حارث قدیر
سری لنکا میں رانیل وکرما سنگھے کے صدارت سنبھالنے کے بعد بھی احتجاج کا سلسلہ مکمل تھم نہیں سکا ہے۔ سنگھے کو مظاہرین سابق صدر گوتا بایا راجا پکسے کا حلیف ہی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مظاہرین کے خلاف سخت ریاستی ایکشن لینے کی پالیسی کو مزید بڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے ابھی تک کوئی واضح اقدامات اور فیصلہ جات نہیں لیے جا سکے ہیں۔ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج کیلئے مذاکرات بھی جاری ہیں۔ چین سے 4 ارب ڈالر کے پیکیج کے حصول کیلئے بھی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ادھر مظاہرین جو ابھی تک بغیر کسی واضح اثر انداز ہونے والی قیادت کے تقریباً تمام نسلی گروہوں پر مشتمل اس احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کسی واضح قیادت کے نہ ہونے کی وجہ سے مظاہرین کے مطالبات بھی، سوائے روایتی سیاستدانوں کو مسترد کرنے اور حکمران خاندان کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے، ابھی تک غیر واضح ہیں اور منقسم ہیں۔ مظاہرین میں شامل بائیں بازو کے گروپ اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین حکومت کو فوری آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج لینے پرزور دے رہے ہیں۔ جبکہ ٹریڈ یونینز کی قیادتیں آئی ایم ایف کی سامراجی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آ رہی ہیں۔ اسی طرح بھارت سے امداد حاصل کرنے پر بھی مظاہرین کا ایک بڑا حصہ معترض نظر آتا ہے۔ چین کے حوالے سے بھی کچھ گروہ خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
1983ء سے 2009ء تک خانہ جنگی کا شکار رہنے والا یہ جنوب ایشیائی ملک اس خطے میں نسبتاً خوشحال تصور کیا جاتا رہا ہے۔ تقریباً 80 ارب ڈالر کے جی ڈی پی میں 2020ء تک خدمات کے شعبے کا حصہ 59.7 فیصد، صنعتی شعبہ 26.2 فیصد اور زراعت کا شعبہ 8.4 فیصد تھا۔ دایاں بازو سری لنکا کے بحران کا ذمہ دار ریاستی ملکیت کی حامل انٹرپرائزز، سبسڈیوں اور خدمات کے شعبے کے بڑے بوجھ کو قرار دیتے ہیں۔ تاہم سری لنکا میں نجی شعبے کا معیشت میں حصہ 85 فیصد ہے۔
سری لنکا صحت کے مفت اور جدید نظام اور تعلیمی نظام کی وجہ سے دنیا میں 45 ویں نمبر پر ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں بھی سری لنکا دیگر جنوب ایشیائی ممالک سے بہتر درجہ بندی پر موجود ہے۔ نقل و حمل کیلئے سڑکوں کا وسیع نیٹ ورک ہے۔ جو دنیا کی سب سے زیادہ سڑکوں کی کثافت میں سے ایک ہے۔ چھوٹے سے ملک میں ایک لاکھ کلومیٹر سے زائد پکی سڑکوں کانیٹ ورک موجود ہے۔ ریلوے کا ریاست کے زیر انتظام ایک وسیع اور پھیلا ہوا نظام ہے۔ اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا نیٹ ورک موجود ہے۔ تاہم حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور سرکاری اداروں کو برباد کرنے کی منصوبہ بندی نے ریل اور پبلک ٹرانسپورٹ میں ڈویلپمنٹ کی بجائے انہیں انحطاط پذیر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
