البرتو جیوانیلی

جولائی کے مہینے میں انقلابیوں کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ تاریخ کے ایک نہایت اہم واقعے کو یاد کریں اور اس کا تجزیہ کریں۔ 14 جولائی 1789ء کو فرانس کے عوام نے باستیل قلعے پر دھاوا بولا اور یوں ایک ایسا انقلاب شروع ہوا جو انسانیت کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے ۔ نہ صرف اپنے سیاسی کردار کے باعث بلکہ آزادی، سلامتی اور نجی ملکیت کے حقوق کو فروغ دینے والے اپنے تاریخی ورثے کی بدولت بھی۔ اسی واقعے کے نتیجے میں 26 اگست 1789ء کو فرانس میں ’’انسانی و شہری حقوق کا اعلامیہ‘‘ منظور کیا گیا۔

روایتی طور پر انقلابِ فرانس ایک تاریخی دور (Ancien Régime) کے اختتام اور ایک نئے دور یعنی جدید عہد کے آغاز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جب 1789ء میں یہ تصادم شروع ہوا تو بادشاہ لوئی شانزدہم یہ سمجھتا تھا کہ وہ خدائی حق کے تحت تمام فرانسیسیوں پر حکومت کرتا ہے اور بطور مطلق العنان بادشاہ اسے کسی کے سامنے جوابدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ خاص طور پر عوام کے سامنے تو بالکل بھی نہیں۔

تاہم بادشاہ ایک خوش باش قسم کا انسان تھا جس کی شخصیت میں تقلید پسندی اور آسانی سے متاثر ہو جانے کا رجحان موجود تھا۔ جس سے اس کے مشیر اور بعض اوقات اس کی بیوی ملکہ میری انطوانیت بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی تھی۔

1788ء میں ریاستی مجلس (Estates-General) کا اجلاس بلایا گیا جس میں تین طبقات (مذہبی علما، اشرافیہ اور عوام) کے نمائندے اکٹھے ہوئے تاکہ ملک کے شدید مالیاتی بحران کا حل تلاش کیا جا سکے۔ عوام نے مطالبہ کیا کہ ہر نمائندہ انفرادی طور پر ووٹ دے۔ بجائے اس کے کہ پرانے رواج کے مطابق طبقاتی بنیادوں پر ووٹ دیا جائے۔

بادشاہ نے اس مطالبے کو خاص اہمیت نہ دی۔ لیکن 14 جولائی 1789ء کو جب مشتعل عوام کے ہجوم نے پیرس کے مضافات میں واقع شاہی قلعہ باستیل پر قبضہ کر لیا تو لوئی شانزدہم نے حیرت سے پوچھا: ’’کیا یہ بغاوت (Revolt) ہے؟‘‘ جس پر اس کے ایک وزیر نے جواب دیا: ’’نہیں عالی جاہ! یہ انقلاب (Revolution) ہے۔‘‘

باستیل پر عوام کا دھاوا

صورتحال 13 جولائی کو ہی قابو سے باہر ہو چکی تھی۔ شہر بھر میں انتشار پھیل چکا تھا۔ مشتعل عوام کا ہجوم سینٹ لازار جیل کی طرف بڑھا۔ جہاں قرض دار قیدی رکھے گئے تھے۔ انہوں نے عمارت پر دھاوا بول دیا اور تمام قیدیوں کو رہا کروا لیا۔

بالآخر منگل 14 جولائی کو انقلاب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ صبح سویرے یہ افواہ پھیل گئی کہ 30,000 رائفلیں ہوٹل دیز انوالید (Hotel des Invalides) میں ذخیرہ کی گئی ہیں۔ جو شہر کے مغرب میں واقع ایک فوجی ہسپتال ہے۔ اگرچہ انوالید کی حفاظت کے لیے کئی توپیں نصب تھیں۔ لیکن یہ عمارت نسبتاً آسانی سے قبضے میں آ گئی کیونکہ وہاں موجود محافظ سپاہیوں نے کوئی مزاحمت نہ کی۔

محض چند میٹر کے فاصلے پر نواب دے بیزنوال (Baron de Besenval) کی قیادت میں کئی گھڑ سوار، پیادہ اور توپ خانہ رجمنٹیں خیمہ زن تھیں اور احکامات کی منتظر تھیں۔ بیزنوال نے تمام سپاہیوں کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ بغاوت کو کچلنے کے لیے مارچ کرنے پر آمادہ ہیں؟

