شیراز مل

افغانستان پر طالبان کے قبضے کو سات مہینے مکمل ہو چکے ہیں۔ اس عرصے میں ان کی حکومت نے ثقافتی پابندیوں، سابق امریکی حمایت یافتہ حکومت کے اہلکاروں کے خلاف انتقامی کاروائیوں، خواتین پر تعلیمی اور صحافتی شعبوں میں قدغنوں اور دیگر رجعتی اقدامات کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔ افغانستان کی انتہائی پسماندہ معیشت اور وسائل کی غیر موجودگی میں وہ کسی طرح کے ریاستی ادارے بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں جبکہ سابقہ حکومت کے تمام ادارے بیرونی امداد اور امریکی فنڈنگ کے بند ہونے سے کم و بیش منہدم ہو چکے ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان رجعت پسندوں نے کھنڈرات پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی ریاست کی آپسی چپقلش بھی افغانستان کے بحران میں اضافہ کر رہی ہے اور طالبان کے متحارب دھڑوں کی لڑائیاں و سامراجی ممالک کی پراکسی جنگیں ملک میں ایک اور خونی خانہ جنگی کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ اس کے اثرات خطے کے دیگر ممالک بالخصوص پاکستان پر پہلے ہی مرتب ہو رہے ہیں۔ ہر گزرتا دن طالبان کے بارے میں بہت سے حلقوں میں موجود خوش فہمیوں کو ختم کر رہا ہے اور ان کے خلاف سماجی مزاحمت، جو فی الحال شیر دل افغان خواتین کی جانب سے محدود پیمانے پر جاری ہے، کے بیج بو رہا ہے۔

سابق افغان صدر اشرف غنی کا کسی مزاحمت کے بغیر افغانستان سے فرار اور طالبان کے افغان دارالحکومت کابل میں کوئی گولی چلائے بغیر داخل ہونے سے افغانستان کی بیس سالہ تاریخ کا ایک ظالمانہ باب بند ہو گیا ہے۔ جبکہ غیر یقینی کیفیات، پر انتشار حالات، کئی طرح کے امکانات اور احتمالات کا ایک نیا باب کھل گیا ہے۔ اس نئے باب کی شروعات امریکی سامراجی فوج کے انخلا اور طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ یہ انخلا دراصل عالمی سرمایہ دارانہ معاشی و سیاسی نظام اور اس کے نیو لبرل مرحلے کی طرز اور پالیسیوں کی ناکامی اور نامرادی کا نہایت ہی واضح اظہار ہے۔ امریکی سامراج نے 2001ء میں افغانستان پر جارحیت کے وقت چند بڑے اہداف کا تعین کیا تھا جن میں کچھ ظاہری تھے اور کچھ پوشیدہ تذویراتی و استعماری منصوبے تھے۔ بظاہر القاعدہ کو منتشر کر کے بن لادن کو جڑواں ٹاورز کے پہلو میں واقع عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنا مقصود تھا۔ جبکہ امریکی فوجیوں نے بن لادن کو نہتے اور بیماری کی حالت میں اس لئے قتل کر ڈالا کہ کہیں وہ کٹہرے میں سامراجی گٹھ جوڑ کا راز نہ کھول دے۔ دوسری طرف اس کی القاعدہ کو شام میں بشارالاسد کے خلاف منظم کر کے مسلح کیا گیا۔ اسے زمینی جنگ کے دوران بھرپور فضائی کمک دے کر پہلے سے زیادہ جاندار اور سرگرم تنظیم بنایا گیا۔ دوسرے ظاہری اہداف میں افغانستان کو آزادی اور جمہوریت دینی تھی، خواتین کو برابری کے حقوق دلا کر مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کرنا تھا، طالبان کو منتشر کر کے ان کی بزور بندوق اقتدار میں واپسی کے امکانات ختم کرنے تھے۔ لیکن جب وہ افغانستان سے نکلا تو طالبان پہلے سے زیادہ مستحکم حالت میں ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ حکومت کے دوران پورے ملک میں صرف این جی اوز اور شہری خواتین کی چھوٹی اقلیت کو ہی کچھ مراعات اور سماجی آزادیاں میسر تھیں۔ اب وہ بھی عام اور محروم خواتین کی صف میں لا کھڑی کر دی گئی ہیں۔ امریکہ نے اس خطے میں تھانیدار کے طور پر اپنی موجودگی، روس و ایران پر نظر رکھنے اور چین کا محاصرہ کرنے کے خواب آنکھوں میں لیے اضطرابی حالت میں راہ فرار اختیارکی ہے۔ انہی حالات میں ہمیں طالبان کی صورت میں پرتشدد رجعت اور بنیاد پرستی ریاست پر حاوی طاقت کے طور پر منظر پر ابھرتی نظر آتی ہے۔ مذہبی بنیاد پرستی و انتہا پسندی‘ سرمایہ داری ہی کی غیر متوازن ترقی سے جنم لینے والی محرومی، مستقبل سے مایوسی اور تنہائی کی شکار پچھڑی ہوئی سماجی پرتوں کے مروجہ نظام کے خلاف رجعتی ردعمل کا سیاسی و سماجی مظہر ہے۔ جسے سامراج ہی نے منظم و مسلح کر کے مسلم دنیا میں عوامی تحریکوں، ترقی پسند پارٹیوں اور تنظیموں کو خوفزدہ کرنے اور انقلابات کو کچلنے کے لئے بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ جدید تاریخ میں کوئی بنیاد پرست تنظیم ایسی نہیں کہ جسے سامراج نے اپنے مکروہ سامراجی مقاصد کے حصول کے لئے پروان چڑھایا اور استعمال نہ کیا ہو۔ چاہے وہ مشرق وسطیٰ میں آل سعود کے ساتھ وہابیت کا پیوند ہو یا پھر جمال عبدالناصر کے خلاف سازشوں میں اخوان کو طاقت فراہم کرنے کا عمل ہو، سوئیکارنو کے خلاف جنرل سہارتو کی پشت پناہی ہو یا آزادیِ فلسطین کی تنظیم کے خلاف حماس کو ابھارنا ہو۔ یا پھر افغانستان کی انقلابی حکومت کے خلاف ڈالر مجاہدین کو فنڈ کر کے خون کی ندیاں بہانا ہو۔ القاعدہ سے لے کر بوکوحرام اور داعش سے لے کر النصرہ فرنٹ تک ایسی درجنوں بنیاد پرست تنظیمیں تخلیق کر کے سامراج نے اپنے مفادات کے محافظین کھڑے کیے ہیں۔ حالیہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ سامراجیت اور بنیاد پرستی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ بہت سے لبرلوں نے امریکی جارحیت کو اس کے دعوؤں کے مطابق اس مغالطے میں سپورٹ کیا تھا کہ امریکہ اس خطے سے بنیاد پرستی کو ختم اور انسانی حقوق کو بحال کرنے آیا تھا۔ اب سر پیٹتے ہوئے امریکہ کو دہایاں دے رہے ہیں۔

افغانستان کی پچھلے چالیس سالہ استعماری جنگ نے افغان ریاست، سماج اور سیاسی قوتوں کو برباد اور منتشر کر کے رکھ دیا ہے۔ اجتماعی سیاسی لیڈرشپ کی جگہ وار لارڈز اور افیون کے بڑے سمگلروں نے لے لی ہے۔ اسی جنگ کے دوران ایک نئی نسل پنپ کر جوان ہوئی ہے جو جنگ کے خاتمے اور پر امن زندگی کی خواہش اور امید آنکھوں میں سجائے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ کسی سیاسی متبادل کی عدم موجودگی میں وہ انہی وار لارڈز کی طاقت کا سبب بنتے رہے ہیں جنہوں نے جنگ کو ایک بیوپار بنا رکھا ہے۔ افغانستان میں چھوٹی سیاسی تنظیموں کو چھوڑ کر تمام وار لارڈز کے طاقتور گروہ کسی نہ کسی سامراجی ملک (بشمول ہمسایہ ممالک) کی پراکسی جنگ کے مہرے ہیں۔ کسی بھی گروہ کے پاس اپنا سیاسی وژن اور اجتماعی سماجی بہتری کا ہدف اور پروگرام نہیں ہے۔ بلکہ یہ اپنے استعماری آقاؤں کی ڈکٹیشن پر رقصاں کٹھ پتلیاں ہیں۔ اس پس منظر کے ساتھ ہی کابل کے حالیہ سقوط کو سمجھا جا سکتا ہے۔ کچھ تجزیہ نگار طالبان کے افغانستان پر کنٹرول اور کابل پر قبضہ حاصل کرنے کو امریکہ کی طرف سے سازش سمجھ رہے ہیں جو کسی بھی پہلو سے درست نہیں۔ درحقیقت امریکی سامراج افغانستان میں ایک ایسی بے بسی کی کیفیت میں پھنس چکا تھا کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے ہی عاری ہو چکا تھا۔ اس کیفیت میں وہ ایک کے بعد دوسری غلطی کرتا چلا گیا ہے۔ دوحہ میں پچھلے دنوں ہونے والے مذاکرات کا طالبان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کسی نقطے پر متفق ہونے کے بعد بھی طالبان زمین پر فیصلے اس کے برعکس کرتے رہے جبکہ امریکہ یاس و ناامیدی میں یہ سب ہوتا دیکھتا رہا۔ کابل پر طالبان کے قبضے سے پیشتر یہ طے کیا گیا تھا کہ اشرف غنی کے استعفیٰ کے بعد عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی جو چھ ماہ میں انتخابات کروائے گی۔ لیکن طالبان نے کابل پر قبضہ کر کے افغانستان کے عبوری اور مستقل معاملات کو کلی طور پر اپنے اختیار میں لے لیا ہے۔ کابل تک پہنچنے کی حیران کن فاتحانہ پیش قدمی کے عوامل میں سب سے اہم کردار امریکہ کا بوکھلاہٹ کے عالم میں بگرام، قندھار اور دیگر ہوائی اڈوں کو رات کی تاریکی میں خالی کر کے بھاگ جانا تھا جس کے افغان آرمی کے جنگی مورال، جڑت و یکجہتی اور دفاع کی صلاحیتوں پر انتہائی منفی اثرات پڑے۔ لڑنے سے پہلے ہی افغان سپاہیوں اور افسروں نے دور افتادہ علاقوں کی چیک پوسٹوں کو ایسی حالت میں خالی کر کے چھوڑنا شروع کیا کہ جب ان تک خوراک سمیت ہر قسم کی رسد تقریباً بند ہو گئی تھی۔ افغان آرمی کے سپاہیوں کی کم تنخواہ اور مہینوں سے اس تنخواہ کی عدم ادائیگی، سپاہیوں کے لئے بھیجی گئی اشیائے خوردونوش میں خورد برد، فضائی کمک کا تقریباً ختم ہو جانا، مقامی کمانڈروں اور مرکز کی متضاد ہدایات اور قبائلی مشران کی طالبان کی صفوں میں تیزی سے شمولیت جیسے عوامل نے فوج کے رہے سہے حوصلے بھی پست کر دیئے۔ ہلمند کے مرکز لشکر گاہ اور ہرات شہر پر طالبان کے قبضے کی بھرپور کوششوں اور حملوں کو کئی روز تک کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ اگر پورے ملک میں اسی قسم کی مزاحمت کا طالبان کو سامنا ہوتا تو انہیں کابل پہنچنے میں سالوں لگتے۔ لیکن ہوا یہ کہ ہرات میں وار لارڈ کمانڈر تورن اسماعیل نے ایران کے کہنے پر جس طرح 2001ء میں امریکی صف میں کھڑے ہو کر طالبان کی حکومت کو گرانے میں کردار ادا کیا تھا‘ اسی طرح اس بار بھی ایران ہی کی مداخلت پر اپنے گھر میں طالبان کو باقاعدہ اجلاس میں مدعو کر کے ان کی صف میں شامل ہو کر ہرات ان کے حوالے کر دیا۔ اس عمل سے افغان فوج کے گرے ہوئے مورال کو ایک اور کاری ضرب لگی۔ کابل انتظامیہ نے لشکر گاہ سے دفاعی کمانڈر سمیع سادات کو دارالحکومت بلایا اور کابل کے دفاع پر مامور کیا جبکہ پیچھے لشکر گاہ کی دفاعی لائن کمزور ہونے سے ہلمند کا سقوط ہوا۔ غزنی کے گورنر نے غزنی شہر طالبان کے حوالے کیا۔ قندھار میں بااثر قبائلی افراد اور وار لارڈز نے قبضے کو آسان بنایا۔ اسی طرز پر اشرف غنی کا اپنا صوبہ لوگر فتح ہوا۔ اس طرح جنوب سے طالبان کابل کے دروازے تک پہنچ گئے جبکہ شمال میں آگے بڑھتے ہوئے اہم شہروں پر با آسانی قبضہ کرتے ہوئے جنرل رشید دوستم کے مزار شریف تک پہنچے۔ جنرل رشید دوستم جو ترکی کے صدر طیب اردگان کا پٹھو تھا اور جس نے طالبان کے کسی بھی حملے کی صورت میں افغانستان کو تقسیم کر کے نیا ملک ترکستان بنانے کی بڑھک ماری تھی کی طاقت کے مرکز مزار شریف کو طالبان نے لمحوں میں فتح کر کے اس کے عزائم خاک میں ملا دیئے۔ رشید دوستم اور جنرل عطا ازبکستان بھاگ کھڑے ہوئے۔ مزار شریف سے کابل تک طالبان نے بغیر کسی مزاحمت کے بڑھتے ہوئے جنوب کی طرح شمال میں بھی کابل کے دروازے پر ڈیرے ڈال دیئے۔ شمال میں طالبان کی کامیابیاں ایران اور روس کی مدد کے بغیر اتنی سہل نہیں ہو سکتی تھیں۔

کابل کا حکمران صدر اشرف غنی، جس کی تربیت ورلڈ بینک اور این جی اوز کے دفتری امور تک محدود تھی، افغانستان کے غیر معمولی حالات میں کوئی اہم رول ادا کرنے سے قاصر رہا۔ پہلے امریکہ نے اسے اور اس کی حکومت کو طالبان کے ساتھ اہم اور فیصلہ کن مذاکرات کے عمل سے تضحیک آمیز انداز میں باہر رکھا۔ جس پر وہ کوئی خاطر خواہ ردعمل نہ دکھا سکا۔ یہی مذاکرات نام نہاد امن معاہدے کے بعد بھی سقوط کابل کے دن تک جاری رہے۔ لیکن صدر اور اس کی حکومت غیر متعلق ہی رہے۔ جبکہ شمالی اتحاد کے گھاگ سیاسی لیڈر عبداللہ عبداللہ نے حالات کو بھانپتے ہوئے پہلے ہی سے افغان رابطہ کونسل کی سربراہی حاصل کر لی تھی۔ اس طرح وہ مذاکرات کے آخری دور میں سرگرم اور اسی عہدے کی بنیاد پر طالبان کے ساتھ مسلسل رابطوں میں رہا۔ صدر اشرف غنی جو آئینی طور پر فوج کا اعلیٰ کمانڈر بھی تھا اس جنگ کے دوران کہیں بھی کسی بھی محاذ پر اپنی فوج کے افسروں اور سپاہیوں کا حوصلہ بڑھاتا نظر نہیں آیا۔ طالبان کی پیش قدمی دیکھ کے بقول روسی سفیر نوٹوں سے بھرے سوٹ کیسوں کے ساتھ چار گاڑیوں میں کابل ائیر پورٹ پر پایا گیا۔ نوٹوں کے سوٹ کیسوں کی تعداد اتنی تھی کہ وہ اس کے سفر کے طیارے میں نہیں سما سکے۔ چنانچہ نوٹوں سے بھرے کچھ سوٹ کیس ایئر پورٹ پر ہی چھوڑنے پڑے۔ وہ کابل سے عمان جا کر پناہ گزین بن گیا اور پیچھے ایک انتشار اور غیر یقینی کی حالت چھوڑ گیا۔ ورلڈ بینک اور این جی اوز جیسے سرمایہ دارانہ اداروں کی تربیت سے اشرف غنی کی طرز کے کائر اور حادثاتی لبرل لیڈر ہی جنم لیتے ہیں۔ جبکہ انقلابی جدوجہد کی بھٹی کی تپش میں ترہ کئی، امین اور شہید نجیب جیسے کندن رہنما ابھرتے ہیں جو مظلوم عوام کے دفاع میں اپنی جان پر کھیل کر امر ہو جاتے ہیں۔ اشرف غنی کے فرار کے ساتھ ہی حکومت بکھر کر رہ گئی۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے طالبان بغیر کسی مزاحمت کے کابل شہر میں داخل ہوئے۔

جہاں اشرف غنی اور اس کی حکومت کے خلا کو فوری طور پر واحد متبادل قوت کے طور پر طالبان نے بھر دیا وہاں امریکی شکست سے پیدا ہونے والے خلا کو روس، چین اور ایران پر کرنا چاہتے ہیں جنہوں نے امریکہ کو شکست دینے کے لئے طالبان کو ہر ممکن مدد فراہم کی۔ جبکہ پاکستانی ریاست طالبان پر گہرے اثر و رسوخ کی بنیاد پر ان ریاستوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ اس عمل میں پاکستانی رجیم اور ڈیپ سٹیٹ کے درمیان تضادات کا ابھرنا ناگزیر امر ہے۔

