آصف رشید

عظیم بالشویک انقلاب کو برپا ہوئے 104 سال مکمل ہو چکے ہیں۔ دنیا آج ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔ بربریت اور سرمایہ دارانہ استحصال کرہ ارض پر زندگی کی معدومی کے آثار پیدا کر چکا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام آج 1917ءکی نسبت زیادہ شدید تضادات اور بحرانوں کی کھائی میں گھرا ہوا ہے۔ کورونا وبا نے 49 لاکھ لوگوں کی زندگیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ بیروزگاری، لا علاجی اور محرومی کا آج راج ہے۔ دولت کے ارتکاز میں گزشتہ دو سالوں میں جو اضافہ ہوا شاید تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ سرمایہ داری کا گہرا ہوتا ہوا بحران عالمی پیمانے پر نئی تباہ کاریوں اور پراکسی جنگوں کو جنم دے رہا ہے۔ محنت کش طبقے کی محنت سے تخلیق ہونے والی ٹیکنالوجی سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے آج اس کی بیروزگاری کا باعث بن رہی ہے۔ شرح منافع کی بڑھوتری اور قدرتی وسائل کی بے پناہ لوٹ نے ماحولیات کو تباہ کر دیا ہے اور اس سیارے پر زندگی کے ناپید ہونے کی بنیادیں ڈال دی ہیں۔ انسانیت بربریت کے راستے پر گامزن ہے۔ نجات کا راستہ آج بھی سوشلزم ہے۔ دنیا میںبے پناہ پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ نجی ملکیت اور اس کا تحفظ کرنے والی قومی ریاست کا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے خاتمہ ہی نسل انسانی کی بقا کی واحد ضمانت ہے۔ اس انقلاب کی قیادت کی تیاری آج کی نسل کی سب سے اولین ذمہ داری ہے۔

رجعتی ادوار میں عمومی شعور اور طبقاتی کشمکش پسپائی کا شکار ہوتے ہیں۔ لوگ زندگی کی بقا کی جنگ میں مشغول ہوتے ہیں۔ اس وقتی پسپائی کو بنیاد بنا کر سرمایہ دارانہ دانشور محنت کش طبقے کی انقلابی صلاحیت کو فراموش کر دیتے ہیں اور حکمران طبقے کی تمام تر واردات کو حتمی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ لیکن انہی حالات اور زندگی کے جبر کے تحت محنت کش طبقے کے شعور میں بھی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ انسان اپنی انفرادی جدوجہد کے میدان سے نکل کر اجتماعی جدوجہد کے راستے کا تعین کرتے ہیں۔ سکوت ٹوٹتا ہے، زندگی اور موت کی لڑائی کا آغاز ہوتا ہے۔ عوام ریاستی تشدد، جبر اور ناانصافی کی ہر دیوار گرا کر تاریخ کے میدان میں کود جاتے ہیں۔ یہی انقلابی جدوجہد کے آغاز کی گھڑی ہوتی ہے۔

جیسا کہ ٹراٹسکی نے کہا تھا ”ایک انقلاب کی سب سے مسلمہ خاصیت تاریخی واقعات میںعوام کی براہ راست مداخلت ہوتی ہے۔ ریاست چاہے بادشاہت کی ہو یا جمہوریت کی، عام حالات میں خود کو قوم سے بلند کر لیتی ہے اور اس کے پیشہ ور ماہرین ہی تاریخ رقم کرتے ہیں، جیسا کہ بادشاہ، وزرا، افسران، پارلیمانی نمائندے اور صحافی وغیرہ۔ لیکن ایسے فیصلہ کن حالات میں، جب پرانا نظام عوام کے لیے مزید قابل برداشت نہیں رہتا تو وہ خود کو سیاسی میدان سے باہر رکھنے والی بندشوں کو توڑ ڈالتے ہیں، اپنے روایتی نمائندوں کو راستے سے ہٹا کر ایک طرف پھینک دیتے ہیں اور اپنی مداخلت سے نئے نظام کی ابتدائی بنیادیں رکھتے ہیں۔ یہ اچھا ہے یا برا، ہم اس سوال کو اخلاق پرستوں پر چھوڑتے ہیں۔“ (ٹراٹسکی انقلاب روس کی تاریخ)

