آصف رشید
یوکرائن کی خفیہ ایجنسی ایس بی یو کی طرف سے ایک غیرمعمولی قسم کے ڈرون حملے میں روس کے بیشتر انتہائی قیمتی بمبار طیاروں کی تباہی کے واقعے کے بعد روس یوکرائن جنگ ایک زیادہ نازک اور خطرناک مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ یوکرائن کی جانب سے روس کے اندر بجلی اور ریلوے کے نظام اور انفراسٹرکچر کو سبوتاژ کرنے کی کاروائیاں بھی کی گئی ہیں۔ ان حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوکرائن‘ روس کے مقابلے میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ جس میں اسے بڑی یورپی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ انتہائی صورت میں نوبت ایک ایٹمی جنگ تک جا سکتی ہے۔ ان سطور کی تحریر کے وقت روس کی جانب سے یوکرائن میں میزائلوں اور ڈرون جہازوں سے بڑے پیمانے کے جوابی حملے کیے جا رہے ہیں۔ ایسے تازہ حملے میں روس نے 500 ڈرون جہازو ں کا استعمال کیا ہے۔ اس حوالے سے یہ اس جنگ کا سب سے بڑا ڈرون حملہ ہے۔ یوکرائن کی جانب سے بھی ایسے حملے جاری ہیں۔
جون 2025ء کے پہلے ہفتے میں 120 یوکرائنی ڈرون جہازوں (جن کو ٹرکوں میں روس سمگل کیا گیا تھا) کے ذریعے ایک بڑی منظم کاروائی میں پانچ روسی ہوائی اڈوں پر حملہ کیا گیا۔ ان میں سے دو ہوائی اڈے یوکرائن سے ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ اس آپریشن کو ’سپائیڈر ویب‘ (مکڑی کا جالہ) کا نام دیا گیا تھا۔ یہ اس جنگ میں روس کی سرزمین پر اب تک کا سب سے بڑا ڈرون حملہ تھا۔ جس کے لئے ڈیڑھ سال تک منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
یوکرائنی خفیہ ایجنسی ایس بی یو کی جاری کردہ ویڈیوز اور رپورٹ کے مطابق روس کے 40 سے زائد جنگی اور جاسوسی طیارے تباہ ہوئے ہیں۔ جو روس کے بمبار جہازوں کا تقریباً 30 فیصد بنتا ہے۔ ان دعووں میں مبالغہ آرائی کا عنصر شامل ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ روس کے لئے بہت بڑا دھچکا اور ہزیمت ہے۔ روسی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے ایک درجن کے قریب طیارے آگ کی لپیٹ میں آئے ہیں۔ یوکرائنی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر اس ’شاندار کامیابی‘ کا فخریہ انداز میں اعلان کیا کہ یہ ”ایک سال، چھ ماہ اور نو دن کی طویل منصوبہ بندی کے بعد ایک کامیاب کاروائی تھی۔“ ایسے شواہد موجود ہیں کہ نیٹو کو اس کاروائی کا پیشگی علم تھا۔
اس طرز کا پیچیدہ آپریشن، جسے ایک طویل وقت میں تیار کیا گیا تھا، مغربی طاقتوں سے حاصل کردہ حساس معلومات کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ یوکرائن اور نیٹو کے فوجی اور انٹیلی جنس حکام مسلسل قریبی رابطے میں رہتے ہیں اور صدر زیلنسکی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر نیٹو ممالک کے سربراہان حکومت کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
بنیادی طور پر اس کاروائی کا مقصد روس کی اکڑ اور اعتماد کو توڑنا اور جنگ بندی کے مذاکرات میں بہتر بارگیننگ پوزیشن حاصل کرنا تھا۔ ٹرمپ اپنے سوشل میڈیا پیغامات میں ایسے اشارے دے چکا تھا کہ روس کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا ورنہ حالات کی تمام تر ذمہ داری پیوٹن پر عائد ہو گی۔ یوکرائنی حملے کے اگلے دن ہی روس اور یوکرائن کے درمیان براہ راست مذاکرات کا دوسرا مرحلہ استنبول میں شروع ہوا جو محض ایک گھنٹے بعد بغیر کسی خاطر خواہ نتیجے کے ختم ہو گیا۔