افغانستان ایک لینڈ لاک ملک ہونے اور نصف سے زیادہ رقبہ پہاڑوں اور سطح مرتفع پر مشتمل ہونے کے باوجود جغرافیائی طور پر وسط ایشیائی ریاستوں اور جنوبی ایشیا کے درمیان ایک نہایت اہم پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کے معدنیات کے ذخائر کی دولت اسے مختلف سامراجی ریاستوں کی توجہ کا مرکز بناتی رہی ہے۔ نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوئی امریکی ڈیفنس کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کاپر، کوئلہ، کرومائٹ، فلورائیڈ، آئرن اور یورینیم سمیت کئی قیمتی دھاتوں سے بھرا پڑا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان لیتھیم کے بہت وسیع ذخائر سے مالا مال ہونے کی بنیاد پر لیتھیم کا سعودی عرب بن سکتا ہے۔ لیتھیم وہ اہم قیمتی معدن ہے جو موبائل ڈیوائسوں اور زیرو کاربن بجلی کی کاروں کی بیٹریوں میں استعمال ہوتا ہے۔ چین وہ ملک ہے جو افغانستان میں معدنیات کے نکالنے کے ٹھیکوں میں دہائیوں سے دلچسپی رکھتا ہے۔ چین نے افغان حکومت کے ساتھ کاپر اور تیل نکالنے کے کئی معاہدے کیے جس میں ایان کاپر مائن بھی شامل ہے جو شاید دنیا کا سب سے بڑا ایسا پراجیکٹ ہے۔ البتہ غیر یقینی حالات کی وجہ سے ان ٹھیکوں پر بہت کم ہی کام ہوا ہے۔ اسی طرح چین افغانستان کو بیلٹ اینڈ روڈ پراجیکٹ کے ذریعے جنوب میں سی پیک جبکہ شمال میں شاہراہ ریشم کے ساتھ جوڑنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ چین نے خود کو طالبان کے قریب کیا ہے۔ چین میں طالبان و چینی حکام کی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ طالبان نے اپنی سر زمین چین کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کروائی ہے جبکہ چین نے بھی تعاون کا یقین دلایا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ چین، روس اور ایران شنگھائی تعاون تنظیم کے ذریعے یک پولر امریکی سامراج کی جگہ ملٹی پولر انتظام کے لئے سرگرم ہیں۔ اس کے باوجود چین اور روس کسی بھی طرح امریکہ کی مانند افغانستان میں بغیر کسی ٹھوس ضمانت کے پیسے خرچ کرنے کی کیفیت میں نہیں ہیں۔ شاطر چینی بیوروکریسی اور روسی مافیائی صدر پیوٹن طالبان سے اپنے مخصوص مفادات کے پورے ہونے کی ضمانت ملنے کے بعد ہی کچھ پیسے دیں گے لیکن وہ قطعاً ایک ریاست کو چلانے اور دیگر امور کے لئے کافی نہیں ہوں گے۔ شاید انہی حقائق کے ادراک کے نتیجے میں ہی طالبان امریکہ سے امداد اور افغانستان کے اثاثے غیر منجمد کرنے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔

اشرف غنی کے فرار کے بعد سابق نائب صدر امر اللہ صالح نے احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کے ساتھ مل کر پنجشیر کی وادی میں دیگر طالبان مخالف کمانڈروں کو اکٹھا کر کے ”قومی مزاحمتی محاذ“ کے نام سے مزاحمت بھی کی لیکن طالبان کے ہاتھوں انہیں جلد ہی شکست کھانی پڑی اور وہ تاجکستان اور بعد میں ایران فرار ہو گئے۔ طالبان کی چین، روس اور ایران سے قربت کے بعد قومی مزاحمتی محاذ، داعش اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان ایک اتحاد کے امکانات بھی نظر آ رہے ہیں جس کی پشت پر امریکہ اور ان کے اتحادی کھڑے ہوں گے۔ ایسے اتحادکی صورت میں افغانستان میں انتہائی خطرناک خونریزی کے امکانات ہیں جس سے افغانستان اور پاکستان ایک بار پھر ایک نئی جنگ کے دہانے کھڑے ہوں گے۔