2 کروڑ 20 لاکھ سے زائد آبادی میں اضافے کی سالانہ شرح 0.5 فیصد ہے۔ اوسط عمر 65.5 سال ہے جو عالمی اوسط سے 10 فیصد زیادہ ہے۔ شرح خواندگی 92.9 فیصد ہے۔ نوجوانوں میں خواندگی کی شرح 98.8 فیصد ہے۔ مفت تعلیم کا یہ نظام سری لنکا میں 1945ء سے قائم ہے۔ بعد ازاں ملک میں بائیں بازو کی منظم تحریکوں، ٹریڈ یونینوں اور بائیں بازو کی اتحادی حکومتوں نے صحت و تعلیم کی مفت فراہمی سمیت دیگر قومیائے گئے اداروں کو مزید مضبوط اور مربوط کیا۔ خواتین کی ہر شعبے میں نمائندگی اور روزگار اور صحت کی سہولیات کے حوالے سے بھی سری لنکا جنوب ایشیا میں سب سے بہتر صورتحال پر موجود رہا۔ دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بھی سری لنکا میں ہی منتخب ہوئیں۔ یہ سب بائیں بازو کی مضبوط تحریکوں کی حاصلات تھیں۔ بالخصوص ایل ایس ایس پی (لنکا سما سماجا پارٹی)، جو ایک ٹراٹسکائٹ رجحان رکھنے والی بائیں بازوں کی پارٹی تھی، کی کال پر 1950ء اور 1953ء میں ہونے والی ہڑتالوں اور ایل ایس ایس پی کی 1940ء سے 1960ء تک مضبوط حمایت اور محنت کش طبقے پر اثر و رسوخ نے اس جماعت کے سیاست پر اثر و رسوخ کو قائم کیا۔ جس کے دباؤ کے نتیجے میں سری لنکن حکومت بینکنگ، تعلیم، انڈسٹری، میڈیا اور ٹریڈ سیکٹر کی نیشنلائزیشن پر مجبور ہوئی۔
تاہم ایک لمبا عرصہ اپوزیشن میں گزارنے کے بعد ایل ایس ایس پی کی قیادت نے فریڈم پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ یونائیٹڈ فرنٹ قائم کرتے ہوئے اقتدار میں قدم رکھا۔ پہلی خاتون وزیر اعظم کا انتخاب ہوا۔ ایل ایس ایس پی 1970ء میں بھی اتحادی حکومت میں شامل رہی۔ 1971ء میں جے وی پی کی مسلح بغاوت کے نتیجے میں سری لنکا کا ڈومینین سٹیٹس ختم کرتے ہوئے ’ریپبلک آف سری لنکا‘ کا اعلان کیا گیا۔ بعد ازاں 1977ء میں یونائیٹڈ فرنٹ کو شکست ہوئی اور یونائیٹڈ نیشنل پارٹی نے اقتدار میں آتے ہی نئے آئین اور سیاسی نظام کو متعارف کرواتے ہوئے فری مارکیٹ اکانومی کا نفاذ کیا۔ سری لنکا اس خطے کا پہلا ملک تھا جہاں موجودہ نیولبرل شکل میں فری مارکیٹ اکانومی کو نافذ کیا گیا۔
برطانیہ سامراج کے ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘کی پالیسیوں نے سری لنکا میں بھی نسلی اور مذہبی تقسیم کو مزید گہرا کرتے ہوئے جن تعصبات کی بنیادیں رکھی تھی وہ اکثریتی سنہالی گروہ کی حکمران اشرافیہ نے مسلسل جاری رکھتے ہوئے اقتدار کو دوام دینے کی کوشش کی۔ مسلسل نظر انداز کیے جانے، تعصبات اور امتیازی سلوک کا شکار رہنے والے ’تمل‘ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے اور 26 سالہ اس بغاوت کے دوران ریاست نے انسانیت سوز مظالم کی ایک سیاہ تاریخ رقم کی۔
بائیں بازو کی قیادت کی سوویت یونین، چین اور شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کی تقسیم سمیت اصلاح پسندانہ یا مہم جوئی پرمبنی پالیسیوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے کی بجائے تصادم آمیز پالیسیوں اور بڑے سروسز سٹرکچر پر مبنی معیشت کو سرمایہ دارانہ طرز پر چلانے کی کوشش نے بالآخراصلاحات کے سفر کو بھی ریورس گیئر میں ڈال دیا۔ مسلسل قومی اداروں کو فروخت کرنے کو مضبوط ٹریڈ یونین کا راستہ روکنے کیلئے حکمرانوں نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ان اداروں کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عملدرآمد کیا۔ محتاط اندازے کے مطابق سرکاری اداروں کا لیا گیا قرض 9.5 ارب ڈالر تک ہے تاہم سرکاری طور پر ان قرضوں کی تفصیلات حاصل کرنا اس لئے دشوار قرار دیا جا رہا ہے کہ زیادہ تر قرضے ان اداروں نے ایک دوسرے سے لے رکھے ہیں۔ یا سرکاری مالیاتی اداروں سے حاصل کیے گئے ہیں۔ تاہم 2016ء میں 16ویں مرتبہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج حاصل کرنے کیلئے عائد کی گئی شرائط پر عملدرآمد اور بعد ازاں گوتا بایا راجا پکسے کی ٹیکس چھوٹ، آرگینک (نامیاتی) زرعی پیداوار کی پالیسیوں سمیت دیگرپالیسیوں اور پھر دوبارہ بروقت بیل آؤٹ پیکیج کیلئے پالیسی اختیار کرنے کی بجائے آئی ایم ایف کے متبادل طریقے اپنانے کی خواہش نے اس بحران کو مزید گہرا کر کے ملک کو دیوالیہ کر کے رکھ دیا۔ ستمبر 2021ء میں حکومت نے ایک بڑے معاشی بحران کا اعلان کرتے ہوئے ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا۔ جس میں اشیائے خوردونوش کی ذخیرہ اندوزی پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
سری لنکا کی معیشت میں چائے، ربر، چاول، ٹیکسٹائل کی پیداوار کے علاوہ سیاحت اور بیرون ملک محنت کشوں کے بھیجے گئے زرمبادلہ کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ کورونا وبا کے دوران لاک ڈاؤن کے نفاذ نے سیاحت کے شعبے کو بری طرح سے متاثر کیا۔ نامیاتی زراعت کی پالیسیاں چائے کی پیداوار میں 18 فیصد اور چاول کی پیداوار میں 40 فیصد تک کمی کا موجب بن چکی ہیں۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ویلیو ایڈڈ اور انکم ٹیکس کی کٹوتی سے جی ڈی پی کا 2 فیصد محصول ضائع ہوا، کورونا نے سیاحت کو تباہ کیا، زراعت کو نامیاتی بنانے کی کوشش میں کھادوں پر پابندی عائد کی گئی جس سے چاول کی پیداوار میں کمی ہوئی اور درآمد پر 450 ملین ڈالر کے ذخائر استعمال کرنا پڑے۔ 2020-21ء میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے 10 فیصد تک چلا گیا، حکومتی قرضہ 94 فیصد سے بڑھ کر 2021ء میں جی ڈی پی کے 119 فیصد تک پہنچ گیا۔ آئی ایم ایف نے حکومتی قرض کو غیر پائیدار قرار دے دیا۔ آخری دھچکا عالمی واقعات نے لگایا۔ روس کے یوکرائن پر حملے کے بعد توانائی اور خوراک کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں۔ اس واقعے کے بعد سری لنکا کے پاس قرضوں کی ادائیگی اور درآمدات کیلئے زرمبادلہ کے استعمال میں سے ایک ہی آپشن باقی بچ گیا تھا۔ حکومت نے موخرالذکر کا انتخاب کرتے ہوئے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ تاہم سری لنکا اس فہرست میں آخری ملک نہیں ہے۔ بہت سے دیگر کم اور درمیانی آمدنی والے ملکوں کو خوراک اور ایندھن کی بڑھتی قیمتوں نے مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ جون میں اقوام متحدہ کا غذائی قیمتوں کا اشاریہ 23.1 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔
