لینس سیلفا

تلخیص و ترجمہ: حسن جان

اسرائیلی ریاست کی نوعیت کے بارے میں یہ مضمون چند سال پہلے لکھا گیا تھا۔ فلسطین کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے یہ مضمون ہم اپنے قارئین کے لیے شائع کر رہے ہیں۔

ریاست اسرائیل کا قیام ایسے وقت میں ہوا جب مشرق وسطیٰ تیل پیدا کرنے والا خطہ بن رہا تھا اور امریکی سامراج خطے میں برطانیہ کی جگہ لے رہا تھا۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے سامراجی پالیسی ساز مشرق وسطیٰ کو محض مشرق بعید کے تجارتی راستے کے طور پر دیکھتے تھے۔ لیکن تیس اور چالیس کی دہائی میں امریکی تیل کی صنعت کی ایک رپورٹ کے مطابق ”تیل کی عالمی پیداوار کا مرکز خلیج میکسیکو اور کیریبین سے مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس منتقل ہو رہا ہے۔“

دوسری عالمی جنگ کے بعد صرف امریکہ ہی مشرق وسطیٰ کی اہمیت سے واقف نہیں تھا بلکہ دوسری عالمی طاقت سوویت یونین بھی واقف تھا۔ 1947ءمیں سوویت یونین نے امریکہ کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم کے حق میں ووٹ دیا۔ 1948ءمیں سوویت یونین کی جانب سے اسلحے کی ایک کھیپ چیکوسلواکیہ سے صہیونی ہگاناہ ملیشیا کو دی گئی جس سے فلسطین کی فتح میں معاونت کی گئی۔ اس وقت امریکہ اور سوویت یونین تیسری دنیا کے ممالک میں اتحادی جیتنے میں لگے ہوئے تھے۔ دونوں ایک اتحادی کے ہاتھ سے جانے کو دوسرے کی جیت سمجھتے تھے۔ اگرچہ یہ بات آج احمقانہ لگتی ہے لیکن اس دور میں کچھ امریکی صہیونی اصرار کر رہے تھے کہ اگر اسرائیل کو امداد نہیں دی گئی تو اس سے صہیونی ریاست سوویت یونین کی گود میں چلی جائے گی۔ ”موجودہ اسرائیلی ریاست کو دیوالیہ ہونے اور کمیونسٹوں کے ہاتھوں میں چلے جانے سے بچانے کے لیے امریکہ کو اسے کافی مالی امداد دینا ہو گی“ (نیو یارک ٹائمز، 1948ء)۔

تاہم بین گیرون جیسے صہیونی رہنما یہ جانتے تھے کہ جس طرح کی مالی اور عسکری امداد امریکہ اور امریکی صہیونی تنظیمیں دے سکتی ہیں وہ سوویت یونین فراہم نہیں کر سکتا۔ انہوں نے امریکہ کو اسرائیل کا سرپرست اعلیٰ بنانے کی کوشش جاری رکھی۔ امریکہ نے اس جانب پہلا قدم 1949ءمیں اسرائیلی منصوبے کے لیے 100 ملین ڈالر کی رقم دے کر کیا۔ امریکہ نے اسرائیل کے لیے اپنی حمایت کو مشرق وسطیٰ میں تیل کی تنصیبات کو سوویت خطرے سے بچانے کے لیے لازمی قرار دیا۔ لیکن اس کی اصل دشمن خطے میں بڑھتی ہوئی عرب قوم پرستی تھی۔

1952ءمیں جب اعتدال پسند ایرانی وزیراعظم مصدق نے اینگلو ایرانی تیل کمپنی کو قومی تحویل میں لینے کا اعلان کیا تو مغرب نے ردعمل میں وزیراعظم کو کمیونسٹ قرار دے کر اس کی مذمت کی۔ 1953ءمیں سی آئی اے نے مصدق کی حکومت کو ہٹا کر امریکی گماشتے رضا شاہ پہلوی کو ایران پر مسلط کیا۔ مصدق کے بحران کے دنوں میں ”اعتدال پسند“ اسرائیلی اخبار ہاریٹز نے مغرب کو یہ پیشکش کی: ”مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات سے مغرب خاصا ناخوش ہے۔ وہاں کی جاگیردارانہ حکومتوں کو قوم پرست تحریکوں کو ایسی مراعات دینا پڑتی ہیں… کہ وہ برطانیہ اور امریکہ کو اپنے قدرتی وسائل اور فوجی اڈے دینے سے کتراتے ہیں۔ اس لیے اسرائیل کو مضبوط کرنے سے مغربی طاقتوں کو مشرق وسطیٰ میں توازن اور استحکام قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس بات کا خوف نہیں ہونا چاہیے کہ برطانیہ اور امریکہ کی خواہشات کے برعکس اسرائیل عرب ممالک کے خلاف کوئی جارحانہ پالیسی بنائے گا۔ لیکن اگر مغربی طاقتوں کو کسی بھی وجہ سے اپنی آنکھیں بند کرنا پڑےں تو اسرائیل پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ایسی ایک یا متعدد ریاستوں کی سرزنش کرے جو مغرب کو ناقابل برداشت حد تک آنکھیں دکھاتی ہیں۔“

