ظفر اللہ
عالمگیریت کے اس عہد میں کسی بھی ملک کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ آزادانہ طور پر قومی و ملکی معاشی پالیسیاں مرتب کر سکے۔ ایسا پہلے بھی تھا مگر آج کہیں زیادہ شدت سے یہ مظہر نظر آتا ہے۔ قومی منڈیاں، پیداوار اور وسائل مکمل طور پر عالمی سرمایہ داری نظام کے چند ساہوکاروں اور سرمایہ داروں کے سخت تسلط میں ہیں۔ لیکن سامراجی ممالک کو ان پسماندہ خطوں کی منڈیوں اور ریاستوں کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کرنے کے لئے بھی کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مسئلے کو وہ دھونس، لالچ اور مختلف قسم کے دباؤ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں وہ بالواسطہ طور پر غریب ممالک کے پالیسی ساز اداروں کو کنٹرول کر کے اپنی مرضی اور مفاد کی پالیسیاں بنواتے ہیں جو ان کی شرح منافع اور لوٹ مار میں اضافہ کر سکیں۔ اس لوٹ مار کے لئے وہ ان ممالک پر اپنا سیاسی اور سفارتی تسلط قائم کیے رکھتے ہیں۔ پاکستانی معیشت اور ریاست بھی روزِ اول سے ہی ان سامراجی ممالک اور ان کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے قبضے اور کنٹرول میں ہے۔ یہاں کا حکمران طبقہ اپنی تاریخی کمزوری اور نااہلی کے سبب ان سامراجی ممالک اور ان کے جبر کے اداروں کی گماشتگی اور دلالی کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہے۔ ورنہ ان کی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ لیکن یہ اطاعت اور کاسہ لیسی یہاں کی سرمایہ داری کے بحران کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے اداروں پر آج جس طرح آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف جیسے سامراجی اداروں کا غلبہ ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ یہ ادارے پاکستان جیسی معیشتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے نہ صرف یہاں کے کلیدی مالیاتی ڈسپلن کو برقرار رکھنے والے مرکزی بینکوں (مثلاً اسٹیٹ بینک آف پاکستان) جیسے اداروں کے سربراہ اپنے حاضر سروس ملازم لگواتے ہیں بلکہ اس لوٹ مار کو بڑھانے کے لئے قانونی و آئینی ڈھانچے میں بھی جبر کے ذریعے تبدیلیاں کرواتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں حالیہ عرصے میں ہمیں نظر آتا ہے کہ کس طرح مرکزی بینک کے بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے کئی قوانین اور بل اسمبلی سے پاس کروائے گئے ہیں۔ ان سب اقدامات کو قابل عمل بنانے کیلئے ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا کر اس ملک کے ’تگڑے اداروں‘ کے ذریعے وہ قوانین منظور کروائے گئے جو کہ یہاں کی سیاسی اشرافیہ اور بورژوازی کے خصی پن، کمزوری اور نااہلی کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ان قوانین کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کی حیثیت وائسرے جیسی بن چکی ہے جو کہ ان عالمی مالیاتی اداروں کا ملازم ہے اور انہی کے مفادات کی تکمیل کے لئے پالیسیاں بناتا ہے۔ اب پاکستانی ریاست کسی بھی نئے گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی کے لئے موجودہ گورنر کی طرف سے پیش کیے گئے ناموں میں سے ہی کسی ایک کو تعینات کرنے کی پابند ہے اور اس کی بنائی ہوئی پالیسیوں کو کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ہی بعد میں ان افراد سے کوئی پوچھ کچھ کی جا سکتی ہے۔ اس طرح ان کو مکمل طور پر قانونی ایمنسٹی دے دی گئی ہے اور یہ ریاست کے دائرہ اختیار سے ہی باہر ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں نوٹوں کی چھپائی کی مقدار اسمبلی اور کابینہ سے مکمل آزاد ہو چکی ہے۔ اور اسے مرکزی بینک کی ”خود مختاری“ سے تعبیر کیا گیا ہے جو کہ ان عالمی مالیاتی اداروں کی دہائیوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے اور جسے عملی جامہ پہنانے میں ماضی کی حکومتیں کسی قدر ہچکچاہٹ کا شکار تھیں۔ وزارت خزانہ اور مرکزی بینک کے درمیان بہت سی پالیسیوں پر اختلافات ہیں مگر اب کرنسی کی شرح تبادلہ اور مانیٹری پالیسی پر ان قوانین کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک رضاباقر کا فیصلہ حتمی تصور ہو گا۔ شرح سود میں حالیہ 2.75 فیصد کا اضافہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ افراط زر یا مہنگائی کی وجوہات پر وزیر خزانہ شوکت ترین اور اسٹیٹ بینک کے درمیان واضح اختلاف ہے۔ شوکت ترین کے مطابق موجودہ افراط زر (Cost Push Inflation) عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں اور مختلف درآمدی اشیا کی لاگت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے ہے جس کے لئے شرح سود میں اضافہ نہ صرف غلط بلکہ خطرناک ہے جو کہ کاروباری لاگت میں اضافے اور معاشی سرگرمیوں میں کمی کا باعث بنے گا۔ مگر گورنر مرکزی بینک کا اصرار ہے کہ یہ مہنگائی اور افراط ِزر معاشی گروتھ کی وجہ سے ہے جس کو کنٹرول کرنے کے لئے شرح سود میں اضافہ ناگزیر ہے۔
اسی طرح پاکستان کی کرنسی اور ڈالر کی شرح تبادلہ کو اوپن مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں ڈالر آسمان کو چھو رہا ہے۔ غیر یقینی کیفیت اور یہاں کے طاقتور اداروں کی افغانستان کی ریاست کو یہاں سے چلانے کی ضد کے لئے درکار ڈالروں کی وجہ سے ڈالر کی ملک میں کمی نے روپے کو بے قدر کر دیا ہے۔ سٹہ بازی بھی اس ضمن میں بڑی وجہ ہے جو کہ مختصر وقت میں پیسہ کمانے کا ایک طریقہ ہے جس کو دھن والے خوب استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان جیسی درآمدی معیشتیں ڈالر کو اوپن مارکیٹ کے اصولوں پر نہیں چلا سکتیں۔ پچھلی حکومتیں بڑی حد تک اس کو کنٹرول میں رکھتی تھیں۔ بصورتِ دیگر اس سے مہنگائی میں ہوشربا اضافے اور دیوالیے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اب اس کو کنٹرول کرنے والا براہ راست آئی ایم ایف کا نمائندہ ہے جس کو بااختیار بنانے کے لئے تمام آئینی و قانونی رکاوٹوں کو بھی دور کر دیا گیا ہے۔ یہ پاکستانی معیشت کیلئے ہولناک ہے۔ پاکستان جیسی مخصوص کردار کی حامل معیشتیں بوسٹن اور ہارورڈ کے گریجوایٹس کے ذریعے کتابی اور نصابی طریقوں سے نہیں چلائی جا سکتیں۔ یہ تاریخ کی پچھڑی ہوئی معیشتیں اور ریاستیں ہیں جن میں فزیکل، مالیاتی اور آئینی ڈھانچوں کے ناقابل حل تضادات اور مسائل ہیں۔ جنہیں ان کو نئی بنیادوں پر استوار کر کے ہی حل کیا جا سکتا ہے جو کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ناممکن ہے۔ ایک منصوبہ بندی پر مبنی سوشلسٹ معیشت ہی وہ بے پناہ وسائل مہیا کر سکتی ہے جو ان کو از سر نو مرتب کرنے کے لئے درکار ہیں۔
2021-22ء کی معاشی ترقی کا ہدف پانچ فیصد رکھا گیا ہے۔ اگر باقی مسائل سامنے نہ آتے تو کرونا کے بعد عالمی معیشت کے کھلنے سے ممکن تھا کہ یہ ہدف حاصل ہو جاتا۔ اگرچہ پاکستان کی معیشت کے لئے یہ کوئی بہت بڑی ترقی کا ہدف نہیں ہے۔ جتنے بڑے پیمانے کی بیروزگاری ہے اس کو کھپانے کے لئے ماہرین معیشت کے مطابق آٹھ سے دس سال کے لئے 7 فیصد سے 9 فیصد کا گروتھ ریٹ درکار ہے۔ جس کے ذریعے پھر آمدنیوں میں اضافے، ٹیکس ریوینو کی بڑھوتری اور فزیکل و صنعتی انفراسٹرکچر کی تعمیر و ترقی جیسے اہداف ممکن بنانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ تاہم اس نظام میں یہ سب بھی پھر زیادہ تر افسانوی باتیں ہیں اور اس میں کئی قسم کی رکاوٹیں ہیں۔ عالمی معیشت میں پھر کوئی رونما ہونے والا ایک واقعہ اس سارے عمل کو اُلٹ کر دیتا ہے اور معیشت کو سنجیدہ بحران میں دھکیل دیتا ہے۔ جیسے تیل کی عالمی قیمتیں، ڈالر کی شرح تبادلہ اور عالمی وبا جیسے عوامل ہیں۔ جو پاکستان جیسی لاغر اور نحیف معیشتوں کو تہس نہس کر سکتے ہیں۔
