راہول

صدر میکرون کی نام نہاد پنشن اصلاحات کے خلاف فرانس میں عوامی احتجاجوں کی ایک نئی لہر کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوا جب 16 مارچ کو صدر میکرون کے حکم پر ایوان زیریں میں بحث کو نظر انداز کر کے بنا ووٹنگ کے وزیر اعظم بورن نے آئین کے آرٹیکل 49.3 کا استعمال کرتے ہوئے پنشن اصلاحات کو منظور کر لیا۔ اس حکم کے ذریعے ریٹائرمنٹ کی عمر کو 62 سال سے بڑھا کر 64 سال کر دیا گیا جبکہ مکمل پنشن کے لیے اہل ہونے کا دورانیہ 42 سال سے بڑھا کر 43 سال کر دیا گیا۔ اگر حکومت پر حال ہی میں دائر کی گئی عدم اعتماد کی پارلیمانی تحریک کامیاب نہیں ہوتی ہے تو اس نئے اصلاحاتی بل کو سال کے آخر تک نافذ کر دیا جائے گا۔

یوں تو صدر میکرون کے اس متنازعہ بل کے خلاف عوام اس کے اعلان سے ہی احتجاج میں شامل رہے مگر 23 مارچ کو فرانس کی سڑکوں پر عوام کا ایک سمندر امڈ آیا جس میں 35 لاکھ سے زائد محنت کشوں اور نوجوانوں نے شریک ہو کر احتجاجوں اور ہڑتالوں کے ذریعے میکرون کی متعارف کرائی گئی پنشن اصلاحات کو نہ صرف سرے سے مسترد کر دیا بلکہ مطالبہ کیا کہ اصلاحات کے نام پر جاری اس کھلواڑ کو فوری طور پر بند کیا جائے اور ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کے بجائے فی الفور تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے۔ مظاہرین پر پولیس کے جبر اور تشدد کے باجود بھی احتجاجی تحریک نہ صرف ابھی تک جاری ہے بلکہ فرانس کے کونے کونے میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔

تعلیم، توانائی اور ٹرانسپورٹیشن کے شعبوں کے محنت کشوں نے ملک بھر میں حکومت کی پنشن اصلاحات کے خلاف ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ دارالحکومت پیرس اور ملک کے 370 مقامات پر ریٹائرمنٹ مخالف مظاہرے جاری ہیں جن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مختلف ٹریڈ یونینوں کی طرف سے ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں تقریباً 20 لاکھ سے زائد افراد شریک ہو رہے ہیں جبکہ محنت کشوں کی طرف سے مزید فرانسیسیوں سے سڑکوں پر نکلنے اور 13 اپریل کو دوبارہ ہڑتال کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

مسلسل جاری ہڑتالی سلسلے کی وجہ سے ملک میں بجلی کی پیداوار میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ اسکول کے اساتذہ کا تقریباً پانچواں حصہ بھی ڈیوٹی پر نہیں آ رہا۔ مظاہرین نے لَلی، ٹولوز، لیون اور دیگر شہروں کے قریب اہم شاہراہوں کو بھی بلاک کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ملک بھر میں تمام تیز رفتار ٹرینوں میں سے نصف کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ ان واقعات کی وجہ سے نقل و حمل کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے جبکہ مظاہرین نے اہم شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں بند کیا ہے۔ پیرس میں کچرا جمع کرنے والوں کی تنظیم نے ہڑتال کو مزید جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کے باعث ہزاروں ٹن کچرا سڑکوں پر سڑ رہا ہے۔ فرانس کی اہم ٹریڈ یونین سی جی ٹی کی قیادت کرنے والے فلپ مارٹنز کا کہنا تھاکہ ”لاکھوں لوگ ہڑتال کے لیے سڑکوں پر ہیں۔ اسی طرح ہم صدر کو بہترین جواب دے سکتے ہیں۔“