اسرائیل کے قیام کے پہلے دس سالوں میں امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے باری باری اس کے سرپرست کا کردار ادا کیا۔ 1948ءسے لے کر ساٹھ کی دہائی کی شروعات تک فرانس نے اسرائیل کے سب سے اہم اسلحہ فراہم کنندہ اور اس کے ایٹمی پروگرام کے سپانسر کا کردار ادا کیا۔ فرانس کی سرپرستی کے بدلے اسرائیل نے الجزائر اور ویتنام میں فرانس کی نوآبادیاتی پالیسی کی حمایت کی۔ جب 1952ءمیں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں جمال عبدالناصر مصر میں اقتدار پر براجمان ہوا تو بین گیرون کو تشویش لاحق ہوئی کہ ”ناصر نے عربوں کے حوصلے بلند کر دئیے ہیں۔ ان کے کردار تبدیل کر کے انہیں ایک جنگجو قوم میں بدل دیا ہے۔“ مغرب کو ناصر کے خلاف مداخلت پر اکسانے کے لیے اسرائیلی جاسوسوں نے 1954ءمیں مصر میں امریکی اور برطانوی سفارت خانوں میں بم دھماکے کرائے لیکن اس کے اُلٹ نتائج نکلے۔ مصری حکام نے اسرائیلی جاسوسوں کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا اور انہیں پھانسی دی۔ ردعمل میں اسرائیل نے غزہ (جو اس وقت مصر کے کنٹرول میں تھا) پر حملہ کر کے 37 افراد کو قتل کیا۔ بعد میں ہونے والے انکشافات سے واضح ہوا کہ اسرائیل کے خفیہ ادارے کے سربراہ نے ان بم دھماکوں کا حکم دیا تھا (ممکنہ طور پر بین گیرون کے قریبی حلقے اس منصوبے سے باخبر تھے)۔ بعد میں اس اسکینڈل ”لیون افیئر“ (کیونکہ بین گیرون نے تمام تر الزام وزیر دفاع پنہاس لیون پر ڈالنے کی کوشش کی) کی وجہ سے بین گیرون کو اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ تاہم اس اسکینڈل سے واضح ہوا کہ دہشت گردی اور اہم شخصیات کا قتل اسرائیلی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

اسرائیل کی تمام تر کوششوں کے باوجود امریکہ کو اب بھی یقین نہیں تھا کہ وہ خطے میں اس کے مفادات کی نگہبانی کر سکتا ہے۔ پچاس کی دہائی میں امریکہ نے عرب حکومتوں بشمول مصر کے ساتھ اپنے تعلقات قائم رکھے۔ جب 1956ءمیں اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مصر کے خلاف جنگ شروع کی تو امریکہ نے جنگ کی مخالفت کی اور اپنے اتحادیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ امریکہ اس طرح کی خودمختاری کا مظاہرہ اس وجہ سے بھی کر سکتا تھا کیونکہ اسے پتا تھا کہ خطے میں فرانس اور برطانیہ کا اثر و رسوخ ختم ہو رہا ہے۔ اس طرح امریکہ نے اپنے ”اتحادیوں“ کی رکاوٹ کے بغیر خطے میں اپنی مکمل دھاک بٹھانے کی تیاری کر لی۔ 1958ءمیں امریکہ نے لبنان میں صدر شمون کی دائیں بازو کی حکومت کی حمایت کے لیے امریکی بحری فوجیں بھیجیں۔ لیکن امریکی اقدامات سے عرب قوم پرستوں کا ابھار نہیں رکا (جنہوں نے 1958ءمیں عراق اور 1962ءمیں یمن کی مغرب نواز حکومتوں کا تختہ الٹ دیا)۔ نہ ہی وہ انہیں روسی حمایت حاصل کرنے سے روک سکے۔ ایسے میں امریکہ نے اسرائیل کی جانب ایک ”اسٹریٹجک اثاثے“ کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کی 1958ءکی ایک دستاویز میں لکھا تھا کہ ”ریڈیکل عرب قوم پرستی کی مخالفت کا منطقی نتیجہ اسرائیل کی حمایت ہو گی جو مشرق وسطیٰ میں واحد طاقتور مغرب نواز طاقت ہے۔“

