ڈاکٹر طاہر شبیر
ضیا کی یادیں منا رہے ہو
تمہی دھماکے کرا رہے ہو
عدو سے دولت وصول کر کے
وطن کو دوزخ بنا رہے ہو
فضا میں لاشیں اڑانے والو
تمہیں جو مجرم بنا رہے ہیں
ہمیں یہی وہ دکھا رہے ہیں
وطن میں کچھ بھی نیا نہیں ہے
ضیا ابھی تک مرا نہیں ہے
بنام مذہب ڈرا رہے ہیں
زمیں پہ مقتل سجا رہے ہیں
ضمیر بیچے ہوے سخنور
سب اپنی دولت بڑھا رہے ہیں
وہ قاتلوں کے قصیدے لکھ کر
انہی کو ہیرو بنا رہے ہیں
ہمیں یہ پڑھ کر سنا رہے ہیں
وطن میں کچھ بھی نیا نہیں ہے
ضیا ابھی تک مرا نہیں ہے
واعظوں کو جو جانتے ہیں
کب ان کی باتوں کو مانتے ہیں
جو بات کرتے ہیں آگہی کی
وہ سب کی سوچیں نکھارتے ہیں
لڑ ے ہمیشہ جو جاہلوں سے
انہیں وہ مل کر ڈرا رہے ہیں
جو مکتبوں میں پڑھا رہے ہیں
وطن میں کچھ بھی نیا نہیں ہے
ضیا ابھی تک مرا نہیں ہے
ہمی ہیں آگے جو بڑھ رہے ہیں
خوشی سے سولی پہ چڑھ رہے ہیں
ہمیں جہالت کے طعنے وہ دیں
جو خود جہالت کا گڑھ رہے ہیں
قلم فروشی ہے کام جن کا
وہ بس قصیدے ہی پڑھ رہے ہیں
وہ اب بھی نعرے لگا رہے ہیں
وطن میں کچھ بھی نیا نہیں ہے
ضیا ابھی تک مرا نہیں ہے
یہ تخت بدلے نہ تاج بدلہ
نہ اہل ثروت کا راج بدلا
نہ منصفوں کے خدائی دعوے
نہ افسروں کا مزاج بدلا
یہ اہل مذہب یہ قتل و غارت
کہاں ہے اپنا سماج بدلا
یہ سارے منظر بتا رہے ہیں
وطن میں کچھ بھی نیا نہیں ہے
ضیا ابھی تک مرا نہیں ہے
ہے سرخ پرچم یہ تھام کر تم
اٹھو غریبوں کے دن سنوارو
جھکا کے سر کو جو جی رہے ہیں
گھروں سے نکلو انہیں پکارو
چراغ روشن کرو لہو سے
ضیا سے ان کے ضیا کو مار دو
یہ حرف حق ہم سکھا رہے ہیں
صدا یہ ہم بھی لگا رہے ہیں
وطن میں کچھ بھی نیا نہیں ہے
ضیا ابھی تک مرا نہیں ہے