جواب متفقہ اور زوردار تھا: ’’بالکل بھی نہیں!‘‘ چنانچہ عمارت مشتعل عوام کے ہاتھ آ گئی۔ جنہوں نے وہاں سے رائفلیں اور بارہ توپیں اپنے قبضے میں لے لیں۔ بہت سے مؤرخین کے مطابق یہ اس دن کا فیصلہ کن لمحہ تھا۔ وہ وقت جب لوئی شانزدہم پیرس کی جنگ ہار گیا۔

باستیل پر حملہ انقلاب کا محض پہلا قدم تھا۔ جس کے بعد کئی دیگر واقعات پیش آئے۔ ان واقعات کے نتائج، جنہوں نے برسوں تک فرانس کو ہلائے رکھا اور جن میں بعض اوقات شدید تشدد اور افراتفری دیکھی گئی، خاصے پیچیدہ ہیں اور آج بھی ان کی گونج سنائی دیتی ہے۔

انقلابی عمل کے اہم ترین نتائج میں سے ایک بادشاہت کا خاتمہ اور مذہبی علما و جاگیردار اشرافیہ کے مراعات کا اختتام تھا۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہ تھا۔ شاہی جوڑے کی گردنیں اڑانے کے بعد ملک کو پڑوسی یورپی طاقتوں سے جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ جو پہلی اتحادی فوج (1792-1797ء) کے طور پر اکٹھی ہوئی تھیں اور انقلابی فرانس کے خلاف اس مقصد سے جنگ چھیڑ دی تھی کہ بادشاہت کو بحال کیا جا سکے۔

اس کے باوجود انقلابِ فرانس ایک گہری تبدیلی کا نقطہ آغاز بن گیا۔ وہ تبدیلی جس نے اس جاگیردارانہ نظام کو الٹ کر رکھ دیا جو اب بھی کئی ممالک میں غالب تھا جہاں انقلابی عمل نے ابھی جڑیں پکڑنا تھیں۔ اور یہ سلسلہ صرف یورپ تک محدود نہ رہا۔ امریکہ میں ہسپانوی نوآبادیات نے فرانسیسی انقلابی خیالات سے تحریک حاصل کی اور اپنی آزادی کی جدوجہد کو جلا بخشی۔ چند برس بعد خود ہسپانوی سلطنت کو بھی انقلابی مراحل سے گزرنا پڑا۔

انقلابِ فرانس کی لائی ہوئی بے شمار تبدیلیوں میں سے اہم ترین تبدیلی پیداوار کے طریقہ کار میں تھی۔ جس میں رسد و طلب کے قوانین کو نافذ کیا گیا اور معیشت میں ریاستی مداخلت کو مسترد کر دیا گیا۔

اس نئے سماجی و معاشی سیاق و سباق میں ابھرتی ہوئی بورژوازی نے حکمران طبقے کے طور پر اشرافیہ کی سابقہ جگہ سنبھال لی۔ پہلی بار عام اور نچلے طبقات کے لوگوں کو کچھ حقوق انقلابِ فرانس کی بدولت حاصل ہوئے۔

مشہور نعرہ ’’آزادی، مساوات، بھائی چارہ… یا موت‘‘ وہ راستہ تھا جس نے انسانی اور شہری حقوق کا پہلا اعلامیہ (26 اگست 1789ء) متعارف کرایا۔ جو آج کے انسانی حقوق کے عالمی منشور کے لیے بھی تحریک کا باعث بنا۔

پہلی بار قوانین تمام افراد پر یکساں طور پر لاگو ہونے لگے۔ خواہ ان کا سماجی پس منظر، عقیدہ یا نسل کچھ بھی ہو۔ اسی طرح قرض کی عدم ادائیگی پر قید کا قانون ختم کر دیا گیا۔ تاہم یہ حقوق خواتین کو حاصل نہ ہو سکے۔ مثلاً انہیں ووٹ دینے کا حق نہیں دیا گیا۔ اگرچہ ایک نئے سماج کی تشکیل میں ان کا کردار پہلے سے زیادہ فعال ضرور ہوا۔