اس وقت سری لنکا کا مجموعی بیرونی قرضہ 51 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے جبکہ رواں سال سری لنکا کو 7 ارب ڈالر اقساط کی صورت قرضوں اور سود کی ادائیگی کیلئے درکار تھے۔ امریکہ میں افراط زر میں اضافے اور کساد بازاری کے خدشات امریکہ کو شرح سود میں اضافہ کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال دنیا بھر میں بیرونی قرض کے اخراجات میں اضافہ کر رہی ہے۔ غریب اور درمیانی آمدن والے ملکوں کیلئے یہ صورتحال خطرناک نتائج سامنے لا سکتی ہے۔ دوسری طرف مغربی میڈیا اور دانش سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے پیچھے چین سے حاصل کیے گئے قرضوں کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ اس وقت چین کا سری لنکا کے بیرونی قرضوں میں حصہ صرف دس فیصد ہے۔ جبکہ آئی ایم ایف، پیرس کلب اور دیگر مالیاتی اداروں اور جاپان وغیرہ کے قرضوں کا حصہ 90 فیصد کے قریب ہے۔ ورلڈ بینک کا اندازہ ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کے بیرونی قرضوں کا صرف 25 فیصد چین کے فراہم کردہ قرضے ہیں۔
نئی حکومت کے پاس بھی آئی ایم ایف کے پاس جانے اور دیگر قرض دہندگان سے قرض حاصل کرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر بحال کرنے اور معیشت کو چلانے کی کوشش کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ اور طریقہ موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ احتجاجی تحریک میں شامل افراد کی ایک بڑی تعداد نو منتخب صدر سے بھی توقعات لگانے کی بجائے ان کی حکومت کے خلاف بھی سراپا احتجاج ہیں۔
آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں سے بیل آؤٹ پیکیج کا خمیازہ محنت کش طبقے کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ جو پہلے سے اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات کی عدم موجودگی کی وجہ سے نجی ہسپتالوں اور فارمیسیوں کی لوٹ مار عروج پر ہے۔ تیل کی عدم دستیابی کے باعث بلیک مارکیٹنگ کا دور دورہ ہے۔ اس بحران سے نکلنے کا نسخہ سامراجی اداروں اور معیشت دانوں کے پاس غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری، بڑے پیمانے پر سرکاری اداروں کی فروخت، ری سٹرکچرنگ، ڈاؤن سائزنگ اور پہلے سے موجود بالواسطہ ٹیکسوں میں ہیبت ناک اضافے کی صورت میں ہی موجود ہے۔ اس صورت میں خوراک پر سبسڈی، تعلیم و علاج کی مفت فراہمی سمیت پبلک ٹرانسپورٹ اور ریل کے نظام کی نجکاری پہلی ترجیح ہو گی۔ تاہم سری لنکا میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف عوامی مخالفت کی ایک بڑی تاریخ موجود ہے۔ جو بائیں بازو کی تحریکوں اور طاقتور ٹریڈ یونینوں سے منسلک ہے۔ ماضی میں حکومت کو مختلف منصوبوں سے محنت کشوں کی مزاحمت کے باعث پیچھے ہٹنا پڑا۔ کولمبو ایسٹ کنٹینر ٹرمینل، ملینیم چیلنج کارپوریشن سمیت دیگر اداروں کو غیر ملکی حکومتوں کے حوالے کیے جانے کے معاہدوں سے حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑ چکا ہے۔
اس وقت سری لنکا کی ریاستی ملکیت میں 527 چھوٹی بڑی کمپنیاں (ایس او ایز) ہیں۔ جن کی اکثریت بڑے پیمانے پر خسارے پر چل رہی ہے۔ ان خساروں کے ذمہ داران نسل در نسل اقتدار کے دوران لوٹنے والے حکمران ہیں۔ لیکن سامراجی اداروں سمیت حکمران طبقات ان خساروں کا ذمہ دار ان میں موجود محنت کشوں کی بڑی تعداد کو قرار دیتے ہیں۔ 2019ء کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان ایس او ایز کے خسارے تعلیم اور صحت پر ہونے والے قومی اخراجات سے زیادہ ہیں۔ بیوروکریسی اور حکمران اشرافیہ کی لوٹ مار اور کرپشن کے باعث ان ایس او ایز کے خساروں کو ختم کرنے کیلئے آپسی لین دین اور حکومتی مالیاتی اداروں سے حاصل کیے گئے قرضوں کا ایک بڑا جال موجود ہے۔ جس کی تشخیص اور تصحیح ان ایس او ایز کے سٹرکچر کو تبدیل کرنے اور مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینے کے علاوہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ممکن نہیں ہے۔ ان ایس او ایز کی مصنوعات اور خدمات میں معیار کے بھی مسائل ہیں۔ تاہم یہ اپنے آغاز سے ہی ایسی نہیں تھیں۔ ایک منظم پالیسی اور حکمرانوں کی لوٹ مار کے ذریعے نجکاری کی راہ ہموار کرنے کی خواہش کا بڑا عمل دخل موجود ہے۔ 1977ء میں فری مارکیٹ اکانومی کے نفاذ کے بعد ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت ان ایس او ایز کو اس نہج تک پہنچایا گیا ہے جس میں عدم سرمایہ کاری، بیوروکریٹک بدانتظامی اور معیشت کی ادھوری کیفیات سرفہرست عوامل ہیں۔
ایس او ایز میں نجی فرموں کی نسبت مزدوروں کی تعداد 70 فیصد زیادہ ہونے کے باوجود پیداواری صلاحیت میں گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ بد انتظامی، بد عنوانی اور حکمرانوں و بیوروکریسی کی لوٹ مار کیلئے بوگس ملازمتوں کا ایک بڑا بوجھ بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ریاستی شعبے کے اکثریتی ملازمین نجی شعبے کی نسبت زیادہ محنتی اور باصلاحیت ہیں لیکن سیاسی مداخلت کارکردگی متاثر کرنے میں سب سے اہم عنصر ہے۔
ان تمام مسائل کے حل کے طور پر نجکاری کو بہترین نسخہ بتایا جاتا ہے۔ تاہم نجکاری کے نتیجے میں چھانٹیوں، ملازمین کی محدود تعداد سے زیادہ سے زیادہ کام لینے اور تنخواہوں میں کمی کے علاوہ سوشل سکیورٹی کے خاتمے، کنٹریکٹ ملازمتوں کو متعارف کروانے سمیت زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلئے زیادہ سے زیادہ استحصال کی ہر کوشش کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ بیروزگاری، مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ خدمات کے شعبے کو کاروبار میں تبدیل کرتے ہوئے منافع کمانے کیلئے ہر طرح کے اسٹینڈرڈز پر کمپرومائز کر دیا جاتا ہے۔ حتمی طور پر نجکاری کے نتیجے میں یہ کارپوریشنیں عوامی فائدے کی بجائے منافع کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں۔
اس صورتحال کے پیش نظر سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے سری لنکا کی حکومتوں کے پاس نیو لبرل پالیسیوں کے نفاذ کیلئے محنت کشوں پر مزید حملے کرنے، مائیکرو اکانومی پر حملہ کرتے ہوئے میکرو اکانومی کے اعداد و شمار بہتر کرنے کی کوشش کے علاوہ کوئی نسخہ موجود نہیں ہے۔ احتجاجی تحریک میں شامل متضاد مطالبات پر مبنی مختلف گروہ اور قیادت کا فقدان زیادہ لمبے عرصے تک اس مزاحمت کو آگے بڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جب تک معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے ایک واضح سیاسی پروگرام اور لائحہ عمل اختیار نہیں کیا جاتا تب تک یہ احتجاجی تحریک ایک سراب کی صورت میں آگے بڑھتی رہے گی۔ یا پھر وقتی طور پر تھک کر پسپا ہو جائے گی۔
