عصمت پروین

آج کے انحطاط پذیر عہد اور سرمایہ داری کے بدترین نامیاتی بحران کے دور میں انسانی سماج کے تمام رشتے ناطے، تانے بانے، ادارے اور پرتیں زوال اور شکست و ریخت کا شکار ہیں۔ ٹوٹ پھوٹ کے اس عہد میں جہاں پورا سماج بحران زدہ ہے وہاں ان حالات میں سماج کی کمزور، استحصال زدہ اور کچلی ہوئی پرتیں زیادہ بدحالی اور محرومی کا شکار ہیں۔ ان استحصال زدہ اور محروم طبقات میں سر فہرست اس سماج کی عورت‘ بالخصوص محنت کش عورت ہے۔ اس طبقاتی نظام میں، جس کا نام سرمایہ داری ہے، عورت بدترین غلامی کا شکار ہے۔

غلامی کی بہت سی ان دیکھی اور غیر محسوس زنجیریں ہیں جنہوں نے عورت کے جسم اور روح کو گھائل کیا ہوا ہے اور غلاموں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ عورت کے سماجی اور پیداواری کردار کو گھر، چادر اور چار دیواری تک محدود کر دیا گیا ہے۔ تمام تر پیداواری عمل اور معاشی سائیکل سے دور رکھ کر جہاں ایک طرف سماج کی وسیع تر آبادی کو غیر پیداواری اور غیر فنی کردار تک محدود کر دیا گیا ہے وہاں دوسری طرف عورتوں کا وسیع پیمانے پر استحصال بھی ہوتا ہے اور اس محنت کا انہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ عورت کے اس طرح سماجی حوالے سے کٹ کر گھر تک محدود ہو جانے میں ریاست اور اس کے تمام ادارے اور قدریں اس موقف کا تحفظ کرتے ہیں اور اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ اس موقف کو ریاستی اور مذہبی تحفظ کی وجہ سے خواتین کا پرانا سماجی مقام اور رتبہ ان سے چھین لیا گیا ہے۔

خواتین کا پرانا رتبہ اور سماجی مقام کیا تھا؟ اگر تاریخ میں عورت کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو عورت کا کردار مرد سے کسی طور کم نہیں تھا۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کئی حوالوں سے عورتوں کا کردار مردوں کے مقابلے زیادہ تھا۔ محنت کی تقسیم کار اس طرح سے تھی کہ مرد اور خواتین دونوں مل کر ہی پیداواری عمل سرانجام دیتے تھے اور زندگی کا پہیہ چلتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو جنم دینے اور پالنے پوسنے کا کام بھی ایک پوری ذمہ داری تھا جس کو خواتین سرانجام دیتی تھیں۔ اس ذمہ داری کی وجہ سے وہ پیداواری عمل سے باہر بالکل نہ تھیں اور اس عمل میں برابر کی شمولیت کی وجہ سے دونوں فریقین میں برابری کی بنیاد پر سماجی تعلق قائم تھا۔

عورت کی غلامی کا آغاز تب ہوا جب اس کو پیداواری عمل سے باہر کر دیا گیا۔ پیداواری عمل سے خواتین کے باہر جانے کے پیچھے پھر پیداواری عمل میں تبدیلیاں اور ان تبدیلیوں کی بنیاد پر ہونے والی محنت کی تقسیم تھی۔ جب زراعت اور مویشی پالنے کا آغاز ہوا تو اس سے پیداواری عمل میں تبدیلیوں نے تقسیم محنت کے نئے انداز کو جنم دیا اور اس عمل سے دونوں فریقین کی محنت کی شکلیں بدل گئیں اور بدلتی ہوئی تقسیم محنت عورت کے سماجی اور پیداواری کردار کے لیے کچھ اچھی ثابت نہ ہوئی۔ بلکہ عورت کی محدودیت اور محکومی کا باعث بنی اور بتدریج اس کو مکمل طور گھریلو مشقت اور مرد کی محکومی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ بتدریج یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ عورتوں کے لیے مقدس جگہ ان کے گھر ہیں، مقدس کام ان کے گھر اور خاندان کے کام ہیں اور ایک اچھی عورت کی زندگی کا مقصد شادی اور بچے پیدا کرنا ہیں۔ اس پورے عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ عورت کے پاس قدیم اشتراکی نظام میں جو اجتماعی انتظامات موجود تھے اسے ان سے بھی محروم ہونا پڑا اور آہستہ آہستہ وہ انفرادی طور پر دوہری تہری محنت کے گھن چکر میں پھنستی گئی جس کا نام گھرداری ہے۔ ان تمام امورِ خانہ داری میں انفرادی کچن، انفرادی طور پر بچوں کی پرورش اور خاندانی مسائل اور کام کی دیکھ بھال وغیرہ نے عورتوں کو انفرادی غلامی سے جی حضوری کا شکار بنا دیا جس کی وجہ سے عورت تنزلی کی طرف گامزن ہوتی گئی۔ انفرادی مشقت انسانی دماغ اور جسم کی صلاحیتوں کو زنگ آلود اور محدود کر دیتی ہے جبکہ سماجی پیدوار اور سماجی ترقی کے عمل میں شمولیت انسان کی تمام صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتی ہے۔ نجی ملکیت کے نظام میں محنت کی غیر متوازن تقسیم نے مرد کو بالادست اور عورت کو زیر دست بنا دیا ہے۔

