قمرالزماں خاں

تکرار سے یہی تاثر دیا گیا ہے کہ کریمیا کی جنگ (1853-1856ء) وہ پہلی بنیاد تھی جس نے انگریز سامراج (ایسٹ انڈیا کمپنی) کے زیر نگین ہندوستانی فوج کے ایک حصے میں بے چینی اور غم و غصے کو گہرا کر دیا تھا۔ ہندو مذہبی دیومالا کے مطابق کسی بھی ہندو کا سمندر پار جانا اس کے دھرم کو بھرشٹ کر دینے کے برابر تھا۔ جب کہ انگریز حکام انہیں روس کے خلاف اس جنگ میں بھیجنے پر مُصر تھے۔ یہ بے چینی اور کشمکش ابھی اپنے کھلے اظہار سے دور ہی تھی کہ 1856ءمیں ہی فوج کے بہت سے حصوں میں ایسی بندوقیں چلانے کیلئے دی گئیں جن کے کارتوس مبینہ طور پر سور اور گائے کی چربی سے بنے ہوئے تھے اور کارتوس کے ایک سرے کو دانتوں سے کاٹ کر کر بندوق کیلئے کارآمد بنایا جاتا تھا۔ ہندوستانی فوج میں مسلمان اور ہندو سپاہیوں کیلئے یہ ایک اشتعال انگیزی کے مترادف تھا۔ مسلمان اور ہندو سپاہیوں نے یہ کارتوس استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔ انکار کے واقعات قابض انگریز سرکار کیلئے ناقابل قبول تھے۔ یہ معاملات بھی 1857ءسے کوئی ایک سال پہلے شروع ہوئے تھے۔ مگر یہ تو اس بارود کو صرف تیلی دکھانے کے مترادف تھا۔ اس سے بھی سنگین معاملات پچھلے سارے عرصے میں سماج کی رگوں میں سرایت کر کے اب ایک ڈائنامیٹ کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ شمالی بنگال میں سنیاسی بغاوت اور بہار اور بنگال میں چنار کی بغاوت اٹھارہویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی۔ انیسویں صدی کے وسط میں بھی کسانوں کی بہت ساری بغاوتیں ہوئیں۔ ان میں سب سے اہم بنگال میں ملابار کے موپلہ کسانوں کی تحریک اور فرازی تحریکیں تھیں۔ متعدد قبائلی بغاوتیں بھی دیکھنے میں آئیں۔ اس تناظر میں مدھیہ پردیش کے بھیلوں، بہار کے سنتھلوں، اڑیسہ کے گونڈوں اور کھونڈوں کی بغاوتیں نمایاں ہیں۔ 1799ءمیں ٹیپو سلطان کی سربراہی میں سرنگا پٹم کی لڑائی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے۔ گو بہت سی تحریکیں ناکام ہوئیں یا اپنے بنیادی مقاصد کے حصول سے محروم رہیں مگر ہر تحریک نے ہندوستان کے سماج پر اپنے اثرات مرتب کیے۔ ولندیزیوں، فرانسیسیوں اور انگریزوں نے بیس کروڑ ہندوستانیوں کو غلام بنا کر ان کی زندگیوں کو پامال کرنا شروع کیا ہوا تھا۔

جنگ پلاسی میں فتح یابی کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کے بہت بڑے حصے پر اختیار بڑھا لیا تھا۔ کمپنی، جس کا قیام 1600ءمیں تجارت کی غرض سے عمل میں لایا گیا تھا، نے اپنے پیش ر و’ ولندیزیوں‘ کی روش پر نہ صرف علاقوں پر تسلط جمانا شروع کر دیا تھا بلکہ تجارت کھلی لوٹ مار اور استحصال میں بدل چکی تھی۔ مقامی صنعت بطور خاص سوتی کپڑے کی صنعت کو دانستہ طور پر ختم کر دیا گیا۔ ہزاروں سال سے خوشحال زرعی ملک کی زراعت پر بھاری بھرکم لگان لگا کر بیگارمیں بدل دیا گیا۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور مظالم سے کسان خاندانوں کو غربت، افلاس حتیٰ کہ فاقوں تک پہنچا دیا گیا۔ انہی کسان خاندانوں سے فوجی بھرتیاں کی گئیں۔ یہ فوجی سپاہی اپنے خاندانوں کی زبوں حالی سے آگاہ بھی تھے اور دل برداشتہ بھی۔ بیس کروڑ آبادی والے ہندوستان پر دو لاکھ سے کچھ زائد نفوس پر مشتمل ہندوستانی سپاہیوں کے ذریعے حکومت کی جا رہی تھی۔ جیسا کہ مارکس اپنے مضامین میں لکھتا ہے کہ مقامی کپڑے کی صنعت کو انگریزوں نے دانستہ طور پر تباہ و برباد کر دیا۔ برطانیہ سے سوتی کپڑا ہندوستان کی منڈی میں بہت بڑے پیمانے پر پھیلا کر یہاں کی منڈی کو ہتھیا لیا گیا۔ اگرچہ اس کے مقابلے میں ہندوستانی کپڑا اتنا اعلیٰ معیار کا تھا کہ جب برطانیہ کے ہاﺅس آف کامنز نے 1813ءمیں تھامس مور، جسے 1820ءمیں مدراس کا گورنر بنایا گیا، سے جاننا چاہا کہ آخر صنعتی انقلاب کے بعد برطانیہ کے بنے ہوئے کپڑے ہندوستان میں کیوں نہیں بک رہے تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستانی کپڑے کہیں زیادہ بہتر کوالٹی کے ہوتے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ میں ایک ہندوستانی شال سات سال سے استعمال کر رہا ہوں مگر وہ آج بھی نئی جیسی ہے۔ اگر کوئی مجھے یورپ کی بنی شال تحفے میں بھی دے تو میں اسے استعمال نہیں کروں گا۔ مگر پھر اس ہندوستانی کپڑے کی جگہ پر برطانوی کپڑے کو بیچنے کےلئے کھڈی سے بنے کپڑوں پر بھاری ٹیکس اور محصولات عائد کر دیئے گئے۔ اس کے بعد ایسی ظالمانہ پالیسیاں اپنائی گئیں کہ برطانیہ کی ایکسپورٹ جو 1815ءمیں 25 لاکھ پاﺅنڈ تھی وہ 1822ءتک 48 لاکھ پاﺅنڈ ہو گئی۔ برطانیہ میں بنے کپڑے کو ہندوستان میں مقبول بنانے کےلئے ہندوستان کی کپڑے کی صدیوں پرانی صنعت کو بڑی بے رحمی سے تباہ کیا گیا۔ اگر کوئی جولاہا کپڑے بیچتا ہوا نظر آ جاتا تو اس کے ہاتھ کا انگوٹھا کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ وہ زندگی بھر کپڑا نہ بن سکے۔ اس طرح برطانوی کپڑے کو ہندوستانی مارکیٹ میں بیچنے کی راہ نکالی گئی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ڈائریکٹر ہنری جارج ٹکر نے 1823ءمیں لکھا کہ اس طرح ہندوستان کو ایک صنعتی ملک کی حیثیت سے گرا کر ایک زرعی ملک بنا دیا گیا ہے تاکہ انگلستان کا مال ہندوستان میں بیچا جا سکے۔ وہ لکھتا ہے کہ 1814ءسے 1835ءتک برطانیہ کے بنے کپڑے کی ہندوستان میں فروخت میں 51 گنا اضافہ ہوا جبکہ ہندوستان سے برطانیہ آنے والی درآمدات صرف چوتھائی رہ گئیں۔ اس دوران ڈھاکہ، جو کپڑا سازی کا بڑا مرکز تھا، کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے گر کر صرف بیس ہزار رہ گئی۔ گورنر جنرل ویلیم بنٹنک نے 1834ءمیں اپنی رپورٹ میں لکھا کہ معاشیات کی تاریخ میں ایسی بدترین صورت حال کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستانی جولاہوں کی ہڈیوں سے ہندوستان کی زمین سفید ہو گئی ہے۔

