قمرالزماں خاں
امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ عمران خان ایم کیو ایم کے اپوزیشن کیمپ میں جانے اور نمبر گیم کے واضح ہونے پر مستعفی ہوجائے گا۔ مگر ایسا نہ ہونے کے باوجود بھی حکومت کا جانا اب ٹھہر چکا ہے۔ اگر چہ عمران خان اپنی سرشت کے مطابق ہٹ دھرمی کی کسی بھی سطح پر جا سکتا ہے (جیسا کہ اس کی تازہ تقاریر سے واضح ہے)۔ ایک خاص دائرے میں تیز ترین گردش بطور خاص چند دنوں میں بہت تیزی اختیار کر گئی ہے۔ اس دوران تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ترکش سے تمام تیر چلائے اور وہ بھی چلانے کی کوشش کر رہا ہے جو اس کے پاس تھے ہی نہیں۔ مگرگردش ایام نہ تھمنے والی ہے اور نہ ہی تھمے گی۔ عمران خان کی یہ کوشش کہ اس کے جانے کا عمل اس کی ضد اور انا کی تسکین کے تحت”عزت دارانہ“ کیا جائے‘ صرف ایک ہی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے کہ مقتدر اداروں میں اس کی حمایت قابل قدر جثے میں موجود ہو۔
طاقت کے حقیقی مراکز کی کشمکش اور زورآزمائی میں موجود فریقین کی بساط اور اختیار کا اظہار سیاسی ٹوٹ پھوٹ اور نتائج میں پنہاں ہے۔ یہ ٹوٹ پھوٹ جہاں اتحادوں کے رخ بدل رہی ہے وہیں ریاست، سیاست، حکمران طبقے اور ان کے دیوہیکل ہونے کے تاثر کے ضعیف،شکستہ اور ناتوان ہونے کا بھی اظہار کر رہی ہے۔ سامراج مخالف جدوجہد پر استوار نہ ہونے اور قدیم سماجی بنیادوں کے خلاف کسی انقلابی جست کی عدم موجودگی میں مملکت کا اپنا آغاز شروعات سے ہی سامراجی تابعداری اور کاسہ لیسی پر مبنی رہا ہے۔ یہ سامراجی تابعداری وقت کے ساتھ ساتھ ناگزیراور گہری ہوتی چلی گئی ہے۔ نوآبادیاتی اثرات کے زیر اثر پنپنے والے ناپختہ نظام اور غیرصحت مندانہ ارتقا کے گہرے اثرات فیصلہ کن طور پر نتائج مرتب کرنے میں کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ پونی صدی کے بعد بھی بے یقینی کا عالم کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ریاست پر دہائیوں سے حکمرانی کرنے والے دھڑوں کی حب الوطنی پر گاہے بگاہے انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ غیر ملکی اشاروں پر پالیسیاں اور حکمت عملی مرتب کرنے کے الزامات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ اسی طرح”ڈٹ جانے“ کا ڈھونگ بھی کافی بے ہودہ اور سطحی قسم کا ہے۔ سامراجیت کے تمام معاشی، تجارتی، اقتصادی تقاضوں کی پیروی کرنا اور محض ایک ثانوی قسم کے تاثر کو سامراج مخالفت قرار دینا اول درجے کی بیہودہ بیان بازی اور ڈھونگ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ دورہ روس، افغانستان میں (ریاستی پالیسی کے تحت) امریکہ کی مکمل پیروی نہ کرنا یا پھر متحارب ممالک کے درمیان خواہ مخواہ کے ”ثالث“ بننے کی پیش کش کرنے پر یہ تاثر دینا کہ عمران خان عالمی سطح کا لیڈر بن گیا ہے اور پھر یورپ یا امریکہ اس کے خلاف سازش کر رہا ہے جس کا طریقہ کار عدم اعتماد کی کوشش ہے، سستی شہرت حاصل کرنے کا طریقہ اور مڈل کلاس کے ادنیٰ شعور کو متاثر کرنے کا ایک حربہ ہے۔ عمران خان کی سب سے بڑی صلاحیت یہی ہے کہ جہاں وہ رائی کا پہاڑ بنانا جانتا ہے وہاں وہ اس پہاڑ کی چوٹی پرخود بھی کھڑا ہوجاتا ہے ا ور اپنے حمایتوں کو بھی وہیں جمع کر لیتا ہے۔ دوسری خاصیت عمران خان کے پے درپے الزامات اور موقف مسلسل بدلنا ہے۔جہاں اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے کہ وہ اپنی کل کہی ہوئی بات کے بالکل برعکس واویلہ شروع کردے وہیں وہ پے درپے حملوں کی حکمت عملی کو بروئے کار لاتا ہے۔ الزامات کی تکرار اور بھرمار میں اس کے سارے تیر حقیقی نہیں ہوتے۔ مگر وہ ہوائی فائرنگ کرتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس کی خوش قسمتی یہ ہے پاکستان میں پسماندہ ترین شعور رکھنے والی مڈل کلاس بھی موجود ہے جو اپنے پیرومرشد کے کردار، افعال اور کارکردگی کی بجائے بس مریدی کا طوق لٹکائے رہنے کو قابل فخر سمجھتی ہے۔ اسی طرح حکمران دھڑوں کے جمہور یت کے تصورات بھی الگ الگ ہیں اور ریاست کو کس ڈھنگ سے آہنگ کرنا ہے اس پر بھی کوئی مشترکہ اور ایک سوچ نہیں ہے۔ ہرتجربے کی ناکامی کے بعد تصور مملکت اور امور مملکت کی حکمت عملی بدلنا پڑتی ہے۔
معاشی خدو خال کا تصور اور تعین بھی محدود دائرے میں ہی رہتا ہے۔ عہد سے مطابقت رکھنے والی ترقی کا خواب نہ تو دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے لئے موجودہ عالمی سامراجی نظام کا حصہ رہتے ہوئے مادی وسائل و منصوبہ بندی کی اجازت موجود ہے۔ پچھلی سات دہائیوں میں معمول کی ترقی کی شرح اوسطاً پانچ فیصد تک رہی ہے۔ ایسے میں 263 ارب ڈالرکے حجم کی معیشت 22 کروڑ سے زائد کی آبادی کو ترقی کے نچلے معیارسے ہی ہمکنار کرسکتی ہے۔ یکسر ناہموار ترقی کی وجہ سے کسی قسم کی بہتری بھی یکساں نہیں ہوتی۔ اس لئے اوسط کے قوانین کے تحت حقیقی سماجی حالات، معاشی ترقی، غربت کی کیفیت وغیرہ کی بالکل درست تصویر پیش نہیں کی جاسکتی۔ بدقسمتی سے حکمران گروہوں کی سیاسی ضرورت کے تحت بہت سے جانچ پڑتال کے پیمانوں کو بھی بدلا جاتا ہے اور کبھی کبھی معاشی اعداد و شمار میں بھی رد و بدل کیا جاتا ہے۔ ماضی قریب(شوکت عزیز کے دور) میں غربت جانچنے والے پیمانے کو بدلا گیا تھا اور اسی طرح 2021ء میں شرح نمو کی یکا یک تبدیلی کے لئے موازنے کا طریقہ کار بدلا گیا۔ ملکی پیداوار میں اضافے کی سالانہ شرح‘ ترقی کے لئے درکار شرح سے کافی کم ہے اور اس میں مختلف وجوہات کی بنا پر گراوٹ کے ادوار بھی آتے رہتے ہیں۔ ماہرین معاشیات کے مطابق پاکستانی سماج کو غربت اور پسماندگی کی کھائی سے نکالنے کے لئے 8 سے 10 فیصد کی شرح ترقی تسلسل سے کئی دہائیوں تک درکار ہے۔ عمومی طور پر ریاست کے مالیاتی امور کا انحصار قرضوں، امداد اور کسی بیرونی مہم کاحصہ بن کر ملنے والے ڈالروں پر ہے۔ ہر سالانہ میزانیے میں ریاست کے غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافے کو پورا کرنا ملکی وسائل کے لئے ممکن نہیں رہا ہے۔ صرف قرضوں کے سود، اقساط اور دفاعی مقاصد کے لئے خرچ رقم ہمہ قسم کے محاصل اور آمدنی کے برابر ہو جاتی ہے۔ سماجی ترقی کے چھوٹے بڑے منصوبوں اور دیگر شعبوں کے لئے مزید قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک انصاف حکومت کے دوران بجلی کے نرخ بار باربڑھانے کے باوجود 2400 ارب روپے کے گردشی قرضے واجب الادا ہیں۔ تجارتی خسارے اور غیر ملکی قرضے کی اقساط اور سود کی مد میں ادائیگی کے لئے یا تو غیر ممالک میں موجود پاکستانیوں کی بھیجی ہوئی رقوم یا پھر مختلف قسم کے بین الاقوامی قرضوں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کے چار انتہائی مہنگائی والے ممالک میں شامل ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط، جو موجودہ معاہدے کی تجدید میں بڑھنے کے امکانات ہیں، کے بعد مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ عالمی اداروں کی شرائط کے تحت اداروں کی ری سٹرکچرنگ اپنے آخری مراحل میں ہے۔ جس میں پبلک سیکٹر کے محنت کشوں کی مستقل نوعیت کی معاشی مراعات کا خاتمہ کیا جا رہا ہے۔ مستقل ملازمت کے تصور کو بتدریج بدلا جا رہا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعدکے پیکیج اور پنشن کو ختم کیا جا رہا ہے۔اسی طرح نئی ملازمت کاعمومی تصور ”کنٹریکٹ“ ملازمت کا ہے۔ نج کاری اور چھانٹیوں یا پھر ریٹائرمنٹ کے بعد نئی بھرتیوں پر بندش جیسے عوامل کے دور رس نتائج دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس سارے عمل کے اثرات پھر سماجی بدحالی کے اضافے اور قوت خرید کے گرنے کی صورت میں مرتب ہو رہے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری گو کم ترین ہے مگر یہ کسی قسم کی معاشی اور سماجی ترقی کی بجائے لوٹ مار اور مہنگائی بڑھانے کا باعث بنتی ہے۔ اس کی ایک ننگی شکل بجلی بنانے والے آئی پی پیزکی ہے۔ مقروض معیشت اور سامراجی اطاعت و احکامات کے باعث پاکستان میں معاشی ماہرین کی حکمت عملی معیشت کو وسیع بنیادوں پر استوار کرنے کی بجائے کٹوتیوں، ٹیکسوں کی بھرمار اورمزید قرضوں پر مبنی ہے۔ صنعتی ڈھانچے اور زراعت کو مطلوبہ شکل نہ دے پانے کی وجہ سے نہ صرف برآمدات انتہائی کم ہیں بلکہ روزمرہ ضروریات کی تکمیل کے لئے بھی غیر ملکی اشیا منگوانی پڑتی ہیں۔ اس لئے درآمدات بڑھتی جا رہی ہیں۔جدید ریاست کی عدم تشکیل اور فرسودہ نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچے کے سبب ادارے عہد نو کے معاشی تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہوسکے۔ یوں ٹیکسیشن کا نظام بھی جدیدریاست کی ضروریات کی بجائے ڈنگ ٹپاؤ بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے۔ بھاری بھرکم ”غیر دستاویزی“ (کالی) معیشت بتدریج ملک کی معاشی سانسیں برقرار رکھنے کی مجبوری بن چکی ہے۔ اس کو ریاستی قانون یا جبر کے ذریعے ’دستاویزی‘ بنانے کی ہر کوشش نہ صرف بری طرح ناکام ہوئی ہے بلکہ ایسی کوششوں کے نتیجے میں معاشی بحران اور کاروباری سست روی کے ردعمل پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ طے ہے کہ موجودہ نظام کے رہتے ہوئے دیگر شعبوں اور اداروں کی طرح ٹیکس اصلاحات بھی ایک خواب ہی ہیں۔ یوں صنعتی، تجارتی، خدمات اور کاروباری عمل سے منسلک تقریباً 90 فیصد حصہ براہ راست ٹیکس کے نظام سے باہر ہے۔ اس صورتحال کا سارا خمیازہ محنت کش طبقے، ملازمین اور صارفین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آمدنی کے ذرائع نہ بڑھنے کے باوجود صارفین کو کئی سطحوں پر بالواسطہ ٹیکس (سیلز ٹیکس وغیرہ) دینا پڑتا ہے۔ جس سے قوت خرید میں کمی اور غربت میں اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ پاکستانی کرنسی کی گراوٹ تاریخی حدوں کو چھو کر ہر درآمدی آئٹم کی قیمت میں ہر روز اضافہ کر رہی ہے۔مہنگائی کا بڑا حصہ اب داخلی سے زیادہ خارجی عوامل کے ماتحت ہوچکا ہے۔ اس صورتحال میں اگر عمران خان کو رعایت دے کر کچھ مہینوں کے لئے مزید حکومت کرنے دی جاتی ہے تو بھی مسائل میں کسی طور بھی کمی نہیں آئے گی اور بحران نت نئے راستوں سے جنم لیتے رہیں گے۔ مگر حکومت کے بدلنے کی صورت میں جس قسم کا چوں چوں کا مربہ تیار کیا گیا ہے اس کے لئے مشکلات اور بھی زیادہ ہو جائیں گی۔ عام لوگوں کے ذہن میں ڈالا گیا ہے کہ حکومت بدلنے سے مہنگائی اور معاشی حملوں کا عفریت کنٹرول ہوجائے گا۔ یہ اتنا آسان نہیں۔ ایسے میں اگر عارضی ریلیف کے راستے پر چلا بھی گیا تو پھر معینہ مدت کے بعد زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جہاں ساری معیشت کے خدوخال کو مصنوعی طور پر بحال کرنا ممکن نہیں ہے وہیں سامراجی اداروں کی شرائط کو لمبے عرصے تک التوا میں نہیں ڈالا جا سکتا۔
دوسری طرف وسیع البنیاد حکومت میں جتنے زیادہ فریق ہوتے ہیں وہ حکومت اتنی ہی لاگر اور بے بس ہوتی ہے۔ جہاں ایک طرف درجنوں شرائط کی لسٹ والے اتحادی ہر روز مطالبات لیے کھڑے ہوں گے وہاں مقتدرہ کے ’زیرالتوا مطالبات‘ کی فہرست بھی فوری طور پر سامنے آ جائے گی۔ یوں بھلے مختصر ہی کیوں نہ ہو عبوری حکومت کا دور کسی طور بھی راحت بخش نہیں ہو گا۔ مگر جہاں نئے یا پرانے پاکستان کی طرف مراجعت کا سوال ہے وہاں اس کا تعین کرنے والی قوتوں کا یکسو نہ ہونا کسی اور بحران سے بڑا بحران ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو فیصلے میں اتنا تذبذب کبھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ حکومت کی تبدیلی یا انتشار کا مرحلہ؟ اس کا فیصلہ اگلے دنوں میں قومی سلامتی کے اونٹ کی کروٹ کرے گی۔ اس کا تعین بیرونی مظاہر سے زیادہ اندرونی طاقتوں کے مفادات اور توازن کے تحت ہو گا۔ نہ کہ عوامی مفادات کو مرکزی نقطہ مان کے۔ لکیر کے دونوں طرف کی طاقتیں عوامی مفادات کو صرف نظر کرنے کے لئے ضرورت سے زیادہ شور مچا رہی ہیں۔ نظر انداز کیا جانے والا یہی سب سے بڑا طوفان ہے جو محنت کش طبقے کی خاموش کوکھ میں پنپ رہاہے۔