ظفراللہ

پاکستانی سیاست انتہائی نازک لیکن دلچسپ صورتحال میں داخل ہو چکی ہے جو مزید بحران اور انتشار سے بھرپور ہو گی۔ 8 فروری 2024ء کے الیکشن میں بہت حد تک غیر متوقع نتائج سامنے آئے ہیں۔ خاص طور پر اس ڈیپ سٹیٹ کے اندازوں کے حوالے سے جس نے تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی انجینئرنگ کی واردات کی تھی۔ اس مینجمنٹ یا انجینئرنگ کا بنیادی مقصد تحریک انصاف کی تاریخی مقبولیت کے مدنظر اس کے امیدواران کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اسمبلی پہنچنے سے روکنا تھا۔ لیکن اس میں وہ خاصی حد تک ناکام ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے امیدواران آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر بھی اس ایوان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اگرچہ تکنیکی طور پر ان کے پاس پارٹی اور انتخابی نشان موجود نہیں ہے جس کے لئے انہوں نے سنی اتحاد میں شامل ہو کر مخصوص نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ن لیگ اگرچہ دوسرے نمبر پر وفاق میں زیادہ نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی ہے مگر شنید یہی ہے کہ ان کو بہت سی نشستوں سے نوازا گیا ہے۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کے مطابق الیکشن والے دن کے بعد رات کو نتائج میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں اور تحریک انصاف کی 30 سے 40 نشستیں ن لیگ کو دی گئیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کو اس کی توقعات اور اوقات سے کہیں زیادہ نوازا گیا۔ اب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن میں دھاندلی کا شور مچا رہی ہیں اور احتجاج کر رہی ہیں۔ بہرحال ن لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے چھوٹے اتحادیوں کے ساتھ وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں مشترکہ بندر بانٹ کی حکومتیں بنانے پر راضی ہو گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے نامزد وزیر اعظم شہباز شریف کو ووٹ دینے کے اعلان کے ساتھ کابینہ میں نہ بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ ایسے فیصلوں کو بدلتے دیر بھی نہیں لگتی۔ بہرحال اس صورتحال میں آئندہ بننے والی حکومت کن مشکلات سے دوچار ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

نئی حکومت کو جتنے سیاسی چیلنجوں کا سامنا ہو گا ان کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ہر پارٹی حکومت بنانے سے ڈر رہی ہے۔لیکن ان کے پاس کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ اس معیشت کی جتنی بری حالت ہے اس کے پیش نظر آنے والے عرصے میں عوام پر جو معاشی حملے کیے جائیں گے اس کے خوف سے پیپلز پارٹی نے فی الوقت وزارتیں نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ن لیگ کو تن تنہا اکھاڑے میں پھینکنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن عوام اتنے بیوقوف نہیں ہوتے کہ ان حکمرانوں کی ایسی غلیظ اور پرفریب وارداتوں کو سمجھ نہ سکیں۔ پنجاب میں ن لیگ کی وزیر اعلیٰ مریم نواز منتخب ہوئی ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت بنا رہی ہے۔ یوں لوگوں کو اچھی طرح پتا ہے کہ پیپلز پارٹی اس واردات میں پوری حصہ دار اور شریک ہے۔