اکتوبر انقلاب نے انتہائی پسماندہ روس کو بہت ہی مختصر عرصے میں دنیا کی جدید سرمایہ دارانہ طاقتوں کے مقابل لا کھڑا کیا۔ انقلاب سے قبل روس ایک پسماندہ اور پچھڑا ہو ا نو آبادیاتی ملک تھا۔ معاشی اور تکنیکی لحاظ سے تاخیر زدہ اور پسماندہ ہونے کی وجہ سے روس کا زیادہ انحصار مغربی یورپ کے سرمایہ دارانہ ممالک پر تھا۔ لیکن مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں اس کا کردار سامراجی تھا۔ یہ ایک ناہموار ترقی اور معاشرت کی مجسم شکل تھی۔ زار شاہی کی بادشاہت اور مغربی سامراجیوں کے مالیاتی سرمائے کے جبر کے زیر اثر روسی سماج انتہائی بے ہنگم پیداواری اور سماجی تعلقات کا حامل تھا۔ روس کا سرمایہ دار اپنی تاریخی نااہلی کے باعث کسی قسم کے جدید قومی جمہوری انقلاب کی قیادت کرنے کا اہل نہیں تھا۔ وہ ایک طرف مغربی سامراجیوں کا ایجنٹ اور دوسری طرف بادشاہت اور جاگیر دار اشرافیہ کا بھی دست راست تھا۔ جبکہ صنعتی مزدوروں کی تعداد بہت ہی کم تھی اور اکثریتی آبادی کسانوں اور کھیت مزدوروں پر مشتمل تھی۔ جو انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ قحط اور فاقے سماجی معمول بن چکے تھے۔ سماج کے نچلے طبقات میں بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس اپنی انتہاﺅں پر پہنچ چکا تھا۔ رہی سہی کسر سامراجی جنگ نے پوری کر دی۔ یہ جنگ جہاں روس کے عوام کے لئے بربادی اور تباہی لے کر آئی وہی بینکاروں، ساہوکاروں اور سرمایہ داروں کی دولت اور منافعوں میں کئی گناہ اضافہ ہوا۔ جنگ نے تضادات کو انتہاﺅں تک پہنچا دیا۔ سماج کا شیرازہ بکھرنے کو تھا۔ ایک نئی سماجی تشکیل کی اشد ضرورت تھی۔ ایک انقلابی جراحی کے ذریعے سماج کی تشکیل نو کی ذمہ داری کا فریضہ کونسا طبقہ ادا کرتا۔ لیون ٹراٹسکی کے تناظر کے عین مطابق یہ فریضہ روسی محنت کش طبقے نے ادا کیا۔

بالشویک پارٹی کی قیادت میں محنت کش طبقے نے نجی ملکیت اور بورژوا ریاست کو پاش پاش کر دیا اور انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے منصوبہ بند معیشت کی تشکیل کی۔ انسانی تاریخ نے شاید ہی اس سے پہلے ترقی اور انسانی نجات کی کوئی ایسی مثال دیکھی ہو۔ انقلاب نے دو عالمی جنگوں، بیرونی جارحیت، خانہ جنگی اور دوسری بربادیوں کے باوجود روس کو چند دہائیوں میں ایک ترقی یافتہ سماج میں بدل دیا۔ دیوہیکل صنعتی بنیاد، اعلیٰ ثقافتی معیار اور امریکہ، یورپ اور جاپان میں سائنسدانوں کی کل تعداد سے زیادہ سائنسدان روس میں تھے۔ اوسط عمر میں دو گنا اضافہ ہوا اور بچوں کی شرح اموات میں نو گنا کمی ہوئی۔ انقلاب نے جنسی برابری اور زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا۔ سرمایہ دارانہ ملکیت کا کاخاتمہ کر کے عورت کی پدر شاہانہ غلامی کی بنیادوں کو مٹا دیا گیا۔ حکومت سکولوں میں مفت کھانا، بچوں کے لئے دودھ، حاملہ خواتین اور زچہ بچہ کے لئے طبی مراکز، نرسریاں اور پرورش خانے مہیا کرتی تھی۔ عورت کو گھریلو مشقت سے آزادی دلا کر حقیقی معاشرتی زندگی میں اس کی شمولیت کو یقینی بنایا گیا۔ تعلیم اور علاج کو مفت قرار دیا گیا اور 6 سال سے 50 سال تک کی عمر کے تمام افراد کی تعلیم کا بندوبست کیا گیا۔ رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے لیے 5 کروڑ فلیٹ تعمیر کیے گئے۔ جن میں بجلی، پانی اور گیس کی سہولت تقریباً مفت مہیا کی گئی۔ روزگار کی ضمانت ریاست دیتی تھی اور بےروزگاری کو جرم قرار دیا گیا تھا۔ یوں منڈی کی معیشت پر منصوبہ بند معیشت کی برتری جدلیات کی زبان میں نہیںبلکہ ٹھوس مادی اور ثقافتی ترقی کی شکل میں ثابت کی گئی۔

