حارث قدیر

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا 8 سالہ اقتدار جہاں مسلمانوں اور دیگر بھارتی اقلیتوں کیلئے ایک بھیانک خواب بن چکا ہے، وہیں شہری، جمہوری، شخصی اور مذہبی آزادیوں پر قدغنوں اور محکوم قومیتوں پر جبر کی بھی ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ اس سب واردات کے پیچھے درحقیقت بھارتی حکمران وہ بھیانک معاشی حملے کر رہے ہیں جنہیں اس ننگی وحشت میں کہیں چھپا دیا جاتا ہے۔

وِکاس اور ترقی کے دعوؤں اور وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آنے والے نریندر مودی نے اقتدار کی راہ ہموار کرنے والے سرمایہ داروں کو نوازنے اور سرمایہ دارانہ جبر کو تیز تر کرنے کیلئے جس راہ کو اختیار کیا ہے وہ 1 ارب 38 کروڑ انسانوں کی زندگیوں کو تاراج کرنے کا راستہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے رہنما کھلے عام مسلمانوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کے دعوؤں سے بھرپور بیانات دیتے پھر رہے ہیں۔ انتہا پسند گروہ انسانیت دشمنی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے ’موب لنچنگ‘ سے بھی آگے بڑھ کر اب خواتین اور طالبات پر حملہ آور ہونا شروع ہو چکے ہیں۔

ننگے ریاستی جبر کے ذریعے قومی بینکوں اور اداروں کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں اونے پونے داموں فروخت کرنے کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ این آر سی اور سی اے اے کے نام پر کروڑوں انسانوں کو شہریت سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی پر عملدرآمد جاری ہے۔ پنشن اور سوشل سکیورٹی چھیننے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم پر ملنے والے وظیفوں کا خاتمہ کرنے سمیت صحت کے حقوق چھیننے کیلئے قانون سازیاں کی جا رہی ہیں۔ کسانوں نے ایک طویل جدوجہد اور 750 سے زائدجانوں کی قربانیاں دینے کے بعد جس معاشی حملے کو پسپا کیا ہے‘ اس کو کسی دوسرے راستے سے دوبارہ کرنے کی منصوبہ بندی بھی زیر غور ہے۔

ان معاشی حملوں کو جاری رکھنے کیلئے ہندو مسلم تنازعات کو ہوا دینا، حجاب پر پابندی عائد کرنا، عدالتوں پر دباؤ ڈال کر من پسند فیصلے کروانا، گائے کو ذبح کرنے کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں مسلمانوں کا قتل عام کروانا یا پھر دہلی فسادات کو ہوا دینے جیسے انسانیت سوز اقدامات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں حکومت پٹرولیم کارپوریشن لمیٹڈ سمیت 6 سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کرنا چاہتی ہے۔ ریل کوچ مینوفیکچرنگ کمپنی بی ای ایم ایل، شپنگ کارپوریشن آف انڈیا اور سنٹرل الیکٹرانکس کی نجکاری فی الحال محنت کشوں کے احتجاج کی وجہ سے روکی گئی ہے۔ تاہم حکومت کا مجموعی طور پر 100 سے زائد پبلک سیکٹر اداروں کو فروخت کرنے کا منصوبہ ہے۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت سٹاک مارکیٹ میں سرکاری اداروں کے 10 فیصد حصص فروخت کر کے 10 ٹریلین روپے اکٹھا کرنا چاہتی ہے۔ اس طرح مودی حکومت کو اقتدار میں لانے اور برقرار رکھنے کیلئے میڈیا پر بھاری سرمایہ کاری کرنے والے ارب پتی سرمایہ داروں کو نوازنے کا یہ سلسلہ بہت دور تک چلتا ہے۔

کورونا وبا کے بعد معیشت کی بحالی اور ترقی کے دعوے بھی مودی حکومت کے ماضی کے دعوؤں کی طرح کھوکھلے ہی ہیں۔ جی ڈی پی کی شرح نمو 5.7 فیصد بتائی جا رہی ہے، جبکہ 2020ء میں معیشت میں 3.4 فیصد سکڑاؤ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف کے مطابق مجموعی حکومتی قرضے جی ڈی پی کے 90 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ آمدہ مالی سال میں ان میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

جی ڈی پی کی شرح نمو میں اضافہ تو دکھایا جا رہا ہے لیکن مجموعی داخلی اخراجات، جو ماضی میں جی ڈی پی کے 55 فیصد سے زیادہ رہے ہیں، میں مسلسل کمی کا رجحان ہے اور یہ اب 55 فیصد کے قریب بھی نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔اس شرح نمو کے ساتھ بھی جی ڈی پی مالی سال 2022ء میں بمشکل 2019ء والی سطح پر پہنچے گا۔

سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کے مطابق ”اگرچہ مالی سال 2022ء کی دوسری سہ ماہی کے دوران بیروزگاری کی شرح میں کمی واقع ہوئی، تاہم لیبر فورس کی شرکت کی شرح میں کورونا سے پہلے کی صورتحال تک پہنچنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔“

رواں مالی سال میں معیشت میں بہتری کا بنیادی محرک برآمدات میں اضافہ تھا یا دوسرے لفظوں میں غیر ملکی مانگ میں اضافہ ہو رہا تھا۔ پروفیسر بسواجیت کے مطابق’’بیرونی طلب پر انحصار کے مسائل کا بھی اپنا حصہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ 2008ء کی معاشی کساد بازاری کے نتیجے میں ہوا تھا۔ بنیادی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور داخلی مانگ میں مسلسل کمی کی موجودگی میں برآمدات کی بنیاد پر معیشت کو زیادہ دیر متحرک نہیں رکھا جا سکتا۔“

یاد رہے کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران افراط زر 12 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ افراط زر کی بلند شرح عالمی منڈی میں بھارت کی مسابقت کو نمایاں طور پر ختم کر سکتی ہے۔

اعداد و شمار کے ساتھ کھلواڑ بھارتی حکومت کا ایک اور کارنامہ ہے۔ کورونا وبا کے متاثرین اور اموات کی شرح ہو، معیشت سے متعلق اعداد و شمار ہوں یا پھر غربت اور بیروزگاری سے متعلق اعداد و شمار ہوں‘ ہر جگہ بھارتی حکومت نے کمال مہارت سے حقیقی اعداد و شمار کو چھپانے کا طریقہ کار اپنا رکھا ہے۔ غربت ختم کرنے کی بجائے غربت کا پیمانہ ہی تبدیل کر دیا گیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں غربت کی شرح 6 فیصد ہے، جبکہ 93 کروڑ 84 لاکھ آبادی، جو مجموعی آبادی کا 68 فیصد ہے، 2 ڈالر یومیہ سے کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ 30 فیصد آبادی 1.25 ڈالر یومیہ سے بھی کم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ 84 ملین افراد بھارت میں ایسے ہیں جو انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی 84 ملین مودی حکومت کے اس 6 فیصد میں شمار کیے جا رہے ہیں، جن کے پاس دو وقت کی روٹی اور چھت دونوں موجود نہیں ہیں۔

کورونا وبا کے دوران ہلاکتوں کے اعداد و شمار کے ساتھ بھی اسی طرح کا کھلواڑ کیا گیا۔ شہریوں کے پاس مردے جلانے کی جگہ اور مطلوبہ رقم نہ ہونے کے باعث لاشوں کو دریاؤں میں بہایا گیا۔ ہزاروں شہریوں کی لاشیں دریاؤں میں تیرتی دیکھی گئیں۔ لوگ سڑکوں پر آکسیجن کیلئے تڑپ تڑپ کر مرتے رہے، لیکن مودی حکومت اور آر ایس ایس کے انتہا پسند اسے میڈیا اور دشمن ملک کی سازش قرار دے کر جان چھڑواتے رہے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار میں بتایا جا رہا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے 5 لاکھ 14 ہزار اموات ہوئی ہیں۔ تاہم صرف ایک بھارتی ریاست گجرات میں، جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 10 ہزار اموات ہوئیں، سپریم کورٹ میں معاوضہ جات سے متعلق ایک کیس کی سماعت میں انکشاف ہوا کہ 90 ہزار افراد کی کورونا وائرس سے موت ہوئی ہے۔ ایک ریاست میں جہاں سرکاری اعداد و شمار 10 ہزار اموات بتا رہے ہیں، وہاں اگر اموات سرکاری اعداد و شمار سے 9 گنا زیادہ ہوئی ہیں تو اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 28 ریاستوں اور 8 یونین ٹریٹریز میں اموات کی شرح کیا ہو گی۔

اسی طرح کورونا وبا کے دوران لگنے والے لاک ڈاؤن میں کروڑوں محنت کشوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ تاہم حکومتی اعداد و شمار یہاں بھی دھوکہ دہی سے ہی کام لیتے ہیں۔ 93 فیصد بھارتی شہریوں کو کورونا وبا کے دوران گھریلو آمدن میں کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ملازمتوں سے ہاتھ دھونے اور لاک ڈاؤن کے دوران شہروں میں کرائے کے مکانوں اور رہائشگاہوں کے کرائے ادا نہ کر سکنے کے خوف سے دیہاتوں کی طرف ہجرتوں نے ایک انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔ مودی حکومت کیلئے یہ انسانی المیہ بھی صرف میڈیا کی بات ہی ٹھہرا۔

