راہول
رواں سال انڈونیشیا ایک ایسی عوامی بغاوت کا مرکز بنا جس نے نہ صرف ملکی اقتدار کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ پورے خطے میں اس دہائی کے اوائل سے ابھرتی ”ایشین اسپرنگ“کی لہر کو نئی قوت بخشی۔ یہ وہی لہر ہے جو جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں جنریشن زی کی قیادت میں بدعنوانی، معاشی ناہمواری، آمرانہ طرزِ حکمرانی اور جمہوری زوال کے خلاف بے باک بغاوتوں کی صورت میں ابھری ہے۔ سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال میں حکومتوں کو گرا دیا گیا۔ فلپائن میں احتجاج بدستور جاری ہیں۔ لداخ اور جموں و کشمیر میں سامراجی قبضے اور قومی جبر و استحصال کے خلاف تحریکیں زور شور سے آگے بڑھ رہی ہیں۔
یہ تحریکیں اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ ایشیائی خطے کی نئی نسل اب محض حالات و واقعات کی تماشائی نہیں بلکہ انقلابی تبدیلی کی محرک اور سرمایہ دارانہ اقتدار کے ستونوں کو چیلنج کرنے والی فعال قوت بن چکی ہے۔ یہ خطہ آج تاریخ کے ایک نئے موڑ پر کھڑا ہے۔ جہاں عوامی بغاوتیں سماجی و ریاستی ڈھانچوں کی از سرِ نو تشکیل کے امکانات کو جنم دے رہی ہیں۔
انڈونیشیا میں 25 اگست کو پارلیمانی اشرافیہ کی شاہانہ مراعات‘ بالخصوص 50 ملین روپیہ کے متنازعہ ہاؤسنگ الاؤنس کے خلاف بھڑکنے والے مظاہرے چند ہی دنوں میں 32 صوبوں تک پھیل گئے۔ چھ ہفتوں تک جاری رہنے والی اس تحریک میں درجنوں ہلاکتوں اور لاپتہ مظاہرین کے باوجود عوامی مزاحمت کی شدت نے حکومت کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔
یہ احتجاج بظاہر ایک ہاؤسنگ الاؤنس کے خلاف ردِعمل کے طور پر سامنے آئے لیکن حقیقت میں یہ ایک گہری معاشی اور سیاسی بے چینی کا اظہار ہے۔ ممبرانِ پارلیمنٹ کو دی جانے والی شاہانہ مراعات نے اس تلخ حقیقت کو عیاں کر دیا کہ حکمران اشرافیہ عوام کی غربت اور بدحالی سے مکمل طور پر بے حس ہے۔ عوامی بغاوت میں شدت اُس وقت آئی جب ایک نوجوان مزدور‘ موٹر سائیکل ٹیکسی ڈرائیور ’عفان‘ پولیس کی گاڑی تلے کچل کر مارا گیا۔ یہ واقعہ پورے جابرانہ نظام کا اظہار بن ہے جہاں محنت کشوں کی جان کی کوئی وقعت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد پولیس اور عوام کے درمیان ٹکراؤ بڑھتا چلا گیا۔ اقوام متحدہ نے ان احتجاجوں میں طاقت کے غیر متناسب استعمال کی فوری تحقیقات پر زور دیا جبکہ انسانی حقوق کی تنظیم ”کنٹراس“ نے بیس سے زائد لوگوں کے لاپتہ ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بازیاب کروانے کا مطالبہ کیا ہے۔
حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لیے سکولوں اور دفاتر کو بند کر کے آن لائن کلاسز اور ورک فرام ہوم کی پالیسی اپنائی۔ تاکہ عوامی نقل و حرکت کو محدود کیا جا سکے۔ صدر پرابووو سوبیانتو نے ابتدا میں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے مظاہرین کو ”غدار“ اور ”دہشت گرد“ کہا۔ لیکن بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ نے بالآخر اسے پسپائی پر مجبور کر دیا۔ چند مراعات ختم کرنے، عفان کے قتل کی تحقیقات کا اعلان کرنے اور ذمہ دار پولیس افسر کو برطرف کرنے جیسے اقدامات اسی دباؤ کا نتیجہ تھے۔ مگر عوامی ردِعمل نے واضح کر دیا کہ یہ محض ”کاسمیٹک ریفارمز“ ہیں۔ کیونکہ ان اقدامات سے نہ فوجی مداخلت کم ہو گی اور نہ ہی معاشی ناانصافی۔