امریکہ کا اسٹریٹجک ڈاکٹرائن مغرب نواز ریاستوں کا ایک نیٹ ورک بنانا تھا تاکہ کسی بھی مغرب مخالف عرب ملک کو قابو میں لایا جا سکے۔ سالوں تک امریکہ نے اس اتحاد کی تشکیل کے لیے ترکی، شاہ ِ ایران، اسرائیل اور خلیج کی بادشاہتوں پر تکیہ کیا لیکن اسرائیل تب اس کی آنکھ کا تارا بن گیا جب 1967ءکی جنگ میں اس نے ایک تیز رفتار فتح حاصل کی۔ مہینوں تک اپنے عرب ہمسایوں کو اشتعال دلانے کے بعد اسرائیل نے جون 1967ءمیں حملہ کیا تاکہ ناصر ازم کا گلہ گھونٹ دیا جائے اور فلسطین کے باقی ماندہ علاقوں پر بھی قبضہ کیا جائے۔ چھ دنوں میں اسرائیل نے مصر، شام اور اردن کی افواج کو معذور کر کے رکھ دیا۔ اس نے شام سے گولان کی پہاڑی، اردن سے مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم اور مصر سے غزہ کی پٹی اور جزیرہ نما سینا قبضے میں لے لیے۔ عرب ریاستوں میں گھس کر فوجی کاروائی نے امریکہ کی نظر میں اسرائیل کے قد کو اونچا کر دیا۔ حتیٰ کہ امریکہ نے سینا کے ساحل پر لنگرانداز امریکی بحری بیڑے ”لبرٹی“ پر اسرائیلی حملے کو بھی نظرانداز کر دیا۔ اسرائیلی طیاروں نے لبرٹی پر بمباری کی اور اس کے بحری جہازوں نے اسے ڈبو دیا جس میں چونتیس امریکی مارے گئے۔

امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو انعام فوری طور پر ملا۔ 1967ءاور 1972ءکے دوران اسرائیل کے لیے مجموعی امریکی امداد 6.4 اَرب ڈالر سے 9.2 اَرب ڈالر سالانہ ہو گئی۔ امریکی ساختہ ہتھیاروں کی خریداری کے لیے قرضے ساٹھ کی دہائی میں سالانہ 22 ملین ڈالر سے بڑھ کر 1970ءاور 1974ءکے درمیان 445 ملین ڈالر ہو گئے۔ حتیٰ کہ امریکی کانگریس نے پینٹاگون کو اجازت دی کہ وہ ادائیگی کی پرواہ کیے بغیر ہی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کر سکتا ہے۔ 1971ءمیں ہاﺅس سپیکر جان مکورمیک نے کہا تھاکہ ”برطانیہ کوہٹلر کے ساتھ جنگ میں فوجی کمک کی مد میں امریکہ کی جانب سے جنگ کے عروج کے دنوں میں بھی اس طرح کا بلینک چیک نہیں ملا تھا۔“ بالآخر اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے ”اسٹریٹجک اثاثے“ کی حیثیت حاصل کر لی۔ ڈیموکریٹک سینیٹر ہنری جیکسن نے مئی 1973ءمیں کہا تھاکہ ”بحیرئہ روم میں اسرائیل اور خلیج فارس میں ایران کی مغرب نوازی تیل تک امریکی رسائی کو ممکن بناتی ہے۔ یہ بعض عرب ریاستوں میں اُن غیر ذمہ دار اور ریڈیکل عناصر کا قلع قمع کرتے ہیں جن کو اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو وہ خلیج میں ہمارے تیل کے ذخائر کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔“

علاقائی سطح پر امریکی پالیسی پر عمل درآمد کروانے کے لیے اسرائیل کا کردار نکسن انتظامیہ کی بعد از ویتنام وضع کردہ پالیسی کے عین مطابق تھا جس کے تحت امریکی خارجہ پالیسی پر عمل درآمد مقامی گماشتہ ریاستوں کے ذریعے کیا جانا تھا۔ نکسن اور اس کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہنری کسنجر نے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کی حفاظت کے لیے سعودی عرب، شاہ ِ ایران اور اسرائیل پر مشتمل ایک ”اسٹریٹجک مثلث“ تشکیل دی۔ 1973ءکی اسرائیل مصر جنگ کے دوران نکسن نے امریکی افواج کو ایٹمی جنگ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی۔ اس نے امریکہ کے ”اسٹریٹجک اثاثے“ کی حفاظت کے لیے جان بوجھ کر ایٹمی جنگ کا خطرہ مول لیا۔

امریکہ کے غلیظ کاموں کی انجام دہی

اسرائیل نے امریکہ کی جانب سے نئی تفویض کردہ ذمہ داریوں کو تندہی سے سرانجام دیا۔ جب شاہ حسین نے ستمبر 1970ءمیں اردن میں فلسطینی گوریلا جنگجوﺅں کو کچلنا شروع کیا تو شام نے اردن پر حملہ کر دیا۔ اپنا تختہ الٹنے کے خوف سے شاہ حسین نے امریکہ اور اسرائیل سے مداخلت کی درخواست کی۔ ہنری کسنجر نے یہ پیغام اسرائیلی وزیر دفاع اسحاق رابین کو پہنچایا۔ ”شاہ حسین نے ہم سے رابطہ کر کے اپنی فوج کی صورت حال سے آگاہ کیا ہے اور یہ درخواست آپ کو پہنچانے کا کہا ہے کہ آپ کی فضائیہ شمالی اردن میں شامیوں پر حملہ کرے۔ مجھے فوری جواب چاہیے۔“ رابین نے امریکہ کے اردن کے لیے قاصد کا کردار ادا کرنے پر اعتراض کیا لیکن درخواست پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اسرائیل نے اپنی فوج کو تیار کیا اور اردن کے لیے ڈھال کا کردار ادا کیا۔ ایک دن میں ہی شاہ حسین نے صورت حال پر قابو پا لیا اور فلسطینی جنگجوﺅں کو نکال دیا۔