جہاں کورونا کے دوران معیشت برباد ہوئی، کروڑوں لوگوں سے روزگار چھن گیا، وہی ارب پتیوں کی دولت میں بیش بہا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کورونا وبا کے دوران ملک کے ارب پتیوں کی دولت میں 39 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔بھارت کے امیر ترین 10 فیصد افراد ملک کی مجموعی دولت کے 57 فیصد کے مالک ہیں، جبکہ غریب ترین 50 فیصد کے پاس ملک کی صرف 13 فیصد دولت ہے۔ امیر ترین 1 فیصد افراد ملک کی مجموعی طور پر 22 فیصد دولت کے مالک ہیں۔

اس معاشی لوٹ مار اور بربادی کو جاری رکھنے کیلئے معاشرے کو تعصبات اور نفرتوں میں بری طرح سے الجھا دیا گیا ہے۔ نام نہاد جمہوریت کے خود ساختہ مستحکم عدالتی نظام نے ماضی میں بھی انصاف کے ساتھ کھلواڑ ہی کیا ہے لیکن ماضی میں کسی حد تک اس کھلواڑ کو مخفی رکھا جاتا تھا۔ اب عدالتیں آر ایس ایس کے انتہا پسندوں کی خواہشات کی تکمیل کرنے پر مجبور نظر آتی ہیں۔ اتر پردیش میں احتجاج کرنے والے کسانوں پر گاڑی چڑھا کر 8 کسانوں کو قتل کرنے والے وزیر کے بیٹے کی ضمانت کا معاملہ ہو، حجاب پہن کر کالج جانے والی طالبات پر مذہبی جنونی ہجوم کے حملے ہوں یا پھر احمد آباد بم دھماکوں کے کیس میں 28 لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کا فیصلہ ہو۔ اس نوعیت کے بے شمار دیگر عدالتی فیصلے ایسے ہیں جو اکثریت کو خوش کرنے یا پھر بی جے پی حکومت کی ہندوتوا فسطائی پالیسیوں کو مدد فراہم کرنے کیلئے کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح میڈیا کی بھی قومی شاؤنزم، پاکستان دشمنی، مسلمان دشمنی اور سکھ دشمنی کو ابھارنے کیلئے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرنے پر مکمل حوصلہ افزائی کی جا تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا چینل حجاب کا دفاع کرنے والی لڑکی پر پاکستان مخالف بیان دینے پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔ خود مختارمیڈیا کا گلہ گھونٹنے کیلئے پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) کا اکریڈیٹیشن کارڈ جاری کرنے کیلئے نئی میڈیا پالیسی جاری کی گئی ہے۔ ملکی سالمیت، خود مختاری اور نیشنل سکیورٹی کے نام پر نئی پابندیوں کا اطلاق کیا گیا ہے۔ میڈیا کے استعمال سے تاریخ کو مٹانے کے منصوبے پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ شہروں اور علاقوں کے نام تبدیل کر کے ’ہندو‘ کرنے کے سلسلے کے ساتھ ساتھ تاریخی واقعات کو توڑ مروڑ کر ’ہندو‘ کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ نصاب سے غالب تک کو نکال دیا گیا ہے۔ اسی طرح اتر پردیش کے شہر الٰہ آباد کا نام تبدیل کر کے ’پریاگ راج‘ رکھنے کے بعد سرکاری ویب سائٹ پر معروف شاعر اکبر الٰہ آبادی کو ’اکبر پریاگ راجی‘ لکھنے جیسی حماقتیں بھی کی گئی ہیں۔

بھارت کی 28 ریاستوں اور 8 یونین ٹریٹریز میں سے مجموعی طور پر 19 ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں موجود ہیں۔ جن میں سے 7 بڑی علیحدگی کی مسلح تحریکیں ہیں۔ جن ریاستوں میں مسلح بغاوتیں موجود ہیں انہیں کچلنے کیلئے نافذ کیے گئے جنگی اور کالے قوانین کی وجہ سے شہریوں کی زندگیاں اجیرن کر دی گئی ہیں۔ فوجی جنگی جرائم پر عدالتوں اور ریاست کی چشم پوشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کو تقسیم کر کے وفاق کے زیر انتظام دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کرنے کے بعد تاحال اسے صدارتی راج کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔ ایک منظم حکمت عملی کے تحت وہاں آبادیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ شہریوں کی یادداشتیں مٹانے جیسی ریاستی واردات بھی کی جا رہی ہے۔