ماضی میں انڈونیشیائی ریاست نے ہر بڑے عوامی احتجاج کو منتشر کرنے کے لیے لسانی اور نسلی تضادات کو ہوا دی ہے۔ مئی 1998ء کی تحریک اس کی بڑی مثال ہے۔ جب سہارتو کے خلاف ابھرتی بغاوت کو کمزور کرنے کے لیے چینی نژاد آبادی پر حملے کرائے گئے۔ یہ حکمت عملی اس وقت وقتی طور پر کسی قدر کارگر ثابت ہوئی کیونکہ اس نے عوام کے غصے کو اصل ہدف سے ہٹا کر ایک مصنوعی اور رجعتی تعصب کی طرف موڑ دیا۔ لیکن اس بار صورتحال یکسر مختلف ہے۔ آج عوام براہِ راست فوج اور ریاستی اشرافیہ کے خلاف کھڑے ہیں اور نسلی منافرت کو مسترد کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک کسی ایک بھی چینی نژاد انڈونیشیائی پر حملے کی خبر سامنے نہیں آئی۔ بلکہ اس کے برعکس ایک نیا نعرہ ”عوام عوام کا خیال رکھیں“ (#PeopleLookingAfterPeople) سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ جو تحریک کی طبقاتی یکجہتی کا مظہر ہے۔
گہرائی میں دیکھیں تو یہ طویل عرصے کے ریاستی جبر، اشرافیہ کی کرپشن، فوج کی سیاست میں مداخلت، مذہبی انتہا پسندی، معاشی ناہمواری اور بیروزگاری کے خلاف ایک ہمہ جہت بغاوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مطالبات کی منظوری نے عوام کو مطمئن نہیں کیا اوراب وہ پارلیمنٹ کوہی تحلیل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یوں عوام اب محض اصلاحات نہیں بلکہ بنیادی تبدیلی کے متلاشی ہیں اور اگر ریاست نے طاقت اور وقتی وعدوں کے ذریعے اس غصے کو دبانے کی کوشش کی تو تحریک نئی جہت اور مزید وسعت اختیار کر سکتی ہے۔
انڈونیشیا کی موجودہ عوامی تحریک کو سمجھنے کے لیے اس کی تاریخ پر نظر ڈالنا ناگزیر ہے۔ یہ ملک جس کی جغرافیائی حیثیت بحرالکاہل اور بحر ہند کے بیچ عالمی تجارتی راستوں پر قائم ہے‘ ہمیشہ سامراجی طاقتوں کے لیے پرکشش رہا۔ ڈچ نو آبادیات سے لے کر جاپانی قبضے اور پھر آزادی تک‘ ہر دور میں انڈونیشیا کے عوام نے استحصال اور جبر کا سامنا کیا۔ لیکن حقیقی سوال یہ ہے کہ آزادی کے بعد بھی ان کی زندگیوں میں بنیادی تبدیلی کیوں نہ آ سکی؟ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آزادی کے بعد کی قیادت بالخصوص سوئیکارنو نے انقلابی نعروں اور سوشلسٹ لفاظی کے باوجود ریاستی ڈھانچے کو جوں کا توں باقی رکھا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈونیشیا (پی کے آئی) جو اس وقت دنیا کی دوسری بڑی کمیونسٹ پارٹی شمار ہوتی تھی‘ اصلاح پسندی اور مرحلہ واریت میں الجھ گئی اور سرمایہ دارانہ ریاست کو توڑنے کے بجائے اس میں ”عوام دوست عناصر“ شامل کرنے کے فریب میں مبتلا رہی۔ یہی خلا فوج اور مذہبی بنیاد پرست قوتوں کے لیے طاقت حاصل کرنے کا موقع بنا۔
1965ء میں سہارتو کا فوجی کُو دراصل امریکی سامراج اور مقامی اشرافیہ کے اتحاد کا نتیجہ تھا۔ جس نے کمیونسٹ تحریک کو بے رحمی سے کچل دیا۔ لاکھوں لوگوں کا قتل صرف ایک سیاسی طاقت کے طور پر کمیونسٹ پارٹی کا خاتمہ نہیں بلکہ پورے سماج کو رجعت اور پسپائی میں دھکیلنے کا عمل تھا۔ کمیونسٹوں اور ان کے ہمدردوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ 1965-66ء میں تقریباً 30 لاکھ لوگ قتل ہوئے جو اُس وقت کی 9 کروڑ آبادی کا تقریباً 3.3 فیصد تھے۔ یہ قتل عام نہ صرف فوجی طاقت اور بنیاد پرست گروہوں کے ذریعے کیا گیا بلکہ امریکی سامراج کی آشیر باد سے ”جمہوریت“ اور ”انسانی حقوق“ کے نام پر اس کی تشہیر بھی کی گئی۔ اس قتل عام نے انڈونیشیا میں فوج کو سب سے طاقتور ادارہ بنا دیا جس نے آنے والے عشروں میں اپنی گرفت مضبوط کی۔
