حارث قدیر

پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں ایک بار پھر احتجاجی تحریکیں سر اٹھا رہی ہیں۔ حالیہ احتجاج 28 دسمبر کو گلگت کے علاقے مناور میں زمینوں پر تعمیراتی منصوبہ شروع کیے جانے اور مقامی آبادیوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کے بعد شروع ہوا۔ مناور سے شروع ہونے والا یہ احتجاج دیکھتے ہی دیکھتے پورے گلگت بلتستان میں پھیل گیا۔ احتجاج کے سلسلہ میں بلتستان کے ضلع سکردو میں منفی 18 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے باوجود 10 روز تک احتجاجی دھرنا دیا گیا جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ اس کے علاوہ بلتستان کے دیگر اضلاع سمیت گلگت کے مختلف اضلاع و تحصیلوں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔

یہ احتجاج عوامی ایکشن کمیٹیوں اور انجمن تاجران کی کال پر شروع کیے گئے تھے اور فی الحال حکومتی یقین دہانیوں کی وجہ سے ایک ماہ کیلئے موخر کیے گئے ہیں۔ حکومتی یقین دہانیوں اور وعدوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت ایک ماہ بعد لانگ مارچ کا اعلان بھی پہلے سے کر دیا گیا ہے۔

محرومیوں کی ایک طویل ترین داستان کی وجہ سے گلگت بلتستان میں ماضی قریب میں بھی بہت بڑے احتجاج اور لانگ مارچ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ایک بار پھر ان محرومیوں اور استحصال کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی تھی۔ تاہم مناور کا واقعہ وہ چنگاری بنا جس نے ایک ہمہ گیر تحریک کو جنم دے دیا۔

عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کے مطالبات میں زمینوں پر لینڈ مافیا کے قبضوں کا سلسلہ بند کرنے، گلگت بلتستان فنانس ایکٹ 2022ء کے تحت عائد کیے گئے ٹیکس واپس لینے، سبسڈائزڈ گندم کی کوٹے کے مطابق فراہمی یقینی بنانے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے اور بلات پر عائد ٹیکس ختم کرنے کے علاوہ سکردو تا کارگل روڈ کھول کر گلگت بلتستان اور لداخ کے شہریوں کو آپس میں ملنے اور تجارت کرنے کی اجازت دینے کے مطالبات شامل تھے۔

حسب معمول پاکستانی میڈیا پر اس احتجاج کو جگہ نہیں مل پائی۔ جبکہ اس کی بجائے گلگت بلتستان میں سرکاری سرپرستی میں جاری ونٹر سپورٹس فیسٹیول کے پیکیجز میڈیا پر چلا کر ترقی اور خوشحالی کا پاٹ پڑھایا جاتا رہا۔ دوسری طرف بھارتی میڈیا نے اس تحریک کے مطالبات اور مقاصد پس پشت رکھتے ہوئے اپنی پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی اور تقریباً تمام سرکاری و نجی بھارتی میڈیا نے یہ بھرپور پروپیگنڈہ کیا کہ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان سے تنگ آ کر بھارت میں شامل ہونے کی مانگ کر رہے ہیں۔ یوں دو علاقائی سامراجی طاقتوں کے توسیع پسندانہ عزائم کا شکار گلگت بلتستان کے لوگ آزادانہ طور پر اپنی محرومیوں کاحقیقی چہرہ بھی دنیا کو دکھانے کے قابل نہ ہو سکے۔

گلگت بلتستان کی محرومیوں اور غلامی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ وسیع و عریض قطعہ اراضی پر بسنے والی یہ چھوٹی سی آبادی مختلف قومیتوں، زبانوں اور ثقافتوں سے مزین ہے۔ ان تقسیموں کی تاریخی وجوہات کو ہمیشہ حکمران طبقات اور ریاست نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے۔ تاہم 1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے وقت گلگت بلتستان بھی مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصی ریاست جموں کشمیر کے حصے کے طور پر موجود تھا۔ تقسیم کے بعد گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے ساتھ ملا کر مشترکہ حکومت بنانے کی بجائے اسے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شامل کر لیا گیاتھا اور دہائیوں تک سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق و اختیارات سے محروم رکھا گیا۔ ایف سی آر جیسے کالے نو آبادیاتی قوانین اس خطے پر نافذ رہے۔ عوامی مزاحمت کے نتیجے میں بتدریج حقوق کی بازیابی کا سلسلہ تو جاری تھا لیکن ریاست عوامی مزاحمت کو توڑنے کیلئے ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے نفرتوں کے ایسے بیج بونے میں کامیاب ٹھہری کہ فرقہ وارانہ فسادات ایک لمبے عرصہ تک اس خطے کے باسیوں کا مقدر رہے۔

