زی۔کے

اپریل 1978ء کا ثور انقلاب افغانستان کی تاریخ کا ایسا روشن باب ہے جس نے نہ صرف افغان سماج اور ثقافت پر دیر پا اور دور رس اثرات مرتب کیے بلکہ اس کی بدولت دنیا بھر کے محنت کش اور مظلوم طبقات کا صبح انقلاب پر یقین مزید پختہ ہوا۔ چنانچہ قائد انقلاب کامریڈ نور محمد ترہ کئی دنیا بھر کے مظلوم اور محکوم عوام کو انقلاب کی نوید ان الفاظ میں دیتا ہے:

”ثور انقلاب صرف افغانستان کے مزدوروں اور سپاہیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا کے مزدوروں اور محکوم عوام کا انقلاب ہے۔ یہ انقلاب جسے خلق پارٹی کی قیادت میں سپاہیوں نے انجام دیا‘ پوری دنیا کے مزدوروں کے لئے ایک عظیم کامیابی ہے۔ 1917ء کے جس انقلاب نے پوری دُنیا کو جھنجھوڑ دیا تھاوہ ہمارے لئے ایک مشعل راہ ہے جس نے ایک مرتبہ پھر دُنیا کو جھنجوڑنا شروع کیا ہے۔“

انقلاب کے بعد برسر اقتدار آنیوالی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی آف افغانستان (PDPA) کی انقلابی اصلاحات کی بدولت افغانستان پر مسلط صدیوں پرانے جاگیردارانہ، قبائلی اور شاہی سیاسی ڈھانچے کی بنیادیں ہلنے لگیں۔ 27 اپریل 1978ء کے افغان ثور انقلاب کے وسیع اثرات شرمناک سازشوں اور ہر قسم کے سامراجی و رجعتی رد انقلابی پروپیگنڈے اور خونریز اقدامات کے باوجود آج بھی ترقی پسند روایات، سوچ اور افکار کی آبیاری کر رہے ہیں۔ انقلاب کی بدولت افغانستان میں نہ صرف محنت کشوں، کسانوں، خانہ بدوشوں اور خواتین و نوجوانوں کی زندگیاں بدلنے لگی تھیں بلکہ فنکاروں، ادیبوں، شعرا اور مفکرین سمیت مجموعی طورپر فن، ادب، حسن سخن اور سوچ میں انقلابی تبدیلیاں مرتب ہونے لگیں۔ وسیع تر انقلابی ثمرات کا جائزہ لینے سے قبل یہ بے جا نہ ہو گا اگر ہم افغان سماج میں اس عظیم انقلابی تبدیلی کے تاریخی محرکات کا مختصر ذکر کریں۔

ویش زلمیان کی تحریک کا آغاز اور اثرات

1947ء میں ویش زلمیان کی تحریک کا آغاز ہوا جس کا مینی فیسٹو ”ہم باشعور نوجوان چاہتے ہیں“ کے عنوان سے پشتو کے ترقی پسند شاعر، مصنف اور مورخ عبدالرؤف بینوا نے لکھا۔ ویش زلمیان میں مختلف ترقی پسند مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے دانشور، شعرا اور سیاسی افراد شامل تھے۔ یہ تمام افراد افغان سماج میں پائے جانے والے تضادات، شاہی نظام کے بھونڈے پن اور استبدادی صورتحال کے طول سے نالاں اور شاہی خاندان و اشرافیہ کے استحصالی ڈھانچے کی مکمل تبدیلی کے خواہاں تھے۔ ان میں سے بعض خارجی ممالک خصوصاً ترکی اور سوویت یونین وغیرہ کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل تھے اور افغانستان کی سیاسی، سماجی، ثقافتی و معاشرتی زندگی پر نادر شاہی ملوکیت کے متکبرانہ جبر سے نجات کی تلاش میں تھے۔ ایسے میں 1965ء میں پی ڈی پے اے کا قیام ہوا اور پھر 1967ء میں اس کی سپلٹ کے نتیجے میں خلق اور پرچم کے دو دھڑے بنے۔ نیز 1978ء میں ثور انقلاب کے برپا ہونے تک سیاسی اور طبقاتی جدوجہد اور سماجی بیداری کے مختلف مارکسی گروہوں کی تحریکوں کے دوران افغانستان میں پشتو اور فارسی زبانوں میں ترقی پسند ادب اور شاعری کے فروغ کا رحجان اور ماحول بنا رہا۔ اس دوران مختلف جرائد مثلاً انگار، شعلہ جاوید، ندائے خلق اور پرچم وغیرہ کا ترقی پسند ادب سامنے آیا جس نے ایک بڑی تبدیلی کے لئے راہ ہموار کی۔ ویش زلمیان کے قیام سے پی ڈی پے اے کی تشکیل تک ویش زلمیان میں پائے جانے والے مختلف گروہ اپنے اپنے انداز اور سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔ مثلاً کچھ نے نیشنلسٹ پوزیشن لی تو کچھ پارلیمانی سیاست سے دور رہے جبکہ کچھ نے ماؤسٹ لائنز اختیار کیں تو کچھ کنارہ کش ہو گئے۔ تاہم فیصلہ کن مرحلے تک پی ڈی پی اے ہی ڈٹی رہی۔