لیکن یہ منصوبہ بند معیشت جوں جوں پھیلتی گئی، زیادہ پیچیدہ، ثقیف اور ترقی یافتہ ہوتی گئی۔ چند ہزار اشیا پیدا کرنے والی معیشت کا انتظام اور منصوبہ بندی چند سو افراد تو کر سکتے ہیں لیکن لاکھوں اشیا کی پیداوار کی منصوبہ بندی بیورکریٹک طریقوں سے نہیں کی جا سکتی۔ اتنے بڑے حجم کی معیشت کی منصوبہ بندی لاکھوں کروڑوں محنت کشوں کی منصوبہ بندی میں شمولیت کے بغیر نہیں کی جا سکتی تھی۔ انقلاب کی ایک نسبتاً پسماندہ ملک میں محدودیت کے زیر اثر جنم لینے والی سٹالنسٹ افسر شاہی نے محنت کش طبقے سے فیصلہ سازی چھین کر اپنے ہاتھ میں مرتکز کر لی جو بے پناہ زیاں کا باعث بن رہی تھی۔

1960ءتک روسی معیشت ایک دیو ہیکل حجم حاصل کر چکی تھی۔ یہ امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت تھی جو کپڑوں اور جوتوں سے لے کر ہوائی جہاز اور راکٹ تک پیدا کرتی تھی۔ بیوروکریسی کی بدانتظامی، کرپشن، عیاشیوں اور بے پناہ زیاں تلے منصوبہ بند معیشت کا دم گھٹ رہا تھا۔ بالآخر معاشی نمو بہت گراوٹ کا شکار ہو گئی۔ دوسری طرف افسر شاہی کی ہوس اس قدر بڑھ چکی تھی کہ وہ اب ان مراعات کو اپنے بچوں کو منتقل کر نا چاہتے تھے۔ باالفاظ دیگر افسر شاہی ذرائع پیداور کو اپنی نجی ملکیت میں لے کر ایک طفیلی پرت سے ایک حکمران طبقے میں تبدیل ہونا چاہتی تھی۔ انقلاب کی تنہائی، سوشلزم کی مسخ شدہ قومی شکل اور مزدور جمہوریت کی عدم موجودگی میں معاشی بد انتظامی آخر کار سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوئی۔ سوویت یونین میں سوشلزم نہیں بلکہ اس کی مسخ شدہ شکل‘ یعنی سٹالنزم ناکام ہوا۔

لینن اور ٹراٹسکی نے روسی انقلاب کو ایک عالمی انقلاب کے تسلسل کے طور پر دیکھا تھا۔ ایک ملک کے اندر تمام تر پیداوار کو منظم کرنا اور مسلسل اور تیز ترقی دینا روس جیسی اس وقت کی پسماندہ معیشت میں ممکن نہیں تھا۔ لینن کے بقول ترقی یافتہ یورپ میں انقلاب روسی پسماندہ معیشت کو وہ تکنیکی بنیاد فراہم کرے گا جو روس میں قلت اور مانگ کا خاتمہ کرے گی۔ سوویت انقلاب نے دنیا بھر میں اور بالخصوص یورپ میں محنت کش طبقے کو متاثر کیا۔ جرمنی، فرانس اور برطانیہ میں جاندار تحریکیں ابھریں۔ یورپ میں انقلاب کا راستہ روکنے کے لئے سوشل ڈیموکریسی کو استعمال کیا گیا اور اصلاحات کے ذریعے انقلاب کا راستہ روکا گیا اور بڑے پیمانے پر محنت کش طبقے کو مراعات دے کر سرمایہ داری کو بچانے کی واردات کی گئی۔