یہ تمام عمل 3 ستمبر 1791ء کو فرانس کے پہلے آئین کے اعلان پر منتج ہوا۔ یہ ایک ایسا چارٹر تھا جو انقلابی عمل کے دوران حاصل کیے گئے حقوق کی ضمانت دیتا تھا اور نئی معیشت و سماج کی لبرل روح کی عکاسی کرتا تھا۔

فرانسیسی انقلاب کا ایک اور بڑا نتیجہ مذہب کی ریاست سے علیحدگی تھی۔ جو جدید سیکولر ریاست کی طرف ایک بنیادی قدم تھا۔ کلیسا اور مذہبی علما یا پادریوں کی املاک کو ضبط کر لیا گیا اور ان کے سیاسی و سماجی اثر و رسوخ کو محدود کر دیا گیا۔

چرچ کی جانب سے عوام سے حاصل کی جانے والی تمام آمدن ریاست کو منتقل کر دی گئی اور چرچ و جاگیردار اشرافیہ کی تمام زمینیں اور جائیدادیں ان متمول کسانوں اور بورژوا افراد کو بیچ دی گئیں جو انقلابی نظریات سے وفادار تھے۔

1795ء تک فرانس کا نظم و نسق ڈائریکٹری کے ہاتھ میں آ چکا تھا۔ جو پانچ افراد پر مشتمل ایک ایگزیکٹو ادارہ تھا۔ جبکہ قانون سازی کا اختیار دو ایوانوں کے پاس تھا: ’’پانچ سو کی کونسل‘‘ اور سینیٹ۔

21 جنوری 1793ء کو بادشاہ پر قوم اور انقلاب سے غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ جس کے بعد گیلوٹین کے ذریعے اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا گیا۔

مارکسزم نے انقلابِ فرانس کا مطالعہ ایک ایسے سیاسی اظہار کے طور پر کیا جس کے ذریعے بورژوازی نے اٹھارہویں صدی میں معاشی و سماجی بالادستی حاصل کی۔ جو بنیادی طور پر اس عمل کا نتیجہ تھا جو قرونِ وسطیٰ کے بحران کے خاتمے سے شروع ہوا تھا۔ انقلاب نے جاگیردار اشرافیہ کو شکست دی اور سرمایہ داری کے لیے راہ ہموار کی۔ یوں یہ ایک سماجی مثال بن گیا جس میں سرمایہ دارانہ پیداوار کے طریقے نے ایک ایسا سیاسی نظام جنم دیا جو بورژوا طبقے کی خدمت کرتا تھا۔

اسی بنیاد پر ’’بورژوا انقلاب کی ناگزیریت‘‘ کا تصور سامنے آیا۔جو لبرل مؤرخین کی سوچ کے برعکس کوئی آخری منزل نہیں تھی بلکہ تاریخ کا ایک ایسا مرحلہ تھا جو بالآخر ترقی یافتہ سرمایہ داری کے تحت پرولتاریہ اور بورژوازی کے تصادم کے نتیجے میں پیچھے رہ جائے گا۔

مارکس کو خاص طور پر جیکوبن ازم اور روبسپیئر میں گہری دلچسپی تھی۔ اس کا ماننا تھا کہ یہ جیکوبنوں کی خام خیالی تھی کہ وہ سماجی و معاشی ترقی کی ایک مخصوص سطح پر پہنچے بغیر سیاسی برابری قائم کر سکتے ہیں۔ ایک جمہوری ریاست صرف اسی وقت ممکن ہے جب بورژوا نظام کی عام سماجی نابرابریوں یا تفاوتوں کو دور کیا جائے۔ بہرحال جیکوبن دورِ حکومت مستقبل میں پرولتاری اصولوں کے تحت چلنے والے معاشرے کی ایک پیشگی شکل یا تجربہ تھا۔ لیکن ایسے معاشرے کی تعمیر تبھی ممکن ہے پیداواری قوتیں اس کی اجازت دیں۔