ماسکو نے اس حملے کو نیٹو کی طرف سے روس کے سٹریٹجک اہداف پر حملہ قرار دیا ہے اور اس کا بھرپور جواب دینے کا عندیہ دیا ہے۔ روسی وزارت دفاع نے محتاط انداز میں بیان دیا کہ کچھ ہوا بازی کے آلات میں آگ لگ گئی تھی اور یہ کہ تمام دہشت گرد حملوں کو پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس حملے کے بعد پیوٹن پرشدید دباؤ موجود تھا جس کے تحت بھرپور جواب دینا اس کی مجبوری بن گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ یوکرائن اور نیٹو کے تجربہ کار پالیسی سازوں کو نتائج کا پیشگی اندازہ یقینا ہو گا۔ حالات اگر زیادہ سنگین رخ اختیار کرتے ہیں تو روس کی جانب سے یوکرائن سے باہر نیٹو کے سٹریٹجک اہداف پر حملوں کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا (بالخصوص اگر مغرب کی جانب سے یوکرائن کو جدید نوعیت کے دور مار میزائل وغیرہ دئیے جاتے ہیں)۔ اس وقت جوہری ہتھیاروں کے استعمال سمیت جنگ کے مزید بڑھنے اور پھیلنے کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔
اس سب میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیٹو کو یہ خطرہ مول لینے کی ترغیب کون سی چیز دے رہی ہے؟ اس جنگ کی تاریخ اور پس منظر ہی میں اس سوال کا جواب پنہاں ہے۔
مغربی سامراج سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے مشرقی یورپ میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لئے کوشاں رہا ہے۔ یوکرائنی عوام میں روس (جسے وہ تاریخی طور پر ایک جارح اور سامراجی قوت کے طور پر دیکھتے ہیں) کے خلاف پائے جانے والے غم و غصے کے تحت مغرب 2014ء سے یوکرائن میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں کامیاب رہا ہے۔ دوسری طرف سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی روس‘ وسط ایشیا اور مشرقی یورپ کو اپنے حلقہ اثر کے طور پر دیکھتا ہے اور کئی صورتوں میں ان ممالک کو اپنی کالونی کی طرح ڈیل کرتا ہے۔ جن میں یوکرائن سر فہرست ہے۔ جو پہلے زار شاہی اور پھر سٹالنزم کے تحت کئی سو سال تک روس کے غلبے میں رہا ہے۔ اس سامراجی کھینچا تانی کی بھینٹ اب تک دسیوں ہزار لوگ چڑھ چکے ہیں جن کی وسیع اکثریت یوکرائنی عوام پر مشتمل ہے۔
یوکرائن پر 2022ء کے روسی حملے کا مقصد بھی اسے دوبارہ ماسکو کے سامراجی کنٹرول میں لانا تھا۔ یوں نیٹو اور روس دونوں یوکرائن میں سامراجی مفادات کے حامل ہیں۔ دوسری طرف زیلنسکی اور انتہائی کرپٹ قسم کی یوکرائنی بورژوازی کی اکثریت نے بھی اپنے اور اپنے سامراجی آقاؤں کے مفادات کے تحت یوکرائن کے محنت کش طبقے کا استحصال جاری رکھا ہوا ہے۔
روس کے مافیائی سرمایہ دار، جو سوویت یونین کے بیش قیمت اشتراکی یا ریاستی اثاثوں کو لوٹ کر راتوں رات امیر ہوئے اور جن کے مفادات کی نمائندگی پیوٹن کرتا ہے، نے ہمیشہ عالمی طاقتوں کی مسابقت میں شامل ہونے کی کوشش کی ہے۔ روس میں سرمایہ داری کی بحالی کے باوجود مخصوص تاریخی وجوہات کی بنا پر ان کا مغربی سامراج سے اشتراک ممکن نہیں ہو سکا۔ اگرچہ ان میں سے بیشتر نے روس سے لوٹی ہوئی بے شمار دولت مغربی بینکوں میں رکھی ہوئی ہے یا رئیل اسٹیٹ جیسے شعبوں میں لگائی ہوئی ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی اور مالیاتی بحرانوں کے پیش نظر خام مال، منڈیوں اور منافعوں کے حصول کی یہ سامراجی چپقلش شدت اختیار کرتی گئی ہے۔ لیکن یوکرائن پر پیوٹن کے حملے نے نیٹو کو نہ صرف اپنا وجود قائم رکھنے بلکہ خود کو مزید توسیع دینے کا جواز بھی فراہم کیا ہے۔ جس سے اسے روس کے ساتھ تصادم کو تیز کرنے اور خود کو بڑے پیمانے پر مسلح کرنے کا موقع ملا۔