طالبان نے اپنے پہلے اقتدار سے کچھ اور سیکھا ہو یا نہ سیکھا ہو لیکن اقتدار پر گرفت کو مضبوط رکھنے کے گر ضرور سیکھے ہیں۔ ان کے سامنے پڑوس میں ایران کی ملاں اشرافیہ کی شکل میں ایک آمرانہ مذہبی حکومت کی مثال موجود ہے جس کے ساتھ لمبے عرصے سے ان کی ہمکاری بھی موجود رہی ہے۔ طالبان نے اپنا نظام حکومت ایرانی ملائیت کی طرز پر تشکیل دینے کی کوشش کی ہے یعنی ایرانی نظام کا جیکٹ افغانستان کے کھردرے جسم کو پہنانے کی کوشش کی ہے لیکن اس کا انجام اس جیکٹ کا تار تار ہونا ہی ہے۔ کیونکہ افغانستان ایران کی طرح نہ تو مضبوط معیشت رکھتا ہے اور نہ ہی ایرانی فارسیوں کی طرح اکثریتی بالادست قومیت وجود رکھتی ہے۔ یہ ثقافتی، معاشی اور سماجی طور پر ایران سے کئی گنا پسماندہ اور پرانتشار ملک ہے۔ ریاستی جبر کے لئے کسی ریاست کی معیشت کا مضبوط ہونا بنیادی شرط ہے۔ جبکہ یہاں ان بنیادوں کا کوئی وجود نہیں۔ طالبان سماج کے صرف ایک پہلو عدالتی نظام کے ایک جزو‘ جزا و سزا کے علاوہ اور کسی قسم کا پروگرام نہیں رکھتے۔ موسیقی پر پابندی، موسیقی کے آلات کو توڑنے اور جلانے اور خواتین کو کام سے روکنے یا ان کی نقل و حرکت پر قدغنیں لگانے کے علاوہ ان کے پاس سماجی و معاشی ترقی اور خوشحالی کا نہ تو کوئی نظام ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام۔ ان کے پاس غریب عوام کے لئے عمران خان جیسے خیرات اور بھیک کے توہین آمیز ہمدردی والے جذبات ہی ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2022ء کے وسط تک افغانستان کی 97 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے گر سکتی ہے۔ گزر بسر کے لئے اپنے جسمانی اعضا فروخت کرنے کے واقعات افغانستان میں بڑھ رہے ہیں۔ کابل میں ہرروز نانبائیوں کے باہر روٹی کی بھیک مانگنے والوں کی قطار لگی ہوتی ہے۔ کمزور، بحران زدہ معیشت اور اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ملک ایک انسانی المیے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ طالبان کی حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں۔ افغانستان کا مظہر اپنی کوکھ میں کئی قسم کے ممکنات سمیٹے ہوئے ہے۔ انقلابیوں کا کام کسی بھی مظہر میں اس کے ترقی پسندانہ رجحانات کو تلاش کر کے ان کی نگہداشت اور پرورش کرنا ہوتا ہے۔ افغانستان کے داخل میں ایک کے بعد ایک رجعتی واقعات کا تسلسل جنم لیتا رہا ہے۔ ان رد انقلابی واقعات کو جنم دینے کی توانائی اب ماند پڑ رہی ہے۔ خطے سے امریکی سامراج کی شکست کی صورت میں نیو لبرل سرمایہ داری کی ناکامی اپنے اثرات میں انقلابی معروض کی تشکیل اور انقلابی نظریات کی ترویج میں معاونت کیساتھ ایک ترقی پسندانہ قدم ثابت ہو گی۔ افغان نسل نئے تجربات سے بہت کچھ سیکھ رہی ہے۔ ایسا کچھ کہ جسے لوگ چالیس سال میں بھی نہ سیکھ سکے۔ نئی سوچ، نئے زاویئے اور نظریات پروان چڑھ رہے ہیں۔ کابل میں بندوق بردار اور فتح سے سرشار طالبان کے سامنے خواتین اپنے حقوق کے حصول کے لئے مظاہرے کی ہمت کر کے بہادری کی مثال قائم کر رہی ہیں۔ یہ صرف چند خواتین نہیں ہیں بلکہ افغان محنت کش عوام کی بہت بڑی اکثریت کی آواز ہیں۔ یہ آواز گونج پیدا کرے گی، توانا ہو گی اور اس سے انقلابی شعار جنم لیں گے۔ یہ مل کر ایک ایسی دھاڑ کی صورت اختیار کریں گے جو ہر رجعتی اور قبیح چیخ کو خاموش کرانے کا سبب بنیں گے۔