اسی طرح نوآبادیاتی ممالک میں بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد قومی آزادی کی تحریکیں سوشلسٹ انقلاب کی منزل کی طرف رواں دواں تھیں۔ جسے سٹالنسٹ بیورکریسی نے اپنے قومی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ تمام نو آبادیاتی ممالک اور مشرقی یورپ میں جو بورژوازی تھی ا س کا کردار سامرجی ملکوں کے ایجنٹ کا تھا۔ تکنیکی اور تاریخی پسماندگی کے باعث ان ملکوں کی بورژوازی سامراجی ملکوں کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی تھی اور نہ ہی اس بورژوازی میں قومی جمہوری انقلاب کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ زیادہ تر ملکوں میں بوناپارٹسٹ طرز کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ سٹالنسٹ بیورکریسی نے اپنے طرز پر بیوروکریٹک طرز کی حکومتیں بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جو روسی طرز پر بحران کا شکار ہوئیں اور جو موجود بھی ہیں وہ بھی شدید بحران کا شکار ہیں۔ روس جیسے پسماندہ نو آبادیاتی ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے تجربے نے ثابت کیا تھا کہ تیسری دنیا کے ممالک میں بھی آگے بڑھنے کا اگر کوئی راستہ ہے تو وہ سوشلزم ہے۔ سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کا خاتمہ کیے بغیر، قرضوں، مالیاتی اور صنعتی اثاثوں کو ضبط کیے بغیر مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔ پاکستان سمیت تمام تیسری دنیا کے ملکوں میں کوئی جمہوری اور صحت مند سماج سرمایہ داری کی حدود میں ممکن نہیں۔ یہاں پر ہونے والی سامراجی مداخلت اور ریاستی بحر ان اور بار بار ہونے والی فوجی بغاوتیں سرمایہ داری کی متروکیت کی غمازی کرتی ہیں۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی یہاں کے عوام کی نجات کا واحد راستہ ہے۔

اکتوبر انقلاب کے 104 سال گزرنے کے بعد سوشلزم کا دوبارہ احیا ہو رہاہے۔ سامراج کے گڑھ امریکہ میں آج سوشلزم نوجوان نسل میں زیر بحث ہے۔ لاطینی امریکہ سرخ ہو رہا ہے۔ یورپ، ایشیا اور افریقہ میں سرمایہ داری کے خلاف ایک کے بعد ایک ملک میں تحریکیں ابھر رہی ہیں۔ سوشل ڈیموکریسی آج بحران کی گہری کھائی میں گر چکی ہے۔ سٹالنزم تاریخ کا قصہ بن چکا ہے۔ آج 1917ءکی نسبت محنت کش طبقہ اپنے حجم اور قوت کے لحاظ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ نے آج دنیا بھر کے محنت کش طبقے کو زیادہ قریب کر دیا ہے۔ کسی ایک ملک میں ابھرنے والی طبقاتی تحریک کو پوری دنیا میں حمایت ملتی ہے۔ آج کسی ایک ملک کے اندر ہونے والا سوشلسٹ انقلاب پوری دنیا میں تیزی سے پھیلے گا۔

سرمایہ داری کے دانشوروں نے 1917ءکے بالشویک انقلاب کو تاریخ سے مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سوشلزم کو ناکام ثابت کرنے کے لئے سر توڑ کوششیں کیں۔ کیونکہ ان کے استحصالی نظام کو اگر آج بھی خطرہ ہے تو وہ انقلابی سوشلزم سے ہے۔ اکانومسٹ نے اکتوبر انقلاب کے سو سال پورے ہونے پر لکھا تھا، ”انقلاب کی صد سالہ سالگرہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اسے مخفی رکھنا ممکن نہیں… مسٹر پیوٹن نے لینن کو نظر انداز کیااور سٹالن کو بحال کیا ہے۔ اس کی نظر میں ان کے درمیان فرق روسی ریاست اور اس کی شاہی وراثت کی طرف رویے کا تھا… لینن سے اس کا کلیدی اختلاف یہ ہے کہ لینن نے روس کو حق خودارادیت رکھنے والی جمہوریاﺅں کی یونین کے طور پر منظم کیا… معیشت جمود کا شکار ہے اور مسٹر پیوٹن کا خبط بڑھتا جا رہا ہے۔ بالشویک انقلاب کے بھوت بے چین ہو رہے ہیں۔ لینن اب شاید خود کو مسکرانے کی اجازت دے سکتا ہے!“ یہ تنبیہہ ہے اکانومسٹ کی سرمایہ دارای کے حواریوں کو کہ حالات 1917ءکی طرف دوبارہ جا رہے ہیں۔

پوری دنیا کو سوویت جمہوریاﺅں کی یونین بنانے کا خواب لینن اور ٹراٹسکی نے دیکھا تھا۔ اس کی تعبیر کی ذمہ داری آج کی انقلابی نسل کے سر ہے۔ ایک انقلابی تنظیم کی تخلیق اور انقلابی حالات کے ساتھ اس کا ملاپ اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرے گا۔