قمرالزماں خاں
انتخابات کے ابتدائی مراحل بظاہر طے ہو چکے ہیں۔ لیکن اس ملک میں بحران اور عدم استحکام کا یہ حال ہے کہ انتخابات کی تاریخ سے دو ہفتے قبل بھی ان کے ملتوی یا منسوخ ہونے کی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ ایسے امکانات اگرچہ معمولی ہیں لیکن انہیں رد نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال ریاست کے اقدامات سے لگتا ہے کہ یہ”عام انتخابات“ نہیں بلکہ ماضی کی طرح پھر سے ”خاص انتخابات“ ہی ہو رہے ہیں۔ لیکن اس بار الیکشن کے سارے پراسیس کو کنٹرول یا ”مینج“ کرنے کی واردات ماضی سے کہیں زیادہ سخت اور جابرانہ ہے۔ اگرچہ یہ اقدامات بیک فائر کر کے بڑے انتشار کو بھی جنم دے سکتے ہیں۔ لیکن سیاسی سرگرمی اور لوگوں کی شمولیت کے حوالے سے یہ شاید ملکی تاریخ کے پھیکے اور ٹھنڈے ترین انتخابات ہوں گے۔
انتخابی سیاست کے میدان میں اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود ابھی تک زیادہ گرمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ یہ غیر معمولی صورتحال ہے۔ 24 کروڑ انسانوں اور 12 کروڑ پچاسی لاکھ ووٹروں والے ملک میں آج وہ انتخابی گہما گہمی ناپید ہے جو عام طور پر الیکشن کے ماحول کا معمول ہوا کرتی ہے۔ شاید بیشتر حوالوں سے معمول بدل رہا ہے۔ سماج میں حکمران سیاست اور ریاست سے اتنی مایوسی اور ناامیدی اس سے قبل نہیں تھی۔ عام لوگ مروجہ سیاست کی بے قدری اور بے اثری سے بہت حد تک آگاہ ہو چکے ہیں۔ جہاں ایک طرف سیاسی پارٹیاں اپنی ساکھ کھو کر عدم مقبولیت کے معکوسی مقابلوں تک پہنچ چکی ہیں وہاں انتخابی عمل اپنے وقوع پذیر ہونے سے بہت پہلے ہی مذاق بن چکا ہے۔ الیکشن سے قبل ہی اس کے نتائج کے خد و خال ظاہر ہو چکے ہیں۔ یہ بھی طے ہو چکا ہے کہ کون الیکشن پراسیس میں حصہ لے گا اور کس کس کو الیکشن نہیں لڑنے دینا۔ یا لڑنے دینا ہے تو جیتنے نہیں دینا۔ الیکشن کمیشن سیاسی پارٹیوں کے ’اندرونی انتخابات‘ کی طرح ہی ساکھ کھو چکا ہے۔ ہر مرحلے میں ثابت کیا جا رہا ہے کہ وہی ہو گا (یا کم از کم کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی) جو طے کیا جا چکا ہے۔ ریاستی جبر جاری ہے۔ گرفتاریاں اور جیلیں ہیں۔ نااہلی، کاغذات کی نامنظوری اور نشانات دینے میں من مرضی کے اوزار بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ لیکن جہاں یہ سب کچھ پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا وہاں اس جبر اور دھاندلی پر (ایک کو چھوڑ کے) تمام سیاسی پارٹیوں کا ردعمل بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر انتخابی عمل میں کوئی سیاسی پارٹی لاڈلی ہوتی ہے اور کسی ایک یا کچھ کو عتاب زدہ ماحول میں کنٹرولڈ الیکشن لڑنے دیا جاتا ہے۔ یہ تواتر سے کسی نہ کسی شکل میں ہوتا آ رہا ہے۔ مگر اس دھاندلی اور غیر شفاف انتخابی عمل پر مروجہ سیاسی پارٹیوں کا مشترکہ لائحہ عمل ترتیب نہ پانے کی وجوہات بہت ہی شرم ناک ہیں۔ ان پارٹیوں کا غیر اعلانیہ موقف ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کا جبر اگر ان کے حریف پر ہے تو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بالخصوص اس جبر کے نتیجے میں ان کی اقتدار تک رسائی کے امکانات بنتے ہیں تو وہ جابر قوتوں کی اعانت میں کسی قسم کی عار محسوس نہیں کرتیں۔ یہ رویہ اس حکمران طبقے اور سیاسی اشرافیہ کے تاریخی طور پر ریاستی کاسہ لیسی، موقع پرستی اور بدعنوانی پر مبنی کردار کی غمازی کرتا ہے۔