انقلاب ثور کے ادبی، سماجی و ثقافتی اثرات

27 اپریل 1978ء کو برپا ہونے والے انقلاب ثور کے پس منظر میں انقلابی فکر، سرگرمیوں، جدوجہد اور ترقی پسند تحریکوں کا ایک جدلیاتی سلسلہ متحرک تھا۔ 1965ء میں مارکسی پارٹی پی ڈی پی اے کے قیام سے پہلے 1940ء کے عشرہ کے اواخر میں افغان لیفٹ اور دیگر ترقی پسند عناصر پر مشتمل تحریک ویش زلمیان (بیدار نوجوان) کی صورت میں موجود تھی جس نے بعد میں ایک باقاعدہ پارٹی کی شکل لے لی۔ چنانچہ افغان سماج کی فکر، ادب، موسیقی، آرٹ اور کلچر کے دیگر عناصر میں انقلاب ثور کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا اور ترقی پسند سرگرمیوں میں اپنا اظہار کر رہا تھا۔ لہٰذا جو عناصر انقلاب ثور کے لئے فوجی کُو کی گمراہ کن اصطلاح استعمال کرتے ہیں انہیں اپنی اس بدظنی کا ازالہ تاریخ کے اوراق پلٹ کر کرنا چاہئے۔ کیونکہ انقلاب ثور کے محرکات تو ویش زلمیان سے بھی پہلے غازی امان اللہ خان کے دربار کے ترقی پسند حلقوں میں موجود تھے۔ مثلاً 1911ء کی افغانانِ جوان جس کی سربراہی ملکہ ثریا کے والد محمود طرزی کر رہے تھے جو شاہ امان اللہ خان کے وزیر خارجہ تھے اور امان اللہ خان کی ترقی پسند اصلاحات کی اصل محرک بھی افغانانِ جوان ہی تھی۔ ویش زلمیان کے ترقی پسند دانشور دراصل ان ہی تعلیمی اداروں سے پڑھ کر آئے تھے جن کا قیام بادشاہ کی ترقی پسند اصلاحات کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔

آرٹ اور انقلاب

اس وقت میرے سامنے کابل ٹائمز کے 23 دسمبر 1978ء کے شمارے کا صفہ نمبر 8 کھلا ہوا ہے۔ اخبار میں دائیں طرف کونے میں ایک تصویر چھپی ہے جس میں کابل کے میئر‘ ویتنام سے آئے ہوئے وزیر خارجہ سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ بائیں جانب موصوف کا بیان ہے۔ لیکن اس وقت میری دلچسپی کا باعث اپنی نوعیت کا وہ منفرد حکومتی اشتہار ہے جو ’اہم نیلام‘ کے عنوان سے چھپا ہے۔ اشتہار میں ڈیموکریٹک ریپبلک آف افغانستان (انقلاب کے بعد افغانستان کا نام) کی وزارتِ مالیات کی جانب سے کسی یحییٰ خاندان کی قومیائی گئی اشیا کی نیلامی کی جا رہی ہے۔ داخلہ ٹکٹ 10 افغانی ہے اور نیلامی کے وقت کا تعین صبح 9 سے دوپہر 3 بجے رکھا گیا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خاندان اور اس کا سربراہ کون ہے لیکن یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس کا تعلق اشرافیہ سے ہے اور اشیا میں ایسی نادر اشیا ضرور ہوں گی جنہیں آرٹ کے نام پر اپنی بند الماریوں میں نجانے کتنی نسلوں سے اس خاندان نے چھپایا ہو گا اور انقلابی حکومت کی بدولت اب انہیں عام انسانوں کی پہنچ میں دینے کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ اشتہار ایک علامت ہے ان عوام دوست اصلاحات کی جن کی رو سے بے زمین اور بے گھر کسانوں اور محکوموں میں زمینیں تقسیم کی گئیں اور ان محکوموں کو زمینی خداؤں سے نجات دلائی گئی۔ انقلاب سے پہلے کی نادر شاہی اشرافیہ نے نہ صرف زمینوں اور نوادرات پر قبضہ کر رکھا تھا بلکہ آرٹ کی ایک دوسری صنف یعنی موسیقی کو بھی اپنے محلوں اور درباروں تک محدود کر رکھا تھا۔