کرنٹ اکاؤ نٹ خسارے میں کمی کا بہت چرچا کیا گیا لیکن پچھلے کچھ عرصے میں اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ عمران خان کے سابق مشیر وقار مسعود کے مطابق ”پاکستانی معیشت آنے والے دنوں میں تجارتی خسارے کے شدید دباؤ میں رہے گی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں شرح تبادلہ، شرح سود، ٹیکس اور توانائی کی پالیسیوں میں بڑے پیمانے کی تبدیلیاں ہوں گی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کس قسم کی اکنامکس ہے!“ یہ بیان ستمبر 2021ء میں آیا تھا جب ڈالر 170 روپے پر تھا۔ اب 184 پر پہنچ گیا ہے اور ابھی بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں پر عمل درآمد کا آغاز ہو چکا ہے۔ 300 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے لئے منی بجٹ لایا گیا ہے جو اپنے ساتھ مہنگائی کا نیا طوفان لائے گا۔ بنیادی ضرورت کی کم و بیش ہر چیز کی قیمت مزید بڑھ جائے گی۔پہلے ہی آئی ایم ایف کے ایما پر بجلی و گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا جا چکا ہے۔ اُن کی شرط ہے کہ بجلی کے فی یونٹ میں تیس روپے تک کا اضافہ کیا جائے اور ڈالر و روپے کی شرح تبادلہ کو اوپن چھوڑا جائے۔ اس سے بعض ماہرین کے مطابق 2022ء میں ڈالر 250 روپے تک جا سکتا ہے جو اس معیشت میں کبھی نہ دیکھی گئی مہنگائی اور بربادی کا موجب بنے گا۔ معاشی ترقی کے اہداف ویسے بھی کرنسی کی شرح تبادلہ، کھاد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور شرح سود میں اضافے کی بدولت قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ سابق وزیر خزانہ کے مطابق شرح ترقی تین فیصد سے زیادہ نہیں جا سکتی جو کہ ان حالات میں خطرناک ہے۔ حکمران طبقات کے کچھ حلقوں میں اس بارے بہت تشویش ہے۔ مگر وہ اس نظامِ سرمایہ داری کی حدود کے اندر رہتے ہوئے مسائل کے حل تجویز کرتے ہیں جو کہ پھر ناقابل عمل ہوتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ریڈیکل حلقے بھی آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات کو اس مسئلے کا حل سمجھتے ہیں جو کہ موجودہ عالمی معیشت، سیاست اور سفارت کاری میں ناممکن ہے۔ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے سامراج اور اُس کے بنائے ہوئے اداروں کے تسلط سے آزادی ناممکن ہے کیونکہ پھر ان کے پاس اس کے کئی اور طریقے ہیں جن سے ان ممالک کی معیشتیں منجمد کی جا سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں کے حکمرانوں کا بھی ان کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔ عالمی تجارت اور قوانین پر ان کی بالادستی ہے۔ ایف اے ٹی ایف جیسے عالمی سامراجی ادارے ان معیشتوں کو بے بس کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان ابھی تک گرے لسٹ سے باہر نہیں آیا اور مسلسل ان کی نگرانی میں ہے۔ یہ دراصل گردن دبوچے رکھنے کے اوزار ہیں۔ ان سے آزادی کے لئے سرمایہ داری کا طوق اتار کر پھینکنا پڑے گا جو سرمایہ نواز سیاسی پارٹیوں کے پروگرام میں شامل ہی نہیں۔ محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی ایک انقلابی سرکشی کے ذریعے ہی ذلت، استحصال اور محرومی کے اس طوق کو اتار پھینکا جا سکتا ہے۔ جس کے لئے اشتراکی مفادات کی ضامن محنت کشوں کی ایک انقلابی پارٹی لازمی شرط ہے۔