4 جون 2025ء کو 32 نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع کی برسلز میں میٹنگ ہوئی جس میں نیٹو اتحاد کی تاریخ کے سب سے بڑے جنگی اخراجات کی منظوری دی گئی۔ نیٹو اتحاد کے جنرل سیکرٹری نے دفاعی بجٹ جی ڈی پی کے 2 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کرنے کا اعلان کیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ روس کے ساتھ براہِ راست جنگ کا امکان بڑھ گیا ہے۔ جو ایک نئی عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ٹرمپ کے لاابالی پن اور غیر متوقع حرکتوں کی وجہ سے یورپی طاقتیں ویسے بھی عدم تحفط کا شکار ہیں اور عسکری طور پر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی ہے۔ حالیہ عرصے میں جرمنی نے اپنے فوجی اخراجات کو دو سے تین گنا بڑھا دیا ہے اور خود کو یورپ میں مضبوط ترین فوجی طاقت بنانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی طرح وہ دوبارہ مشرق کی طرف پھیل رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی بار جرمن افواج مستقل طور پر ایک بریگیڈ کو کسی دوسرے ملک (لیتھوینیا) میں تعینات کر رہی ہیں۔ برطانیہ، فرانس اور پولینڈ وغیرہ بھی ان حالات میں خود کو دوبارہ مسلح (”ری آرمامنٹ“) کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ تجارتی جنگیں اور مختلف معاملات پر امریکہ اور نیٹو کے درمیان اختلافات بھی موجود ہیں۔ یورپی طاقتیں ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد امریکہ پر اپنے فوجی انحصار کو کم کرنے اور خود سے روس کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ ٹرمپ نے نیٹو اتحاد کو بائی پاس کرتے ہوئے پیوٹن کے ساتھ جنگ بندی اور یوکرائن کے قدرتی وسائل کی بندر بانٹ پر مذاکرات کی بھی کوشش کی ہے۔ جس پر نیٹو کے دیگر ممالک کے شدید تحفظات بھی سامنے آئے تھے۔ اگرچہ دوسرے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی ٹرمپ مسلسل یو ٹرن لے رہا ہے اور اپنی ٹون بدلتا رہتا ہے۔ فی الوقت امریکہ‘ نیٹو کی فوجی صلاحیت میں ریڑھ کی ہڈی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت مشکل ہے کہ روسی ہوائی اڈوں پر یوکرائن کا حملہ واشنگٹن کی جانب سے گرین سگنل کے بغیر کیا گیا ہو۔ لیکن امریکی ریاست میں خاصی ٹوٹ پھوٹ بھی موجود ہے۔ دوسری طرف روس جنگ بندی کے معاملے میں کسی قسم کی لچک دکھانے کو تیار نہیں ہے اور نہ صرف یوکرائن کے زیر قبضہ علاقوں کو اپنے اندر ضم کرنا چاہتا ہے بلکہ یوکرائن کی ایک روسی سٹیلائٹ ریاست کے طور پر حیثیت کو بحال کرنا چاہتا ہے۔ یوں یہ پورا معاملہ کئی پرتوں پر مبنی ہے۔ جس میں سامراجی طاقتوں کے ٹکراؤ کے ساتھ ساتھ یوکرائنی عوام کی خودمختیاری کی امنگیں اور روسی جارحیت کے خلاف مزاحمت بھی اہم عنصر کے طور پر شامل ہے۔ ان حالات میں امریکہ چین تضادات بھی بھڑک رہے ہیں۔ مثلاً پچھلے ہفتے امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے اعلان کیا ہے کہ چین کے ساتھ تائیوان کے مسئلے پر ’ممکنہ طور پر جلد جنگ‘ہو سکتی ہے۔ یوں سامراجی سرمایہ داری کا بحران اور عالمی سطح پر طاقتوں کا بدلتا توازن دنیا کو مزید خونریزیوں اور جنگوں کی طرف دھکیلتا جا رہا ہے۔
آخری تجزئیے میں ان جنگی حالات یا جنگوں اور ایٹمی ٹکراؤ کے خطرات کو محنت کش طبقے کی آزادانہ مداخلت سے ہی روکا جا سکتا ہے۔ یہ محنت کش عوام ہی ہیں جنہیں جنگوں اور عسکریت پسندی کے نتائج مالی اور جانی طور پر بھگتنے پڑتے ہیں۔ اور یہ محنت کش ہی ہیں جو ان بربادیوں کی بنیادی وجہ‘ یعنی سرمایہ داری نظام کو اکھاڑ پھینک پر امن عالم کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