افغان امرا کے خرابات خانوں میں مقید آرٹ

ہندوستان، ایران اور افغانستان کے شاہوں اور اُمرا کے درباروں میں رقص و موسیقی اور شاعری کی محفلوں کی شہنشاہانہ داستانوں سے کون واقف نہیں۔ نسل در نسل ان شاہوں، بادشاہوں، وزیروں، مشیروں، سرداروں، خوانین اور حکمراں طبقات کے زیر تسلط رہتے ہوئے ہمارے بچے بچے کو نہ صرف ان کے شجرے یاد کرائے گئے ہیں بلکہ ہم ان کی تعمیر کردہ عالیشان عمارتوں کی سحر انگیز ی کیساتھ ساتھ ان کی محبوباؤں کے ناموں اور خد وخال سے بھی واقف ہیں۔ ان سے ایسی صفات منسوب کی گئی ہیں جن کی پراسراریت، رعب اور دبدبے کے زیر اثر مظلوم و محکوم طبقات اپنے اوپر طاری کی گئی بیگانگی کے ذاتی خول میں مقید رہنے کے اپنے حال میں ہی خوش ہیں۔ امرا کے ذوق و شوق، رقص و سرور، چمک دمک اور جاہ و جلال کے زرد آسمانوں کا ذکر ہو اور اس میں سے کلاسیکی موسیقی، ستار، طبلے اور رباب کی آوازیں نہیں آ رہی ہوں تو آسمانوں کی زردی پھیکی پڑنے لگتی ہے۔ ایران میں بخارا کے ا میروں کے ایسے ہی آسمانوں پر اُنیسویں صدی کے اواخر میں ایرانی موسیقی کا نظام’شش مقام‘ دریافت ہوا اور محل کی دیواروں سے سُر ٹکراتے رہے۔ کابل میں اُنیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز پر افغان موسیقی کی جداگانہ صنف کا آغاز ہوا۔ تخت کابل‘ شیر علی خان سے لے کر ظاہر شاہ تک موسیقی کی سرپرستی کرتا رہا اور جب پدرانہ سماج کے بادشاہ کسی کی سرپرستی کرتے ہیں تو اس سے باہر نکلنے کا خیال کم از کم نوخیز انسانوں کے دلوں میں نہیں آنا چائیے۔ اب چاہے یہ نو خیز انسانی بچے ہو ں یا افغان موسیقی کی نئی صنف۔ شیر علی خان ایسے ہی شوق کی تکمیل کے لئے ہندوستان سے گوئیے، طبلہ نواز، سارنگی نواز، رباب نواز اور رقاصہ خواتین فنکاروں کو ان کے گھروں سے ہزاروں میل دور کابل میں لا کر سرپرستی کرتے تھے۔ امیر شیر علی ہندوستان سے جو سازندے اور رقاص اپنے دربار کی شان بڑھانے کے لئے لائے تھے انہیں دربار کے مضافات میں جگہ دی گئی تھی۔ اس وجہ سے نہیں کہ امیر ان فنکاروں کی قدر کرتے تھے اور انہیں اپنے محل کے قریب رکھنا چاہتے تھے بلکہ قریبی رہائش دینے کی وجہ یہ تھی کہ انہیں بلانے میں وقت کم لگے۔ بہر حال ان سازندوں اور رقاصاؤں کا ایک محلہ سا بن گیا تھا جسے کوچہ خرابات کہتے تھے۔ خرابات بیسویں صدی کے وسط تک اتنا وسیع ہو گیا تھا کہ اس کے رہائشی سینکڑوں تک پہنچ چکے تھے۔ تاہم جب ہم شاہ امان اللہ خان کے دور میں قدم رکھتے ہیں تو موسیقی اور آرٹ خرابات خانوں سے نکل کر عوامی میلوں کا حصہ بنتے نظر آتے ہیں۔ بعد میں آنیوالے حکمرانوں خصوصاً امان اللہ خان کی ریڈیکل اصلاحات کے رد عمل میں تخت کابل پر قبضہ کرنے والے حبیب اللہ کلکرنی یا بچہ سکہ جو ایک انتہا پسند جنونی تھا نے امان اللہ خان کی دیگر اصلاحات کے ساتھ فن موسیقی کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ یہاں تک کہ کوچہ خرابات کے فنکار اپنی جان بچانے کے لئے روپوش ہونے لگے۔ اس کے بعد نادر شاہ نے تخت پر قبضہ کر کے حبیب اللہ کو پھانسی دے دی۔ تاہم امان اللہ خان نے عوامی میلوں میں موسیقی کی جو روایت رکھی تھی اس سے عوامی سطح پر بھی اب موسیقی سے لطف اندوز ہونے کے دروازے کھلنے لگے تھے۔

انقلاب کے بعد کی موسیقی

اگرچہ نادر شاہی دور تک موسیقی میلوں اور عوامی محفلوں کی زینت بننے لگی تھی اور جشن کابل جیسے میلے افغان موسیقی کی پہچان اور علامت بن گئے تھے تاہم اس وقت ریڈیو کابل جس نے 1925ء میں اپنی نشریات کا آغاز کیا تھا‘ پر بڑے فنکاروں اور گھرانوں کی اجارہ داری تھی۔ اس میں نچلے اور محنت کش طبقات، ان کی ثقافت اور روزمرہ زندگی کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ نئی انقلابی حکومت نے یہ روایات توڑ ڈالیں اور نچلے و پسماندہ طبقات کی آواز بھی مواصلات کے ان ریاستی اداروں سے سنی جانے لگی۔ نیز نئے فنکاروں کو بھی اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کے مواقع فراہم کیے جانے لگے۔ انقلاب ثور کے بعد 19 اگست 1978ء کو افغانستان کے یوم آزادی (روزِ استقلالِ افغانستان) کے موقع پر نور محمد ترہ کئی نے ملک میں پہلی ٹیلی ویژن نشریات کا افتتاح ان الفاظ کے ساتھ کیا:

”اس وقت جب میں افغانستان کے عوامی ٹیلیوژن کا افتتاح کر رہا ہوں تو اس ملک کے وہ مظلوم اور محنت کش لوگ میری توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہیں جو صدیوں سے مادی دولت پیدا کرتے رہے ہیں لیکن خود اس کے ثمرات سے محروم رہے ہیں۔ اس سے پہلے کے حکمران طبقات زندگی کی ان تمام سہولتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں جو محنت کشوں کے ہاتھوں کی پیداوار تھیں۔ باغات، محلات، سینما گھر، ہوٹل، کاریں، ہوائی اڈے اور ٹیلی ویژن محنت کشوں کے پسینے کی پیداوار ہیں لیکن شہزادوں، سرداروں اور امیروں نے ان کے مزے لیے۔ شاندار ثور انقلاب نے ہمارے وطن عزیز میں ان رسموں اور روایتوں کا سلسلہ بند کر دیاہے اور اس غیر منصفانہ تقسیم کو ہمیشہ کے لئے ختم کر ڈالا ہے جو استحصال کرنے والوں کے مفاد میں منظم کی گئی تھی۔ اسی وجہ سے ہم اپنے انقلاب کو عوامی انقلاب کہتے ہیں جس کی بنیاد محنت کشوں کے مفادات کی تکمیل اور حقیقی جمہوریت کے اُصولوں پر رکھی گئی ہے…میں ٹیلیویژن کے تمام سرکاری و غیر سرکاری ملازمین سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے تمام پروگراموں اور تحریروں کو افغانستان کے محنت کش عوام کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔“

