ظفر اللہ
حالیہ سالوں پہ نگاہ ڈالیں تو ریاست کی طرف سے ماضی قریب میں ایک ’’عظیم الشان‘‘ تجربہ عمران خان اور اس کی تحریک انصاف کی تشکیل اور بعد ازاں آر ٹی ایس بٹھا کر 2018ء میں اسے اقتدار دلوانے کی شکل میں کیا گیا۔ لیکن اس تجربے نے ان تضادات کو مزید بھڑکا نے میں عمل انگیز کا کردار ادا کیا جن کو دبانے کیلئے یہ کھیل رچایا گیا تھا۔
دوسرے عوامل کے علاوہ برسوں کے دو پارٹیوں کے اقتدار کے میوزیکل چیئر والے کھلواڑ سے عوام کے دلوں میں بڑھتی ہوئی نفرت اور ممکنہ بغاوت کو ایک اور نئے سراب میں زائل کرنا بھی مقصود تھا۔ کہ ایک مقبول شخصیت کا ’کرزما‘ سماج کو کنٹرول کرنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ ابھی تک اِس مظہر کی موجودگی بھی روایتی سیاسی نمائندوں اور پارٹیوں سے عوامی نفرت اور بیزاری کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ تحریک انصاف میں اس سے مماثل دوسرے پاپولسٹ دائیں بازو کے رجحانات کی وجہ سے عمران خان کے شخصی کلٹ کا عنصر بھی اہم ہے۔ لہٰذا گلے پڑ جانے والے اس تجربے کی تباہ کاریوں سے نکلنے میں وقت درکار ہے۔ اس بیماری کا علاج گہرا، طویل مدتی اور غیر یقینی ہی ہو گا۔ تحریک انصاف کو کچلنے یا کم از کم بڑے پیمانے پر اس کی کانٹ چھانٹ کیلئے درکار ریاستی جبر سے گیہوں کے ساتھ مگر گھن بھی پس جائے گا۔ بلکہ پس رہا ہے۔
تحریک انصاف کے بعد ریاستی آشیرباد سے ہی ن لیگ اور پیپلز پارٹی جیسے پرانے سیاسی جگادریوں کو پی ڈی ایم کی شکل میں جوڑا گیا۔ گزشتہ برس 8 فروری کے غیر شفاف اور متنازعہ انتخابات کے ذریعے انہیں اقتدار سے نوازا گیا۔ پیپلز پارٹی نے اگرچہ مخصوص منافقانہ روش اختیار کرتے ہوئے اس اقتدار میں بڑی اور براہِ راست حصہ داری سے اجتناب کیا۔ لیکن پارلیمان میں حمایت، صدر اور دو صوبوں کی گورنری سمیت کئی حوالوں اور طریقوں سے وہ ریاست کے حقیقی حکمرانوں کے احکامات پر موجودہ حکومتی سیٹ اپ کے مضبوط سہارے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ حکومت کے انتہائی عوام دشمن اقدامات پر ٹسوے بہانا اور حکومت کو اپنی سپورٹ ختم کرنے کی دھمکیاں محض مزید مراعات و اختیارحاصل کرنے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی گھٹیا واردات کے سوا کچھ نہیں ہے۔ درحقیقت ’پیکا‘ نامی زبان بندی کے کالے قانون سمیت ایسے تمام اقدامات کو پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل رہی ہے بلکہ اسی کے صدر نے ان کی توثیق بھی کی۔ باقی تمام بیشتر پارٹیاں بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہیں۔
اس سارے سیاسی سیٹ اپ کی تشکیل کیلئے ریاست کو دراصل اپنے آپ سے لڑنا پڑا۔ عمران خان کو فوج و عدلیہ سمیت ریاست کے کلیدی اداروں کے اندر سے بھاری حمایت حاصل رہی ہے۔ جس کا اظہار اس کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد واضح طور پر ہوا بھی۔ ایک طویل اور پیچیدہ داخلی آپریشن کے ذریعے سے یہ سارے تانے بانے کاٹے گئے ہیں۔ یہ سلسلہ شاید ابھی تک بھی جاری ہے۔
موجودہ حکومت، جو ’’ہائبرڈ‘‘ طرز کے ریاستی سیٹ اپ کا ہی تسلسل ہے، کو اپنے آغاز سے ہی سنگین قسم کے معاشی اور سیاسی چیلنج درپیش تھے۔ معیشت عملی طور پر دیوالیہ پن کا شکا ر تھی۔ شدید سیاسی بحران اور داخلی تضادات کا سامنا تھا۔ یکسر انتظامی ناکامی، لاابالی پن اور مسلسل ہیجان، بڑھک بازی اور غیر سنجیدہ اقدامات پر مبنی عمران خان کی حکومت نے ان مسائل کی شدت اور پیچیدگی میں اضافہ ضرور کیا تھا۔ لیکن غور کریں تو یہ کئی دہائیوں سے چلے آئے پاکستانی سرمایہ داری کے بحران کے ہی عکاس تھے۔ کرنسی کی بے قدری، بے قابو افراطِ زر، قرضوں کی ادائیگی میں شدید مشکلات اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا تھا۔