تاہم حکمرانوں کی تشدد کی پالیسی احتجاج اور تشدد کو مزید بڑھاوا دینے کا باعث بن سکتی ہے۔ قیادت کے بغیر تحریکوں کے آغاز کا سلسلہ عہد حاضر میں ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ ماضی میں عوامی بغاوتوں نے پاپولر عوامی پارٹیوں کی بنیادیں رکھی تھیں۔ تاہم موجودہ عہد میں بحرانات کے نتیجے میں عوامی کمیٹیوں، قیادت کے بغیر تحریکوں کا رجحان زیادہ مقبولیت پکڑ رہا ہے۔ ایسی ہی کیفیت سری لنکا میں بھی اس وقت موجود ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں اور گروپوں سمیت اپوزیشن جماعتوں کو اس تحریک میں کوئی واضح شناخت نہیں مل سکی۔ نہ ہی ٹریڈ یونین قیادتوں کو کوئی فیصلہ کن کردار مل سکا ہے۔ تاہم بائیں بازو کی جماعتوں اور رجحانات نے ابھی تک کوئی انقلابی پروگرام بھی نہیں دیا ہے۔ جس کی بنیاد پر انہیں حمایت ملنے کے امکانات تو میسر آ سکتے۔ ابھی تک بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے بھی آئی ایم ایف کے نسخہ پر ہی زور دیا جا رہا ہے۔ البتہ ٹریڈ یونین قیادتوں کی جانب سے پھر بھی سامراجی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے۔
بے شمار دیگر پیچیدگیوں اور خود رو تحریک کی محدودیت اور اقتدار کے ایوانوں پر قبضوں سمیت ریاستی طاقت کو ہوا میں معلق کرنے کے باوجود کوئی انقلابی قیادت اور متبادل موجود نہ ہونے کی وجہ سے سری لنکا میں پھر گوتابایا راجاپکسے کے ہی ہمنوا ایک نشست کے حامل رانیل وکرما سنگھے اقتدار پر براجمان ہیں۔ گو یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ انکا اقتدار زیادہ لمبا چلتا نظر نہیں آ رہا۔ اس بحران سے نکلنے کیلئے جو نسخہ ان کے پاس ہے وہ مزید بربادی کا موجب بنے گا۔ وقتی طور پر اگر تحریک تھم بھی گئی تو دوبارہ اس سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ ابھر کر سامنے آ سکتی ہے۔ جب محنت کش طبقہ انگڑائی لیتا ہے تو اتنی آسانی سے وہ پسپائی اختیار نہیں کرتا۔ تحریک میں وقتی ٹھہراؤ اور پسپائی ہو سکتی ہے لیکن اس کو اتنی جلدی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک کے مختلف مراحل کے دوران محنت کش اور نوجوان اپنے تجربات سے بھی سیکھیں گے۔ نئی قیادتیں تراشی جائیں گی اور نئے امکانات کو زیر بحث لایا جائے گا۔ تاہم انقلابی متبادل کا فقدان اور ریاستی جبر و بربریت اس تحریک کو کچلنے میں کامیاب ہو گئی تو ایک وحشت ناک مستقبل سری لنکا کے عوام کا مقدر بنتے دیر نہیں لگائے گا۔ انقلابی سوشلزم کے نظریات پر مبنی سرمایہ داری مخالف پروگرام تشکیل دیتے ہوئے سنجیدہ مداخلت سرمایہ دارانہ اقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کا موجب بن سکتی ہے۔ جنوب ایشیائی جزیرے سے انقلاب کی فتح مندی بحرانات میں لپٹے اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ جو پوری انسانیت کے سوشلسٹ مستقبل کی نوید ٹھہرے گی۔