فروری کے آخری ہفتے میں بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر سے شائع ہونیو الے تقریباً تمام ہی اخبارات کی ویب سائٹوں سے آرکائیو اچانک غائب ہو گئے۔ معروف اخبار کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انورادھا بھسین کے مطابق ”یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ اس طرح کا منظم سائبر حملہ کیا گیا ہے۔ ماضی میں بھی اخبارات کے آرکائیو اس طرح سے ختم کیے جاتے رہے ہیں۔ تاہم اس مرتبہ تقریباً تمام ہی اخبارات کے آرکائیو ختم کر دیئے گئے ہیں۔ لازمی طور پر یہ ریاستی سطح پر ہونے والا حملہ ہی ہو سکتا ہے۔“ اسی طرح صحافیوں کی گرفتاریوں اور طویل حراستوں کا سلسلہ بھی جموں کشمیر کے ساتھ ساتھ بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی عروج پر ہے۔

مودی حکومت نے اپنی ناکامیوں اور معاشی حملوں کو چھپانے کیلئے میڈیا کا گلہ گھونٹنے سے لے کر قومی شاؤنزم کا سہارا لینے تک ہر مخالف آواز کو ملک دشمنی سے تعبیر کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت اقتدار کو جاری رکھنے کیلئے موجودہ عہد میں فسطائیت کا سہارا لینے کے علاوہ کوئی راستہ بھی رہ نہیں گیا ہے۔

انتہا پسندی اور فسطائیت نے فن و ثقافت تک کو تاراج کر دیا ہے۔ آج صحافیوں سے کہیں آگے بڑھ کر فنکاروں اور سکرپٹ رائٹروں کو بھی یہ سوچنا پڑ رہا ہے کہ وہ کیا ایسا لکھیں جس کی وجہ سے انہیں جیل کا راستہ دیکھے بغیر روزگار کا وسیلہ مل سکے۔ شاعروں کو شعر لکھنے سے پہلے کئی بار یہ سوچنا پڑتا ہے کہ ایسا کوئی مصرعہ نہ تحریر ہو جائے جو حکومت یا انتہا پسند گروہوں کو برا لگ جائے۔ مزاح نگاروں کو لطیفہ سنانے سے پہلے بھی ہزار بار سوچنا پڑتا ہے کہ کوئی لطیفہ کسی گروہ یا سرکار کے جذبات کومتاثر نہ کر دے۔ مودی کے بھارت میں جج فیصلہ لکھتے ہوئے رد عمل کے بارے میں سوچنے پرمجبور ہو چکا ہے۔ فسطائیت کے راج میں سنسرشپ سے زیادہ سیلف سنسرشپ ایک اذیت بن جاتی ہے اور بھارتی سماج اس سیلف سنسرشپ کی زد میں تخلیق سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔

ایسی کیفیت میں رواں سال 7 بھارتی ریاستوں میں اسمبلی انتخابات بھی ہو رہے ہیں۔ گووا میں 14 فروری کو انتخابات مکمل ہو چکے ہیں۔ منی پور میں 28 فروری اور 5 مارچ کو دو مرحلوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ پنجاب میں 20 فروری کو انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے۔ بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں 10 فروری سے 7 مارچ تک 7 مرحلوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ اتراکھنڈ میں 14 فروری کو انتخابات مکمل ہو چکے ہیں۔ ان تمام انتخابات کے نتائج 10 مارچ کو آنے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمانچل پردیش میں نومبر، گجرات میں دسمبر جبکہ جموں کشمیر میں بھی امکان ہے کہ رواں سال کسی وقت انتخابات کا انعقاد کروایا جائے۔

بھارت میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست اتر پردیش سے مجموعی طور پر 14 بھارتی وزرائے اعظم میں سے 7 کا تعلق رہا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں 70 فیصد سے زائد نشستیں جیت کر بی جی پی نے حکومت قائم کی تھی۔ تاہم اس مرتبہ صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کی وحشیانہ پالیسیوں کے خلاف کسانوں کی بغاوت کے علاوہ مسلمانوں اور نچلی ذاتوں کا رد عمل نتائج کو کافی حد تک تبدیل کر سکتا ہے۔

مودی حکومت نے ریاستوں کے انتخابات میں اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہندوتوا کا کارڈ کھل کر کھیلا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور قومی شاؤنزم کو ابھارنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رکھی ہے۔ بھارتی سماج کے اندر جہاں معاشی بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کے خلاف ایک لاوا پک رہا ہے وہاں مذہب، نسل، ذاتوں، برادریوں اور صنفوں کی تقسیم اور تفریق میں شدت آنے کی وجہ سے نفرت اور تعصب کا ایک لاوا بھی پک رہا ہے۔