فرقہ وارانہ فسادات اور تقسیم تو پرتشدد انداز میں سامنے آئی اس لئے سب کو نظر بھی آ رہی ہے۔ قومیتوں، زبانوں، علاقوں اور ثقافتوں کی بنیاد پر تقسیم اس سے بھی زیادہ خطرناک اور گہرائی میں سرایت کی گئی ہے جو ظاہری فسادات کے طور پر تو سامنے نہیں آتی لیکن مختلف انداز میں اس کا سیاسی اظہار ہوتے ہوئے نظر آتا ہے۔ یہ تفریق اور تقسیم سیاسی اتحاد اور مزاحمتی تحریک کی مضبوطی کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ بن کر کھڑی رہی ہے۔ حکمرانوں کا ہر ہتھکنڈہ وقتی کامیابیوں سے تو انہیں نوازتا ہے تاہم کوئی بھی حکمت عملی ہمیشہ کارگر ثابت ہونے والی نہیں ہو سکتی۔ تقسیم در تقسیم کا یہ عمل بھی زیادہ دیر تک قائم رہنے والا نہیں ہے۔ نئی نسل میں اس تقسیم کے اثرات نہ ہونے کے برابر نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مزاحمت کے نئے دور کا ایک آغاز بھی ہو رہا ہے۔

نو آبادیاتی علاقوں میں سامراجی طاقتوں کی جانب سے وسائل کی لوٹ مار اور قبضے کو دوام بخشنے کیلئے آبادیاتی تبدیلی کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی آبادیاتی تبدیلی کا خدشہ لاحق ہے اور اس کے خلاف وہ طویل عرصہ سے آواز بلند کر رہے ہیں۔ وسائل سے مقامی آبادیوں کو ہی محروم رکھے جانے کا عنصر بھی دیگر نو آبادیاتی علاقوں کی طرح یہاں بھی موجود ہے۔

جموں کشمیر کے ساتھ منسلک مختلف علاقوں کو دونوں ریاستوں کے درمیان توسیع پسندانہ عزائم کے تحت تقسیم کیے جانے کے بعد اس تنازعے کے حل تک کچھ خصوصی رعایتیں منقسم خطے کے لوگوں کو دیئے جانے کا عہد بھی کیا گیا تھا۔ ان رعایتوں میں ٹیکس چھوٹ، اشیائے خوردونوش پر سبسڈی کی فراہمی، خصوصی حیثیت، مقامی آبادیوں کو سیاسی اختیارات دیئے جانے سمیت دیگر کچھ ایسی رعایتیں تھیں جو فیڈریشن کے دیگر یونٹوں کو میسر نہ تھیں۔ تاہم یہ رعایتیں ہر دو اطراف تینوں منقسم حصوں میں کہیں بھی مکمل ایکسرسائز نہیں کی گئیں۔ دی گئی رعایتوں سے دستبرداری کا ایک سلسلہ تواتر کے ساتھ مگر ہر دو اطراف موجود رہا ہے۔

ایک خطے کو آزاد حکومت کے نام پر سیاسی حقوق کا جھانسہ دیا گیا ساتھ گندم سمیت کچھ اشیا پر سبسڈی اور مراعات فراہم کی گئیں جو بتدریج ختم ہو گئیں۔ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلانے کی چھوٹ مگر کسی نہ کسی حیثیت میں موجود رہی۔ اس معاملے میں بھی البتہ طاقت ور اشرافیہ کے کالے دھن کی معیشت کو استوار کرنا مقصود رہا۔