اس سلسلے میں ڈالر کی سمگلنگ اور بارڈر کنٹرول جیسے اقدامات سے کسی حد تک معاملات کنٹرول کیے گئے۔ جس سے ڈالر کو استحکام ملا۔ بڑے پیمانے پر درآمدات کو کنٹرول بلکہ ختم کر کے وقتی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر کو بحال اور کرنسی کو مستحکم کرنے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد کچھ بحال ہوا۔ چین، سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک کے قرضوں کے ذریعے بھی زرمبادلہ کے ذخائر کو کچھ مستحکم کرنے میں مدد ملی۔ سب سے بڑھ کر عمران خان کو اندر ڈالنے، تحریک انصاف کے پر کترنے اور آئینی ترمیم کے ذریعے جوڈیشل ایکٹوزم کے مسلسل انتشار کا راستہ بند کرنے سے بھی سیاسی استحکام کا جو تاثر پیدا ہوا ہے اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے اور افراطِ زر کو نیچے لانے میں مدد ملی ہے۔ یوں معیشت کو دیوالیہ ہونے سے کم از کم وقتی طور پر بچایا گیا ہے۔
یہ سب کلیدی ریاستی اداروں کی مکمل سپورٹ اور پشت پناہی سے ممکن ہوا ہے۔ دراصل امریکہ اور چین سمیت تمام طاقتور ممالک‘ حکومت کی نسبت یہاں کی ڈیپ سٹیٹ کی گارنٹی اور بھروسے پر ہی پاکستان سے معاملات طے کرتے ہیں۔ انہیں خوب علم ہے کہ پاکستان میں طاقت کا حقیقی مرکز کہاں ہے۔ لیکن اس لاغر اور قریب المرگ معیشت کی جزوی بحالی کیلئے حکومت کو سامراجی ممالک اور اداروں کی کڑی شرائط برداشت کرنا پڑی ہیں۔ اس سلسلے میں عوام کو ماضی میں مختلف مدوں میں ملنے والی حکومتی اعا نت اور رعایتوں کا خاتمہ بنیادی شرائط میں شامل تھا۔ بالخصوص بجلی اور گیس وغیرہ پر ملنے والی رعایتوں (سبسڈی) کا خاتمہ۔ اسی طرح جارحانہ نجکاری کو جاری رکھنے کا شدید دباؤ ہے۔ ان سب اقدامات سے آخر کار معاشی سکڑاؤ، مہنگائی اور قوت خرید میں شدید کمی کی شکل میں بحران کا سارا بوجھ عوام کو ہی برداشت کرنا پڑا ہے۔
گزشتہ برس معیشت سکڑاؤ کا شکار رہی۔ منفی 0.38 فیصد کا گروتھ ریٹ تھا جو معیشت کے ہر کلیدی شعبے کیساتھ کیساتھ عوام کی حقیقی اجرتوں اور پہلے سے پسماندہ معیارِ زندگی میں مزید کمی کا باعث بنا۔ معیشت کے میکرواکنامک پہلو‘ مستحکم اور کنٹرول کرنے کے اس عمل کی مائیکرو اکنامک بربادی کی شکل میں محنت کش طبقات کو بھاری قیمت چکانی پڑی۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں تین تا پانچ سو فیصد اضافے نے نہ صرف غریب بلکہ درمیانے طبقے کی بہت سی پرتوں کے گھروں کو بھی اندھیروں میں ڈبو دیا۔ سرکاری ملازمین کی پنشن میں کٹوتیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ درحقیقت سرکاری پنشن کی سہولت ہی بتدریج طریقے سے ختم کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں مستقبل میں ریٹائر ہونے والے محنت کشوں کی پنشن میں بھاری کٹوتیوں کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ جس کے خلاف احتجاج بھی متوقع ہے۔
ریفارم کمیشن کی جن سفارشات پر عمل درآمد کرنے سے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں عمران خان بھی ہچکچا رہا تھا‘ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ایما پر بڑی بے رحمی سے ان کا اطلاق کیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ‘ تاجر طبقے کی نسبت 1550 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کر رہا ہے۔