انقلابی افغانستان کی ان عوامی میڈیا پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے ریڈیو اور نئے قائم شدہ ٹیلی ویژن پر پہلی مرتبہ محنت کش طبقے، قبائلی سماج کے ستائے ہوئے افراد، کسانوں اور خصوصاً نوجوانوں اور عورتوں کی آواز سنی جانے لگی۔ یوں شاعری و موسیقی اور ادب و آرٹ کے دیگر شعبوں میں انقلابی تبدیلی آئی اور افغان ثقافت میں مزدور محنت کش طبقات کے رنگ نظر آنے لگے۔ کابل ریڈیو کے بڑے آرکسٹرا (آرکسٹرا بزرگ) کے کنڈکٹر اُستاد سلیم سرمست جو افغانستان میں سمفنی کے بانی تھے نے انقلاب ثور کے بعد کئی مقبول انقلابی ترانے آرکسٹرا پر کنڈکٹ کیے۔ جن میں ’جاوداں‘ اور ’ما برابریم‘ جیسے خوبصورت انقلابی ترانے شامل ہیں۔ یہ سلیم سرمست ہی تھے جنہوں نے افغانستان کا انقلابی ترانہ ’گرم شہ لا گرم شہ‘ کنڈکٹ کیا اور یوم مئی کی تقریب میں پیش کیا۔ ترانے کی دُھن استاد جلیل زلاند نے کمپوز کی تھی۔ زلاند وہی کمپوزر ہیں جنہوں نے مشہور ایرانی سنگر گوگوش کے مقبول گانے ’من آمدہ ام‘ کی دُھن بنائی تھی جس سے کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں عاطف اسلم اور گل پانڑہ نے شہرت پائی۔ شاید موسیقی بھی اپنی نوعیت میں انقلابی ہوتی ہے۔ یہ سرحدوں، قومیتوں اور فرقوں کی پابند نہیں ہوتی۔ اسی لئے تو یہ جنونیوں اور فاشسٹوں کے قابو میں نہیں آتی اور اپنی کائناتی وسعت کے ساتھ کبھی مندر میں بھجن بن کر گائی جاتی ہے توکبھی کسی مزار میں قوالی بن کر جھومتی ہے اور کبھی چرچ میں حمد بن کر گونجتی ہے۔

انقلابی شعرا

۱۔ سلیمان لائق (1930-2020ء)

گرم شہ لا گرم شہ (تپتے چلو کچھ اور تپو)
تہ ای مقدس لمرہ (تم اے خورشید عظیم)
ای دا آزادی لمرہ (اے خورشید آزادی)
ای دا نیکمرغی لمرہ (اے خورشید خوش بختی)

انقلابی افغانستان کا یہ ترانہ پشتو شاعری میں محنت کش طبقات کی آواز کی انقلابی ترجمانی کرتا ہے۔ نیز انقلاب ثور کی انقلابی علامت اور میراث کا درجہ بھی رکھتا ہے۔ یہ ترانہ انقلابی شاعر کامریڈ سلیمان لائق نے لکھا تھا۔ سلیمان لائق پی ڈی پی اے کی انقلابی جد و جہد کا حصہ رہے ہیں اور پی ڈی پی اے میں وزیر ریڈیو و ٹیلی ویژن تھے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ انقلاب ِثور نے شاعری کے روایتی موضوعات کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ شعرا خود پسندی اور خود ترسی کے انفرادی موضوعی اور امثالی طلسم کدے سے نکل کر اجتماعی زندگی کے حقیقی مسائل کو اپنے اشعار کا موضوع بنا رہے تھے۔ ان کے سخن اور پیغام دونوں میں جدت اور پختگی آ رہی تھی۔ سلیمان لائق ایک اور جگہ افغانستان میں بربریت اور انتہا پسندی کا بیج بونے والی قوتوں کو خبردار کر کے کہتے ہیں (ترجمہ):

اے خانہ ظلم و استبداد
کیا سنتے نہیں تم جرس زماں
کھلی آنکھوں سے اب تکتے ہیں ہم
تیرے دامن سو بڑھتے طوفاں

اسی طرح سماج کی قدامت پسندی اور مردہ پرستی کے مقابلے میں نئے سویرے کی نوید اس طرح دیتے ہیں (ترجمہ):

سنو مردوں کے قبرستانوں پر
حیاتِ نو نیا دوراں سجائے گا
سنو کوشان کے خرابوں پر
جہانِ نو نیا انساں بنائے گا

ایک اور جگہ ماضی پرستوں اور قدامت پسندوں سے یوں مخاطب ہوتے ہیں (ترجمہ):

جو تم گزری ہوئی یادوں کے وارث ہو
تمہاری گود میں سوئے زمانے ہیں
میرے اشعار کے بے پایاں دریا میں
خیالِ زیست سے پلتی بھونچالیں ہیں

۲۔ گل باچا اُلفت (1909-77ء)

گل باچا الفت اگرچہ انقلاب ثور کا سویرا نہیں دیکھ پائے تھے تاہم انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں اپنی ترقی پسند شاعری سے حصہ ضرور ڈالتے رہے۔ ان کا تعلق ویش زلمیان کی تحریک سے رہا اور اپنی ترقی پسند فکر کی وجہ سے آج بھی سراہے جاتے ہیں۔ سیاسی فکر میں ثابت قدمی کے فقدان کا شکار موقع پرست عناصر کے بارے میں بتاتے ہیں (ترجمہ):

