عباسپور (سیف اللہ) مورخہ 26 نومبر 2021ء کو جموں کشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام ”طلبہ سیاست اور ہمارا کردار“ کے عنوان سے سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔ سٹڈی سرکل میں گرلز ڈگری کالج عباسپور اور بوائز ڈگری کالج عباسپور سے طلبا و طالبات نے شرکت کی۔ سٹڈی سرکل کو ڈگری کالج کے جنرل سیکرٹری سیف اللہ نے چیئر کیا جبکہ موضوع پر بحث کا آغاز صائمہ بتول نے کیا۔ بعد ازاں بحث میں سابق ایڈیٹر عزم التمش تصدق، ممبر سی سی اسامہ پرویز، سینئر رہنما وقار صادق، چیرمین سٹی صدر عمر اختر و دیگر نے بھی حصہ لیا۔ آخر میں ایڈیٹر عزم بدر رفیق نے تمام تر بحث کو سمیٹتے ہوئے سٹڈی سرکل کا اختتام کیا۔

سٹڈی سرکل کے اختتام پر ڈگری کالج کی طالبات عروج خالق، سمعیہ بتول، اتیبہ صادق اور دیگر نے این ایس ایف میں باضابطہ شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے رکنیت فارم پر دستخط کئے۔ طالبات کا کہنا تھا کہ نہ صرف طلبہ سیاست سیکھنے کے لئے سٹڈی سرکل کو جاری رکھیں گے بلکہ تعلیمی اداروں کی تنظیم سازی کرتے ہوئے طلبہ کو منظم کرنے میں بھی بھرپور کردار ادا کریں گے اور این ایس ایف کے پلیٹ فارم سے طلبہ یونین کی بحالی سمیت تمام تر طلبہ حقوق کی بحالی تک جدوجہد کو جاری و ساری رکھیں گے۔

صائمہ نے کہا کہ طلبہ کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے طلبہ یونین پہ پابندی لگائی گئی۔ موجودہ دور میں سیاست پہ صرف سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ پوری دنیا کی دولت پہ مٹھی بھر افراد کی اجارہ داری ہے لیکن حکمران طبقے کی ان تمام تر جکڑ بندیوں کے باوجود طلبہ سیاست کی طرف آ رہے ہیں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ طلبہ سماج کی سب سے حساس پرت ہیں، کوئی بھی نئی تبدیلی سب سے پہلے نوجوانوں اور طلبہ پہ اثر انداز ہوتی ہے۔ مروجہ نظام کے اندر بھی طلبہ اور نوجوانوں پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں ہونے والے ظلم اور استحصال کے خلاف آواز بلند کریں اور ایک سوشلسٹ سماج کے قیام کے لیے جدو جہد کریں۔ التمش نے اپنے خطاب میں کہا کہ مرد و عورت کو بلا تخصیص سیاسی میدان میں آنا چاہیے۔ عورت سماج کی آبادی کا نصف ہے، اسے سماج سے کاٹ کے رکھ دیا گیا ہے اور عورت کو صرف کچن تک محدود کر دیا گیا ہے۔ یہ سب سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہے تاکہ طلبا و طالبات کے اندر جڑت نہ بن سکے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھ سکے، لیکن در حقیقت سرمایہ دارانہ نظام زوال پذیر ہو چکا ہے۔ اس نظام میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ طلبہ کو ایک بہتر نظام تعلیم دے سکے۔ علاوہ ازیں کامریڈ نے این ایس ایف کی تاریخ پہ مختصر بات رکھی اور کہا کہ این ایس ایف نے اس خطے کے اندر طلبا سیاست کا آغاز کیا اور اس وقت این ایس ایف نے طلبہ کو شعور سے آراستہ کیا جب اس خطے کے اندر گنے چنے تعلیمی ادارے تھے اور وہاں پہ بھی انفراسٹرکچر نہیں تھا۔ طلبہ پتھروں پہ بیٹھ کے تعلیم حاصل کرنے پہ مجبور تھے۔ اسامہ نے موجودہ حالات میں طلبہ کو درپیش مشکلات پہ بات رکھی اور کہا کہ طلبہ کا اس وقت تک استحصال ہوتا رہے گا جب تک وہ خود اپنے مسائل کو ایڈریس کرنا نہیں سیکھیں گے۔ کامریڈ بدر نے سٹڈی سرکل کے اختتام پر طلبہ سیاست کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو سیاست سے دور رکھنا انھیں اندھی کھائی میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ اس نظام کے اندر ایسی تعلیم دی جا رہی ہے جس کے بعد وہ اپنا معاشی بوجھ بھی اٹھانے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ طلبہ مہنگی تعلیم خریدنے پہ مجبور ہیں۔ یہ تعلیمی نظام طلبہ کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ یا تو تعلیم چھوڑ دیں یا خودکشی پہ مجبور ہو جائیں۔ ہمیں اس نظام کے خاتمے اور ایک بہتر نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنی ہو گی۔ جدوجہد کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جو ہمیں انسانی معاشرے کے قیام کی طرف لے کے جا سکے۔

آخر میں کامریڈز نے شاعری پیش کی اور انقلابی ترانے کے ساتھ نئے شامل ہونے والے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھایا۔