لیکن مالیاتی بحران کی شدت اور تواتر اس قدر ہے کہ انہیں بڑے پیمانے کی ٹیکس اصلاحات کی طرف جانا پڑ رہا ہے۔ جس میں مڈل کلاس کے بڑے حصوں سمیت غیر رسمی شعبے میں موجود بڑے سرمائے اور کالے دھن کو ڈاکومنٹ کرنے اور ایف بی آر کے کنٹرول میں لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ بڑے ٹیکس چوروں سے بھی کچھ نہ کچھ لینے کی کوشش ہے۔ اس کیلئے ٹیکس فائلنگ کے بغیر ہر قسم کے لین دین اور کاروبار (بڑی جائیدادوں کی خریداری، سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری، سیونگ اکاؤنٹ کھلوانے وغیرہ) کا راستہ براہِ راست یا بالواسطہ طریقوں سے بند کیا جا رہا ہے۔ نوبت ٹیکس فائل نہ کرنے والوں کی موبائل سمیں بلاک کرنے تک جا رہی ہے۔ یہ اقدامات پہلے سے کمزور معیشت میں سست روی کے رحجان کو پروان چڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ممکن ہے ماضی کی طرح کسی ایمنسٹی سکیم کا اعلان بھی کیا جائے۔لیکن اس سے قبل گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ ماضی میں اس طرح کی سکیمیں مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام رہی ہیں۔
مہنگائی کی شرح کم تو ہو گئی ہے۔ لیکن اس کا مطلب قیمتوں میں کمی نہیں بلکہ قیمتیں بڑھنے کی رفتار میں کمی ہے۔ اجرتوں میں اس تناسب سے اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے محنت کش اس ادھوری یا جزوی بہتری کے ثمرات سے بھی محروم ہی ہیں۔ ڈالروں کے ذخائر نسبتاً مستحکم ہیں مگر ورلڈ بینک کی مطابق غربت 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ غربت کو اس کی کثیر جہتی اساس کے ساتھ دیکھیں تو گزشتہ تقریباً آٹھ سال کے دوران اس میں تیز اضافہ ہوا ہے اور اس وقت بنیادی ترین ضروریات کی محرومی و مفلسی سے دوچار آبادی کی شرح‘ سرکاری اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ اس میں آبادی کا وسیع اکثریتی حصہ شامل ہے۔ اسی طرح بیروزگاری کی بھی کئی جہتیں ہوتی ہیں اور ظاہر ہے یہ 7 فیصد کی سرکاری شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ بیشتر نوجوانوں نے روزگار ڈھونڈنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ بہت بڑی تعداد ملک چھوڑ کر جائز یا ناجائز طریقوں سے ’’باہر‘‘ جانے کے چکروں میں ہے۔ جس کیلئے ’’ڈنکی‘‘ جیسے جان لیوا طریقوں کے بھیانک نتائج کی خبریں ہر روز آتی ہیں۔ باقی نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد یہاں سوشل میڈیا، یوٹیوب، کرپٹو اور ایمازون وغیرہ کے ذریعے کمائی کی اندھی اور لاحاصل دوڑ میں بھاگ رہی ہے۔ جس میں راتوں رات امیر ہونے کے چکر میں بیہودگی اور فراڈ کی ہر حد پار کی جاتی ہے۔
پچھلے دو سالوں میں روپیہ 29 فیصد تک گر چکا ہے۔ یہ بہت ہولناک صورتحال ہے جس میں لوگوں کی برسوں کی جمع پونجیاں پگھل گئی ہیں۔ یہاں غیر دستاویزی معیشت اور کالا دھن‘ حقیقی معیشت کا رخ متعین کرنے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ انہیں کنٹرول کرنے کے مذکورہ عمل میں مگر سفید معیشت بحران کا شکار ہو جاتی ہے۔ کیونکہ غیر رسمی معیشت کا وزن یا اثر و رسوخ فارمل اکانومی سے بھی زیادہ ہے۔ انہی صفحات اور دستاویزات میں ہم نے بارہا واضح کیا ہے کہ پاکستانی معیشت اور ریاست میں قانونی و غیر قانونی کالے دھن کی گہری سرایت موجود ہے اور اسے کنٹرول کرنے کی کوششیں معاملات کو مزید بگاڑ دیتی ہیں۔