آج ایک کے پیچھے بھاگتے ہیں کل کسی اور کے
کبھی داڑھی کے پیچھے لگے رہتے ہیں کبھی زُلفوں کے
بھیڑیں ہیں جو قصائی اور گڈریے میں تمیز نہیں رکھتے
قصائی کے ہاتھ میں گھاس دیکھ کر اپنے قاتل کے پیچھے چل پڑتے ہیں
اپنی نظم ’خان کے نام‘میں کہتے ہیں:
سنو میری بھوک کے ہاتھوں جان نکل رہی ہے اور تمہاری بسیار خوری سے
وہ مجھے خاموش کرا لیتا ہے یہ کہہ کر کہ یہ تقسیم افلاک کی ہے
اسلام کے نام پر کیسے کیسے ظلم ہونے لگے ہیں
اے خان میں تمہاری مسلمانی کی حقیقت پہچان گیا ہوں

۳۔ اجمل خٹک (1925-2010ء)

اجمل خٹک کا شمار جدید پشتو شاعروں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی طویل سیاسی جدوجہد اور ترقی پسند شاعری کی بنیاد پر قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ وہ انقلاب ثور سے افغانستان میں اپنی جلا وطنی کے دوران وابستہ رہے اور اس عظیم واقعہ نے ان کے کام کے ادبی اور سیاسی پہلووں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کی ایک نظم ’فیصلہ‘ میں سے چند اقتباسات (ترجمہ):

خان کا گھر تو سونے سے لدا ہوا ہے
اور میرے بچے غربت کی خاک چاٹنے پر مجبور ہیں
تمہارے بینکوں میں پڑا منافع تو دن بہ دن پھیل رہا ہے
اور میرے جسم میں میرا خون دن بہ دن سوکھتا جا رہا ہے
تم میری کمائی سے عیاشی کی زندگی گزار رہے ہو
اور مجھے قرض میں غرق ہو کے درگور ہونا پڑ رہا ہے
تم میرے کمرے میں بھی میرے وارث ہو
اور اپنے گھر میں بھی میری حیثیت چور کی سی ہے

۴۔ سلیم راز (1939-2021ء)

پشتو کے ترقی پسند انقلابی شاعر اور نقاد کے کلام سے اقتباس (ترجمہ):

میں سرحدوں کا قائل نہیں
دنیا کے ہر وطن کا باشندہ ہوں میں
سرمایہ داری سے نفرت کا برملا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں (ترجمہ):
ایسے نظام سے جو عوام کا استحصال کرتا ہو
ہم نفرت نفرت نفرت کرتے ہیں
جب ہم ناداروں کے لئے حکمرانوں کے پاس صرف سولیاں ہیں
تو چل کر مظلوموں کی حمایت کرتے ہیں

انقلاب نے ایسے ان گنت شعرا پیدا کیے اور ان میں سے بیشمار کی سوچ اور فکر کو ایسے انقلابی رنگ میں رنگ دیا کہ ان کے سرسری تذکرے کے لئے بھی یقینا کتابوں کی کئی جلد یں ناکافی لگتی ہیں۔ اسی لئے تو اطمینان ہوتا ہے کہ انقلابات کے آثار اور ثمرات مٹائے نہیں مٹتے۔

مہاجر کیمپوں میں جہادی تعلیم

افغان سماج اور اس کی ثقافت کے روشن پہلوؤں پر سامراجی اور رجعتی حملے اگرچہ غازی امان اللہ خان کی ترقی پسند اصلاحات کے وقت سے شروع ہوئے تاہم افغانستان میں جب سرد جنگ کے پرانے کھلاڑی 1979ء میں سابقہ سوویت یونین کی مداخلت کے بعد دوبارہ آمنے سامنے ہوئے تو امریکی خفیہ ادارے افغان جنگ میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر خطے کی رجعتی قوتوں کی بھرپور پشت پناہی کرنے لگے۔ ان متفرق قوتوں کو پہلے مرحلے میں سرحد پار باقاعدہ عسکری تربیت دی جانے لگی پھر انہیں اسلحے سے لیس کر کے غیروں کی جنگ کا ایندھن بنایا جانے لگا۔ مذہبی جہاد کے لیبل تلے لڑنے والے جنونیوں کے ذریعے پیٹرو ڈالرز کے عوض افغانستان میں سوویت افواج کے ساتھ جھڑپ میں ایسی تباہی مچائی گئی کہ ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ افغانستان چھوڑ کر ہمسایہ ممالک جیسا کہ پاکستان اور ایران میں پناہ لینے لگے۔ دوسری جانب پاکستان اور ایران کے مہاجر کیمپوں میں نئی افغان نسل پر رجعتی کام شروع ہوا۔ جنگ کے لئے انسانی ایندھن فراہم کرنے کے لئے ان کیمپوں میں نام نہاد تعلیم کے بہانے افغانوں کو اپنی پہچان اور ثقافت سے کاٹ کر مذہبی بنیاد پرستی اور جنون کی شناخت دی جانے لگی۔ واشنگٹن پوسٹ کے 23 مارچ 2002ء کے شمارے میں جو سٹیفنز اور ڈیوڈ بی اوٹاوے نے ایک آرٹیکل میں انکشاف کیا ہے کہ ان مہاجر کیمپوں میں پڑھائی جانے والی دری اور پشتو زبانوں کی نصابی کتب 1980ء کے اوائل میں نبراسکا اوماہا یونیوسٹی اور اس کے سنٹر فار افغانستان سٹڈیز میں یو ایس ایڈ کی امدادی گرانٹ سے تیار کی گئیں۔ 1984ء سے 1994ء کے دوران اس کام کے لئے نبراسکا یونیورسٹی کو 51 ملین ڈالرکی رقم فراہم کی گئی۔ ان کتب میں بچوں کے قاعدوں میں ٹینکوں، میزائلوں، بارودی سرنگوں اور گولیوں کی تصویروں کی مدد سے حساب کتاب سکھایا جاتا تھا۔ نام نہاد مجاہدین کو افغانستان کے ہیروز اور مذہبی نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ افغانستان کے حقیقی ہیروز جن میں غازی امان اللہ خان جیسے لوگ شامل تھے کی ترقی پسند سوچ کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا اور ان جیسے تمام سامراج دشمنوں، انقلابیوں اور افغان سماج اور مظلوم طبقات کے سچے نمائندوں کی کردار کشی کی جاتی اور قابل نفرت کردار کے طور پر پیش کیا جاتا اور اس کے بدلے ایسے پر تشدد اور رجعتی پیغامات ان معصوم ذہنوں میں بھر دیے جاتے کہ وہ اپنی شناخت اور تاریخ سے یکسر کٹ جاتے۔ یوں نئی نسل خارجی سامراجی عزائم کی تکمیل، پیٹرو ڈالرز کے حصول اور نام نہاد جہاد کے نام سے نبراسکا یونیورسٹی کے نصاب کی مرہون منت انتہاپسند جنونی بن چکی تھی اور فروری 1989ء میں سوویت فوجوں کے انخلا کی تکمیل کے بعد آپس میں لڑنے جھگڑنے لگی اور یوں افغانستان کو ایک طویل اور خون ریز رجعتی خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا۔

