ظفر اللہ
ایک مرتبہ پھر وزیر خزانہ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ حفیظ شیخ کی جگہ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کو خزانے اور محصولات کا وزیر بنا دیا گیا ہے۔ یہ عمل ایک بار پھر پاکستانی سیاست اور معیشت میں بھونچال کی غمازی کرتا ہے۔ عمران خان حکومت کے پونے تین سالوں میں یہ چوتھا وزیر خزانہ ہے۔ پاکستانی معیشت کو بحرانی کیفیت سے نکالنے میں اسد عمر ناکام ہوا تو آئی ایم ایف سے ڈیل کے لئے آئی ایم ایف ہی کے نمائندے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو خزانے کا مشیر بنایا گیا۔ آئی ایم ایف جیسے اداروں کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں غربت، مہنگائی اور سماجی بربادی معمول بن جاتے ہیں۔ ان عالمی ساہو کاروں کو نہ صرف اپنے قرض کی واپسی کی ٹھوس ضمانت درکار ہوتی ہے بلکہ عالمی سامراجی گِدھوں (اجارہ دار کمپنیوں) کو منافع چوسنے کیلئے سہولتیں اور مراعات بھی درکار ہوتی ہیں جو معاشی اصلاحاتی ایجنڈے کی شرائط کی شکل میں مسلط کی جاتی ہیں اور ضرورت مند ملک کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔
بعض ماہرین معیشت کے نزدیک یہ عالمی مالیاتی ادارے غریب ممالک کیلئے معاشی اصلاحات سے زیادہ امیر اور سامراجی ممالک کے سیاسی اثر و رسوخ کے طور پر استعمال ہوتے ہیں‘ جو کہ اپنی جگہ پر درست بات ہے۔ مگر یہ دانشور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا جو حل پیش کرتے ہیں وہ بھی اپنی حقیقت میں سماجی ترقی کی بجائے انہیں اجارہ داریوں کے منافعوں میں ہوشربا اضافوں کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ ورلڈ بینک نے 2019ء میں پارٹنر ممالک کے ساتھ 62 ارب ڈالر کی شراکت داری کی ہے۔ جبکہ اس دوران براہ راست بیرونی سرمایہ کاری 659 ارب ڈالر کی ہوئی ہے۔ مگر دونوں صورتوں میں غربت میں خاتمے کی بجائے بدحالی، تفاوت اور تنگ دستی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ آخری تجزئے میں سرمایہ کاری کی شکل میں آنے والا ہر ایک ڈالر محنت کشوں کا کئی گنا خون چوس کر واپس جا تا ہے۔ اب آخر کار حفیظ شیخ کو بے تحاشہ مہنگائی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹا کر شوکت ترین کو انچارج بنا دیا گیا ہے۔ حفیظ شیخ کی تبدیلی بھی معمول سے ہٹ کر سیاسی کشمکش میں تیزی کی غمازی کرتی ہے۔ پاکستانی ریاست کے مختلف کلیدی حلقوں میں داخلی و خارجی معاملات پر جو دھڑے بندی اور سیاسی اختلافات ہیں وہ اس طرح کے انتظامی معاملات اور فیصلوں میں واضح طور پر نظر آ سکتے ہیں۔ حفیظ شیخ کی سینیٹ الیکشن میں شکست ایک صاف شفاف انتخابی عمل کا شاخسانہ نہیں تھی۔ اس ملک میں کوئی الیکشن (بالخصوص کسی اہم نشست پر) ”حقیقی مقتدرہ“ کی مداخلت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ مقتدرہ میں گہری خلیج کے ساتھ ساتھ عارضی طور پر طاقتوں کے توازن میں تبدیلی کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔
شوکت ترین ابھی ”متوقع وزیر خزانہ“ ہی تھا کہ اس نے اپنی ہی حکومت کی معاشی پالیسیوں پر بمباری شروع کر دی اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور گزشتہ تین سال کی معاشی پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ مگر سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اور کیا تریاق اور حل ہو سکتے ہیں؟ کرۂ ارض کے بیشتر حصوں پر ان سامراجی اداروں کا ایک سخت تسلط موجود ہے۔ اسد عمر نے وزیر خزانہ ہوتے ہوئے ”دوست ممالک“ سے امداد اور قرض کے متبادل پر کام کرنے کی کوشش کی تھی اور انجام ہمارے سامنے ہے۔ دراصل اس نظام میں رہتے ہوئے ان سامراجی اداروں کے مقابلے میں ”متبادل“ تلاش کرنے کا مطلب ڈائنوسار سے لڑنے کے لئے چوہوں کی خدمات حاصل کرنا ہے۔ بصورتِ دیگر سرمائے کی آمریت سے ٹکرانا پڑے گا جو نیو لبرل پالیسیوں کے علمبردار ان کٹھ پتلی حکمرانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ بلاول سے لے کر فضل الرحمان تک اور مریم نواز سے عمران خان تک سب اسی سرمایہ داری کے ثنا خواں ہیں اور بد قسمتی سے فی الحال حاوی سیاسی و سماجی منظرنامے پر کوئی متبادل توانا آواز موجود نہیں ہے۔
شوکت ترین بھی اسی نظام کا نمائندہ ہے۔ بھلا وہ کیسے ان سامراجیوں سے ٹکرا سکتا ہے۔ یا محض اختلاف بھی کر سکتا ہے۔ جبکہ ابھی آئی ایم ایف سے مزید ڈالروں کی اقساط جاری ہونا ہیں۔ وزیر خزانہ کی تبدیلی اور ترین کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید دراصل طوفانی مہنگائی اور غربت میں مسلسل اضافے کے ممکنہ سخت اور دھماکہ خیز ردعمل کو زائل کرنے کا ایک پرانا طریقہ کار ہے۔ کیونکہ معاشی بحران بہت گہرا ہے جو محض انتظامی مسئلہ نہیں بلکہ اس کی جڑیں سرمایہ داری کے عمومی نامیاتی بحران میں پیوست ہیں۔
مارکسسٹوں کی سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات پر ایک واضح پوزیشن یہی ہے کہ ہم روز مرہ کی اصلاحات، جن سے محنت کشوں کی زندگیاں کچھ سہل ہوں، کے مخالف نہیں ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سرمایہ داری میں اصلاح پسندی کے نظریات کی کوئی مستقل گنجائش نہیں ہے۔ نہ ہی سرمایہ داری کی کوئی انسانی شکل ممکن ہے۔ اصلاحات بھی جلد یا بدیر اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ ایک وقت میں محنت کش عوام کو جو کچھ حکمران اصلاحات کے ذریعے دیتے ہیں دوسرے وقت میں وہ سب واپس ہو جاتا ہے۔ یہ سرمایہ داری کا غلیظ گھن چکر ہے جس کو توڑ کر کے ہی محنت کش عوام کو اس اذیت سے مستقل نجات مل سکتی ہے۔ مگر سرمائے کے دانشواروں کا المیہ ہے کہ وہ سرمایہ داری کی حدود سے باہر کسی نظام کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یا کم از کم سوچنا نہیں چاہتے۔ اسی پس منظر میں وہ اسی نظام کو بہتر بنانے کے لئے گڈ گورننس، ادارہ جاتی اصلاحات اور ان جیسے دوسرے سطحی اور کھوکھلے فارمولوں کے نسخے تجویز کرتے رہتے ہیں اور اگر ان نسخوں پر بالفرض سنجیدگی سے عملدرآمد شروع کیا بھی جائے تو حتمی طور پر وہ ایک انقلابی طریقہ کار اور لائحہ عمل کے متقاضی ہوتے ہیں۔
اسلام آباد کے ایک تحقیقاتی ادارے اور تھنک ٹینک ’پائیڈ‘ (PIDE)کے ایک سینئر ریسرچر ڈاکٹر ادریس خواجہ نے روزنامہ ڈان کے 25 اپریل 2021ء کے شمارے میں ”نیو گروتھ ماڈل“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا ہے جو کہ بنیادی طور پر ادارے کے ایک تحقیقی مقالے ”تیز اور مستحکم ترقی اور بڑھوتری کیلئے ’پائیڈ‘ کا صلاحاتی ایجنڈا“ کا خلاصہ ہے۔ یہ مقالہ سلمان شاہ، شاہد کاردار اور دوسرے چوٹی کے بورژوا معاشی ماہرین کی ایک مشترکہ تصنیف ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ”60ء کی دہائی کا ڈاکٹر محبوب الحق کا گروتھ ماڈل‘ انفراسٹرکچر وغیرہ میں سرمایہ کاری پر زور دیتا تھا۔ ہمارا ماڈل اس ڈھانچے کو استعمال کرتے ہوئے اس کو چلانے کے طریقہ کار پر فوکس کرتا ہے… کاروبار اور سرمایہ کاری میں اضافے کی سب سے بڑی رکاوٹ قانونی پیچیدگیاں، لائسنس اور این او سی لینے میں رکاوٹیں، نوکر شاہی کی طرف سے مشکلات اور ریاستی اداروں کی سست روی ہے… نوجوانوں کو روزگار مہیا کرنے اور قرضوں کی واپسی کیلئے دہائیوں تک 7 سے 9 فیصد کی سالانہ شرح ترقی درکار ہے… طویل اور متروک قانونی طریقہ کار سرمایہ کاری میں بڑی رکاوٹ ہیں… ملک کو ایک فعال ریاست میں بدلنے کی ضرورت ہے جس میں مختلف ریاستی اداروں کا کردار واضح ہو کہ کس نے کیا کرنا ہے…سول سروس، عدلیہ، ریگولیٹری باڈیوں اور لوکل گورنمنٹ جیسے ڈھانچوں کو معیشت کا سہولت کار بنانے کیلئے مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے… مختلف اداروں میں پروفیشنل سٹاف تعینات کیے جائیں جس میں افسر شاہانہ رکاوٹیں نہ ہوں اور وہ آزادانہ فیصلے کر سکیں… تمام قوانین اور طریقہ ہائے کار میں تیز رفتار معاشی سرگرمی کیلئے ترامیم کرنے کی ضرورت ہے… “
مختصراً یہ کہ جو تجاویز اس ڈاکومنٹ میں دی گئی ہیں وہ پورے کے پورے ریاستی اور معاشی ڈھانچے اور اداروں کی از سر نو تشکیل کی سفارش کرتی ہیں جو بنیادی طور پر ایک انقلابی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں سرمائے کے یہ دانشور تسلیم کر رہے ہیں کہ یہاں ریاست کے تمام ادارے اتنے بوسیدہ اور متروک ہیں کہ ان کے بلبوتے پر معمولی اصلاحات بھی ممکن نہیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ بہتری کیلئے اداروں میں اصلاحات کا فارمولا دیتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ ایک بحران زدہ نظام کی بنیاد پر صحت مند ادارے تعمیر نہیں کیے جا سکتے۔ اس لئے سارے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ آخری تجزیے میں معاشی طرز پیداوار اور طریقہ تقسیم غالب عناصر ہیں جن کے بلبوتے پر ریاستی اور سماجی ڈھانچوں کی تشکیل ہوتی ہے۔
اس ریاست اور سماج کی بربادی بحران زدہ سرمایہ داری کا نتیجہ ہے جس نے یہاں کے محنت کش اور غریب عوام کو شل کر رکھا ہے اور زیادہ پسماندہ پرتوں کو لمپن بنا دیا ہے۔ محنت کش طبقے کے کسی بڑے انقلابی تحرک اور سیاسی متبادل کی عدم موجودگی میں سماج کی ایسی پرتیں جرائم اور مذہبی رجعت پسندی کی طرف جھکاؤ اختیار کر جاتی ہیں جہاں وہ انتہائی رجعتی اور ردِ انقلابی طریقوں سے سماج اور ریاست سے انتقام لے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ایک انتہائی رجعتی اور جنونی مذہبی گروہ کے حالیہ مظاہرے اس عمل کی واضح نشاندہی کرتے ہیں کہ محنت کش طبقے اور نچلے درمیانے طبقے کی پسماندہ پرتوں پر رجعت کتنی حاوی ہے اور خود ریاست کے اندر کتنا انتشار اور ٹوٹ پھوٹ موجود ہے۔ اور یہ سب کچھ ایک ایسے فرقے سے وابستہ افراد کر رہے ہیں جو ماضی میں دوسرے فرقوں کی نسبت پر امن سمجھا جاتا تھا۔ اس متشدد رجحان کا گڑھ بھی مرکزی اور شمالی پنجاب کے علاقے بنے ہیں۔ اس رجحان کو پنجاب میں ن لیگ کے ووٹ بینک کو توڑنے کیلئے ریاست کی آشیرباد سے ابھارا گیا تھا لیکن تشویش ناک بات یہ ہوئی کہ یہ 2018ء کے الیکشن میں چھٹی سب سے زیادہ ووٹ لینے والی قوت کے طور پر سامنے آیا ہے اور حالیہ ضمنی الیکشنوں میں تحریک انصاف کے ووٹ بھی کھا گیا ہے۔ بنیادی طور پر محنت کشوں اور نوجوانوں کی وسیع اکثریت کی کسی بڑی تحریک میں عدم موجودگی اس طرح کے فسطائی رجحانات کے پنپنے کا موجب ہے۔ جس طرح کھڑا پانی بدبودار اور متعفن ہو کر مردار آبی حیات کو سطح پر لے آتا ہے۔ یہ سماجی جمود اور سکوت کے ناگزیر نتائج ہیں۔ لیکن انتشار اور اضطراب سماج کی کوکھ میں پل رہا ہے جو دھماکہ خیز انقلابی شکلوں میں اپنا اظہار کر سکتا ہے۔ تحریک میں تاخیر کا عرصہ ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ اذیت ناک ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یہاں محنت کشوں اور نوجوانوں کا کوئی بڑا تحرک ان متروک اور رجعتی رجحانات کو بھاپ کی طرح ہوا میں تحلیل کر دے گا۔ ایسی کوئی انقلابی تحریک عوام کی امیدوں کا مرکز و محور بن کر پورے نظام کو چیلنج کرنے کی طرف بڑھے گی۔