بابر پطرس

پاکستان اپنی جیوگرافیکل لوکیشن کے حوالے سے ایسا خطہ ہے جہاں موسم شدید رہتا ہے۔ موسم گرما میں مغرب اور جنوب مغرب سے چلنے والی خشک اور گرم ہواؤں کی وجہ سے گرمی کی حدت بہت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن رواں برس کی حدت کا موازنہ گزشتہ برسوں کی گرمی سے کیا جائے تو اس سال گرمی کی حدت نے ماضی کے تمام ریکارڈوں کو توڑ دیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ درجہ حرارت 52 ڈگری کی حد کو پار کر چکا ہے (ہندوستان اور مشرق وسطیٰ کے بہت سے علاقوں میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے)۔ 52 ڈگری سنٹی گریڈ‘ 125 فارن ہائٹ کے برابر ہے۔ جبکہ 104 فارن ہائٹ کا درجہ حرارت (بخار) کسی بھی شخص کے لیے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی جسم اپنی ساخت کے حوالے سے 37 ڈگری سنٹی گریڈ یا 98 فارن ہائٹ کے درجہ حرارت کے لیے بنا ہے اور اسی درجہ حرارت پر اپنی تمام سرگرمیوں کو نارمل انداز میں سرانجام دے سکتا ہے۔ جبکہ اس کے اوپر کا درجہ حرارت انسانی جسم کو منفی انداز میں متاثر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ماحول کا درجہ حرارت اس حد سے جوں جوں بڑھنے لگتا ہے‘ انسانی جسم کو خود کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے اسی قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دوسرے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ گرمی نقطہ ابال کے نصف سے زیادہ ہے۔ 100 ڈگری سنٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر پانی گرم ہو کر نہ صرف کھولنے لگتا ہے بلکہ اپنی ہیت کو بدل کر بھاپ بن جاتا ہے۔ حالت اس قدر سنگین ہوتی جا رہی ہے کہ انسان اس صورت حال میں جینے پر مجبور ہے۔ بند کمروں اور دفاتر کی زندگی دوسری بات ہے۔ لیکن آبادی کی وسیع پرتیں‘ قریباً 70 فی صد سے زیادہ لوگ کھلے آسمان تلے مشقت کرتے ہیں۔ آگ برساتی دھوپ میں سڑکوں پر روڑی کوٹنا، تارکول بچھانا، ڈیلیوری وغیرہ کے امور سرانجام دینا، تعمیرات اور آگ اگلتی مشینوں پر آٹھ سے بارہ گھنٹے کام کرنا آسان نہیں ہے۔ سورج کی تیز دھوپ اور مشین کی گرمی لہو کو پسینا بنا کر بہا دیتے ہیں۔ یہ غیر انسانی حالات کار ہیں۔ لیکن جسم اور روح کے رشتے کو قائم رکھنے کے لیے محنت کشوں کے پاس ان کٹھن حالات سے سمجھوتا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ کیونکہ پاکستان میں ایک فیصد سے کم محنت کش ٹریڈ یونین میں منظم ہیں۔ لہٰذا ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

ہر سال بڑھتا ہوا درجہ حرارت کسی ایک ملک یا خطے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اس سیارے پر موجود انسانی نسل کی بقا کو لاحق بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ موسم اور موسی واقعات شدید ہوتے جا رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں جنوبی امریکہ میں شدید بارشوں کی وجہ سے 90 لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ دبئی اور اس کے ہمسایہ ممالک میں شدید بارشوں سے سیلاب آ گئے۔ موسمی حالات کی وجہ سے صرف برازیل میں ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ جنوبی افریقہ کو شدید خشک سالی کا سامنا ہے۔ لوگ اپنی روزمرہ زندگی کے لیے پانی کو ترس گئے ہیں۔ سعودی عرب اور عمان جیسے گرم علاقوں سے زیادہ گرمی جنوب ایشیا کے ملکوں میں پڑ رہی ہے۔ دہلی کا درجہ حرارت دبئی سے بڑھ رہا ہے۔

دوسری جانب نام نہاد بورژوا عالمی قیادت وقت بہ وقت اپنے حلیفوں اور ماہرین کے ساتھ مل کر اس خطرے سے نمٹنے کے لیے کا نفرنسوں کا اہتمام کرتی ہے۔ لیکن ان کانفرنسوں کے طویل بحث مباحثوں سے برآمد ہونے والے نتائج صفر ہیں۔ ہر سال گرمی کا اونچا ہوتا پارہ اور غیرمعمولی موسمی حالات (شدید بارشیں، سیلاب، خشک سالی، جنگلوں کی آگ، شدید گرمی لہریں، اَن دیکھی برف باریاں وغیرہ) ثابت کرتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج پر قابو پانا سرمایہ دارانہ ریاستوں کے لیے ناممکن ہے۔ کیونکہ سرمائے کی حاکمیت میں منافع حاصل کرنے اور شرح منافع بڑھانے کی نفسیات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا حماقت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