طالبانائزیشن اور افغان سماج

آج انقلاب ثور کے ٹھیک 45 برس گزرنے کے بعد افغانستان میں طالبان دوسری مرتبہ اقتدار میں ہیں اور اپنی سخت گیر، بنیاد پرستانہ، رجعتی، جنونی اور انتہا پسندانہ تشریحات کے ساتھ افغانستان کی تہذیب، ثقافت اور سماج کے ترقی پسند اور روشن پہلوؤں کو تہس نہس کرنے کے ناروا عمل میں ایک مرتبہ پھر مصروف ہیں۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے پر خواتین کو تعلیم حاصل کرنے سے یکسر روک دیا گیا ہے۔ ان کی بڑے شہروں تک محدود سماجی آزادی، فنون لطیفہ میں حصہ داری‘ یہاں تک کہ کسی بھی شعبے میں روزگار کے حصول تک پہ قدغن لگا کر انہیں مکمل طور پر مفلوج کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں طالبانائزیشن کے پسماندہ جبری اور استبدادی عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے جو افغان سماج، اس کی ثقافت اور اس کے شعور کو نیست و نابود کرنے پر عمل پیرا ہے۔ خواتین کی تعلیم پر حملہ آور ہونے سے بھی قبل قابض ہونے کے ابتدائی دنوں میں ہی قدیم افغان موسیقی کا گلا گھونٹ دیا جانے لگا۔ آوازیں قتل ہونے لگیں۔ افغان موسیقی اور ساز محبت بکھیرنے کا سامان تھے۔ جشن کابل جیسے لوک میلوں میں محبت اور میل جول کے سچے انسانی جذبوں کے فروغ کاپیغام پہنچانے کا راستہ روکنے کے لئے سامان موسیقی کی گھر گھر تلاشی کر کے اسے نذر آتش کیا جا رہا ہے۔ سریلے گیتوں اور نغموں کو آتشیں اسلحے کی گھن گرج سے خاموش کیا جانے لگا ہے۔ نغمہ سرا رباب کے تار آخری چیخ کے ساتھ ساکت کر دئیے گئے۔ ہارمونیم کی ملائم دھن‘ جنونی غراہٹ اور متکبرانہ و وحشیانہ قہقہوں میں چنگیزی بربریت کے ساتھ دفن کی جانے لگی اور اس کے بعد طبلے اپنی لے بھول گئے۔ پھر ان سازوں کو یوں نظر آتش کیا جانے لگا گویا مسرت اور زندگی بخشنے والے ساز کافر ہیں اور زندگی چھیننے والا اسلحہ نجات دہندہ۔ یہ کوئی لفاظی ہے نہ علاماتی استعارے بلکہ طالبان نے آتے ہی اپنی بربریت کا مظاہرہ قندھار کے قریب ایک مزاحیہ فنکار کو ہلاک کر کے اس کی لاش کو درخت سے لٹکا کر کیا۔ ان کے ابتدائی دنوں کے ایک اور واقعہ میں صوبہ بغلان سے تعلق رکھنے والے لوک فنکار فواد اندرابی کو گھر سے گھسیٹ کر گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ اندرابی قدیم افغانی ساز غچک کے ساتھ اپنی وادی کے فطری نظاروں کی تحسین میں لوک گیت گایا کرتا تھا۔ اسی طرح انہی دنوں ایک واقعہ کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں پکتیا میں ایک گلوکار کو طالبان نے پکڑ کر پہلے اس پہ تشدد کیا پھر اس کا سر منڈوا کر اس کے سامنے اس کے تمام ساز نظر آتش کیے اور اسے پبلک میں دیر تک ذلیل کیا جاتا رہا۔ وہ بے بس آنسو بہاتے ہوئے‘ طالبان جنگجوؤں کے سامنے اپنے ناکردہ گناہوں کا جبری اعتراف کرتا رہا۔ ایک اور ویڈیو میں کچھ فنکاروں سے ان کے ساز چھین کر ایک بڑے پتھر سے سازوں کو توڑا جاتا ہے۔ اس قسم کے اندوہناک اقدمات کے ذریعے افغانستان سے موسیقی اور دیگر فنون کو نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور افغان معاشرے میں ترقی پسندی، روشن خیالی، یکجہتی، خوشی اور امید کی ہر قدر کو کچلا جا رہا ہے۔ باغی آوازوں کو جبری طریقے سے خاموش کر ایا گیا ہے۔ افغانستان میں آرٹ اور موسیقی سے وابستہ افراد ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے یا روپوش ہو گئے ہیں۔ موسیقی افغان ثقافت اور سماج کی ایک پہچان رہی ہے۔ اسے افغان سماج سے علیحدہ کرنے کی جبری کوشش نہایت احمقانہ اور جنونی عمل ہے۔ ایسی ہی ایک کوشش طالبان کے پہلے قبضے کے دوران بھی کی گئی لیکن اس کے رد عمل میں افغان موسیقی اور زیادہ مقبولیت اور بین الاقوامی شناخت کے ساتھ سامنے آنے لگی۔ موسیقی پر دوبارہ پابندی لگانے کے رد عمل میں نامور افغان گلوکاروں مثلاً فرہاد دریا، استاد مہوش، استاد ناشناس اور سیتا قاسمی وغیرہ نے اس کو طالبان کا افغان ثقافت پر حملہ قرار دیا ہے۔ گلوگارہ سیتا قاسمی نے تو شدید الفاظ کے ساتھ اس رجعتی عمل اور خود طالبان لیڈرشپ کی بھی مذمت کی۔

