تحریر: مائیکل رابرٹس
تلخیص و ترجمہ: فرہاد کیانی
زیادہ تر قارئین کو اب تک یہ خبر معلوم ہو چکی ہو گی کہ ڈیپ سیک (DeepSeek)، جو کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی ایک چینی کمپنی ہے، نے ایک اے آئی ماڈل ’آر ون‘ (R1) جاری کیا ہے جو صلاحیتوں کے لحاظ سے اوپن اے آئی، اینتھروپک اور میٹا جیسی کمپنیوں کے بہترین ماڈلوں کے ہم پلہ ہے۔ لیکن اسے بہت کم لاگت کیساتھ اور جدید ترین جی پی یو چِپس کے بغیر ٹرین کیا گیا ہے۔ ڈیپ سیک نے اس ماڈل کی تفصیلات بھی عوام کے لیے کھول دی ہیں تاکہ دوسرے لوگ اسے بغیر کسی قیمت کے اپنے کمپیوٹر پر چلا سکیں۔
ڈیپ سیک ایک ایسا اچانک اور دھماکہ خیز حملہ ہے جس نے امریکہ کی سات بڑی ہائی ٹیک کمپنیوں (Magnificent Seven) کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ڈیپ سیک نے نہ تو این ویڈیا (Nvidia) کی جدید ترین چپس اور سافٹ ویئر استعمال کیے۔ نہ ہی اپنے امریکی حریفوں کی طرح بھاری رقم خرچ کی۔ پھر بھی یہ اتنی ہی مفید اے آئی ایپس فراہم کر سکتا ہے۔
اس کمپنی نے این ویڈیا کی پرانی اور سستی چپس پر آر ون ماڈل تیار کیا۔ کیونکہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے چین کو جدید ترین چپس فروخت نہیں کی جا سکتیں۔ امریکی حکومت اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کو یہ یقین تھا کہ اے آئی کی ترقی پر ان کی اجارہ داری ہے کیونکہ بہتر چپس اور ماڈل بنانے میں بے پناہ اخراجات آتے ہیں۔ لیکن ڈیپ سیک نے ثابت کر دیا ہے کہ کم بجٹ والی کمپنیاں بھی جلد ہی ان کے ہم پلہ اے آئی ماڈل بنا رہی ہوں گی۔
ڈیپ سیک آر ون بہت کم لاگت اور نہایت کم کمپیوٹنگ پاور کے ساتھ موثر طریقے سے کام کر سکتا ہے۔ اس کی ’’انفرنس‘‘ (Inference) کی کارکردگی بھی دوسرے ماڈلوں جتنی اچھی ہے۔ یعنی جب صارف سوال کرتے ہیں تو یہ معقول جوابات فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ماڈل کمپنیوں کے اپنے سرورز (Servers) پر چل سکتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ انہیں مہنگے داموں اوپن اے آئی جیسے پلیٹ فارمز سے خدمات حاصل کرنے کی ضرورت نہیں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈیپ سیک آر ون ’’اوپن سورس‘‘ ہے۔ یعنی اس کے کوڈنگ اور ٹریننگ کے طریقے سب کے سامنے کھلے ہیں۔ کوئی بھی انہیں نقل کر سکتا ہے اور مزید ترقی دے سکتا ہے۔ اس کے برعکس اوپن اے آئی اور گوگل جیسے ادارے اپنے ماڈلوں کے ــــ’’پراپرائٹری‘‘ رازوں (یعنی ایسے طریقے یا معلومات وغیرہ جن پر ان کے مالکانہ حقوق ہیں) کو خفیہ رکھتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ بالکل جیسے برانڈڈ اور جنرک (Generic) دوا سازی میں فرق ہوتا ہے۔
امریکی اے آئی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شاید اس میدان میں کامیابی کے لیے بڑے ڈیٹا سینٹرز اور مہنگی چپس میں سرمایہ کاری ضروری نہ ہو۔ اب تک امریکی کمپنیاں بڑی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔ اسی دن جب ڈیپ سیک آر ون منظر عام پر آیا‘ میٹا نے مزید 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا اور کچھ دن پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی ٹیک کمپنیوں کے لیے 500 ارب ڈالر کی حکومتی سبسڈی کا اعلان کیا تھا۔ جسے ’’اسٹارگیٹ پروجیکٹ‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ میٹا کے چیف ایگزیکٹیو مارک زکربرگ نے اس سرمایہ کاری کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے عالمی معیار امریکہ طے کرے۔ نہ کہ چین۔‘‘