اردن کے بحران نے امریکہ کے لیے اسرائیل کی ایک اور اہمیت کو واضح کیا: مشرق وسطیٰ میں رجعتی ریاستوں کو بچانا۔ لیکن اسرائیل نے امریکہ کے لیے غلیظ کاموں کی انجام دہی کو صرف مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رکھا۔ 1948ءسے دنیا میں ہر امریکہ نواز جابر آمریت کو اسرائیل کے ذریعے خفیہ یا اعلانیہ عسکری امداد ملتی رہی ہے۔ کانگریس کی جانب سے جابر حکومتوں کو امداد دینے پر پابندی سے بچنے کے لیے امریکہ یہ ہتھیار اسرائیل کے ذریعے انہیں پہنچاتا ہے۔ امریکہ اور سی آئی اے ڈیتھ سکواڈز اور دہشت گردوں کی تربیت کا ٹھیکہ اسرائیل کو دیتے ہےں۔ مندرجہ ذیل مثالیں اس عمل کو زیادہ واضح کرتی ہیں:

٭ اسرائیلی فوجی ایڈوائزروں نے شاہ ِ ایران، زائر، مرکزی افریقی جمہوریہ، یوگانڈا اور رھودیشیا کی فوج اور خفیہ پولیس کی تربیت کی۔

٭ 1978ءمیں اسرائیل نے انڈونیشیا کو امریکی جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر اس وقت فروخت کیے جب انڈونیشیا مشرقی تیمور میں قتل عام کر رہا تھا۔ آج تک انڈونیشیا نے دو لاکھ سے زائد تیموری قتل کیے ہیں۔ اسلحے کی یہ تجارت آج بھی جاری ہے۔

٭ نکاراگوا میں سوموزا آمریت کے آخری دنوں میں سوموزا نے پچاس ہزار افراد کے قتل عام میں استعمال ہونے والے اسلحے کا 98 فیصد اسرائیل سے خریدا تھا۔

٭ 1980ءمیں گوئٹے مالا کی قاتل فوجی آمریت کے تمام تر ہتھیاروں کا 83 فیصد اسرائیل نے فراہم کیا۔

٭ ستر اور اَسی کی دہائی میں اسرائیل نے ارجنٹائن، چلی اور برازیل کی فوجی آمریتوں کو اسلحے کی فروخت سے ایک اَرب ڈالر سے زائد منافع کمایا۔

٭ 1977ءمیں اسرائیلی وزیر خارجہ موشے دیان نے اعلان کیا کہ اسرائیل جنوبی افریقہ کی نسل پرست حکومت کو اسلحے کی فروخت کی عالمی پابندی پر عمل نہیں کرے گا۔ ایک اسرائیلی اخبار نے اعتراف کیا، ”یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جنوبی افریقہ کے فوجی کیمپوں میں اسرائیلی فوجی افسران کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے جو سفید فام سپاہیوں کو سیاہ فام دہشت گردوں سے لڑنے کے طریقے سیکھا رہے ہوتے ہیں۔“

٭ اسرائیل نے ایک عالمی دہشت گرد نیٹ ورک تشکیل دیا ہوا تھا جو پاناما کی فوجی آمریت، نکارا گوا کی دہشت گرد پراکسیوں، مشرق وسطیٰ کے اسلحے کے ڈیلروں، برونائی کے سلطان اور سی آئی اے کے درمیان ہتھیار اور منشیات سپلائی کرتا تھا۔

اسرائیل کی معیشت کا پانچواں حصہ ہتھیاروں کی پیداوار سے متعلق ہے جو ہتھیاروں کے معاہدوں اور تجارت سے خوب کماتا ہے۔ لیکن اسرائیل کی جانب سے ان قاتل آمریتوں کی حمایت کی ایک اور بنیادی وجہ بھی ہے۔ ایک ایسی ریاست جس کا وجود سامراج کے ساتھ مل کر تحریک آزادی فلسطین کو کچلنے پر منحصر ہو وہ اصولی طور پر تیسری دنیا میں جمہوریت یا آزادی کے لیے چلنے والی ہر تحریک کے خلاف ہو گی۔