مالیاتی خسارہ گزشتہ کئی برسوں سے 7.5 فیصد سے اوپر ہی رہتا ہے۔ یہ بھی تباہ کن ہے۔ اس خسارے کیساتھ ریاست نہیں چل سکتی۔ لیکن جیسا اوپر ذکر کیا ہے کہ اسے پھر محنت کش عوام پر ٹیکس لگا کے ہی پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سال آئی ایم ایف کے کہنے پر ٹیکس آمدن میں گزشتہ سال کی نسبت 40 فیصد اضافے کیساتھ تقریباً 13 ہزار ارب روپے اکٹھے کرنے کا ٹارگٹ لیا گیا ہے۔ جس سے ضروریات زندگی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ اس خسارے کو کسی معقول انداز سے کم یا ختم کرنے کیلئے جتنے بڑے پیمانے پر آمدن بڑھانے کی ضرورت ہے اس کے طریقہ ہائے کار اور صلاحیتیں پاکستانی سرمایہ داری میں مفتود ہیں۔ یہی صورتحال بیرونی (تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ) خسارے کی بھی ہے۔ جسے کنٹرول کرنے کیلئے معیشت کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں زرِ مبادلہ (ڈالروں) کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانی محنت کشوں کی ترسیلات زر ہیں۔ جو بذات خود ایک ناکامی اور بحران کی علامت ہے۔
حکومت نے اس مالی سال 9775 ارب روپے قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے مختص کیے ہیں جو پچھلے مالی سال کی نسبت 1300 ارب روپے زیادہ ہیں (سال کے آخر تک اس رقم میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے)۔ یعنی کل بجٹ کا کم از کم 52 فیصد اس مد میں جائے گا۔ اعلانیہ و غیر اعلانیہ دفاعی اخراجات ان کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کیلئے 30 ارب ڈالر اس سال درکار ہیں۔ یہ وہ چیلنج ہیں جن سے نمٹنے کیلئے بڑی ٹیکس ریفارم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے کٹھن حالات میں ریاست اپنی بقا کیلئے بورژوازی پر بھی ضرب لگا سکتی ہے۔ اگرچہ سرمایہ داری میں یہ انتہائی اقدام معاملات کو پہلے سے زیادہ بگاڑ بھی سکتا ہے۔
افراط زر کو کنٹرول اور کرنسی کو مستحکم کرنے اور سٹاک ایکسچینج کے تاریخی بلندی کو چھونے کے فوائد مگر عام لوگوں تک منتقل نہیں ہوئے۔ اسی طرح آئی پی پیز کے ساتھ از سرِ نو معاہدوں سے بھی بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کے امکانات کم ہی ہیں۔ یہ اس نظام کا تضاد ہے۔ حکمران طبقے کے سنجیدہ افراد اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔لیکن ان کی سوچ اسی نظام کے اندر حل تلاش کرنے تک محدود ہے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر ان کی نیک خواہشات پر مبنی حل بھی سرمایہ داری کی حدود میں ممکن نہیں ہوتے۔
سٹاک ایکسچینج نے گزشتہ عرصے میں تاریخی انتہاؤں کو چھوا ہے (دنیا کی کئی ممالک میں یہ صورتحال نظر آئی ہے)۔ جو معیشت میں گروتھ کی درست عکاسی نہیں بلکہ اس میں قیاس آرائیوں پر مبنی سٹے بازی اور چند بڑے پلیئرز کی مداخلت کا عنصر زیادہ شامل ہے۔ علاوہ ازیں پچھلے کئی سالوں سے سٹاک مارکیٹ ٹھہراؤ کا شکار تھی۔چنانچہ حالات کی جزوی بہتری اور شرح سود میں کمی کے ساتھ اس نے غیر معمولی حرکت کا مظاہرہ کیا ہے۔ تاہم اب حصص کی قیمتیں نیچے گر رہی ہیں جس سے سٹاک مارکیٹ انڈیکس میں خاصی گراوٹ آئی ہے۔ اس سارے کھیل میں بھی چھوٹے سرمایہ کار ہی لٹتے ہیں۔ جو راتوں رات امیر ہونے کا سپنا لے کر سٹاک مارکیٹ جیسے شعبوں میں آتے ہیں۔ جبکہ بڑے کھلاڑی گرتی ہوئی سٹاک مارکیٹوں میں بھی مال بنا جاتے ہیں۔ یہ دراصل سٹہ بازی میں لگایا جانے والا بہت بڑا (اور زیادہ تر صورتوں میں سیاہ) سرمایہ ہوتا ہے۔ جو زیادہ سے زیادہ منافعوں کے تعاقب میں کبھی کرنسی کی منڈیوں کا رخ کرتا ہے، کبھی سونے، رئیل اسٹیٹ اور سٹاک مارکیٹ کا۔ ہر صورت میں یہ محنت کش طبقات کی زندگیوں کو اجیرن ہی کرتا ہے۔