لیکن اب سرمایہ کار پریشان ہیں کہ شاید یہ تمام سرمایہ کاری غیر ضروری ہو اور ڈیپ سیک اگر اس کا دسواں حصہ خرچ کر کے وہی اے آئی ایپس بنا سکتا ہے تو امریکی کمپنیوں کے منافع جات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اسی لیے این ویڈیا، الفابیٹ، ایمازون، مائیکروسافٹ اور میٹا پلیٹ فارمز جیسی پانچ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی سٹاک مارکیٹ مالیت ایک دن میں تقریباً 750 ارب ڈالر کم ہو گئی۔ ڈیپ سیک‘ ڈیٹا سینٹر کمپنیوں اور پانی اور بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کے منافعوں کے لیے بھی ایک خطرہ ہے ۔ جو سات بڑی ٹیک کمپنیوں (Magnificent Seven) کی بڑے پیمانے پر توسیع سے فائدہ اٹھانے کی امید کر رہی تھیں۔ امریکی سٹاک مارکیٹ کا بوم بڑی حد تک انہی سات کمپنیوں کی وجہ سے تھا۔
تو کیا ڈیپ سیک نے امریکی سٹاک مارکیٹ کا بلبلہ پھاڑ دیا ہے؟ ارب پتی سرمایہ کار رے ڈیلیو کا یہی ماننا ہے۔ فنانشل ٹائمز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ــ’’ سرمایہ کاری کی قیمتیں حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اور بڑھتی ہوئی شرح سود کے ساتھ یہ ایک خطرناک امتزاج ہے۔ جواس بلبلے کو پھاڑ سکتا ہے… حالات ایسے ہی ہیں جیسے 1998ء اور1999ء کے درمیان تھے (جب ڈاٹ کام کا بلبلہ پھٹا تھا)۔‘‘ مزید یہ کہ ’’دوسرے لفظوں میں ایک اہم نئی ٹیکنالوجی ہے جو یقینا دنیا کو بدل دے گی اور کامیاب ہو گی۔ لیکن کچھ لوگ اسے سرمایہ کاری کی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔‘‘
تاہم معاملہ شاید ایسا نہیں ہے۔ کم از کم اب تک نہیں۔ این ویڈیا کا سٹاک گرنے کے باوجود اس کی ’پراپرائٹری‘ کوڈنگ لینگویج ’کُوڈا‘ (Cuda) اب بھی امریکی صنعت کا معیار ہے۔ اس کے شیئر کی قیمت 17 فیصدگرنے کے بعد بھی ستمبر کی (بہت بلند) سطح پر کھڑی ہے۔
صورتحال کئی عوامل پر منحصر ہو گی۔ جیسا کہ امریکی فیڈرل ریزرو (مرکزی بینک) کی جانب سے شرح سود کو بلند رکھنا۔ کیونکہ افراط زر میں کمی کا رجحان اب اپنے الٹ میں بدل رہا۔ اسی طرح یہ بھی اہم عنصر ہو گا کہ کیا ٹرمپ محصولات (ٹیرف) اور امیگریشن بارے اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتا ہے یا نہیں۔ ان اقدامات سے بھی افراط زر میں اضافہ ہو گا۔
ٹرمپ کی کاسہ لیسی کرنے والے جدید ٹیکنالوجی کی صنعت سے جڑے ارب پتیوں کے لیے یہ بہت تشویش ناک ہے کہ چینی کمپنیوں پر امریکی پابندیاں اور انہیں جدید چپس بیچنے کی ممانعت بھی چین کو ٹیکنالوجی اور چپس کی جنگ میں مزید ترقی کرنے سے نہ روک سکی۔ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے نافذ کی گئی برآمداتی پابندیوں، جن کا مقصد چین کو طاقتور ترین چپس اور انہیں بنانے کے لیے درکار جدید آلات سے محروم کرنا تھا، کے باوجود چین مصنوعی ذہانت میں تکنیکی جست لگانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔
چین کی بہت بڑی ٹیک کمپنی ہواوے (Huawei) اب چین میں مصنوعی ذہانت کی چپس کے معاملے میں این ویڈیا کی سب سے بڑی حریف بن چکی ہے اور وہ ڈیپ سیک جیسے اے آئی ماڈلوں کو این ویڈیا کی جی پی یو چپس سے اپنی اسینڈ (Ascend) چپس پر منتقل کر رہی ہے۔ بیجنگ میں ایک متعلقہ سرمایہ کار کا کہنا تھا کہ ’’ہواوے مزید بہتر ہو رہا ہے۔ انہیں ایک موقع ملا ہے کیونکہ حکومت بڑی ٹیک کمپنیوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ ہواوے کی چِپس خریدیں اور انہیں مصنوعی ذہانت کے لیے استعمال کریں۔‘‘
یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ چین میں ریاستی منصوبہ بندی کے تحت ٹیکنالوجی اور تکنیکی مہارتوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری‘ نجی ٹیکنالوجی اجارہ داریوں پر تکیہ کرنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ موثر ثابت ہو رہی ہے۔ جیسا کہ رے ڈیلیو نے کہا: ’’ہمارے نظام میں بالعموم ہم صنعتی کمپلیکس کی طرز کی پالیسی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ جس میں حکومتی نگرانی اور اثر و رسوخ لازم ہو گا۔ کیونکہ یہ بہت اہم ہے… صرف سرمایہ داری اور محض منافع خوری یہ جنگ نہیں جیت سکتی۔‘‘
بہرحال مصنوعی ذہانت کی بڑی کمپنیاں ابھی تک ’’ٹائیٹینک‘‘ نہیں بنی ہیں۔ وہ ڈیٹا سینٹرز اور مزید جدید چپس میں اربوں ڈالر جھونک کر اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں کمپیوٹنگ پاور کی کھپت غیر معمولی حد تک بڑھ رہی ہے۔
اور یقینا ان سب میں وہ عوامل شمار نہیں کیے جا رہے جنہیں بورژوا ماہرین معاشیات ’’بیرونی اثرات‘‘ (Externalities) کہہ کر نظرانداز کرتے ہیں۔ گولڈمین سیکس کی ایک رپورٹ کے مطابق چیٹ جی پی ٹی کا ایک سوال (Query) گوگل سرچ کے مقابلے میں تقریباً 10 گنا زیادہ بجلی استعمال کرتا ہے۔ محقق جیس ڈوج نے اے آئی چیٹ بوٹس کے توانائی کے استعمال کا تخمینہ یوں لگا یا ہے: ’’چیٹ جی پی ٹی پر ایک سوال کرنا اتنی بجلی استعمال کرتا ہے جتنی ایک بلب کو تقریباً 20 منٹ تک جلانے کے لیے درکار ہوتی ہے۔‘‘ اب ذرا تصور کریں کہ لاکھوں افراد روزانہ ایسی ایپس استعمال کر رہے ہیں تو بجلی کی مجموعی کھپت کس قدر بڑھ سکتی ہے۔ زیادہ بجلی کے استعمال کا مطلب ہے زیادہ توانائی کی پیداوار۔ جس کا مطلب ہے فوسل فیول سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کا زیادہ اخراج۔
گوگل کا ہدف ہے کہ 2030ء تک وہ مجموعی طور پر صفر اخراج (Net-zero Emissions) تک پہنچ جائے گا (یعنی ماحول دوست طریقوں کے استعمال سے اس کی سرگرمیوں کے نتیجے میں کسی ماحول دشمن مادے کا اخراج نہیں ہو گا)۔ 2007ء سے اس کمپنی کا دعویٰ رہا ہے کہ وہ اپنے کاربن اخراج کے برابر کاربن آف سیٹس خریدنے کی وجہ سے ’کاربن نیوٹرل‘ ہے۔ لیکن 2023ء میں گوگل نے اپنی ماحولیاتی رپورٹ میں تسلیم کیا کہ وہ اب اپنی ’’آپریشنل کاربن نیوٹریلٹی‘‘ برقرار نہیں رکھ پا رہی ۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی 2030ء میں نیٹ زیرو کے ہدف کی جانب گامزن ہے۔ ڈوج کا کہنا ہے: ’’گوگل کی اصل خواہش یہ ہے کہ وہ سب سے بہترین اے آئی سسٹم تیار کرے۔ اور وہ اس کے لیے بے پناہ وسائل صرف کرنے کو تیار ہے۔ چاہے وہ بڑے سے بڑے ڈیٹا سینٹرز پر مشتمل ٹریننگ ہو یا سپر کمپیوٹرز کا استعمال۔ جس سے بجلی کی زبردست کھپت ہوتی ہے اور نتیجتاً کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