حکومت سازی کے عمل کے دوران مختلف تجزیہ نگار ن لیگ کو بورژوا لبرل پارٹی اور پیپلز پارٹی کو سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ثابت کرنے کی کوشش کر کے دونوں پارٹیوں کے اتحاد پر سوال اٹھاتے رہے۔ الیکشن میں بھی بلاول کی ساری تنقید ن لیگ اور نواز شریف کے خلاف بیان بازی پر مبنی تھی اور بہت حد تک تحریک انصاف کے ووٹروں کو اپنی جانب مبذول کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن وہ حسب توقع پنجاب میں تاریخی شکست سے دو چار ہوئے اور بلوچستان میں وہی تھوکا چاٹنا پڑا اور ن لیگ کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لازمی طور پر اس فیصلے کے لئے ریاست کا دباؤ موجود تھا۔ جو ’پی ڈی ایم 2‘ قسم کا سیٹ اپ تیار کرنا چاہتے تھے۔ ان کا فیصلہ اٹل تھا کہ کسی بھی قیمت پر نہ صرف تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے روکنا تھا بلکہ ان کے امیدواران کی بہت بڑی تعداد کو اسمبلی سے باہر بھی رکھنا تھا۔ لیکن عوام کی نظروں میں پیپلز پارٹی حکومت کا حصہ ہی سمجھی جائے گی۔ بہت مشکل ہے کہ پیپلز پارٹی‘ مخلوط حکومت کے شدید عوام دشمن اقدامات، جو کرنا ان کی مجبوری ہے، کی بنیاد پر الگ ہونے کا سوچے بھی۔ بہت بڑی عوامی مزاحمت یا بغاوت کی صورت بہرحال مختلف ہے۔ آنے والے حالات مزید واضح کریں گے کہ کیا منظر نامہ بنتا ہے۔ فی الحال تو ن لیگ کوشش کرے گی کہ کسی بھی طرح عوام کو کچھ ریلیف فراہم کیا جائے۔ لیکن اس کی گنجائش بہت کم‘ بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کے 16 ماہ نے ن لیگ کو بڑا نقصان پہنچایا ہے اور وہ عوامی حمایت سے محروم ہونے کی طرف گئی ہے۔ حتیٰ کہ اپنے گڑھ سمجھے جانے والے پنجاب کے حلقوں میں ن لیگ ہاری ہے۔ ان حالات میں نواز شریف پچھلی سیٹ پر چلا گیا ہے۔ حالیہ مخلوط حکومت کے تحت ن لیگ اس سے کہیں بڑے پیمانے پر استرداد کا شکار ہو سکتی ہے۔ لیکن پھر تمام روایتی پارٹیاں بشمول پیپلز پارٹی بھی ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔

حکمران طبقے کی مستند پارٹی ہونے کے باوجود ن لیگ کوئی مغربی طرز کی کلاسیکل بورژوا لبرل پارٹی نہیں ہے۔ جس کی وجہ پھر یہاں کے حکمران طبقے کا مختلف تاریخی کردار ہے۔ نہ ہی پیپلز پارٹی کوئی کلاسیکی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ہے۔ ترقی یافتہ خطوں میں بھی ان دونوں نظریات کی مادی بنیادیں سرمایہ داری کے گہرے بحران نے ہلا کے رکھ دی ہیں۔ چنانچہ اس وقت یہ دونوں رجحانات سرمایہ دارانہ نیولبرل ایجنڈے کو ننگے اور بے رحمانہ انداز میں مسلط کرنے کو مجبور ہیں۔ پاکستانی معیشت بہت گہرے بحران سے دوچار ہے۔ 40 فیصد افراط زر ہے۔ فارن ایکسچینج ذخائر کی شدید کمی ہے جس سے شرح سود میں اضافہ ہے اور کرنسی پر شدید دباؤ ہے۔ قرضے اور خسارے ان کے کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ کوئی معاشی حل ان کے پاس نہیں ہے۔ معیشت عملاً سکڑ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام چل رہا ہے اور نئی حکومت بننے کے بعد ایک اور پروگرام میں جانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ پروگرام کسی بھی قسم کے عوامی فلاح کے منصوبوں یا معمولی رعایات تک کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ الیکشن میں محتاط نعرے بازی کے باجود وعدوں پر عملدرآمد بہت مشکل ہے۔ دراصل نئی بننے والی حکومت کو کانٹوں بھرے رستوں پر چلنا پڑے گا۔

پیپلز پارٹی عرصہ قبل روایتی سوشل ڈیموکریسی کے پروگرام سے بھی توبہ تائب ہو چکی ہے۔ سوشل ڈیموکریسی دراصل سرمایہ داری کے عروج میں اصلاحات کا نظریہ تھا جب بے تحاشہ قدر زائد کے ساتھ ساتھ سوویت یونین جیسی فلاحی ریاست موجود تھی اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے سرمایہ داری میں ہی لوگوں کو کچھ دینا پڑتا تھا۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ سوویت یونین ٹوٹ چکا اور سرمایہ داری گرتی جا رہی ہے۔ مغرب کی پرانی فلاحی ریاستیں بھی اب سب کچھ واپس لینے کے چکر میں ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ملک میں سوشل ڈیموکریسی کا نعرہ ایک دھوکے، فریب اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔

نئی حکومت کی ممکنہ تشکیل کے ساتھ پاکستانی سرمایہ داری کا بحران نئے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے۔ اس حکومت کا چلنا بہت محال ہو گا۔ آنے والے دن یہاں کے محنت کش عوام کے لئے مزید تنگی اور محرومی ہی لے کر آئیں گے جو دہائیوں سے سلگتے آ رہے طبقاتی غم و غصے کو بھڑکا دینے کا موجب بن سکتا ہے۔