رجعت کا ایک اور وحشیانہ حملہ خواتین کو تعلیم سے روکنے اور ان کے تعلیمی اداروں کی بندش سے کیا گیا۔ ان اقدامات سے افغان خواتین سے ان کے خواب اور مستقبل چھین کر انہیں چار دیواریوں میں ایک بار پھر مقید کر کے گویا زندہ دفن کر دیا گیا ہے۔ انتہاپسندی اور بنیاد پرستی کا یہ شیوا اور تیور کوئی نئی بات ہے۔ نہ یہ پہلی بار ہوتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔ قدامت پرستی اور رجعت پسندی کا اولین حملہ ہمیشہ ثقافتوں اور سماجوں کے کومل، شائستہ اور روشن پہلوؤں اور عناصر پر ہوتا ہے۔ فلسفے، ساز اور عورت تینوں کا تعلق نام نہاد شیطان اور بدی سے جوڑ کر سماج کے ہر فرد کو یہ انتہا پسند جنونی اپنے ساتھ اپنی بدبودار اور تاریک غاروں میں سر کے بل لٹکنے پر مجبور کرنے کی نامراد کوشش کر رہے ہیں۔

اختتامیہ

امریکی افواج کے بزدلانہ انخلا، امریکی و مغربی امداد کی بندش نیز طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے سے افغانستان میں جو فوری صورتحال اُبھری اور واقعات سامنے آئے انہوں نے دُنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ عالمی سامراج کے علمبردار کا منحوس چہرہ جس طرح سے ایک مرتبہ پھر رسوا ہوا اس کی گونج تو خیر تاریخ میں گونجتی رہے گی لیکن طالبان کے دوبارہ آنے کے لئے جس طرح سے راہ ہموار کی گئی اور نصف صدی سے مسلسل حالت جنگ کی بربادیوں اور تباہ کاریوں کا سامنا کرنے والی مظلوم افغان عوام کو جن جنونی بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا گیا ہے اس سے ملک کا انفرا سٹرکچر، معیشت، ثقافت اور شناخت شدید خطرے میں پڑ گئی ہے۔ وہ تمام ثمرات جو انقلاب ثور کے عوض اس پسماندہ خطے کے حصے میں آئے تھے انہیں نیست و نابود کرنے کی ایک مرتبہ پھر منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ امریکی سامراج اور اس کے علاقائی حواریوں کے تخلیق کردہ یہ طالبان بڑے شہروں سے دور افغانستان کے دور دراز علاقوں میں اپنے دہائیوں پر محیط انتہا پسندانہ اور جنگی اقدامات اور عزائم کی مشق رکھتے تھے لیکن بطور فاتح بڑے شہروں میں داخل ہوئے تو غیر مساوی و مشترک ترقی کے شہری انفراسٹرکچر نے انہیں نہ صرف خود حیرت زدہ کر دیا بلکہ کمپیوٹر لیبارٹریوں، ائیر پورٹس اور جدید آلات سے مزین دیگر مقامات پر ان کی وائرل ویڈیوز میں ان جنگجوؤں کی بن مانسوں جیسی عجیب و غریب حرکات نے خوب شہرت کمائی۔ قدامت پرستانہ رویے جب اپنی بنیاد پرستی کی وجہ سے سماج کی جدت سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے تو متشدد ہو کر انتہا پسندی پہ اتر آتے ہیں۔ طالبان جنگجوؤں کو اپنی حرکات پر دسترس اور شعور بھلے نہ ہو لیکن ان کے رہنما اپنے پچھلے تجربات اور کرم فرماؤں سے عیاری ضرور سیکھ گئے ہیں۔ اسی بنا پر یہ افغانستان کے سماج کی ثقافت اور شناخت کو یکسر بدلنے کا جارحانہ منصوبہ بھی رکھتے ہیں۔ کسی خارجی فاتح کی طرح انہیں نہ افغان عوام کی بھوک کی فکر ہے نہ ان کی غربت اور بیروزگاری کی۔ بلکہ وہ ایک مرتبہ پھر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ سماج کو ماضی کے اندھیروں میں دھکیلنے جا رہے ہیں۔ ثقافت کی تمام تر ترقی پسندانہ باقیات کو حیلے بہانے سے مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کی جگہ جبری طور پر دقیانوسی اور قدامت پرستانہ سوچ کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے نام بدلے جا رہے ہیں۔ خواتین کو تعلیم سے محروم کرنے کے بعد اب ان اداروں کے نصاب بدلے جانے لگے ہیں۔ بڑی تعداد میں رجعتی تعلیمی اداروں میں اضافہ کیا جانے لگا ہے۔ یہاں تک کہ شہروں کے نام تک تبدیل کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کہیں پر تاریخی مقامات بلڈوز کیے جا رہے ہیں تو کہیں پہ گھر مسمار کر کے مدرسوں کی توسیع ہو رہی ہے۔ لیکن افغان عوام کو مذہب کی آڑ میں جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے کے کھیل سے اب بچہ بچہ واقف ہے۔ ان اقدامات پر رد عمل دیتے ہوئے ایک مظاہرے میں شریک افغان لڑکی نے کہا ”انہوں نے وہ آخری پُل بھی توڑ دیا ہے جو مجھے میرے مستقبل سے جوڑ سکتا تھا۔“ پابندی نہ صرف خواتین کے تعلیم حاصل کرنے پر لگی ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے دروازے خواتین پر نازو انا کی سر زمین پربند کر دیے گئے ہیں۔ اٹھارہویں صدی کی شاعرہ و مصنفہ نازو انا جن کا اصل نام نازو توخی تھا کی علم دوستی کو پشتون ثقافت میں خواتین کی ترقی پسندی کے ایک استعارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ چنانچہ طالبان یہ نہایت احمقانہ جواز گھڑنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ خواتین کی تعلیم افغان روایات کے منافی ہے۔ کچھ ایسا ہی جنونی وحشیانہ تناظر خطے میں ایرانی ملاکریسی کا اُبھرتا ہے جب خواتین پر جبر کے ایک واقعہ نے پوری ملاکریسی کے جابرانہ سٹرکچر کو ہلا کر رکھ دیا۔ مہاسا امینی کے سر سے سکارف کیا سرکا پوری ایرانی ریاست ننگی ہو گئی۔ تاریخ کے بدترین وحشیانہ تشدد نے ملاؤں کی اس ریاست کے سارے پول کھول دیے۔ ان کے انسان دوستی کے منافقانہ دعوے پوری دنیا میں رسوا ہوئے۔ ہزاروں لوگ جن میں کمسن بچے اور بچیاں بھی شامل تھیں نام نہاد اخلاقی پولیس کے بد ترین تشدد کا شکار ہوئے۔ سینکڑوں افراد کو نہایت بیدردی سے قتل کیا گیا جن میں سو کے لگ بھگ بچے شامل تھے۔ افغانستان میں بھی طالبانائزیشن اور تعلیم و تمدن کے خلاف برسر اقتدار جنونیوں کی غراہٹ اور افغان عوام پر استبداد کے نئے باب کا آغاز دراصل ان رجعتی درندوں کی بھوک کا اظہار ہے۔ جن کے متعلق سامراجی عالمی بیوپاری ابھی مختلف حوالوں سے حساب کتاب میں مصروف ہیں۔ تاہم نئے سرمایہ دارانہ معاشی بحران نے انہیں محتاط کر رکھا ہے۔ یہ رجعتی درندے اپنی بھوک کب تک برداشت کرتے ہیں اور اگر ان کے سامنے کوئی ہڈی پھینک دی جاتی ہے جس طرح چین کی جانب سے اشارے ملے ہیں تو ان کی اندرونی بندر بانٹ کیا رنگ لاتی ہے یہ ایک علیحدہ سوال ہے۔ تاہم اس وقت افغان عوام بھوک کی اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ بچوں کے لئے کھانے کو صرف افیون ہے جو ان کی بھوک تو نہیں مٹا سکتی لیکن کچھ دیر تک سلا ضرور سکتی ہے۔