اسی استحصال کے متعلق کارل مارکس نے کہا تھا کہ یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی محنت کی چوری ہے۔ یعنی اس تمام گھریلو مشقت کے بدلے میں عورت کو صرف استحصال ہی نصیب ہوتا ہے۔ تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو عورت کا تمام تاریخی منظر نامے میں بہت اہم کردار رہا ہے۔ قدیم اشتراکی نظام میں عورت ماں ہونے کے ناطے خاندان اور شجرۂ نسب کی وارث ہوتی تھی اور تمام رشتوں کا گہوراہ تھی۔ اس کے ساتھ عورتیں قبائل کی سردار ہوا کرتی تھیں۔ کھیتی باڑی اور گلہ بانی کا آغاز بھی عورتوں نے کیا۔ اس کے علاوہ تاریخ میں انجام پانے والے تمام انقلابات میں خواتین کا کلیدی اور سرگرم کردار رہا ہے۔

2011ء کی عرب بہار میں مصر جیسے پسماندہ سماج میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں نے نہایت اہم کردار ادا کیا جس میں ایک نوجوان لڑکی گیلی ابراہیم کا کہنا تھا، ”ایک لمحے کو ہم خوفزدہ ہوئے مگر جب تھوڑا آگے بڑھے تو ہمیں بالکل کوئی خوف نہ تھا۔ نہ کوئی تفریق۔ بلکہ ہم سب ایک دوسرے کی ڈھال بنتے ہوئے آگے بڑھے اور اس تمام عرصے میں ہم سب ایک دوسرے کا تحفظ کر رہے تھے اور کسی کو کسی سے ڈر نہ تھا اور نہ کوئی ایک بھی ناخوشگوار یا ہراسانی کا واقعہ پیش آیا۔“

اسی طرح انقلابِ روس کا جائرہ لیا جائے تو اس کا آغاز عورتوں نے اپنے عالمی دن جو کہ پرانے کیلنڈر کے مطابق 23 فروری تھا سے پیٹروگراڈ میں کیا۔ ان کے بنیادی نعرے روٹی، امن اور جنگ میں شامل سپاہیوں کے خاندانوں کے لیے راشن کے مطالبات پر مبنی تھے۔ ان مطالبات سے بڑی ہڑتالوں اور پھر ہزاروں خواتین اور مرد مزدوروں پر مبنی عام ہڑتالوں کا آغاز ہوا۔ اور یہی عام ہڑتالیں جن کا آغاز خواتین کے عالمی دن کی ہڑتال اور عام مطالبات سے ہوا ایک بہت بڑے انقلاب یعنی انقلاب روس کا پیش خیمہ بنیں۔ جس انقلاب نے روس کا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ خواتین کی عملی بالخصوص گھر یلو زندگی میں نمایاں تبدیلی کا عمل شروع ہوا جس میں اجتماعی باورچی خانے، لانڈریاں اور ڈے کیئر سنٹروں کا قائم کیا جانا شامل تھا۔ جس کی وجہ سے عورتیں انفرادی بیزار کن گھریلو مشقت سے سماجی اور مشترکہ پیداواری عمل میں شریک ہوئیں جس کے بڑے ثمرات حاصل ہوئے اور پسماندہ روس دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر ابھرا۔ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد زندگی کے مختلف شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے نکھر کر سامنے آئی جس میں بڑی تعداد میں اساتذہ، ڈاکٹر، نرسیں، پائلٹ، ماہر زراعت، سائنسدان، قانون دان اور پی ایچ ڈی خواتین شامل تھیں اور یہ سب حاصلات انقلاب کی وجہ سے ممکن ہوئیں۔