ریاستی لطف و کرم اور آشیرباد کے حوالے سے 2018ء کی سیاسی پوزیشنیں بالکل الٹ ہو چکی ہیں۔ ان پارٹیوں کی ’نظریاتی‘ اورسیاسی قلابازیاں اب سیاسی معمول میں کسی قسم کا تلاطم برپا نہیں کرتیں۔ الٹا اس بددیانتی کو شرمناک سمجھنے والوں کو قدامت پسند کہا جاتا ہے۔ عملیت پسندی کے نام پر گھٹیا قسم کی موقع پرستی کے مظاہر مروجہ سیاست کی روزانہ وار حکمت عملی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہر انتخابی سیزن میں امیدوار ایک سے دوسری پارٹی کی طرف کوچ کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کے لئے ان کے پاس کافی فضول قسم کے جواز بھی ہوتے ہیں۔ پہلے اسے ’لوٹا ازم‘ کہا جاتا تھا مگر اب یہ گالی بھی گالی نہیں رہی ہے۔ وجہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کے ظاہری منشور بھی اب لفظوں کی حد تک ہی مختلف ہیں۔ ان کی اساس ایک ہی ہے۔ لہٰذا کسی پارٹی سے بے وفائی اب نظریاتی بے وفائی نہیں ہوتی۔ عملاً ان تمام پارٹیوں کا نظریہ ایک ہی ہے۔ جو بنیادی طور پر اس نیولبرل سرمایہ داری کی آلہ کاری اور سامراج کی گماشتگی پر مبنی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری، نجکاری، کٹوتیوں، مہنگائی، ڈاؤن سائزنگ وغیرہ کی وہی معاشی پالیسیاں ہیں جو ان میں سے ہر ایک کو اپنے اقتدارمیں نافذ کرنی پڑتی ہیں۔ چونکہ مقامی اسٹیبلشمنٹ کا بھی کوئی عوامی مفاد پر مبنی ایجنڈا نہیں ہے۔ بلکہ تاریخی طور پر وہ بھی عالمی اسٹیبلشمنٹ کے اہداف میں معاون کا کردار ہی ادا کرتی چلی آ رہی ہے لہٰذا سیاسی قیادتوں کے اس سے ٹکراؤ کی کوئی خاص وجہ موجود نہیں ہے۔ اس نظام کو چلانے کے بنیادی امور پر ان کا کافی حد تک اتفاق ہے۔ بدعنوانی اور حصہ داری پر مبنی ذاتی اور گروہی مفادات کے گرد اختلافات کے جوار بھاٹوں کا سلسلہ بہرحال چلتا رہتا ہے۔ ان بنیادوں پر باہمی تعلقات کبھی سردی اور کبھی کچھ گرمی کے ساتھ چلتے، بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ لیکن اس سیاست کی ہر پارٹی اور ہر رجحان کا سب سے بڑا ہدف یہی ہے کہ وہ ریاستی اسٹیبلشمنٹ یا ڈیپ سٹیٹ کی حکومتی آلہ کار بننے کی سعادت حاصل کر لے۔ تاہم ملک کو درپیش جملہ مسائل اور بحرانوں کا کوئی ٹھوس حل نہ ہونے کی وجہ سے پے درپے بننے والی حکومتیں ناکام ہوتی چلی گئی ہیں۔ نظام کا بحران جب بھڑک جاتا ہے تو ان کی آپسی لڑائیاں بھی شدت اختیار کر جاتی ہیں۔ عوامی نفرت اور بیزاری کا سدباب کرنے کے لئے بھی حکومتیں توڑی جاتی ہیں یا وزرائے اعظم کو گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسے میں کسی عوامی پروگرام اور متبادل کے فقدان نے لوگوں کی اکثریت کو اس سیاست سے بیگانہ اور لاتعلق کر کے ایک طرح کی سیاسی بے حسی کا شکار کر دیا ہے۔ موجودہ الیکشن میں بھی زیادہ تر انہی سیاسی وار لارڈ قسم کے گھرانوں کے امیدوار ہیں جو پچھلے انتخابات میں تھے اور پھر اس سے پہلے کے انتخابات میں بھی تھے۔ فرق اتنا ہے کہ کچھ نے پارٹیوں کا ادل بدل کرلیا ہے اور کچھ نے ’حلقہ انتخاب‘ بدل لیا ہے۔ لیکن لوگوں کا شعور بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ سڑکوں، بازاروں، محلوں میں بینر اور جھنڈے تو ہیں مگر یہ سب تشہیری کمپنیوں اور اجرتی کارکنوں کی بدولت ہیں۔ اسی طرح کروڑوں روپے کے اخراجات پر مبنی کمرشل قسم کے جلسوں میں بھی زیادہ تر لوگوں کو لایا جاتا ہے۔ اپنے وقت اور پیسے کی قربانی دے کر آنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ یوں محدود قسم کی یہ سیاسی سرگرمیاں بھی عوامی جوش و جذبے سے عاری ہیں۔
انتخابی منشوروں کی کاریگری بھی بے اثر ہو چکی ہے۔ لوگ ان انتخابی نعروں اور وعدوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں جن کی کوئی ٹھوس معاشی بنیاد نہیں ہوتی۔ تین سو یونٹ مفت بجلی کے انتخابی نعرے پر اٹھے سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے ”خواب تو دیکھا جا سکتا ہے“ کہہ کر اپنے انتخابی منشور کی حقیقت خود ہی بیان کر دی ہے۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ سیاسی قیادتیں عوام کو کیسے بے وقوف بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور ان کے مسائل کے بارے کس حد تک سنجیدہ ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ عام لوگوں کو ان پارٹیوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ یا مختلف سمجھنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔ ہر قسم کی سیاسی لفاظی اور دعووں کو ڈھونگ اور جھوٹ سمجھا جا رہا ہے۔
حکمران سیاست جیسی ہے‘ مسترد ہو رہی ہے۔ لیکن آگے کیا کرنا ہے؟ صرف ووٹ نہ ڈالنا بھی کوئی آپشن نہیں ہے۔ ان سیاسی پارٹیوں کے عوام دشمن کردار اور سماج پر ان کے اقدامات کے بھیانک اثرات کا ادراک کافی نہیں ہے۔ ٹرن آؤٹ کم ہونے کے باوجود بھی جیسی تیسی حکومت بن کر سامراجی و ریاستی ایجنڈے کو وہیں سے شروع کر دے گی جہاں سے پچھلی حکومتوں نے چھوڑا تھا یا موجودہ نگران حکومت چھوڑ کے جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انقلابی قوتیں محنت کش عوام بالخصوص ان کی ہراول اور زیادہ باشعور پرتوں کے سامنے متبادل معاشی، سیاسی اور سماجی پروگرام پیش کریں۔ جس کے لئے پھر ضروری ہو جاتا ہے کہ انتخابات کے ٹھنڈے، محدود اور کنٹرولڈ سیاسی عمل میں بھی جہاں ممکن ہو مداخلت کی جائے۔ موجودہ حالات میں ’کمتر برائی‘ سمجھ کر بھی مجموعی طور پر کسی مروجہ پارٹی کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ نہ ہی تحریک انصاف جیسے رجعتی رجحان کی مظلومیت کے فریب میں آنا چاہئے۔ لیکن آزاد حیثیت یا کسی پارٹی پلیٹ فارم سے کسی حد تک ترقی پسند رجحان رکھنے والے امیدوار ضرور مل سکتے ہیں جو ان نامساعد حالات میں ریاستی جبر کے ساتھ ساتھ روایتی حکمران گھرانوں کے سامنے بھی کھڑے ہیں۔ اس امید اور وضاحت کے ساتھ ان کی حمایت کی جا سکتی ہے کہ جیت کی صورت میں وہ نہ صرف مظلوموں اور محکوموں کی آواز بنیں گے بلکہ طاقت کے ایوانوں کی حقیقت کو بے نقاب کرنے کا فریضہ بھی انجام دیں گے۔ لیکن جیت ہار کے امکانات سے قطع نظر نہ صرف ان کی حمایت کی جانی چاہئے بلکہ ایسی انتخابی مہمات کو انقلابی پراپیگنڈا کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جس میں نعروں اور مطالبات کے ذریعے نہ صرف حکمران سیاست اور اس کے انتخابات کی محدودیت اور متروکیت کو واضح کیا جائے بلکہ اس استحصالی نظام کے خلاف متبادل پروگرام بھی پیش کیا جائے۔ اسی طرح اگر کوئی مارکس وادی انقلابی پروگرام اور نظریات کے ساتھ الیکشن لڑ رہا ہے تو اس کا دست و بازو ضرور بننا چاہئے۔ بشرطیکہ موصوف مارکسی لبادے میں عوام دشمن پارٹی قیادتوں کو بائیں بازو کا ’کور‘ دینے کی واردات میں مصروفِ عمل نہ ہوں۔ اس دوران انقلابیوں کو نہ صرف انتخابی عمل کے اندر بلکہ باہر بھی نیولبرل پالیسیوں بشمول نجکاری، آئی پی پیز کی لوٹ مار، بلوں میں بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار، فیسوں میں اضافے، مہنگائی اور قومی جبر و استحصال کے خلاف مہم منظم کرنی چاہئے۔ جس میں محنت کشوں کے کام کرنے کی جگہوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کا رخ بھی کیا جا سکتا ہے جہاں طلبہ کے سامنے واضح کیا جائے کہ طلبہ یونین کے بغیر یہ جمہوریت ایک ڈھونگ بن جاتی ہے۔ انتخابات میں بھی مداخلت صرف سٹیج سے نہیں بلکہ نیچے زیادہ موثر انداز میں کی جا سکتی ہے اور انقلابی مواد کے ذریعے سماجی بربادی اور معاشی ناکامیوں کے اس ظالمانہ نظام کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
مالیاتی سرمائے، قبائلی جبر اور وڈیرہ شاہی کے زور پر کروڑوں لوگوں کو یرغمال بنا کر اقتدار پر قبضے کی سات دہائیوں کے مناظر عام لوگوں کے شعور کا حصہ ہیں۔ اس سارے عمل کی تفہیم اور وجوہات کیساتھ عام لوگوں کے سامنے آگے کی راہ واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ انقلابی کبھی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھ سکتے۔ سماج میں جاری کسی سیاسی عمل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی اس کا بائیکاٹ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے۔ ان انتخابی سرگرمیوں میں ایسے لوگ جو کسی حد تک ہم خیال بن رہے ہوں ان کو پھر علاقائی اور شہری سطح کی ایکشن کمیٹیوں میں منظم کیا جا سکتا ہے۔ ایسے مطالبات جو روزمرہ کی زندگی اور علاقے، بستی، محلے اور وارڈ کے مسائل سے متعلق ہوں‘ کی بنیاد پر لوگوں کو طبقاتی بنیادوں پر منظم اور متحد کیا جا سکتا ہے۔ انتخابات سے قبل ہی آنے والی حکومت کی ناکامی کے عمومی پیش منظر کو بیان کرنے سے انقلابیوں پر عوامی اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ الیکشن میں عوامی رابطہ مہم اور نظام کے عوام دشمن ایجنڈے کی وضاحت سے بعد از الیکشن نئی حکومت کے حملوں کے دوران عوامی کمیٹیوں کو زیادہ پذیرائی مل سکتی ہے۔ مروجہ سیاسی قیادتیں پہلے سے ہی بڑی حد تک عوامی استرداد کا شکار ہیں۔ لیکن اس استرداد کو ایک انقلابی لائحہ عمل اور راستہ دینے کے لئے محنت کشوں اور وسیع تر عوام میں جانا انقلابیوں کا فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے لئے انتخابی ماحول میں ملنے والے محدود سیاسی و سماجی مواقع کو بھی استعمال کیا جانا چاہئے۔