کسانوں کی آمدنی پر ٹیکس 66 فیصد کر دیا گیا جو مغل دور میں 40 فیصد تھا۔ روز مرہ استعمال کی عام اشیا پر بھی ٹیکس عائد کیے گئے جن میں نمک بھی شامل تھا۔ اس سے نمک کی کھپت آدھی ہو گئی۔ نمک کم استعمال کرنے کی وجہ سے غریب لوگوں کی صحت سخت متاثر ہوئی اور ہیضے اور لو لگنے کی وجہ سے ہونے والی اموات میں بڑا اضافہ ہوا۔ مارکس لکھتا ہے کہ برصغیر کے ہزاروں سالہ نظام کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اجتماعی ملکیت کے زرعی ڈھانچے کو توڑ دیا گیا۔ انگریز حکام مقامی راجوں، نوابوں اور حکمرانو ں سمیت امرا سے بھاری رشوت لیتے تھے۔ صرف جنگ پلاسی کے بعد بنگال میں انہوں نے نواب بنانے کی رشوت کے عوض 26 لاکھ پاﺅنڈ کمائے تھے۔ دوسری طرف مغل بادشاہت کے خلاف چھوٹے موٹے حکمران ”کمپنی“ کی اعانت حاصل کرنے کیلئے ’دفاع‘ کیلئے بھاری اخراجات اٹھا رہے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے ملازم مقامی سپاہیوں کے ذریعے مقامی راجوں، نوابوں اور حکمرانوں کو کرائے پر سکیورٹی فراہم کرتی تھی۔ یہ دفاعی اخراجات ان مملکتوں اور ریاستوں کی استطاعت سے زیادہ تھے۔ کمپنی حکام کی لوٹ مار اور لالچ کی کوئی حد نہ ہونے اور مکارانہ تدابیر کی بنا پر ریاستیں اور راج واڑے بتدریج بکھر کر خود ہی کمپنی کی تحویل میں جا رہے تھے۔

زراعت کو تباہ کرنے کی پالیسی کا نتیجہ بنگال میں قحط کی صورت نکلا۔ قحط نے مقامی آبادی کی بڑی تعداد کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔ لیکن انگریزوں نے قحط میں وہ منافعے کمائے جس کا اس سے قبل تصور تک نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مثلاً چاول جو ایک روپے کے 120 سیر ملتے تھے، قحط کے دوران ایک روپے کے تین سیر دیے جانے لگے۔ یوں کمپنی کے گورے حکام نے مقامی لوگوں کی بھوک اور اموات کے بدلے خود کو لکھ پتی اور کروڑ پتی کر لیا۔ دوسری طرف کمپنی نے اپنی فوج، جو کہ لاکھوں کی تعداد میں مقامی افراد پر مشتمل تھیں، کا بھی شدید استحصال شروع کر دیا۔ قابض گوروں کی افواج میں ستاسی فیصد حصہ ہندوستانی فوجیوںکا تھا۔ مگر وہ برطانوی فوجیوں سے کمتر سمجھے جاتے تھے۔ ایک ہندوستانی سپاہی کو ایک ہی عہدے کے یورپی سپاہی سے کم معاوضہ ادا کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک ہندوستانی سپاہی صوبے دار کے عہدے پر بھی ترقی نہیں پا سکتا تھا۔ ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی توسیع نے ہندوستانی سپاہیوں کو بری طرح متاثر کیا۔ انہیں اپنے گھروں سے بہت دور علاقوں میں خدمات انجام دینے کی ضرورت تھی۔ 1856ءمیں لارڈ کیننگ نے ’جنرل سروسز انلسمنٹ‘ ایکٹ جاری کیا جس کے تحت یہ تقاضا کیا گیا تھا کہ سپاہی سمندر کے پار برطانوی سر زمین میں بھی خدمت کےلئے تیار ہوں۔ بنگال آرمی کو اودھ میں اعلیٰ ذات کی جماعتوں سے بھرتی کیا گیا تھا۔ وہ سمندر عبور کرنے کےلئے تیار نہیں تھے کیونکہ اسے ہندو مذہبی عقائد کے مطابق منع کیا گیا تھا۔ اودھ کے الحاق کے بعد نواب کی فوج ختم کر دی گئی۔ یہ فوجی اپنی روزی روٹی سے محروم ہو گئے۔ انگریز کا وجود سپاہیوں کو بھی کھٹکنا شروع ہو گیا تھا۔ اس پس منظر میں بے چینی موجود تھی۔ نہ صرف ہندوستان بھر میں بلکہ فوج کے اس حصے میں بھی جو مقامی سپاہ پر مشتمل تھا۔