ماکسمیلیاں روبسپیئر

لینن کو انقلابِ فرانس کے دو پہلوؤں نے متاثر کیا: (1792ء تا 1795ء بادشاہ و ملکہ کو سزائے موت، انقلابی جنگ، جبر اور اصلاحات وغیرہ پر مبنی) کنونشن کے دور کا انقلابی جوش و عمل اور انقلابی عمل میں عوام کی شمولیت۔ یہ دونوں پہلو لینن کی اپنی نظریاتی اور عملی جدوجہد سے براہِ راست تعلق رکھتے تھے۔ انقلاب کے اسباب کے بارے میں لینن نے کہا کہ انقلابی عمل کے دوران معاشی و سماجی بنیاد اور سیاسی بالائی ڈھانچے (سپرسٹرکچر) دونوں میں بیک وقت تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ طبقاتی تضادات پھٹ پڑے‘ اگرچہ ابتدا میں بورژوازی کو کسانوں اور نچلے شہری طبقات کی حمایت حاصل تھی۔ انقلاب نے جاگیرداری کو توڑ کر سرمایہ داری کو مستحکم کیا۔ لیکن بالآخر بورژوازی خود ردِ انقلابی بن گئی تاکہ انقلاب پر اپنی گرفت برقرار رکھ سکے۔

1792ء میں عوام نے انقلاب کو آگے بڑھاتے ہوئے تیولری محل پر دھاوا بولا اور یوں کنونشن کا دور شروع ہوا۔ اس کے بعد بادشاہ کی سزائے موت اور دورِ دہشت (Reign of Terror) کے مراحل آئے۔ جیکوبنوں کی انقلاب پسندی کے باوجود اس مرحلے پر بھی بورژوازی کا غلبہ برقرار رہا۔ لینن کے مطابق روبسپیئر خود بھی ایک بورژوا انقلابی تھا۔ 1794ء میں جب ردِانقلابی خطرہ ٹل گیا تو بورژوازی اور کسانوں کے درمیان اتحاد قائم ہوا۔ جس سے ڈائریکٹری کا مرحلہ شروع ہوا۔

لینن نے نپولین کے عہد کو بھی انقلاب کا حصہ سمجھا۔ کیونکہ یہ وہ مرحلہ تھا جب بورژوازی نے اپنی طاقت کو پوری طرح سے مستحکم کیا۔ یہ نقطہ نظر اب مورخین میں عام ہو چکا ہے۔ جو اکثر ان دونوں ادوار (انقلاب اور نپولینی دور) کا مطالعہ اکٹھے کرتے ہیں۔ 1830ء کے انقلابات کو اعلیٰ یا امیر بورژوازی کا حتمی ابھار سمجھا جا سکتا ہے۔

عظیم انقلابِ فرانس نے لیون ٹراٹسکی کی سوچ پر بھی گہرا اثر ڈالا۔ اس نے کہا کہ سانس کولوت (یعنی عوام سے اٹھنے والے انقلابیوں) نے صرف طبقاتی نفرت کی بنا پر نہیں بلکہ سیاسی اور اخلاقی یقین کے ساتھ بادشاہت کو شکست دی۔ اس نے یہ بات اپنی عسکری تحریروں میں بھی بیان کی کہ (انقلابِ روس کے معاملے میں) سامراجی بورژوازی یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ کیسے ایک ایسا ملک جو پہلی عالمی جنگ سے تباہ ہو چکا تھا وہاں مزدور اور کسان نہ صرف اقتدار میں آئے بلکہ پچاس لاکھ کی انقلابی فوج تشکیل دی اور 14 سامراجی افواج کے محاصرے کو توڑ کر فتحیاب ہوئے۔

جب ٹراٹسکی نے سرخ فوج (Red Army) کی بنیاد رکھی تو اس نے سپاہیوں سے کہا کہ اب وہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ہراول دستے کا حصہ ہیں۔ وہ کیچڑ، خون اور برف سے بھری خندقوں میں لڑے۔ لیکن ڈٹے رہے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ تاریخ کا دھارا بدلنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کے لیے سیاسی و اخلاقی یقین‘بندوق جتنا ہی اہم تھا۔

انقلابِ فرانس اور انقلابِ روس‘ دونوں انقلابات نے دنیا کی تاریخ کا رْخ بدل دیا۔ ان کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اکیسویں صدی کے انقلابات کی کامیابی کے لیے خود کو تیار کر سکیں۔ اور یہ کوئی خیالی تصور (Utopia) نہیں ہے۔ بلکہ غیر حقیقی اور خیالی بات تو یہ ہے کہ ’’اب کبھی کوئی انقلاب نہیں آئے گا۔‘‘ جب تک بادشاہ لوئی شانزدہم کا سر گیلوٹین کے نیچے نہیں آ گیا‘ وہ بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا تھا!