فرانس میں جاری ان مظاہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان وقتاً فوقتاً کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ 23 مارچ کو ہوئے مظاہروں میں پولیس نے ملک کے کئی شہروں میں مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل داغے جبکہ بعض مقامات پر واٹر کینن کا استعمال بھی کیا گیا۔ ٹریڈ یونینوں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر حکومت کی طرف سے جلد ہی کوئی مصالحانہ سیاسی ردعمل سامنے نہ آیا تو مظاہرے مزید پرتشدد ہو سکتے ہیں۔ 16 مارچ سے جاری ان مظاہروں میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جبکہ متعدد پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی ہیں۔ ہڑتالوں کے حالیہ سلسلے کے باعث برطانوی بادشاہ چارلس سوم کو اپنا دورہ فرانس منسوخ کرنا پڑا جبکہ برطانیہ سمیت یورپ بھر میں ٹوئٹر اور دوسری سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ’ FightLikeTheFrench#‘ ٹرینڈ کر رہا ہے (فرانسیسیوں کی طرح لڑو!)۔ بائیں بازو کی ایل ایف آئی پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار میلنشوں نے بھی فرانس میں جاری ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی اور انہیں فرانسیسی تاریخ کے غیر معمولی احتجاجوں میں سے ایک گردانا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ فرانس میں مئی 1968ء کے بعد سب سے بڑے احتجاج ہیں۔

میکرون حکومت اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران ہی اصلاحات کے نام پر اس قسم کے عوام دشمن قوانین کو لاگو کرنا چاہتی تھی۔ 3 برس قبل آخری بار جب صدر میکرون نے پنشن کے نظام کو تبدیل کرنا چاہا تو اس وقت موسم سرما کے باوجود فرانس کے محنت کشوں کی طرف سے 1968ء کے بعد اپنی تاریخ کی سب سے بڑی ہڑتالیں منظم کی گئیں۔ تاہم کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے صدر میکرون کو اپنے منصوبے کو موخر کرنا پڑا۔ اپنی دوسری مدت کے آغاز سے ہی میکرون کا اقتدار بدترین بحران کا شکار رہا ہے اور عوام میں اس کی مقبولیت میں تیزی سے گراوٹ دیکھی جا رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی تازہ رائے شماری کے مطابق صدر میکرون کی ذاتی مقبولیت 28 فیصد تک گر چکی ہے۔ عوام کی اکثریت نہ صرف موجودہ بل کے معاملے پر میکرون پر تنقید کر رہی ہے بلکہ گزشتہ عرصے میں اس کی اپنائی گئی تمام تر معاشی و سماجی پالیسیوں کے خلاف عوام میں شدید غصہ پنپ رہا تھا جس کا محض ایک اظہار ہمیں حالیہ احتجاجوں میں نظر آ رہا ہے۔

فرانسیسی عوام گزشتہ کافی عرصے سے بدترین مہنگائی، کم اجرت اور ناکافی پنشن سمیت عوامی خدمات میں اہلکاروں کی کمی جیسے مسائل سے جوجھ رہی ہے جبکہ کٹوتیوں کی پالیسی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے عوام کی اکثریت کا جینا محال کر دیا ہے۔ اسی لئے موجودہ تحریک میں عوام کی طرف سے لگایا جانے والا ”میکرون آؤٹ“! کا نعرہ کوئی اتفاق نہیں بلکہ عہد حاضر کی ناگزیریت بنتا جا رہا ہے۔

فرانس میں امڈتی یہ تحریکیں بنیادی طور پر یورپی یونین کے اس معاشی بحران کا اظہار ہیں جس سے وہ ایک دہائی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی نہیں نکل پایا ہے۔ پہلے کٹوتیوں اور اب اصلاحات کے نام پر عوام سے ان کی طویل جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی مراعات چھینی جا رہی ہیں۔ میکرون انتظامیہ کے تمام تر ترقی کے دعوؤں کے باوجود پچھلے سال کی طرح اس سال بھی فرانس کی معاشی شرح نمو اہداف سے کم ہی رہی (تقریباً 2 فیصد) اور اس میں آئندہ سال مزید کمی کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ کورونا کے بعد مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے میکرون ’معیشت کی بحالی اور خوشحالی‘ کا واویلا کر رہا ہے لیکن یہ تمام تر پالیسیاں کسی صورت بھی عوام دوست نہیں ہیں اور ان سے محض بڑی کارپوریشنوں کو ہی فائدہ ہو رہا ہے۔ ریاستی محصولات کو برقرار رکھنے کی حالیہ پالیسی میں بھی امیروں پر سرے سے کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ جبکہ مڈل کلاس یا غریب عوام مسلسل محصولات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ایسے میں میکرون کی مقبولیت میں کمی آنا ناگزیر تھا۔ جس طرح سابقہ صدر اولاندے کی مقبولیت میں ایک تاریخی زوال دیکھا گیا تھا توقع کی جا رہی ہے کہ میکرون کا حال اس سے بھی بھیانک ہو گا۔