منافعوں کے پاگل پن نے اس ارضی جنت کو دوزخ بنا دیا ہے۔ لہلاتی، سر سبز و شاداب فصلوں والی زرخیز زمین‘ کنکریٹ کے جنگلوں کا روپ دھار گئی ہے۔ ہرے بھرے جنگلات کی تیز رفتار کٹائی اور بے لگام آباد کاری نے باغ عدن کو گرم گولا بنا کر زمین کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان ایشیا میں سب سے زیادہ درخت کاٹنے والا ملک ہے جو قریباً پچاس سالوں میں اپنے ایک تہائی جنگلات کو کاٹ چکا ہے اور یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ کیونکہ منافعوں کے حصول کی ہوس کے آگے ہر رشتہ، ناطہ اور تعلق بے وقعت ہے۔

آمد و رفت کے انفرادی یا نجی ذرائع اور ان میں استعمال ہونے والے ایندھن نے آب و ہوا کو زہر آلود کر دیا ہے۔ فضائی آلودگی کا 52 فیصد ٹریفک کی وجہ سے ہے۔ فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں اور ’دوسرے جہانوں‘ کی تلاش و تحقیق پر روانہ ہونے والے سپیس جہازوں میں جلنے والے ایندھن سمیت تمام قسم کے فوسل فیول کے استعمال سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دوسری مضر گیسیں خارج ہوتی ہیں۔ جو کرۂ ارض کو دہکتا ہوا تندور بناتی جا رہی ہیں۔ خلابازی کے شعبے میں اب نجی کمپنیاں داخل ہو رہی ہیں جو اس ساری ٹیکنالوجی کو تسخیر کائنات کی بجائے منافعوں کے لیے امیروں کی سیر و تفریح اور مستقبل بعید میں خلائی اجسام کے معدنی استحصال کا ذریعہ بنانا چاہتی ہیں۔ لیکن ان سرگرمیوں سے جو ماحولیاتی آلودگی پیدا ہو گی اس کا خمیازہ ایک بار پھر اس دنیا کے غریب اور عام لوگ ہی بھگتیں گے۔

شدید سردی میں اچانک گرمی کا احساس کوئی اچنبھے کی بات نہیں رہی۔ یا گرمی کی حدت میں یخ بستہ ہوائیں چلنا اب کوئی انوکھی داستان نہیں ہے۔ دراصل گلوبل وارمنگ نے اس کرّے کے موسموں کی فطری ترتیب کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ سردی اور گرمی کا درمیانی موسم گئے وقتوں کا قصہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت نے اجتماعی ترقی کے بجائے انفرادی بقا اور فائدے کی نفسیات کو پروان چڑھایا ہے۔ اس نفسیات کے تحت یہ سیارہ زندگی کے لیے ناسازگار بنتا جا رہا ہے۔ ہوا میں کاربن کی مقدر اس تواتر سے بڑھ رہی ہے کہ سانس لینا دشوار ہوتا جا رہا ہے اور سموگ جیسے مظاہر جنم لے رہے ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ چین اور بھارت جیسے ملکوں میں تازہ ہوا سیلنڈروں میں فروخت کی جا رہی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حالت کس قدر تشویشناک ہے۔

یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ گلوبل وارمنگ کا مطلب محض گرمی میں اضافہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق آب و ہوا میں ڈرامائی تبدیلی سے ہے۔ گلوبل وارمنگ جہاں بحیثیت مجموعی گرمی کی حدت میں اضافے کا سبب بن رہی ہے وہاں مختلف خطوں میں طوفانی بارشوں سمیت سیلابی صورت حال کی ذمہ دار بھی ہے۔ اس سے خشک سالی اور قحط بھی جنم لے رہے ہیں۔ میٹھے پانیوں کے ذخائر پگھل کر کھارے پانیوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس سے میٹھے پانی کا بحران شدید ہو جائے گا اور آبادی کی اکثریت کو پینے کے پانی کی قلت کا سامنا ہو گا۔ پاکستان میں سندھ سے بلوچستان اور جنوبی پنجاب تک کے بیشتر علاقے پانی کے حوالے سے پہلے ہی شدید عدم تحفظ شکار ہیں۔

گلیشیرز کے پگھلاؤ سے جہاں دنیا کا دو فیصدی پینے کے پانی کا ذخیرہ سمندروں میں مل جائے گا وہاں سطح سمندر بلند ہو کر سینکڑوں ساحلی علاقوں کو ڈبو کر صفحہ ہستی سے مٹا دے گی۔ جنگلات میں لگنے والی آگ ایک معمول بن گیا ہے۔ جنگلی حیات کی کئی نسلیں معدوم ہو جاتی جا رہی ہیں۔ سمندروں کی تیزابیت بڑھ رہی ہے جس سے بہت سی آبی حیاب بھی مٹ رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کرّے پر موجود منافع کے پجاری زمین کے پھیپھڑے کہلانے والے ایمازون کے جنگلات کو کاٹ کر آباد کاری اور صنعتکاری کرنے کے نعرے لگا چکے ہیں تاکہ وہاں منافع بخش فصلوں (کیش کراپس) کو اگایا جا سکے۔