گلگت بلتستان کو بھی مقامی حکومت کے قیام اور 52 اشیائے خوردونوش پر سبسڈی دینے کا وعدہ تو کیا گیا تاہم سیاسی حقوق اور شناخت دینے کی بجائے صرف سبسڈی پر عملدرآمد شروع ہوا جو اب صرف گندم کی سبسڈی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ گندم کی سبسڈی کے خاتمے کیلئے بھی گزشتہ ایک دہائی میں متعدد کوششیں کی جا چکی ہیں جو عوامی مزاحمت کی وجہ سے ناکام بنائی گئی ہیں۔ سبسڈی کا بھی اپنا ایک المیہ ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاستوں میں عوام کو سبسڈی دیئے جانے کے ثمرات بھی عام عوام تک بہت محدود ہی پہنچتے ہیں۔ دوسری جانب نوکر شاہی اور سرمایہ داروں کیلئے یہ عوامی سبسڈی بھی کمائی اور کرپشن کا ایک نیا ذریعہ بن جاتی ہے۔ علاقائی سطح پر دی جانے والی سبسڈی اس سے بھی پیچیدہ اس لئے ہوتی ہے کہ اس سے سمگلنگ اور بلیک مارکیٹ کا ایک نیا پہلو جنم لیتا ہے۔ جن علاقوں میں وہ مخصوص جنس مہنگی ہوتی ہے وہاں سبسڈی والے علاقوں سے سمگلنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح جن کو سبسڈی دی جا رہی ہوتی ہے وہ محروم ہو جاتے ہیں اور سپلائرز، ہول سیلرز، بیوروکریٹ اورفیکٹری مالکان بے تحاشہ منافع سمیٹ لیتے ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں گندم پر دی جانے والی سبسڈی کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے۔

جب پاکستان کے دیگر صوبوں میں آٹا مہنگا ہو گیا تو ان دو علاقوں کو فراہم کی جانے والی گندم اور آٹا سمگل کر کے بے تحاشہ منافع کمانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ساتھ ہی پہلے سے موجود ایلوکیشن بھی کم کر دی گئی۔ گلگت بلتستان میں گندم کی اس قلت نے بھی عوامی غم و غصے کو ایک تحریک دی ہے۔ دوسری طرف جموں کشمیر کی مقامی حکومت نے آٹے کی قیمتوں میں یکمشت 30 سے 35 فیصد اضافہ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جس کے خلاف احتجاجی تحریک پنپنا شروع ہو چکی ہے۔

پاکستان میں حکومت قائم کرنے والی ہر سویلین اور عسکری جماعت نے گلگت بلتستان میں بھی حکومت قائم کی اور حقوق دینے کے نام پر پہلے سے موجود معمولی مراعات کو بھی چھیننے کی ہی پالیسی اپنائی جاتی رہی ہے۔ موجودہ تحریک انصاف کی حکومت نے گلگت بلتستان فنانس ایکٹ منظور کرتے ہوئے 135 نئے ٹیکس نافذ کیے تھے جن پر حال ہی میں عملدرآمد شروع کیا گیا۔ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد تاجر براہ راست متاثر ہو رہے تھے جبکہ ان ٹیکسوں کا تمام تر بوجھ آخری تجزیے میں عام عوام پر ہی جانا تھا۔ ایک طرف سرمایہ کاروں کو کوڑیوں کے بھاؤ زمینیں، معدنیات کی نکاسی کی لیز اور بڑے منصوبہ جات کیلئے ٹیکس چھوٹ فراہم کی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف عام عوام پر ٹیکسوں کا نیا بوجھ ڈال کر حکمران اشرافیہ کی عیاشیوں کا سامان کرنے کی کوشش تھی۔ فی الحال عوامی مزاحمت کے بعد نئے ٹیکسوں کی وصولی موخر کر دی گئی ہے اور نئی ترمیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ لیکن حکمران اشرافیہ اس سے مکمل دستبرداری اختیار نہیں کرے گی۔ انتہائی سادہ اور سیدھے معاملات کو ریاست کی جانب سے اتنا پیچیدہ اور مشکل بنایا جاتا ہے تاکہ عام لوگ انہیں سمجھ نہ سکھیں اور انہیں دھوکہ دہی کے ذریعے سے بہلا پھسلا کر حکمرانوں کی لوٹ مار کا شکار ہونے پر آمادہ کیا جا سکے۔

گلگت بلتستان کی زمینوں پر قبضہ اور آبادکاری بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ بھی محض گلگت بلتستان تک محدود نہیں ہے۔ تاہم گلگت بلتستان میں ایک لمبے عرصہ سے لوگ اس معاملہ پر احتجاج کر رہے ہیں۔ موجودہ احتجاج بھی زمینوں پر قبضے کے معاملہ پر ہی شروع ہوا ہے۔ اس علاقے کی زمینوں کو مختلف طریقے سے تقسیم کیا گیا ہے۔ ملکیتی اراضی، دیہہ شاملات، خالصہ سرکار اور جنگل کی اراضی کے طو رپر اس زمینی تقسیم سے ماضی میں بہت زیادہ مسائل اس لئے بھی سامنے نہیں آتے تھے کیونکہ اس خطہ میں کوئی آباد بھی نہیں ہونا چاہتا تھا اور پہاڑوں پر حکومت کو بھی زمینوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ تاہم چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھانے کیلئے شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے بعد اور بالخصوص سی پیک کے آغاز کے بعد ان زمینوں پر سرمایہ کاروں اور حکومت کی دلچسپی بڑھ گئی ہے۔