اور پھر پانی کا مسئلہ بھی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کو خشک سالی اور جنگلات میں آتشزدگیوں کا سامنا ہے‘ اے آئی کمپنیاں اپنے دیو ہیکل ڈیٹا سینٹرز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے بے تحاشہ پانی چوس رہی ہیں۔ تاکہ چِپس اور مشینوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اس سے بڑھ کر سلیکون ویلی کی کمپنیاں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پانی کی سپلائی کے بنیادی ڈھانچے پر بھی قابض ہو تی جا ر ہی ہیں۔ مثلاً تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مائیکروسافٹ کے ڈیٹا سینٹرز میں چیٹ جی پی ٹی تھری کی مشینوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال ہونے والے پانی کی مقدار سات لاکھ لیٹر تک ہو سکتی ہے۔
اے آئی ماڈلوں کو تربیت دینے میں ایک یورپی شہر کے مقابلے میں چھ ہزار گنا زیادہ توانائی خرچ ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ اگرچہ لیتھیم اور کوبالٹ جیسی معدنیات عام طور پر گاڑیوں کے شعبے میں بیٹریوں کے حوالے سے جانی جاتی ہیں۔ لیکن وہ ڈیٹا سینٹرز میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کے لیے بھی انتہائی ضروری ہیں۔ ان معدنیات کو نکالنے کے عمل میں بھی بڑی مقدار میں پانی استعمال ہوتا ہے اور اکثر یہ آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ جس سے پانی کی دستیابی مزید خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
اوپن اے آئی کے سابقہ سی ای او سام آلٹمین کہتے ہیں کہ یہ ’’قربانیاں‘‘ وقتی طور پر ضروری ہیں۔ مگر یہ ’’اے جی آئی‘‘ (مصنوعی عمومی ذہانت) حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ اور جب اے جی آئی آ جائے گی تو یہ تمام مسائل خود حل کر دے گی۔ لہٰذا وقتی قربانی دینا فائدہ مند ثابت ہو گا۔
اے جی آئی کیا ہے؟ یہ دراصل مصنوعی ذہانت بنانے والوں کا حتمی مقصد اور نصب العین ہے۔ اس سے مراد ہے کہ اے آئی ماڈل انسانی ذہانت سے کہیں آگے نکل جائیں گے۔ آلٹمن کے مطابق اس سے مصنوعی ذہانت محض ایک محنت کش کا ہی نہیں بلکہ سب کا کام کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اے آئی ایک ادارے یا تنظیم کا کا م کر سکے گی۔‘‘ یہ منافعوں کی انتہا ہو گی جب کمپنیوں میں محنت کش ہی نہیں ہوں گے (شاید خود مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں میں بھی نہیں؟)۔ کیونکہ مشینیں ہی ہر چیزکو بنانے، چلانے اور مارکیٹنگ کا کام کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔ یہ سرمائے کا حتمی خواب ہے (لیکن محنت کشوں کے لیے ایک بھیانک خواب بھی ۔ نہ روزگار، نہ اجرت!)۔