نئی رائفل (اینفیلڈ) کے کارتوسوں کے معاملے نے جلتی پر تیل کا کام دیا۔ 1857ءکا سال انگریز سامراج کی لوٹ مار کے خلاف بغاوت کے طور پر عالمی تاریخ کا ایک اہم معرکہ بننے کے حوالے سے ان مٹ نقوش چھوڑ گیا۔ سور اور گائے کی چربی کے خلاف ہندو اور مسلمان سپاہیوں میں اضطراب تھا۔ اینفیلڈ رائفلوں کے کارتوس نہ چلانے کی پہلی حکم عدولی مارچ 1857ءمیں بیرک پور میں منگل پانڈے نامی سپاہی نے کی۔ تکرار اور بدتمیزی پر منگل پانڈے کو اپنے افسران پر حملہ کرنا پڑا۔ اس کو کمپنی انتظامیہ نے گرفتار کر لیا اور اگلے مہینے پھانسی کی سزا دے دی۔ یہ خبر ہندوستانی سپاہیوں کے غم و غصہ کو بڑھانے کا باعث بنی۔ مئی میں میرٹھ چھاﺅنی کے 85 فوجیوں نے نئی رائفل استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔ کمپنی کے فوجی حکام نے انہیں دس سال قید کی سزا سنا کر جیل میں بند کر دیا۔ صبر کے پیمانے چھلک اٹھے تھے۔ میرٹھ چھاﺅنی میں بغاوت شروع ہو گئی۔ یہ 9 مئی 1857ءہفتے کا دن تھا۔ ہندوستانی سپاہیوں نے اپنے برطانوی افسروں کا قتل کیا اور جیل توڑ دی۔ اپنے ساتھیوں کو رہا کرا لیا گیا۔ یہ بغاوت تقریباً ایک سال تک جاری رہی۔ 10 مئی کو ہندوستانی سپاہیوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی شروع کر دی جو کہ میرٹھ چھاﺅنی سے تقریباً پینسٹھ کلو میٹر دور ہندوستان کا بڑا شہر تھا۔ اسی شہر میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر جرم ضعیفی کی سزا بھگت رہے تھے۔ بادشاہ شاعروں، فنکاروں اور ہر قسم کے تفکر سے ماورا آورگان کے جھرمٹ میں محو استراحت تھے۔ وہ یہی کر سکتے تھے۔ باغی سپاہیوں نے بادشاہ سے بغاوت کی قیادت کی استدعا کی مگر فوج، وسائل اور حتیٰ کہ عرصہ سے کھو جانے والی حکمرانی کے وقار کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ پھر بھی باغیوں نے بہادر شاہ ظفر کو پورے ہندوستان کا بادشاہ قرار دے دیا۔ یہ بغاوت پٹنہ کے پڑوس سے راجستھان کی سرحدوں تک پورے علاقے میں پھیل گئی۔ ان علاقوں میں بغاوت کے چھ مرکزی مراکز تھے۔ یعنی بہار میں کانپور، لکھنو، بریلی، جھانسی، گوالیار اور بہارکے دیگر علاقے۔ سپاہیوں کے ساتھ عوام کا ایک حصہ بھی اس بغاوت میں دامے درمے سخنے شریک کار تھا۔ جنگ آزادی کا ایک اور مرکز کراچی تھا۔ یہاں سے شروع ہونے والی بغاوت جلد ہی پورے سندھ میں پھیل گئی۔ تاریخ دان پروفیسر لائق زرداری کے مطابق آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے تالپور حکمران میر شیر محمد تالپور کو ایک خط لکھ کر بغاوت میں مدد فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ میر شیر محمد نے اپنے سپاہیوں کو اسلحہ اور رقوم دے کر بادشاہ کی خدمت میں روانہ بھی کیا تھا۔ تاہم تالپور خاندان ہی کے ایک فرد کی انگریزوں کو مخبری کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ ان دنوں سندھ میں بمبئی نیو انفنٹری کی چار رجمنٹوں کے علاوہ سیکنڈ یورپین انفنٹری، ہارس آرٹلری کی چوتھی بٹالین کی دو کمپنیاں اور دیگر فوج تعینات تھی۔ سندھ میں جنگ آزادی کی ابتدا ستمبر اٹھارہ سو ستاون میں کراچی کی بندرگاہ پر ایشیا نامی جہاز کے لنگر انداز ہونے سے ہوئی۔ اس جہاز پر حملہ کیا گیا مگر اس بغاوت کو جلد ہی کچل دیا گیا تھا۔ جہاز کے کپتان نے اپنی اور جہاز کی حفاظت اور بے چینی کو روکنے کےلئے باغی رہنما کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ جس پر احتجاجاً باقی عملے نے کام کرنے سے انکار کر دیا۔ مقامی سپاہیوں نے اس واقعے کا سنجیدگی سے نوٹس لیا اور پورے سندھ میں غم و غصے کی لہر پھیل گئی۔ اس بے چینی کے اہم مراکز کراچی، حیدرآباد، شکار پور، جیکب آباد، سکھر اور میرپور خاص تھے۔

یہ بغاوت 14 مہینے تک ہندوستان کے مختلف حصوں میں جاری رہی۔ مئی سے ستمبر تک دلی میں باغیوں کا قبضہ رہا۔ پھر یہ شہر بھاری بھرکم سپاہ، جدید اسلحے اور رسل و رسائل کے ذرائع کی سبقت کی وجہ سے باغیوں کے ہاتھ سے نکل گیا اور اہل شہر کو خون کی ندیوں کا خراج پیش کرنا پڑا۔ انگریزوں کی سب سے بڑی سبقت جدید ہتھیار اور تیز رفتار رسل و رسائل کے شعبے تھے۔ بطور خاص ٹیلی گراف، جس کے سبب اطلاعات سرعت میں ہی سرکاری افواج تک پہنچ جاتی تھیں۔ اگرچہ باغیوں کے ساتھ شہری آبادی کا بہت کم حصہ تھا مگر بغاوت کی ناکامی کی سزا ہر کسی کو بھگتنا پڑی۔ ہزاروں بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور سینکڑوں کو پھانسی دے دی گئی۔ دلی والوں کوشہر بدر کر دیا گیا اور کوئی ایک سال بعد واپس آنے دیا گیا۔ بربریت کا بازار گرم کر دیا گیا۔ اتنا بڑا قتل عام کیا گیا کہ غالب جیسے شاعر پر اس کے اثرات دیکھیں کہ بعد کی 12 سالہ زندگی میں صرف گیارہ غزلیں لکھ سکے۔ بوڑھے بادشاہ کو پکڑ لیا گیا اور اس کے بیٹوں کو قتل کر کے ان کے سر پیش کیے گئے۔ تاش کے بادشاہ سے بھی بے اثر بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلا وطن کر دیا گیا جہاں وہ 1862ءمیں فوت ہوگیا۔ اس طرح مغلوں کی شاہی سلطنت کا باقاعدہ خاتمہ ہوا۔

اودھ بھی بغاوت کا ایک بڑا مرکز تھا۔ اودھ کی ریاست کو زبردستی کمپنی کے زیرنگین بنایا گیا تھا۔ سابق بادشاہ کی بیگم حضرت محل نے بغاوت کی قیادت سنبھالی۔ ریاست کی پرانی سپاہ کے بہت سے سپاہی باغیوں سے آن ملے تھے جنہوں نے پوری شجاعت سے گوروں سے جنگ لڑی۔ اسی طرح کانپور میں نانا صاحب کی قیادت میں بغاوت میں حصہ لیا گیا۔ کان پور میں تانتیا ٹوپے کمانڈر نے نانا صاحب کے فرار کے بعد بھی آخر تک جنگ جاری رکھی۔ حتیٰ کہ انگریزوں کی نئی کمک آنے سے شکست ہوئی اور گرفتاری کے بعد پھانسی کی سزا پائی۔ جھانسی کی رانی لکشمی بائی نے اتنی دلیری سے جنگ لڑی کہ دشمن داد شجاعت دینے پر مجبور ہو گئے۔ جھانسی میں شکست کے بعد لکشمی بائی نے تانتیا ٹوپے کے ساتھ مل کر گوالیار پر قبضہ کر لیا۔ کئی فتوحات کے بعد جھانسی کی رانی لڑتے لڑتے شہید ہوئی۔ اسی طرح بہا ر میں کنور سنگھ نے بغاوت کی قیادت کی۔ ادھر پنجاب کے علاقوں ساہیوال، چیچہ وطنی، پاکپتن، گوگیرہ اور اوکاڑہ میں احمد خان کھرل نے اپنی بہادری اور حریت پسندی کی نئی داستانیں رقم کیں۔ وہ ڈھول کی تھاپ پر انگریزوں کو للکار کر ان پر حملہ کرتا اور انگریز سپاہ کو ناکوں چنے چبواتا۔ ایک انگریز کمشنر کے بقول احمد خاں کھرل نے تین ماہ تک انگریزوں کا راستہ روکے رکھا۔ بہت سے معرکوں کی فتح یابی کے بعد 21 ستمبر 1857ءکو گشکوری کی جنگ میں سرفراز کھرل کی مخبری پر رائے احمد خان کھرل شہید ہو گئے۔ میرٹھ چھاﺅنی میں بغاوت کی خبر پنجاب بھر میں مزاحمت کو جنم دینے کا باعث بنی تھی۔ جس میں لاہور، سیالکوٹ، گجرات اور امرتسر میں انگریزوں پر حملے کیے گئے۔ ان حملوں کے جواب میں سینکڑوں شہریوں کو پھانسیاں دی گئیں اور توپوں کے سامنے باندھ کر اڑا دیا گیا۔ مراد فتیانہ بھی گوگیرہ کا ہی حریت پسند تھا جس نے انگریز کے خلاف احمد خاں کی شہادت کے بعد جدوجہد جاری رکھی۔ بے سر و سامانی میں یہ ایک بے مثال بغاوت تھی جو ایک سال اور دو ماہ تک جاری رہی۔ اس بغاوت کی سب سے بڑی کمزوری ہندوستان بھر میں اس کی جڑت کا نہ ہونا تھا۔ وسائل بالکل ہی کم تھے جب کہ ہندوستان میں با اثر اشرافیہ، نوابوں، راجاﺅں اور گدی نشینوں کے غدارانہ کردار بھی اہم ترین عاملین میں شامل تھے۔

دو باتیں یاد رکھنے والی ہیں کہ واسکو ڈے گاما اور ولندیزیوں کا ہندوستان کے ساحلوں اور عرب تاجروں کے ہزاروں تجارتی جہازوں سمیت تجارتی راستوں پر قبضہ ان کے جدید ترین توپ خانے کے سبب ممکن ہو سکا تھا۔ اسی طرح انگریز کے پاس بھی جدید آتشیں اسلحہ تھا جب کہ مقامی حکمرانوں کا جنگی شعبہ بے سر و سامانی کا شکار اور دقیانوسی تیر اور تلواروں کی چمک دھمک کا حامل تھا۔ دوسری طرف انگریزوں نے تقسیم کرو اور راج کرو کے طریقے کے تحت امرا، مذہبی پیشواﺅں، نوابوں، راجوں اور اشرافیہ کورشوت دے کر اپنے غاصبانہ قبضے کو مستحکم کیا ہوا تھا۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں ہی اس نئی قیادت کو مستقبل کے ہندوستان کی حکمرانی کےلئے تیار کر لیا گیا تھا۔ اس طبقے کی سب سے بڑی خوبی ان کا اپنے ملک اور لوگوں سے غدار ہونا تھا۔ ان امرا نے ہندوستان کو انگریز کاغلام رکھنے میں نہ صرف افرادی قوت فراہم کی بلکہ انگریزوں کو پیسے اور غذائی رسد سے لے کر حریت پسندوں کی مخبری کر کے ان کو تہہ تیغ کرنے تک میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندوستان کے شورش زدہ حصوں میں بالخصوص اور باقی جگہوں پر بالعموم ظلم و استبداد کے ایسے مظاہرے کیے گئے کہ فلک نے ایسے دہشت ناک مناظر کبھی نہیں دیکھے تھے۔ زیادہ تر باغیوں کو توپ کے ساتھ باندھ کر گولوں سے اڑا دیا گیا۔ کئی شہروں اور راستوں کے تمام درختوں پر باغیوں کو پھانسی دے کے ان کی نعشیں سال بھر لٹکائی گئیں۔ سویلین آبادیاں اس بربریت سے مبرا نہیں تھیں۔ بلاوجہ یا وجہ بنا کر لوگوں کو پکڑ کر کوڑے لگائے جاتے یا انہیں رینگ کر چلنے پر مجبور کیا جاتا۔ چھوٹے چھوٹے جرائم پر پھانسیاں دی جاتیں اور بھاری جرمانے کیے جاتے۔ ان سارے مظالم کے بعد بھی برصغیر میں انگریز اپنے قدم جما کر نہیں رکھ سکا۔ 1857ءکی جنگ آزادی اور بعد کی بہت سی بے نظیر تحریکوں، بغاوتوں اور سرکشیوں نے ہندوستانی سماج کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کیے رکھا۔ ایک طرف انگریزوں کے ظلم و ستم، بربریت، جنونی قتل عام اور انسانیت سوز تشدد کے جواب میں گاندھی جی کا عدم تشدد کا مجرمانہ فلسفہ اور بزدلانہ پالیسی تھی جس کے تحت ہندوستان کے لوگوں کو ظلم برداشت کر کے چپ رہنے کی تلقین تھی۔ مقامی سیاسی اشرافیہ کی پارٹیاں ان غداروں سے بھری ہوئی تھیں اور ہیں جن کے خانوادوں نے جنگ آزادی سے لے کر اب تک برصغیر کے لوگوں کے مفادات کے خلاف عالمی اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی بن کر عوامی مفادات کی سوداگری کی ہے۔ دوسری طرف جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں حریت کی ایک دوسری لہر میں لالہ لجپت رائے، بھگت سنگھ ، راج گرو، سکھ دیو، چندر شیکھر آزاد، سبھاش چندربوس، کیپٹن شاہنواز، لکشمی سہگل، پدما ورما اور حبیب خان سمیت لاتعداد کرداروں نے اپنے اپنے عہد میں انگریز سامراج کے خلاف اپنے اپنے انداز (جس میں یقینا کمزوریاں ہو سکتی ہیں) میں حریت پسندانہ جدوجہد کی۔ پھر چالیس کی دہائی کی دو بڑی تحریکیں وہ سنگ میل ثابت ہوئیں جنہوں نے یہاں سے انگریز سامراج کی رخصتی کو یقینی بنا دیا۔ مندرجہ بالا تحریکیں اور کردار تاریخ میں سنہری لفظوں سے تذکرے کے لائق ہیں مگر جنگ آزادی کے نوے سال بعد انگریز نے برصغیر کو اپنے جانشینوں کو اس انداز میں سپرد کیا کہ لاکھوں افراد کے قتل عام اور کروڑوں افراد کی جبری نقل مکانی کے ذریعے ایک خونریز تقسیم سے خطے کو پارہ پارہ کر دیا گیا۔ ہندوستان سے انتقام لیتے ہوئے اس کو توڑ کر انگریز چلا گیا مگر اپنا نظام اپنے جانشینوں کے سپرد کر گیا۔ وہ تمام مسائل، ظلم و جبر، بربریت، استحصال اور لوٹ مار مسلسل جاری ہے۔ 1498ءمیں واسکو ڈے گاما کے ہندوستان پر پہلے قدم سے 14 اگست 1947ءتک کے 449 سالوں میں ولندیزی، انگریز اور فرانسیسی سامراج نے ہندوستان سے اتنا کچھ نہیں لوٹا تھا جتنا پچھلے ستر سالوں میں یہاں سے لوٹا گیا ہے۔ بندوبست بدل کر لوٹ مار جاری ہے۔ عظیم سرکشی، جس کو جنگ آزادی کہا جاتا ہے، کی پاداش میں ہزاروں حریت پسندوں کے بہائے گئے خونِ ناحق سے زیادہ آج ڈیڑھ ارب زندہ انسانوں کی غیر انسانی حالت زار کا تقاضا ہے کہ برصغیر سے سامراجی لوٹ مارکے نظام کو ختم کر کے یہاں کے محنت کشوں کو اپنا مقدر سنوارنے کا موقع میسر ہو۔