اس خطے میں لمبے عرصہ سے لوگ ملکیتی اراضی کے علاوہ جنگلوں اور پہاڑوں کو دیہاتوں کی مشترکہ ملکیت کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔ تاہم اب حکومت پہاڑوں، بنجر زمینوں اور جنگلوں کو سرکاری اراضی قرار دے کر سکیورٹی مقاصد سمیت سرمایہ کاری کے مقاصد کیلئے لیز پر قبضے میں دینے کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہے۔ سی پیک کے نام پر بھی بڑی تعداد میں زمینیں ایکوائر کی گئی ہیں۔

عوام کا مطالبہ ہے کہ معدنیات کی نکاسی کی لیز مقامی آبادیوں کی شراکت سے کی جائے اور اس سے حاصل آمدن میں ایک معقول حصہ مقامی آبادیوں کو بھی فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ عوامی زمینوں کو سرمایہ کاری کے مقاصد کیلئے دینے میں معاوضہ جات کی ادائیگی کی جائے۔ سب سے بڑھ کر حکومت پاکستان کی ملکیت میں زمینیں دیئے جانے اور آبادیاتی تبدیلی کیلئے ان زمینوں کے استعمال کا راستہ روکا جائے۔ دوسرے لفظوں میں غیر ریاستی یا گلگت بلتستان کے باہر سے آنے والے سرمایہ کاروں اور آبادیوں کو زمینیں الاٹ نہ کی جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک اس خطے کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک اس کی آبادیاتی ساخت کو محفوظ رکھنا پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔

دوسری طرف معدنیات کی نکاسی کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے۔ نہ صرف مقامی آبادیوں کو اس کا کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جا رہا بلکہ سستی معدنیات کے نام پر لیز جاری کر کے انتہائی قیمتی معدنیات کی نکاسی اور سمگلنگ کا سلسلہ شروع ہے۔ بیوروکریسی، حکمران اشرافیہ اور سرمایہ کاروں کی ملی بھگت سے اربوں روپے کی معدنیات کو اس طرح سے سمگل کر کے اس خطے کو بھاری نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں لیتھیم سے بھرا ایک ٹرک مقامی آبادی اور صحافیوں کی موجودگی میں روکا گیا جس کی قیمت 50 کروڑ سے زائد بتائی جا رہی ہے۔ جبکہ جن پتھروں کی لیز یا اجازت نامے پر اس ٹرک کو لے جایا جا رہا تھا ان کی قیمت چند لاکھ سے زیادہ نہیں بنتی۔

سی پیک کے ذریعے ہونے والی تجارت میں بھی گلگت بلتستان کے لوگ ایک معاہدہ کرنے اور آمدن میں حصہ متعین کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سی پیک سے ہونے والی تجارت سے سستی اشیا کی اس خطے میں فراہمی بھی یقینی نہیں بنائی جائیگی کیونکہ ویئر ہاؤس ہری پور خیبرپختونخوا میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ البتہ سوست ڈرائی پورٹ سے ہونے والی چھوٹی موٹی تجارت سے کسی حد تک مقامی تاجر مستفید ہو رہے ہیں۔

پاکستان سے دور دراز پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش اور اشیائے ضروریہ پاکستان کے دیگر شہروں کی نسبت بہت زیادہ مہنگی ہیں۔ نئے ٹیکسوں سے مزید مہنگائی ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان سے پیدا ہونے والی بجلی اور زیر کار منصوبہ جات سے گلگت بلتستان کے لوگوں کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ ماضی میں مقامی سطح پر بجلی کا ٹیرف مقرر ہوتا تھا۔ تاہم نیپرا کی جانب سے پورے ملک میں ایک ٹیرف کے نفاذ کی پالیسی کے بعد بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ نئے ٹیکسوں کی وجہ سے مزید مسائل موجود تھے۔ بلات البتہ مقامی سطح پر تیار کیے جا رہے تھے۔ اب بلات کی تیاری اور ٹیرف میں لوڈ کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلیوں سمیت ٹیکسوں میں مزید اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ 10 سے 12 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ خون جما دینے والی سردی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور ایل پی جی گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے بھی گلگت بلتستان کے شہریوں کیلئے نئے مسائل پیدا کیے ہیں۔