اسرائیل کے طبقاتی سماج کی فطرت

مشرق وسطیٰ میں سامراجی چوکی کے طور پر اسرائیل اپنی بقا کے لیے بیرونی عسکری، معاشی اور سیاسی کمک پر انحصار کرتا ہے۔ صیہونی خام خیالی کہ اسرائیل کے بانیوں نے اس نخلستان کو ممکن بنایا دراصل اس بات کو نظر انداز کرتی ہے کہ مغرب اور بالخصوص امریکی خزانے سے بڑے پیمانے پر ملنے والی معاشی مراعات ہی اسرائیل کے یورپ کی طرز کے معیار زندگی کو ممکن بنا سکی ہےں۔ اسرائیل کے قیام سے اب تک مختلف ذرائع (اسرائیل سے باہر صیہونی تنظیمیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی جرمنی سے ملنے والا تاوان، امریکی حکومت سے ملنے والی امداد اور قرضے وغیرہ) سے حاصل شدہ دولت مجموعی طور پر اسرائیل کے سرمائے کی برآمدات سے زیادہ رہی ہے۔ ایک اسرائیلی سوسائٹی کے تجزیے کے مطابق ”امریکہ سے سرمائے کی درآمدات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔“ 1949ءسے 1996ءکے دوران امریکہ نے اسرائیل کو 62.5 اَرب ڈالر امداد دی۔ تقریباً اتنی ہی رقم اسی عرصے کے دوران اس نے مجموعی طور پر سب سحارا افریقہ، لاطینی امریکہ اور کیریبین کو دی۔ اسرائیل سالانہ 3 اَرب ڈالر امریکی امداد حاصل کرنے والا واحد بڑا ملک ہے۔ تاہم یہ رقم بھی اسرائیل کو ملنے والی امریکی کمک کا مکمل احاطہ نہیں کرتی۔ اگر صیہونی تنظیموں کو ملنے والی ٹیکس چھوٹ، امریکی کمپنیوں کی جانب سے فروخت کیے جانے والے اسرائیلی بانڈوں اور قرضوں اور امداد کی دوسری شکلوں کو مجتمع کیا جائے تو اسرائیل کے لیے سالانہ امریکی امداد دگنی سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ امداد ہر اسرائیلی کے لیے سالانہ 1400 ڈالر بنتی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کی وجہ سے اسرائیلی فوج خطے میں جدید ترین اور خطرناک ترین ہے۔

امریکی اور مغربی امداد نے اسرائیل کے ارتقا کو مسخ کیا ہے جس کی وجہ سے اس کی سماجی حرکیات دیگر سرمایہ دارانہ سماجوں سے مختلف ہےں۔ کسی بھی دوسرے سرمایہ دارانہ ملک میں مزدوروں اور مالکان کے درمیان طبقاتی کشمکش ملک کے حکمران طبقات کے لیے ایک خطرہ ہوتی ہے۔ لیکن اسرائیل کے بیرونی امداد پر انحصار نے یہودی محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کو کند کیا ہے۔ ایک اسرائیلی انقلابی سوشلسٹ نے وضاحت کی ہے، ”اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اسرائیل میں طبقاتی کشمکش وجود رکھتی ہے لیکن بیرونی امداد کی وجہ سے اس کشمکش کے راستے میں رکاوٹ حائل ہے۔“ اس کے برعکس ”تمام عرب ریاستیں عوامی تحریکوں کے سامنے غیر محفوظ ہیں۔ یہ تحریکیں ان کروڑوں لوگوں کے مفادات کی عکاسی کرتی ہیں جو تیل کی دولت اور مغربی سرمائے کے لیے ہونے والی اصلاحات کے منافعوں سے محروم ہیں۔“ اسی وجہ سے اسرائیل خطے میں سب سے مستحکم امریکی نواز ملک ہے اور مشرق وسطیٰ میں امریکی اتحادیوں میں اس کی سب سے زیادہ مراعات یافتہ حیثیت ہے۔

پچھلی دہائی میں اسرائیلی سماج اور سیاست میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ جہاں امریکہ اسرائیل کے معاشی اور عسکری انفراسٹرکچر کے خرچے برداشت کر رہا ہے وہیں اسرائیل نے متعدد ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کیے ہیں۔ 1990ءاور 1995ءکے دوران اسرائیلی معیشت نے سالانہ اوسط 7 فیصد ترقی کی۔ 1993ءکے اوسلو معاہدے کے بعد اسرائیلی سفارت کاروں کو ان ممالک میں خوش آمدید کہا جانے لگا جہاں پہلے ان کے آنے پر پابندی تھی۔ مستحکم معیشت اور دیگر ممالک سے بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے اسرائیل اب چین اور شمالی کوریا جیسے ممالک سے بھی بڑے بڑے معاہدے کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔ یہ بات یقینا امریکہ کے لیے ناگوار ہے۔