1998ء میں سہارتو کے خلاف عوامی بغاوت نے اس آمریت کا خاتمہ تو کیا مگر فوجی بالادستی کا ڈھانچہ باقی رہا۔ جمہوریت کے نام پر جو نظام تشکیل پایا وہ محض ایک نقاب تھا۔ جس کے پیچھے وہی عوام دشمن طاقتیں موجود تھیں جنہوں نے ماضی میں بربریت کی تھی۔ یہی تسلسل آج بھی جاری ہے۔ جس کی زندہ مثال موجودہ صدر سوبیانتو ہے جونہ صرف خود سابقہ فوجی اہلکار ہے بلکہ سہارتو کا داماد ہونے کے ساتھ ساتھ فوج کابھرپور حمایتی بھی ہے۔ حالیہ پارلیمانی ترمیم، جس کے تحت حاضر سروس فوجی افسران کو سول اداروں میں تعینات کیا جا سکتا ہے، اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ دنیا کی اس تیسری نام نہاد سب سے بڑی ”جمہوریت“ کی جڑیں کس قدر کھوکھلی ہیں۔
بظاہر یہ پارلیمانی ترمیم ”نئے سکیورٹی خطرات“ کے خلاف کی گئی ہے۔ لیکن دراصل یہ فوج کو مزید سیاسی کنٹرول دینے کا ہتھکنڈہ ہے۔ مگر عوام اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ اصل مسئلہ کسی الاؤنس یا پالیسی تک محدود نہیں بلکہ ایک ایسے ریاستی ڈھانچے کا ہے جو دہائیوں سے فوجی آمریت اور سامراجی مفادات کا غلام رہا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں کامیابی کے بعد صدر سوبیانتو نے اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے قدامت پسند مذہبی گروہوں‘ بالخصوص ”اسلامک ڈیفنڈرز فرنٹ“ پر انحصار کیا۔ یہ وہ گروہ ہے جس پر جوکوی حکومت نے 2020ء میں پابندی لگائی تھی۔ لیکن سوبیانتو نے اسے دوبارہ سیاسی منظرنامے میں لا کر اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ یہ اتحاد محض اتفاقی نہیں بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ ریاستی اشرافیہ اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے مسلسل مذہبی بنیاد پرستی کا سہارا لیتی رہی ہے۔ اختلاف رائے کو دبانے اور سخت گیر پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے مذہبی کارڈ ان کے لیے ہمیشہ ایک آزمودہ طریقہ رہا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ اس سیاسی سودے بازی کا بوجھ کون اٹھا رہا ہے؟ سوبیانتو کے نمائشی اور مہنگے منصوبوں نے بجٹ کو شدید خسارے میں دھکیل دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں صحت، تعلیم اور مقامی حکومتوں کے فنڈز میں بھاری کٹوتیاں کی گئی ہیں۔ سماجی منصوبوں کا خاتمہ اور آسٹیریٹی براہِ راست غریب اور متوسط طبقے کو متاثر کر رہے ہیں۔ غریبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے‘ درمیانہ طبقہ سکڑ رہا ہے اور معاشی دباؤ تلے عوام کی اکثریت کچلی جا رہی ہے۔ درحقیقت یہی وہ پس منظر ہے جس نے حالیہ بغاوت کو جنم دیا ہے۔
27 سال پہلے سہارتو کی آمریت کے خلاف جو عوامی تحریک اٹھی تھی اس نے انڈونیشیا کی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے۔ لیکن آج کے حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے پیچھے وہی استحصالی ڈھانچہ بدستور موجود ہے۔ مالدار طبقات کی یہ جمہوریت محنت کش عوام کو حقیقی آزادی یا انصاف نہیں دے سکتی۔ یہ صرف سرمایہ دارانہ استحصال کو برقرار رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔
آج جب عوام غربت، بیروزگاری اور محرومی کے ہاتھوں برباد ہیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے دنوں میں مزید بغاوتیں ابھریں گی۔ انڈونیشیا کے نوجوانوں کے لیے ان کے پُرکھوں کے خون، قربانیوں اور ماضی کی جدوجہدوں میں اہم اسباق موجود ہیں۔ سوال یہ کہ محنت کشوں کی نئی نسل کیسے ان سے سیکھتے ہوئے عہد حاضر میں انقلابی قوت کی تعمیر کر سکتی ہے۔