مسلسل ریاستی تشدد اور دائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے تحریک کو نام نہاد ”قانونی و آئینی دائرے“ میں رکھنے کی کوششوں کے باوجود بھی فرانس کا محنت کش طبقہ اور نوجوان تھمنے کو تیار نہیں ہیں۔ روایتی ٹریڈ یونین قیادت کی غداریوں اور مصالحت کی وجہ سے اکثر اس قسم کی تحریکوں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالیہ احتجاجوں کو بھی مسلسل جاری رکھنا ایک کٹھن مرحلہ ثابت ہو سکتا ہے مگر اس سب کے باوجود یہ تحریک نہ صرف فرانس بلکہ پورے یورپ کے محنت کش طبقے کے شعور کو جھنجوڑنے میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہو گی۔

فرانس کی تاریخ ایسی ہڑتالوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے حکمران طبقے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ فرانس سمیت یورپ میں ہڑتالوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی پرولتاری طبقے کی۔ یہاں محنت کشوں نے خود کو یونینوں میں منظم کرکے کئی فتوحات حاصل کیں۔ خود فرانس میں نصف صدی قبل مئی 1968ء میں ہوئی ہڑتال ایک انقلابی سرکشی کی نہج تک پہنچ گئی تھی جسے اصلاح پسندوں نے زائل کر دیا۔ اُس وقت فرانس میں جو کچھ ہوا اس کی شدت اور حدت اس قدر تھی کہ اس نے نہ صرف فرانس کی ریاست اور حکمران طبقات بلکہ دنیا کے ہر ایوان اقتدار کو ہلا کے رکھ دیا تھا اور محنت کش طبقے کی سماجی، معاشی اور سیاسی طاقت کو ابھار کے سامنے لے آئی تھی۔ مارکس اور اینگلز نے فرانس کو ”انقلابات کی ماں“ کہا تھا۔ پرولتاریہ کا پہلا انقلاب پیرس کمیون کی صورت میں اسی دھرتی پر رونما ہوا تھا جب18 مارچ سے 28 مئی 1871ء تک اقتدار محنت کشوں کے ہاتھ میں تھا۔

تاریخی طور پر یورپ میں طبقاتی جدوجہد کے حوالے سے فرانس ایک اہم ملک کی حیثیت رکھتاہے۔ فرانس کے محنت کش طبقے نے ایک نہیں کئی بار یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ نہ صرف اس استحصالی نظام کے خلاف لڑنے بلکہ اسے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ تاریخ کے تلخ تجربات سے سیکھتے ہوئے محنت کش طبقہ آج ایک بار پھر جدوجہد کے میدان میں موجود ہے اور ہر جابرانہ و مصالحانہ ہتھکنڈہ اسے روکنے سے قاصر ہے۔ عوام کی اکثریت اپنے مسائل کے حل کیلئے راہ نجات تلاش کر رہی ہے۔ ان حالات میں نئی انقلابی قیادتوں کی تشکیل اور تعمیر کے موافق حالات موجود ہیں۔ جن کے بغیر کوئی انقلاب فتحیاب نہیں ہو سکتا۔ فرانس کے حالات اس عمومی بحرانی کیفیت کا ہی اظہار کر رہے ہیں جن میں سرمایہ دارانہ نظام 2008ء کے بعد سے موجود ہے اور جو آنے والے دنوں میں مزید گہری ہو گی۔ ایسے میں نوجوانوں میں مارکسزم کے انقلابی نظریات کی پیاس بڑھنے لگی ہے۔ فرانس میں طبقاتی جدوجہد کے ابھار کے یہ واقعات یقینا دنیا بھر میں محنت کش طبقے کے شعور کو آگے بڑھانے کا موجب بنیں گے۔