افراطِ زر میں کمی کے نتیجے میں شرح سود میں بڑے پیمانے کی کٹوتی کی گئی ہے۔ گزشتہ سات ماہ میں شرح سود میں 10 فیصد کی کٹوتی کر کے اسے 11 فیصد تک لایا گیا ہے۔ یہ عمل ابھی جاری ہے۔ مہنگائی میں کمی کے علاوہ اس کی اور بھی وجوہات ہیں۔ نیو لبرل طرز معیشت کی استواری کے ساتھ رئیل اسٹیٹ یا پراپرٹی کا شعبہ گزشتہ طویل عرصے سے معاشی گروتھ کے انجن کا کردار ادا کر رہا ہے۔ تقریباً 60 صنعتیں اس سے جڑی ہوئی ہیں۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری مگر زیادہ تر کالے دھن کی ہوتی ہے۔ اس کو کنٹرول کرنے کیلئے کی گئی قانون سازی، ٹیکس اصلاحات اور پکڑ دھکڑ سرمائے کے انخلا کا باعث بنی ہے۔ یہی سرمایہ پھر بیرون ممالک‘ بالخصوص عرب امارات میں منتقل ہوا ہے۔ جو یہاں کی معیشت کے انجماد کا باعث بنا ہے۔ اس سے ملحقہ صنعتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ جو درمیانے طبقے کی ایک بڑی پرت کو نیچے کی طرف دھکیلنے کا باعث بنا ہے۔ چنانچہ گزشتہ دنوں اس شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے کچھ رعایات دی گئی ہیں۔ یوں حکومت کو اپنے موقف سے کچھ پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔
سرمایہ داری پر مبنی سماج ایک مسلسل اور بے رحم دوڑ کا نام ہے۔ جو جنگل کے قوانین (Survival of the Fittest) پر چلتا ہے۔ جس کی ہر کاوش کا مقصد زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول اور اجتماع ہے۔ اسی چیز کا نام ’سرمایہ‘ ہے۔ اس میں بے حس، بے رحم، دھوکے باز، مطلبی اور فراڈیئے ہی کامیاب رہتے ہیں۔ جو باہمی تعاون ،انسانی ہمدردی اوراشتراکیت جیسے عظیم انسانی اوصاف سے یکسر نابلد ہوتے ہیں۔ درحقیقت سرمائے پر مبنی یہ نظام اور اس کی سماجی اقدار اور اخلاقیات انسان کو ایسا بننے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
پاکستانی سرمایہ داری ایک ایسی تاریخی تاخیرزدگی اور متروکیت کا شکار ہے کہ اس میں جزوی بہتری و بحالی ایک نئے بحران کا پیش خیمہ ہی بنتی ہے۔ بظاہر ’’ترقی‘‘ کے ادوار میں بھی محنت کشوں کے روز و شب تلخ اور تاریک ہی رہتے ہیں۔ اس تلخی اور اذیت کی صرف صورتیں بدلتی رہتی ہیں اور شدت کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ کا اقتدار واضح کرتا ہے کہ ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ معاشرے بھی کیسی ابتری اور انتشار کا شکار ہو چکے ہیں۔ ٹرمپ کا اقتدار ناگزیر طور پر پوری دنیا کو ایک نئے ہیجان میں مبتلا کرے گا۔ جس کے سامنے پاکستان جیسی معیشتوں کے جعلی استحکام کی حیثیت تنکوں سے زیادہ نہیں ہے۔
آج ذرائع پیداوار اس معیاری سطح پر ہیں جہاں محنت کش انسان انتہائی قلیل محنت سے پورے سماج کو جبری مشقت، محرومی اور روز روز کی غیر یقینی سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔ لیکن اس کیلئے سماج کو اشتراکی ملکیت اور معاشی منصوبہ بندی پر مبنی نظام کے تحت چلانا ہو گا۔ جو صرف انقلابی سوشلزم کے پروگرام سے ہی ممکن ہے۔
