نذر مینگل

جب سے طبقاتی سماج وجود میں آیا ہے تب سے پوری انسانیت کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ رہی ہے۔ انسانی سماج دو طبقات میں بٹ گئے۔ امیر اور غریب۔ اکثریتی آبادی کے حصے میں محنت و مشقت آئی۔ جبکہ امیر محنت سے مبرا ہو گئے۔ ہر عہد میں نظام محنت کشوں کی محنت سے چلتا رہا جبکہ بالادست طبقات ان کی محنت پر پلتے رہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام تر ذرائع پیداوار اسی اقلیتی طبقے کے پاس تھے۔ ان کی اسی ملکیت کی حفاظت کے لیے ریاست کا ادارہ وجود میں آیا۔ ریاست کے تمام اداروں کا کام بالا دست طبقات اور امیروں کے مفادات کا تحفظ اور پسے ہوئے طبقات کو کچلنا ہوتا ہے۔ آج جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی یہ کھلواڑ جاری ہے۔ اس وقت محرومی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ اربوں انسانوں کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہیں۔ سرمایہ دار طبقات کے پاس بے پناہ دولت ہونے کے باوجود ان کی دولت کی ہوس ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور وہ ہر وقت محنت کشوں اور محکوم طبقات کی محنت کے استحصال کے نئے نئے طریقے ایجاد کرنے میں مصروف ہیں۔

پوری انسانی تاریخ میں محکوم اور مظلوم طبقات نے سرمایہ داروں اور استحصالی طبقات کے ظلم و جبر کے خلاف بڑی بڑی لڑائیاں لڑی ہیں اور اپنی زندگیوں کو سہل بنانے اور جبر کے نظام سے آزادی کے لیے بے پناہ قربانیاں بھی دی ہیں۔ ان عظیم لڑائیوں اور قربانیوں کے نتیجے میں محنت کشوں نے اپنے لیے کچھ مراعات حاصل کیں لیکن اس کے باوجود استحصالی نظام کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اس جبر کے خلاف محنت کشوں کی ایک بڑی جنگ یکم مئی 1886ء کو امریکہ کے شہر شکاگو میں ہوئی جہاں مزدوروں نے 18 گھنٹے کے اوقات کار کو 8 گھنٹے کرنے کے لیے قربانیاں دیں۔ ریاست نے ان پر امن مزدوروں پر گولیاں چلائیں۔ جس میں درجنوں مزدور شہید ہوئے اور ان کے سفید جھنڈے ان کے خون سے لال ہو گئے لیکن مزدور بالآخر اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئے اور اوقات کار کو 8 گھنٹے میں تبدیل کروا دیا۔

اس واقعہ کی مناسبت سے ہر سال یکم مئی کو پوری دنیا کے محنت کش عالمی دن کے طور پر مناتے ہیں۔ اس کا فیصلہ مزدوروں کی عالمی تنظیم دوسری انٹرنیشنل نے 1889ء میں اپنے ایک اجلاس میں کیا جہاں سائنسی سوشلزم کے بانی کارل مارکس کے نظریاتی ساتھی فریڈرک اینگلز نے یہ تجویز پیش کی۔ 1886ء کی اس تاریخی جدوجہد کے بعد محنت کشوں کی آنے والی نسلوں نے اس جدوجہد کی میراث کو مزید آگے بڑھایا اور اپنے طبقے کے لیے مزید فتوحات کے ذریعے مطالبات منوائے اور مراعات حاصل کیں لیکن استحصالی نظام اور طبقاتی جبر آج بھی جاری ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام آج اپنی تاریخ کے سب سے گہرے بحران کا شکار ہے۔ 2008ء کے مالیاتی بحران کے بعد تمام تر سرمایہ دارانہ معیشتیں کسی نہ کسی سطح پر بحرانوں کی زد میں ہیں۔ تمام تر کوششوں کے باوجود معیشت میں مطلوبہ بحالی ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ اس نظام کا ظلم یہ ہے کہ بحران سے نکلنے کے لیے بھی محنت کشوں کو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ پوری دنیا میں حکمران طبقات اپنی معیشت کو بحرانوں اور خساروں سے نکالنے لیے نیو لبرل معاشی نسخوں یعنی نجکاری، کٹوتیوں، ملازمت سے برطرفیوں اور ڈی ریگولیشن پر عمل پیرا ہیں جس کی وجہ سے بیروزگاری، لا علاجی، غربت اور مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کورونا وبا نے پہلے سے بحران زدہ نظام کو مزید بحرانوں کا شکار کر دیا ہے۔ پوری دنیا میں کروڑوں لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وبا کے بعد معیشت اگرچہ بحال ہو رہی ہے لیکن کروڑوں لوگوں کی نوکریاں مستقلاً ختم ہو گئی ہیں۔ سرمایہ داروں کی لوٹ مار کی ہوس نے پورے کرۂ ارض کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ صنعتوں کے بے قابو فضلے نے ماحولیات کو تباہی سے دو چار کر دیا ہے۔ آلودگی اور زہریلی گیسوں کے اخراج نے موسموں میں غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں جس کی وجہ سے زمین پر موجود ہزاروں جاندار اور پودے نابود ہو چکے ہیں اور مزید نابود ہو رہے ہیں۔ ماحولیات کی تباہی اور جنگلات کی کٹائی کے نتیجے میں مستقبل میں کورونا وبا سے زیادہ خطرناک وائرس جنم لے سکتے ہیں جو زیادہ جان لیوا وباؤں کا باعث بن سکتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام اپنے منافعوں کے لیے پوری دنیا میں انسانی تباہی کے آلات اور جدید اسلحوں پر خطیر رقم خرچ کر رہا ہے اور ان اسلحوں کی فروخت کے لیے ہر طرف جنگوں کو بھڑکا رہا ہے۔ یہی عمل ہمیں یوکرائن میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ یہ امریکی سامراج اور نیٹو ہی تھے جنہوں نے جنگ کے ایسے حالات پیدا کیے۔ اسی طرح افغانستان اور عراق پر حملہ کر کے وہاں کے سماجوں کو کئی صدیاں پیچھے دھکیل دیا گیا اور انفراسٹرکچر کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔

جہاں ایک طرف حکمرانوں کے محنت کشوں کے معیار زندگی پر حملے جاری ہیں وہیں ہمیں محنت کش طبقات کی جانب سے ان حملوں کے خلاف مزاحمت اور بغاوت بھی نظر آتی ہے۔ دنیا بھر میں 2019ء میں محنت کشوں کی شاندار تحریکیں دیکھنے کو ملیں۔ یونان، چلی، فرانس، عراق، ایران، لبنان اور دیگر ممالک میں حکمرانوں کی استحصالی پالیسیوں، مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف محنت کش سڑکوں پر نکل آئے۔ پاکستان میں عمران خان کی نیم فاشسٹ حکومت نے پچھلے تین سال سے زائد عرصے میں محنت کشوں پر عالمی مالیاتی اداروں کی مزدور دشمن پالیسیاں لاگو کیں۔ جس سے غریب غریب تر ہوتا گیا اور مہنگائی اور بیروزگاری آسمانوں تک پہنچ گئی۔ ایک کروڑ ملازمتیں اور پچاس لاکھ گھر فراہم کرنے کے اپنے وعدوں کے برعکس تحریک انصاف کی حکومت عالمی سامراجی اداروں کے سامنے ڈھیر ہو گئی اور ان سے قرض کی بھیک مانگ کر ملک میں مزدور اور عوام دشمن پالیسیاں لاگو کر کے نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ اور دیگر نیو لبرل پالیسیوں کو مزید تیز کیا۔ اب اقتدار سے باہر ہونے کے بعد عمران خان امریکہ کے خلاف منافقانہ انداز میں نعرے بازی کر رہا ہے۔ یہ عمران خان کی حکومت ہی تھی جس نے ملک کے مرکزی بینک کو مکمل طور پر امریکہ اور آئی ایم ایف کے دباؤ پر ان کے حوالے کر دیا۔ ملک کا وزیر خزانہ بھی ان کے کہنے پر تعینات کیا گیا۔ اس کے علاوہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مذہب کے کارڈ کا بھرپور استعمال کیا گیا اور مختلف جابرانہ قانون سازی کے ذریعے اظہار رائے کا گلہ گھونٹا گیا۔

خطے میں ہونے والی تبدیلیوں اور ریاست کے اندرونی خلفشار کی وجہ سے عمران خان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا اور شہباز شریف مسند اقتدار پر براجمان ہوا۔ لیکن ملکی معیشت کی جو حالت ہے ایسے میں شہباز شریف کی قیادت میں نئی اتحادی حکومت کے لیے حکمرانی کرنا آسان نہ ہو گا۔ ان کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط سے روگردانی مشکل نہیں ناممکن ہے۔ معاشی زوال، قومی استحصال اور ریاستی جبر اور گمشدہ افراد کا مسئلہ وہ مسائل ہیں جو نئی حکومت کے سامنے سلگ رہے ہیں۔

ایسے میں محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی، اتحاد اور جدوجہد وہ واحد راستہ ہے جن سے محنت کش طبقات کی آزادی ممکن ہے۔ پچھلے تین سالوں میں وفاقی اور صوبائی سطح پر محنت کشوں کی تنظیموں کے جتنے اتحاد بنے اور اس بنیاد پر جو جدوجہد ہوئی وہ محنت کشوں کے شعور میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں کی غمازی کرتی ہے۔ اسی تبدیلی کی بنیاد پر وہ اس قابل بنے کہ اپنی یکجہتی اور جدوجہد کے زور پر 25 فیصد ڈی آر اے حاصل کیا۔ اسی طرح بلوچستان میں بیوگا (بلوچستان ایمپلائز اینڈ ورکرز گرینڈ الائنس) کی جدوجہد کے نتیجے میں بلوچستان کے محنت کشوں کو 25 فیصد الاؤنس ملا۔ پختونخواہ، پنجاب اور سندھ میں بھی محنت کشوں کی شاندار جدوجہد کے نتیجے میں مراعات حاصل کی گئیں۔ آنے والے دنوں میں اسی اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے مزدور طبقات نہ صرف اپنے استحصال کے خلاف بلکہ اس نظام کے خلاف بھی لڑ کر ایک سماجی تبدیلی کا راستہ ہموار کریں گے۔ اس بنیاد پر 2022ء کا یوم مئی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جس طرح روس میں مزدوروں، نوجوانوں، کسانوں اور محنت کش خواتین نے 1917ء میں زار شاہی کا تختہ الٹ کر ایک مزدور ریاست قائم کرکے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا اسی طرح آج پاکستان میں محنت کشوں کی نجات بھی ایک سوشلسٹ انقلاب میں مضمر ہے۔