مزید کریدنے کا منصوبہ ہے۔

حماس کی 7 اکتوبر کی کاروائی نے اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی ”نارملائزیشن“ کے عمل کو تو معطل کر دیا۔ لیکن اس کی بہت بھاری جانی و مالی قیمت فلسطینی عوام کو چکانی پڑی۔ اس دوران ایران اور اس کے پراکسی گروہ اسرائیل کے خلاف حماس کی کوئی ٹھوس معاونت نہیں کر سکے۔ الٹا انہیں اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ اب شدید مجبوری کے عالم میں حماس کو اس معاہدے پر دستخط تو کرنے پڑ رہے ہیں۔ لیکن ایسے امکانات بھی کم ہی ہیں کہ حماس مکمل طور پر خود کو غیر مسلح کرے گی (بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو پہلے سے موجود یا نئے مسلح گروہ اس کی جگہ لے لیں گے)۔ نہ ہی اسرائیل جیسی توسیع پسندانہ اور بدمعاش ریاست، جس کے عزائم میں نہ صرف فلسطینیوں کا صفایا بلکہ دیگر عرب ممالک پر قبضہ بھی شامل ہے، کے بغل میں لفظوں کی حد تک خودمختیار اور مستحکم فلسطینی ریاست کا بھی وجود ممکن ہے۔ یوں جنوب ایشیا میں لائن آف کنٹرول، ڈیورنڈ لائن اور ریڈ کلف لائن سے لے کے مشرقِ وسطیٰ میں فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کی پیوندکاری تک‘ سامراجیوں کے کھڑے کیے ہوئے مسئلے سامراجی معاہدوں سے حل نہیں ہو سکتے۔ فلسطین کی آزادی سارے صیہونی پراجیکٹ کو یکسر اکھاڑے جانے سے مشروط ہے۔ لیکن اس کے لئے سارے مشرقِ وسطیٰ میں سے اس سامراجی سیٹ اپ کو اکھاڑنا ہو گا جس کے کلیدی ستون خود عرب حکمران ہیں۔ یہ فریضہ عرب محنت کش عوام کے انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کے خاتمے اور مشرقِ وسطیٰ کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کی تشکیل کے ذریعے ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