نوے کی دہائی میں دنیا بھر کی حکومتوں کی طرح اسرائیل میں لیکوڈ اور لیبر پارٹی نے بھی ”اصلاحات“ کا آغاز کیا۔ 1996ءمیں منتخب ہونے والی نیتن یاہو کی دائیں بازو کی حکومت نے قومی اداروں کی وسیع نجکاری اور ملک کے فلاحی نظام میں کٹوتیوں کا آغاز کیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں 1997ءکے اواخر میں کئی عام ہڑتالیں ہوئیں۔ یہ واقعات اسرائیلی مزدوروں کی بے چینی کی غمازی کرتے ہےں لیکن صیہونی ریاست یا صہیونی پالیسیوں کے لیے کوئی خاص رکاوٹ نہیں بنے۔ حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کے باوجود یہودی مزدوروں کی اکثریت ریاست اسرائیل سے اپنے آپ کو جوڑتی ہے۔ اس جڑت کی بنیاد دراصل فلسطینی محنت کشوں کو نکال کر یہودی محنت کشوں کی تخلیق تھی۔ یہ بات غریب ترین یہودی اسرائیلیوں کے لیے بھی درست ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک سے آنے والے تارکین وطن اور ان کی اولادوں کو یورپ سے آنے والی اشرافیہ کے ہاتھوں تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ روایتی طور پر یہ ”ایشیائی“ یہودی غریب ترین اسرائیلیوں میں سے ہیں۔ لیکن یہ لوگ نہ صرف اسرائیلی دائیں بازو کی سماجی بنیاد ہیں بلکہ فلسطینیوں کے ساتھ جنگ کے زیادہ خواہاں اور نسل پرست ہیں۔

انفرادی طور پر بہت سے اسرائیلی یہودیوں نے فلسطینی حقوق کے لیے جرا¿ت مندانہ کام کیا ہے۔ لبنان کی جنگ اور انتفادہ نے اسرائیلی فوج کو ترک کرنے والوں اور دیگر باغیوں میں تحریکوں کو جنم دیا۔ لیکن اسرائیلی محنت کشوں کی اکثریت اپنے مفادات کو ریاست اور اس کی صہیونیت کے ساتھ جوڑتی ہے۔ جب تک یہ صورت حال باقی رہتی ہے اسرائیلی حکمرانوں کے ساتھ اپنی جنگ میں یہودی محنت کش کمزور رہیں گے۔ اسرائیل کے یہودی مزدور طبقے کو بطور طبقہ آزادی حاصل کرنے کے لیے صہیونیت سے سیاسی ناطہ توڑنا ہو گا۔

فی الوقت صہیونیت اور اسرائیل کے خلاف بڑے پیمانے پر مزاحمت اسرائیل سے باہر ہی ممکن ہے۔ خطے میں اسرائیل کے کردار کے خلاف سنجیدہ مزاحمت اسرائیلی ریاست کی فطرت کے سوال کو ابھارے گی۔ جیسا کہ اسرائیلی انقلابیوں نے لکھا ہے، ”عرب ممالک میں ایک انقلابی اتھل پتھل اس صورت حال کو تبدیل کر سکتی ہے۔ پوری عرب دنیا میں عوام کا انقلابی تحرک طاقتوں کے توازن کو تبدیل کر دے گا۔ اس سے اسرائیل کا روایتی سیاسی عسکری کردار ختم ہو گا اور سامراجیت کے لیے اس کی افادیت میں کمی آئے گی۔ پہلے تو اس انقلابی تحریک کو کچلنے کے لیے اسرائیل کو شاید استعمال کیا جائے لیکن جب یہ کوشش ناکام ہو گی تو عرب دنیا میں اسرائیل کا سیاسی و عسکری کردار ختم ہو جائے گا۔ جب اسرائیل کے اس کردار اور اس سے جڑی مراعات کا خاتمہ ہو گا تب ہی اسرائیل کے اندر سے صہیونی ریاست کو عوامی مزاحمت کا سامنا ہو گا۔“

اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کے تضادات

امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کی بنیاد متذبذب ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ ”خاص تعلقات“ اس بنیاد پر قائم رکھے ہیں کیونکہ اسرائیل پورے خطے میں سب سے زیادہ مغرب نواز اور مستحکم ملک ہے۔ تاہم امریکہ کو اس بات کا ادراک ہے کہ اسے چند عرب حکومتوں کی حمایت کی بھی ضرورت ہے جن کے عوام امریکہ کے اسرائیل سے تعلقات پر برہم ہیں۔ خطے میں پھیلے ہوئے چونتیس لاکھ فلسطینی مہاجرین اُردن اور لبنان جیسے ممالک کے لیے مسلسل عدم استحکام کا ماخذ ہیں۔ اس لیے اس حقیقت کے باوجود کہ خطے میں ہر شخص کو امریکہ اور اسرائیل کے قریبی تعلقات کا پتا ہے‘ امریکہ اپنے بارے میں اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً 1991ءکی خلیج کی جنگ میں جب امریکہ نے عراق کو کچلنے کے لیے عرب ممالک کا اتحاد تشکیل دیا تو اپنے سب سے بااعتماد اتحادی (اسرائیل) سے مدد نہیں لے سکا کیونکہ اسے پتا تھا کہ عراق کے خلاف اسرائیلی شمولیت سے مصر، شام اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ امریکی اتحاد ٹوٹ جائے گا۔ اس لیے اسرائیل کو معاملے سے باہر رکھا گیا۔ جب عراقی اسکڈ میزائل اسرائیل پر گرنے لگے تو بھی امریکہ نے اسرائیل کو جوابی کاروائی سے باز رکھا۔