گرم ہوتے سیارے کے مختلف خطوں پر ان سب عوامل کے اثرات مختلف ہیں۔ تاہم تمام براعظموں کے لیے یہ ایک مشترک آفت ہے۔ میانمار (برما)، لاؤس، ویت نام، کینیا، جنوبی سوڈان، پاکستان، بھارت اور کمبوڈیا جسے ایشیائی اور براعظم افریقہ کے ممالک شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ جبکہ امریکہ کے ساحلی شہر‘ نیو یارک، میامی اور سان فرانسسکو طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی زد میں ہیں۔ کیلی فورنیا، ایروزونا اور مغربی ریاستیں خشک سالی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق خشک سالی 2030ء تک ستر کروڑ افراد کو بے گھر کر دے گی۔ اسی طرح یورپ کا جنوبی حصہ‘ اٹلی، سپین اور یونان بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی زد میں ہے۔ جرمنی اور فرانس بھی سیلابی صورت حال سے دوچار ہیں۔ برطانیہ اور آئر لینڈ خشک سالی سے متاثر ہیں۔ بیلجیم اور نیدر لینڈز جیسے ممالک بھی طوفانوں کی آفت سے نہیں بچ پائیں گے۔

جنوب ایشیا میں بھارت پہلے ہی اس کیفیت میں گرفتار ہے۔ اس کی 42 فیصد زمین خشک سالی کا شکار ہے۔ بڑھتی ہوئی گرمی اس کے وسیع حصے کو ریگستان بنا دے گی۔ اگر منصوبہ بند معیشت کے تحت اس آفت کو حل نہ کیا گیا تو اس کے تباہ کن معاشی، سماجی اور سیاسی اثرات ہوں گے۔ تمام سماجی ڈھانچہ ڈھیر ہو جائے گا۔ زراعت برباد ہو جائے گی۔ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرتیں عمل میں آئیں گی اور تہذیب کا تانا بانا منتشر ہو جائے گا۔

منڈی کی آزاد معیشت نے محض استحصال کو ہی جنم نہیں دیا بلکہ پورے ایکو سسٹم کو تہس نہس کر دیا ہے۔ آٹھ ارب لوگوں کی ثقافت اور نسل انسان کی بقا کو ایک سنجیدہ خطرہ درپیش ہے۔ ریاستیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے آگاہی مہمات چلا کر عوام پر زور دے رہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ گرمی کی حدت میں اضافے کو روکا جا سکے۔ بڑی ہوشیاری سے اپنی ذمہ داری کو عوام کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف یہی ریاستیں زرخیز زمینوں کو برباد کر کے نئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو این او سی جاری کرتی جا رہی ہیں۔ ہر دس فٹ کے فاصلے پر بلند و بالا عمارتوں کے نقشے پاس کیے جا رہے ہیں۔ منصوبہ بندی سے عاری انہی بے ہنگم تعمیرات میں گرم ہوا پھنس کر رہ جاتی ہے۔ پھر ان پر ہزاروں مربع فٹ لگا شیشہ اور کنکریٹ سورج کی حرارت کو دگنا کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔ سڑک پر چنگھاڑتی ہوئی گاڑیوں میں جلنے والے تیل اور بجلی گھروں میں کوئلے کا بے دریغ استعمال کاربن پیدا کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔

اس صورت حال میں گلوبل وارمنگ کے متعلق ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدات کے نتائج کیا ہیں؟ سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج والا کون سا ملک اس اخراج کو کم کر پایا ہے؟ کون سا ایسا ملک ہے جو گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والی گیسوں کے اخراج پر پابندی لگا کر ملکی انڈسٹری کو متاثر کر سکتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے پاس اس کرّے کو بچانے کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت ہی توانائی، پیداوار اور کھپت کے ماحول دوست ذرائع تلاش کر سکتی ہے اور انہیں بروئے کار لا سکتی ہے۔ ایک ایسی معیشت جس کا مقصد نہ منافعوں کا حصول ہے‘ نہ انفرادی بقا کے گھٹیا نظریے کی حمایت۔ بلکہ اس کا مقصد انسان کی اجتماعی ترقی اور فلاح ہے۔ اب سوال محض وسائل کی از سر نو تقسیم کا نہیں بلکہ اب سوال اس سیارے کی بقا اور اس پر موجود زندگی کے تحفظ کا ہے۔ آخری تجزئیے میں آزاد منڈی کی معیشت خود اپنے تضادات میں پھنس چکی ہے۔ اس کو کسی یوٹوپیائی نظرئیے یا اخلاقی قوانین کی دوہائی دے کر نہیں توڑا جا سکتا۔ سوشلسٹ انقلاب کا آہنی ہتھوڑا ہی یہ تاریخی فریضہ انجام دے سکتا ہے جو وقت اور حالات کی ناگزیر ضرورت ہے۔