نریندر مودی نے اقتدار میں آنے سے قبل عوامی مسائل کو انتہائی دائیں بازو سے ایڈریس کرتے ہوئے سیکولر ازم اور اصلاح پسندی کی فکر میں غرق کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں کو شکست سے دوچار کر کے اقتدار کی راہ ہموار کی تھی۔ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد معاشی حملوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی بنیادی اساس (فسطائیت) کو معاشرے پر مسلط کرنے کا راستہ چنا گیا۔ اس کے بعد اقتدار کو مسلسل جاری رکھنے کیلئے بھی فسطائیت اور نفرتوں کا ہی سہارا لیا جا رہا ہے۔ موجودہ انتخابات ہندو مسلم جنگ کے طورپر لڑے جا رہے ہیں۔

محنت کش طبقے اور بالخصوص نوجوانوں کی طرف سے بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف نفرت اور حقارت کا اظہار کھل کر کیا جا رہا ہے۔ تاہم متبادل کا ایک سنجیدہ بحران بھی موجود ہے۔ کانگریس سمیت علاقائی پارٹیوں اور کمیونسٹ پارٹیوں کے پاس متبادل معاشی اور الیکشن پروگرام کا سنجیدہ فقدان مودی کے بار بار کامیابیاں سمیٹنے کی راہ ہموار کرتا جا رہا ہے۔ ریاستی انتخابات میں ریاستی دھونس دھاندلی اور بھاری سرمایہ کاری کے باوجود زیادہ تر سروے پول بی جے پی کو گزشتہ انتخابات جیسے نتائج حاصل کرتے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ کسانوں کی تحریک کا اثر جہاں اتر پردیش میں بی جے پی کو نقصان پہنچا رہا ہے وہاں پنجاب میں بی جے پی کیلئے ایک یا دو نشستوں سے زیادہ پر کامیابی حاصل کرناممکن نظر نہیں آتا۔

کمیونسٹ پارٹیوں کی غداریوں، ٹریڈ یونینوں کی مصالحتوں کے باوجود بھارت میں کسانوں اور محنت کشوں نے بارہا اس نظام کے خلاف نفرت کا اظہار کیا ہے۔ مودی حکومت کی نجکاری کی پالیسیوں میں سب سے بڑی رکاوٹ محنت کش طبقہ ہی بن کر سامنے آیا ہے۔ کروڑوں محنت کشوں کی ’بھارت بند‘ ہڑتالوں کے باوجود قیادتوں کی مصالحانہ پالیسیوں کی وجہ سے کوئی بڑی کامیابی اگر حاصل نہیں ہوئی تو بہت کچھ چھینے جانے سے ضرور روکا گیا ہے۔ 28 اور 29 مارچ کو ایک مرتبہ پھر آل انڈیا ٹریڈ یونین اتحاد نے بھارت بند کی کال دی ہے۔ اس مرتبہ بھی ہڑتال کا بنیادی مقصد جہاں بجٹ میں نجکاری کی پالیسی کو روکنا ہے وہیں مستقل روزگار، پنشن، سوشل سکیورٹی سمیت دیگر مطالبات کی مانگ بھی کی جا رہی ہے۔

دیوہیکل محنت کش طبقے کو آج اگر کسی سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے تو وہ قیادت کا بحران ہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کی مصالحانہ پالیسیوں اور انقلاب کی بجائے انتخاب کے نام پر محنت کشوں کی امنگوں کی سودا کاری کا یہ سلسلہ بھی زیادہ دیر تک اسی طرح سے نہیں چل سکتا۔ جس طرح کسانوں نے مصالحانہ حکمت عملی کو رد کرتے ہوئے حکومت کو شکست سے دو چار کیا اسی طرح محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتیں بھی بار بار کے تجربات سے تھکا دینے والی ہڑتالوں کے اس سلسلے کو اسی طرح سے مصالحانہ انداز میں جاری نہیں رکھ سکیں گی۔ مختلف واقعات محنت کشوں کے شعور پر اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ بغاوت اور نفرت کی جو چنگاریاں سماج میں بھڑکنے کیلئے بے تاب ہیں وہ اپنی قیادتوں کو خود ڈھالنے میں زیادہ دیر نہیں کریں گی۔ بھارت سے ابھرنے والے محنت کشوں کے طوفان پورے جنوب ایشیا سے سرمایہ داری کے خاتمے اور سوشلسٹ مستقبل کے ضامن ثابت ہوں گے۔