نکسن اور کسنجر کی جانب سے شروع کیا گیا ”امن عمل“ امریکہ کی خطے میں استحکام لانے کی کوشش کا اظہار ہے جسے بعد میں آنے والے ہر امریکی صدر نے جاری رکھا ہوا ہے۔ لیکن اس ”امن عمل“ کا فلسطینیوں کے لیے امن اور انصاف لانے سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ نے اس امن عمل کو فلسطینیوں سے معاملات طے کرنے کی بجائے عرب ممالک کا اسرائیل کے ساتھ جھگڑا ختم کروانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ چونکہ امن عمل خطے میں عدم استحکام کی اصل وجہ (فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے بے دخلی) کو خاطر میں نہیں لاتا اس لیے اس سے خطے میں کوئی امن نہیں آ سکتا۔

امن عمل نے پہلا مطلوبہ نتیجہ 1979ءمیں دیا جب مصر اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ امن معاہدہ کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔ معاہدے کے تحت جزیرہ نما سینا، جس پر اسرائیل نے 1967ءکی جنگ میں قبضہ کیا تھا، کو مصر کے حوالے کیا گیا ۔ دوسری طرف فلسطینیوں کو صرف یہ اجازت دی گئی کہ اپنے مستقبل کے تعین میں شریک ہو سکتے ہیں۔ نہ کہ اپنے مستقبل کا تعین کر سکتے ہیں۔ اس معاہدے سے صرف مصری، اسرائیلی اور امریکی مفادات پورے ہوئے جبکہ فلسطین کو کچھ بھی نہیں ملا۔ مصر کو 3.5 اَرب ڈالر کی سالانہ امداد کے ذریعے امریکہ کو ایک نیا عرب اتحادی مل گیا۔ مصر نے مغربی سرمایہ کاری کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے۔ مصر کے ساتھ امن معاہدہ کر کے اسرائیل نے خطے میں اپنے سب سے بڑے عسکری حریف کو رام کر لیا۔ اس سے اسرائیلی فوج کھل کر اپنے سب سے بڑے دشمن فلسطینیوں پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے قابل ہو گئی۔

1970ءمیں اُردن سے بے دخل ہونے کے بعد پی ایل او (تحریک آزادی فلسطین کی نمائندہ جماعت) نے اپنا ہیڈکوارٹر لبنان میں قائم کیا۔ مصر کے ساتھ ”امن“ معاہدہ طے کرنے کے تین سال بعد اسرائیل نے لبنان پر حملہ کردیا جس کے دو مقاصد تھے: پی ایل او کو لبنان سے نکالنا اور ملک پر اسرائیل نواز دائیں بازو کی حکومت قائم کرنا۔ چھ ہفتوں میں اسرائیلی فوج نے انیس ہزار شہریوں کو قتل اور تیس ہزار سے زائد کو زخمی کیا۔ اسرائیلی طیاروں نے بیروت کی آبادیوں پر کلسٹر اور فاسفورس بم گرائے۔ اسرائیلی سرپرستی میں عیسائی فاشسٹ فالانژ ملیشیا نے مہاجرین کیمپوں میں دو ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ پی ایل او کو لبنان سے نکال دیا گیا۔ نام نہاد امن معاہدے سے مزید جنگوں کی بنیاد رکھ دی گئی۔

نیا مشرق وسطیٰ؟

1991ءکی خلیج جنگ میں عراق کی امریکہ کے ہاتھوں شکست کے بعد اسرائیل کے سب سے بڑے حریف کا خاتمہ ہو گیا جس کے پاس اسرائیل کو کسی حد تک نقصان پہنچانے کی عسکری صلاحیت تھی۔ اس جنگ سے پی ایل او بھی بہت کمزور ہو گئی۔ سوویت یونین اور یورپ کی دیگر سٹالنسٹ ریاستوں کی جانب سے مالی اور سفارتی امداد بند ہونے کے بعد پی ایل او کو خلیج جنگ کے نتیجے میں دو اور بحرانوں کا سامنا ہوا۔ خلیج کی تمام بادشاہتوں نے پی ایل او کی مالی امداد بند کر دی اور چار لاکھ سے زائد فلسطینی مزدوروں کو ملک بدر کر دیا جن کی ترسیلات زر فلسطینیوں کی معاشی زندگی کے لیے نہایت اہمیت رکھتی تھی۔ جنگ کے بعد امریکہ کو مشرق وسطیٰ کے لیے ایک اور ”امن عمل“ شروع کرنے کا موقع ملا۔

1992ءمیں اسرائیل کی منتخب ہونے والی لیبر حکومت تین وجوہات کی بنا پر پی ایل او کے ساتھ ”امن“ مذاکرات کرنے پر رضامند ہوئی۔ پہلی وجہ، اسرائیل 1987ءکے فلسطینی انتفادہ کو روکنے میں ناکام ہوا۔ غزہ اور مغربی کنارے پر قبضے کے اخراجات اسرائیلی معیشت پر بوجھ بن گئے تھے۔ انتفادہ سے پہلے اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں دس سے پندرہ ہزار اسرائیلی فوجیوں اور فلسطینی جاسوسوں کے ذریعے معاملات سنبھالتاتھا۔ انتفادہ کے نتیجے میں جاسوسوں کا یہ نیٹ ورک تباہ ہو گیا اور مجبوراً اسرائیل کو براہ راست فوجی قوت کے ساتھ ان علاقوں کو کنٹرول میں لانا پڑا۔ انتفادہ کے عروج پر مقبوضہ علاقوں میں 180,000 اسرائیلی فوجی موجود تھے۔ 1987ءسے 1993ءکے دوران بغاوت کو کچلنے کے لیے اسرائیلی فوجیوں نے 1200 سے زائد فلسطینیوں، جن میں 344 بچے بھی شامل تھے، کو قتل کیا۔