ایرانی ملاکریسی کو بھی شاید مہاسا امینی یا ایران کی دیگر دختران و پسران سے مسئلہ نہ ہوتا اگر وہ یہ نعرہ نہ لگاتے کہ ”یہ آخری پیام ہے‘ ہمارا ہدف سارا نظام ہے۔“ تاہم یہ بھی ایک سچ ہے کہ اگر عورت کو آزادی اور اختیار دیا جائے تو سخت گیر بنیاد پرست ریاستوں کا جواز کیا رہ جائے گا۔ لہٰذا سستا سودا تو پھر انقلابی آوازوں کو قتل کرنے کا ہی ٹھہرتا ہے۔

افغان عوام پچھلے تجربات سے کافی کچھ سیکھ چکے ہیں۔ طالبان کے خلاف ایک عمومی نفرت اور حقارت پائی جاتی ہے۔ طالبان افغان سماج کو ہزاروں سال پیچھے دھکیلنے کا جو وحشیانہ منصوبہ رکھتے ہیں آج کے عہد میں اس پر مکمل عمل درآمد کبھی بھی ممکن نہیں۔ بغاوت اور مزاحمت دبی ضرور ہوئی ہے لیکن مری نہیں ہے۔ طالبان کا جبر جتنا دیوہیکل اور بھاری معلوم ہوتا ہے اندر سے اتنا ہی کھوکھلا بھی ہے۔ ان کے پاس اکیسویں صدی میں معاشرے کو چلانے کا کوئی منصوبہ و لائحہ عمل نہیں ہے۔ صرف دھونس، رجعت، ڈھٹائی اور بربادی ہے۔ جب بچوں کو سلانے کو افیون بھی نہ بچے گی تو ان کی چیخ و پکار بڑوں کے کانوں میں بھی قیامت برپا کرے گی۔ ایک مرتبہ پھر لوگ انقلاب ثور کے پرانے ترانوں سے حرارت لیں گے۔ خطے کے دوسرے ممالک میں انقلابی تبدیلیاں اور تحریکیں اس سارے عمل کو تحریک دے سکتی ہیں۔ فضاؤں میں سُرخ رنگ کی بہار پھر سے ابھرے گی تو افغانستان پہ چھائی تاریکی کو چھٹنا ہو گا۔