دشوار گزار پہاڑوں پر مشتمل اس خطے میں بے شمار معاشی اور سیاسی مسائل پہلے سے موجود تھے جن میں مزید اضافہ ہی کیا جا رہا ہے۔ یہ خطہ فی کس آمدن، تعلیم، علاج، روزگار اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے پورے پاکستان میں پسماندہ ترین خطوں میں شامل ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان پورے پاکستان میں واحد علاقہ ہے جہاں نوجوانوں میں خودکشیوں کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ اس کیفیت میں وسائل پر قبضے، سرمایہ کاروں کی لوٹ مار اور نئے ٹیکسوں اور مہنگائی کا بوجھ لاد کر علاقے میں دہشت گردی، فرقہ واریت اور نفرتوں کو ہوا دے کر سب کچھ کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

دہشت گردوں کو سرگرمیوں کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے جبکہ عوامی حقوق کی بات کرنے والے سیاسی کارکن شیڈول فور میں ڈالے گئے ہیں۔ انہیں ایک تھانے سے دوسرے پولیس تھانے کی حدود میں جانے سے پہلے بھی پولیس کو پیشگی اطلاع کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ عوامی حقوق کی بات کرنے والوں کو بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈہ کو سامنے رکھتے ہوئے بھارتی ایجنٹ قرار دینے اور ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے، انہیں دھمکانے کا سلسلہ موجود ہے۔

دوسری جانب گلگت بلتستان کے عوام کی لازوال مزاحمت اور جدوجہد کے باوجود تاحال محرومیوں کا خاتمہ نہ ہونا مقامی قیادتوں پر بھی گہرے سوالات چھوڑتا ہے۔ کسی واضح نظریہ، لائحہ عمل اور ٹھوس حکمت عملی کی حامل قیادت کے فقدان کی وجہ سے عوامی ایکشن کمیٹیوں میں مذہبی فرقوں کے رہنماؤں، روایتی سیاسی رہنماؤں اور تاجروں کی قیادتیں شامل ہیں۔ ترقی پسند قوم پرست رہنماؤں کی ایک محدود قوت بھی ان کمیٹیوں میں یا تحریکوں میں مداخلت کر رہی ہے۔ تاہم قوم پرست تنظیموں میں علاقائی قوم پرست تنظیموں کے نام پر ایک تقسیم موجود ہے۔ ماضی کے نظریات پر مستقبل کی تعمیر کے خواب دیکھنا بھی ہمیشہ عوامی تحریکوں میں نقصان کا موجب بنتا ہے۔ اس احتجاجی تحریک کا دیگر خطوں میں جڑت نہ بنا سکنا بھی ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ ماضی قریب میں بابا جان، شبیر مایار اور اس طرح کے لوگوں نے جموں کشمیر کے دیگر حصوں کے علاوہ پاکستان میں ترقی پسند قیادتوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور وہاں سے حمایت حاصل کرنے کی کوششیں شروع کی ہیں۔ تاہم ابھی بہت فاصلہ طے کرنا باقی ہے۔

مقامی نوجوانوں کو جدید نظریات سے روشناس ہوتے ہوئے جدوجہد کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گی۔ ٹھوس اور واضح لائحہ عمل کو مرتب کرتے ہوئے ہمہ گیر تحریک کومنظم کرنے کیلئے آگے بڑھنا ہو گا۔ تاہم گلگت بلتستان کے تمام علاقوں، جموں کشمیر اور پاکستان و بھارت کے محنت کشوں کی حمایت اور یکجہتی اس جدوجہد کی کامیابی کیلئے ناگزیر ہو گی۔ گلگت بلتستان سے ابھرنے والے یہ مزاحمتی طوفان جموں کشمیر سمیت پاکستان میں موجود دیگر مظلوم قومیتوں اور محنت کش طبقات کی تحریکوں کو آکسیجن فراہم کرنے کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کے خاتمے کے پروگرام سے لیس انقلابی قیادت کی موجودگی اس خطے میں نسل انسان کے نئے مستقبل کا موجب بن سکتی ہے۔