آج کی عورتوں کو بھی اِن اَ ن دیکھی غلامی کی زنجیروں اور دوہرے استحصال سے ایک اجتماعی تبدیلی کی جدوجہد اور سوشلزم ہی بچا سکتا ہے۔ انفرادی بقا اور فلاح اجتماعی فلاح کے ساتھ مشروط ہے۔ کچن، لانڈری اور بچوں کی نگہداشت کا معاملہ اجتماعی مسائل کا تسلسل ہے اور اس کا حل بھی اجتماعی طور پر ہی ممکن ہے اور وہ سوشلزم کے تحت ہی عمل میں لایا جا سکتا ہے۔

گھریلو مشقت اور سماجی عمل سے عورت کا بیگانہ پن عورت کی خود اعتمادی کو اس حد تک چھین لیتا ہے کہ وہ خود کو آلہ، مشین یا مشین کا پرزہ محسوس کرتی ہے اور انسان ہونے کا احساس ختم ہو کر اسے لگتا ہے کہ اس کا یہی مقدر ہے، یہی شب و روز ہیں اور وہ اسی لئے پیدا ہوئی ہے۔ اسی تسلسل میں کلارا زیکٹن کہتی ہیں، ”خاتون محنت کش کی محنت سرمایہ داروں کو زیادہ پرکشش لگنے کی اکیلی وجہ ان کی سستی قوت محنت نہیں بلکہ ان کی حد سے زیادہ فرمانبرداری ہے۔“

کلارا زیکٹن کے ان الفاظ پر غور کیا جائے تو ان کی گہرائی اس تاریخی پس منظر کی عکاس ہے جس نے خواتین کو غلامی، انفرادیت اور جی حضوری کا عادی بنا دیا۔ اس غلامی اور خوف نے ان کے اندر یہ احساس ختم کر دیا کہ وہ بھی پوری انسان ہیں۔ ان کی تمام تر حیاتیاتی اور جینیاتی ساخت، بناوٹ اور مادہ ویسا ہی ہے جیسا ان کے دوسرے فریق یعنی مردوں کا ہے۔ تمام ذہنی اور جسمانی خصوصیات، سائنسی اور مادی حوالے سے دونوں فریقین ایک جیسے ہیں۔ بس تقسیم محنت نے عورت کو کمتر، کم عقل، محدود بنایا اور پھر آج کی سرمایہ داری نے عورت کو بس نمود و نمائش اور تشہیر کا ذریعہ بنا دیا ہے جو کہ عورت کی سراسر تذلیل ہے۔ کامریڈ لینن نے کہا تھا کہ عورت کے موجودہ مقام کا غلاموں کے رتبے سے موازنہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ انہیں بس گھر اور گھر داری تک محدود کر دیا گیا ہے۔

مردانہ تعصب پر مبنی پدر سری نظام کی قدامت پسند فکر کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرتی کہ عورتیں سیاست یا نظریاتی سیاست میں حصہ لے یا بھرپور سماجی کردار ادا کرے۔لیکن اس سب کے خلاف خواتین کے لیے جدوجہد کرنا کٹھن ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔ اس سماج کے تمام استحصال زدہ فریقین خواہ مرد ہوں یا خواتین انہیں جہالت اور قدامت پرستی پر مبنی تمام تعصبات بشمول جنسی/صنفی تعصبات کو جھٹکتے ہوئے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ طبقاتی بنیادوں پر جڑت بناتے ہوئے سوشلزم کی جدوجہد کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ غیر طبقاتی سماج کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں عورت بھی انسانی سماج میں پوری انسان سمجھی جائے گی اور سماج کی ترقی اور تسخیر کائنات کے عمل میں اپنا برابر کا حصہ ڈالے۔