اداریہ جدوجہد
ایران پر اسرائیل کی تازہ جارحیت نے مشرقِ وسطیٰ کو ایک بار پھر بڑی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جو انتہائی تباہ کن شکل اختیار کرتے ہوئے خطے سے باہر بھی پھیل سکتی ہے۔ نیتن یاہو کی پوری کوشش ہے کہ اس تنازعے میں امریکہ کو براہِ راست مداخلت پر مجبور کیا جائے۔ تاہم بحران زدہ امریکی سامراج خود ایک گہرے ابہام اور تذبذب کا شکار نظر آ رہا ہے۔ جس کا واضح اظہار ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلسل موقف بدلنے سے بھی ہوتا ہے۔ فی الوقت امریکہ کے اندر جنگ کی سخت مخالفت، اپنے اتحادیوں کی ہچکچاہٹ اور حریف طاقتوں کی مداخلت کی صورت میں تصادم کے بالکل بے قابو ہو جانے کے خوف سے وہ دو ہفتے کا وقت لے کے پیچھے ہٹ گیا ہے۔ ٹرمپ کے اس رویے کے پیچھے مسلسل ہٹ دھرمی اور حکم عدولی پر اترے نیتن یاہو کو سبق سکھانے اور تنبیہ کرنے کی کوشش کا عمل دخل بھی ہو سکتا ہے (اگرچہ اپنی خصلت کے عین مطابق وہ کسی بھی وقت یو ٹرن لے سکتا ہے)۔ علاوہ ازیں اسرائیلی حملوں میں بھاری نقصان کے باوجود ایران کے غیر متوقع طور پر سخت ردِ عمل نے نہ صرف اسرائیل کی منصوبہ بندی کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے بلکہ مغربی سامراجی طاقتوں کو بھی کسی قدر پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ بہرحال مشرق وسطیٰ کے حالات بدستور ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ زیر نظر اداریہ ایران پر اسرائیل کے حملے کے ابتدائی مراحل میں 14 جون کو ’طبقاتی جدوجہد‘ کے پرنٹ ورژن کے لئے تحریر کیا گیا تھا۔ جس میں مختصراً موجودہ صورتحال اور ممکنات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
جنوب ایشیا میں پاکستان بھارت تصادم ابھی پوری طرح تھما نہیں ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران اسرائیل جنگ کے شعلے پھر سے بھڑک اٹھے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر اسرائیل کی خطے میں جاری بے لگام جارحیت کا ہی تسلسل میں جس میں غزہ کو تاراج کر دیا گیا اور فلسطینیوں کی نسل کشی بدستور جاری ہے۔ اس پس منظر میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کا نیا سلسلہ پچھلے سال سے وقتاً فوقتاً براہِ راست ٹکراؤ میں بدلتا رہا ہے۔ جس میں ایک دوسرے پر میزائلوں اور ڈرون جہازوں وغیرہ سے حملے کیے گئے۔ لیکن اب کی بار اس تصادم کی شدت پہلے سے کئی گنا زیادہ اور نوعیت کہیں زیادہ سنگین ہے۔ جس کا آغاز 13 جون کو ایران پر اسرائیلی میزائلوں کی بوچھاڑ سے ہوا ہے۔ یہ ایران عراق جنگ کے بعد ایرانی سرزمین پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ ہے جو تاحال جاری ہے اور اسرائیلی حکام کے مطابق غیر معینہ مدت تک جاری رہ سکتا ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ واردات عین اس وقت کی گئی ہے جب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا اور ٹرمپ نے بارہا عندیہ دیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں نئی جنگ نہیں چاہتا اور ایران کیساتھ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔تاہم اسرائیلی حملے کے بعد نیتن یاہو کی خواہشات کے عین مطابق ان مذاکرات کا جاری رہنا کم و بیش ناممکن ہو گیا ہے۔ لیکن اب کی بار مسئلہ صرف حملے کی شدت یا وسعت کا نہیں بلکہ ایران کو پہنچنے والے نقصان کی نوعیت کا بھی ہے۔ اسرائیل کے حملے کے ابتدائی مراحل میں ہی نہ صرف ایرانی فوج اور پاسدان انقلاب کے سربراہان سمیت ایران کی اعلیٰ ترین عسکری قیادت کے بیشتر افراد اور اہم ایٹمی سائنسدان ہلاک ہو گئے ہیں بلکہ انتہائی حساس جوہری تنصیبات سمیت عسکری انفراسٹرکچر کو بھی بھاری نقصان پہنچا ہے۔ یہ ایران کے لئے جولائی 2024ء میں تہران میں حماس کے قائد اسماعیل ہانیہ کے اسرائیل کے ہاتھوں قتل سے کہیں بڑی ہزیمت ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران میں موساد کا نیٹ ورک پہلے کے اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع اور موثر ہے۔ جبکہ ظاہری رعب، دبدبے اور بڑھکوں کے برعکس ایرانی ریاست اندر سے خاصی کھوکھلی اور کمزور ہے جس کا کاؤنٹر انٹیلی جنس کا نظام بار بار ناکارہ ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے پیچھے سامراجی پابندیوں، دباؤ اور سبوتاژ کے ساتھ ساتھ دہائیوں کے داخلی جبر، ملاں اشرافیہ میں بڑے پیمانے پر موجود بدعنوانی اور آپسی تضادات بھی کارفرما ہیں (حتیٰ کہ یہ بھی ایک سوال ہے کہ ہلاک ہونے والے فوجی کمانڈروں کی جگہ لینے والے افراد کس قدر قابل اعتبار ہیں)۔ غور کریں تو یہ بنیادی طور پر ایرانی ریاست کا نظریاتی بحران ہے جو پھر سیاسی و عسکری حوالوں سے اپنا اظہار کر رہا ہے۔ ان حالات میں شدید بیرونی جارحیت اور دباؤ کی صورت میں ایرانی ریاست کے اندر سے ٹوٹ کر بکھر جانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن پھر اسرائیلی کی اپنی صورتحال بھی کوئی اتنی اچھی نہیں ہے۔ ایک طویل جنگ یا جنگی صورتحال (جس کا انحصار بڑی حد تک ایران کی مزاحمتی صلاحیت پر ہے) خود اسرائیل کے اندر بڑے انتشار کو جنم دے سکتی ہے۔ نیتن یاہو اور اس کا ٹولہ ایک ممکنہ عوامی بغاوت کا شکار بھی ہو سکتا ہے اور اس گینگ کی مسلسل مہم جوئیوں سے تنگ سامراجی بھی کسی انتہائی اقدام پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
اسرائیلی حملے کے بعد ایران کو اپنے حواس کو بحال، عسکری صلاحیت کو مجتمع اور ردِ عمل سے متعلق فیصلہ کرنے میں تقریباً 18 گھنٹے کا وقت لگا (اگرچہ اسرائیلی حملہ بڑی حد تک متوقع تھا)۔ لیکن ان کے پاس اسرائیل پر جوابی حملہ کرنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔ یہ جوابی حملہ یا حملوں کا سلسلہ بھی تا دمِ تحریر جاری ہے جس میں اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں اور ہوائی اڈوں کو نقصان پہنچانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کے جدید اور موثر ایئر ڈیفنس سسٹم کے باوجود کئی میزائل دارالحکومت تل ابیب پر گرے ہیں جن میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کے علاوہ کئی ہلاکتوں کی اطلاعات بھی ہیں۔ایران کا تازہ حملہ بھی اسرائیل جتنا موثر اور تباہ کن نہ ہونے کے باوجود غیر معمولی اور بے نظیر ضرور ہے۔ مزید برآں ایران نے براہِ راست مداخلت کی صورت میں امریکہ اور دوسری مغربی طاقتوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی ہے۔ یوں یہ مسلسل ابھرتی اور بدلتی ہوئی صورتحال ہے جو تیزی سے انتہائی تباہ کن حالات میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ ان خدشات کا اظہار عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمتوں اور گرتی سٹاک مارکیٹوں میں بھی ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے جنگ کے طوالت یا مزید وسعت اختیار کر جانے کی صورت میں پہلے سے بحران زدہ عالمی معیشت بڑی کساد بازاری سے دوچار ہو سکتی ہے۔ بڑی طاقتوں کی طرف سے مذمتوں اور اپیلوں کا نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن اقوامِ متحدہ، چین اور روس سمیت نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ عملاً ایک مجہول تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے یا (بالخصوص بڑی مغربی طاقتوں کے معاملے میں) اسرائیل کی معذرت خواہی اور سہولت کاری میں مصروف ہے۔