یہی وجہ ہے ڈیپ سیک سے پہنچنے والے نقصان کے باوجود آلٹمین اور مصنوعی ذہانت کے دیگر سیٹھ اپنے ڈیٹا سینٹرز کو وسعت دینے اور مزید جدید چپس تیار کرنے سے نہیں رکیں گے۔ ریسرچ فرم روزن بلاٹ نے ٹیکنالوجی کے بڑے اداروں کے ردعمل کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عمومی رجحان اخراجات میں کمی کی بجائے صلاحیتوں میں بہتری کی جانب ہی ہو گا۔ تاکہ مصنوعی عمومی ذہانت کی طرف تیزی سے بڑھا جا سکے۔‘‘
کچھ لوگ اے جی آئی کی جانب پیش رفت کو خود انسانیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر اسٹوارٹ رسل کہتے ہیں: ’’ وہ سی ای اوز بھی جو اس دوڑ میں شامل ہیں‘ یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ جو بھی جیتے اس کے نتیجے میں انسانیت کے خاتمے کا ایک بڑا امکان ہو گا۔ کیونکہ ہم اپنے سے زیادہ ذہین چیزوں کو کنٹرول کرنا نہیں جانتے۔‘‘ ان کے الفاظ میں ’’اے جی آئی کی دوڑ درحقیقت ایک ایسی دوڑ ہے جو ہمیں ایک کھائی کے کنارے تک لے جا رہی ہے۔‘‘
شاید ایسا ہی ہو۔ لیکن میں اب بھی یہ نہیں سمجھتا کہ انسانی ’ذہانت‘ کی جگہ مشینی ذہانت لے سکتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ مشینیں ممکنہ اور معیاری تبدیلیوں کے بارے میں نہیں سوچ سکتیں۔ نیا علم ایسی تبدیلیوں سے ہی جنم لیتا ہے (جسے انسان ہی سمجھ سکتے ہیں)۔ نہ کہ موجودہ علم کی (مشینی ذہانت کے ذریعے) توسیع سے۔ صرف انسانی ذہانت ہی سماجی ہوتی ہے اور تبدیلی کے امکان یا صلاحیت کو دیکھ سکتی ہے۔ بالخصوص ایسی سماجی تبدیلی کو جو نسل انسان اور فطرت کے لیے بہتر زندگی کا باعث بن سکے۔
ڈیپ سیک کے ظہور نے یہ دکھایا ہے کہ اے آئی کو اس سطح تک ترقی دی جا سکتی ہے کہ یہ انسانیت اور اس کی سماجی ضروریات کے لیے مددگار ثابت ہو۔ یہ مفت ہے، سب کے لیے کھلی ہے اور چھوٹے ترین صارف اور سافٹ ویئر ڈویلپر کے لیے بھی دستیاب ہے۔ اسے منافع کے لیے یا منافع کمانے کے مقصد سے تیار نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ ایک تجزیہ نگار نے کہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ اے آئی میرے کپڑے دھوئے اور برتن صاف کرے تاکہ میں فن کی تخلیق کر سکوں۔ کچھ لکھ سکوں۔ نہ کہ اے آئی فن تخلیق کرے اور چیزیں لکھے اور میں کپڑے دھونے اور برتن صاف کرنے میں لگا رہوں۔‘‘ سرمایہ دار اے آئی کو اس لیے متعارف کروا رہے ہیں تاکہ ’’انتظامی مسائل کو آسان بنایا جا سکے۔ لیکن ایسے کاموں کی قیمت پر جن کے بارے میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اے آئی کو ان کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ جیسے تخلیقی کام… اگر اے آئی کو کام کرنا ہے تو اسے نچلی سطح سے اوپر آنا ہو گا۔ ورنہ یہ کام کی جگہ پر موجود زیادہ تر لوگوں کے لیے بے فائدہ ہو گی۔‘‘
منافع خوری، چھانٹیوں اور اجرتوں میں کمی کی بجائے اگر مصنوعی ذہانت کو اشتراکی ملکیت اور منصوبہ بندی کے تحت ترقی دی جائے تو یہ تمام انسانوں کے اوقات کار کو کم کر سکتی ہے اور انہیں مشقت سے آزاد کر کے تخلیقی کاموں پر توجہ دینے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔ ایسے کام جو صرف انسانی ذہانت ہی انجام دے سکتی ہے۔