نیتن یاہو کی اس بے لگام جارحانہ روش کے پیچھے جہاں اس کی اپنی سیاسی بقا کی کوششیں، صیہونیت کا داخلی بحران اور عالمی سطح پر اسرائیل کی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کارفرما ہے وہاں امریکی سامراج کا تاریخی بحران اور خود اپنی کٹھ پتلیوں پر ڈھیلی پڑتی ہوئی گرفت بھی اہم عنصر کے طور پر شامل ہے۔ اس حقیقت کا اظہار ایک بار پھر اسرائیلی حملے کے بعد امریکی حکام کے مبہم اور بعض صورتوں میں متضاد بیانات سے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ محض امریکی سامراج کی منافقت نہیں بلکہ امریکی ریاست کے اندر موجود کنفیوژن اور ٹوٹ پھوٹ بھی ہے۔ جو ٹرمپ کے دوسرے اقتدار میں مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے صورتحال یہ بن چکی ہے کہ ہر اہم موڑ پر امریکہ کو اسرائیل کی پیروی کرنی پڑتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے اقدامات کا جواز پیش کرنا پڑتا ہے۔ ٹرمپ بنیادی طور پر ایک خود پسند، بدتمیز، غیر سنجیدہ، لاابالی اور ناقابل اعتماد انسان ہے جو ہر کچھ گھنٹوں بعد اپنا موقف بدل لیتا ہے۔ بڑھکیں مارنے کا عادی ہے لیکن سامنے سے کوئی زیادہ اونچی بڑھک مارے یا بڑے نقصان کا خدشہ ہو تو فوراً نیچے بھی لگ جاتا ہے۔ ان حالات میں اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خود اس کے اتحادی اور ماتحت اس پر کس حد تک اعتبار کرتے ہوں گے۔ لیکن اگر آج انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اقتصادی اور عسکری طاقت کی باگ ڈور ایسے انسان کے ہاتھ میں ہے تو یہ محض ایک فرد کا معاملہ نہیں ہے بلکہ سارے مروجہ سامراجی نظام کے بحران کا اظہار ہے۔ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے واقف ہے جب ایک نظام کی زوال پذیری کے نتیجے میں نااہل اور مسخرے قسم کے لوگ اقتدار میں آ ئے جنہوں نے پھر اس نظام کی ٹوٹ پھوٹ کو کئی گنا تیز کر دیا۔
مشرقِ وسطیٰ کی موجودہ بربادی کا تاریخی پس منظر صدیوں کی نوآبادیاتی ڈاکہ زنی اور بندر بانٹ پر مبنی ہے۔ جس میں برطانوی اور فرانسیسی سامراج کلیدی کھلاڑیوں کے طور پر شامل تھے۔ 1949ء میں مغربی سامراج کی آؤٹ پوسٹ کے طور پر اسرائیل کا قیام جبر و استحصال کے اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ اس غیر فطری صیہونی ریاست کو تیل سے مالا مال خطے پر بیرونی سامراجی تسلط کو مسلسل برقرار رکھنے کے لئے ایک جابر اور بے رحم غنڈے کے طور پر پالا گیاہے۔ جس کی موجودگی میں یہ خطہ کسی استحکام اور خوشحالی کا رخ نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن پھر 1979ء میں ایک خونی ردِ انقلاب سے جنم لینے والی ایران کی تھیوکریٹک ریاست بھی کسی ترقی پسندانہ کردار کی حامل نہیں ہے۔ ’’سامراج مخالفت‘‘ کے نام پر اسے سیاسی جواز یا حمایت دینا کھلا نظریاتی جرم ہے۔ اس مذہبی فرقہ وارانہ ریاست کے ہاتھ بھی (ایران کے اندر اور باہر) اَن گنت بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جن میں دسیوں ہزار کمیونسٹ، محنت کش اور خواتین شامل ہیں (گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران ایران میں کم از کم دس بڑی احتجاجی تحریکیں ابھر چکی ہیں جنہیں انتہائی بے رحمی سے کچلا گیا)۔ لیکن ایران کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا حق صرف ایرانی عوام کو حاصل ہے اور وہی ایک طبقاتی جڑت اور انقلابی جہت کیساتھ اس جابر تھیوکریٹک ریاست سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل جیسی بنیاد پرست، پیوند کردہ، ناجائز اور سامراجی غنڈہ ریاست نہ تو ایرانی عوام کی نجات دہندہ ہو سکتی ہے‘ نہ اسے خطے کے کسی بھی ملک میں مداخلت یا ’’پیشگی‘‘ چڑھائی (Pre-emptive Strike) کا کوئی حق حاصل ہے۔ تذویراتی حوالے سے اسرائیل پر لگنے والی ہر ضرب خوش آئند ہے۔ لیکن موجودہ حالات یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ مذہبی نظریاتی اور سرمایہ دارانہ معاشی بنیادوں پر اسرائیل کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ محض عسکری معاملہ بھی نہیں ہے۔ اس کینسر، جس کی جڑیں رجعتی اور کاسہ لیس عرب حاکمیتوں میں بھی پیوست ہیں، کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے انقلابی جراحی درکار ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تاریخی فریضہ ایران سمیت پورے خطے میں سامراجی سرمایہ داری کی بساط لپیٹنے سے مشروط ہے جسے مشرقِ وسطیٰ کے محنت کش عوام ہی ادا کر سکتے ہیں۔