سابقہ سوویت یونین سے 525,000 یہودی تارکین وطن کے آنے کے بعد بحران مزید سنگین ہو گیا۔ ان کے روزگار، رہائش اور دیگر اخراجات کی وجہ سے اب اسرائیل اپنے بجٹ کے ایک تہائی سے لے کر نصف حصے کو فوج پر خرچ نہیں کر سکتا تھا۔ فلسطینیوں کو کچلنے کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے یہ کام پی ایل او کے یاسر عرفات دھڑے کے فتح کے حوالے کیا گیا۔ جیسا کہ بدبین اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا، ”غزہ میں نظم و نسق قائم کرنے کے لیے میں فلسطینیوں کو ترجیح دوں گا۔ وہ یہ کام بہتر طریقے سے کریں گے کیونکہ وہ سپریم کورٹ میں اپیل بھی نہیں کرنے دیں گے اور اسرائیل کی شہری حقوق کی تنظیمیں وہاں کی صورت حال پر تنقید بھی نہیں کر پائیں گی۔ وہ اپنے طریقے سے حکومت کریں گے اور اسرائیلی فوج کی جان چھوٹے گی۔“

دوسری وجہ، اسرائیل یاسر عرفات کی فتح تحریک کو حماس کی نسبت کم تر برائی سمجھتا تھا۔ عرفات (جس کی تنظیم اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی) کے نزدیک یہ معاہدہ فلسطین کے ایک چھوٹے حصے پر حکومت حاصل کرنے کا آخری موقع تھا۔ اسرائیلی پیشکش کو دیکھتے ہوئے عرفات نے فلسطینی مہاجرین کے مسئلے کو خیرباد کہہ دیا جن کا اوسلو معاہدے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ یروشلم کے حتمی تشخص جیسے مسائل کو مستقبل کے غیر معینہ مذاکرات کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

تیسری وجہ، اسرائیلی سرمایہ داروں کو امید تھی کہ اس معاہدے سے عرب ممالک کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی آزاد تجارت کے بلاک میں ان کے غلبے کا راستہ کھلے گا۔ اسرائیلی پروپیگنڈے کے برعکس اُردن، شام اور دیگر ریاستیں سالوں سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہتی تھیں لیکن فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی کیفیت میں وہ داخلی عوامی ردعمل کی وجہ سے ایسا کرنے سے ہچکچاتی تھیں۔ یاسر عرفات کے معاہدے سے ان کا راستہ بھی کھل گیا۔

فلسطینی اتھارٹی (Palestinian Authority) کی عملداری میں آنے والے علاقوں میں عرفات نے اسرائیل کی پولیس کا کردار ادا کیا۔ اس نے فلسطینی اتھارٹی میں فتح کے عہدیداروں کو تعینات کیا اور پچاس ہزار پولیس اور نیم فوجی دستوں پر مشتمل سکیورٹی کا ایک ایسا نظام تشکیل دیا جو اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے مخالفین‘ حتیٰ کہ ناقدین کو بھی کچلتا تھا۔ فلسطینی اتھارٹی میں اصل اختیار اب بھی اسرائیل کے پاس ہے جو سرحدوں کو کنٹرول کرتا ہے اور اپنی مرضی سے ”خودمختار“ علاقوں میں مداخلت کرتا ہے۔ حتیٰ کہ 1996ءمیں فلسطینی اتھارٹی کی قانون ساز کونسل کے منتخب اراکین کو پہلے اسرائیل سے منظوری لینا پڑی جس کی وجہ سے کونسل میں عرفات اور اوسلو معاہدے کے حمایتیوں کی اکثریت ہو گئی۔ الیکشن کے نتیجے میں یہ احساس مزید گہرا ہو گیا کہ ایک نئی حکمران اشرافیہ وجود میں آ چکی ہے جن کے معاشی مفادات اسرائیل سے بندھے ہوئے ہیں۔

معاشی طور پر اسرائیل فلسطینی اتھارٹی پر غالب ہے۔ وہ نہ صرف علاقے کے تمام وسائل اور تجارت پر قابض ہے بلکہ مختلف پابندیاں نافذ کر کے ”خودمختار“ علاقوں کی معاشی ترقی کو بھی روکتا ہے۔ اس کے علاوہ بار بار مغربی کنارے اور غزہ کے راستے بند کر کے فلسطینی مزدوروں کو مزید معاشی بدحالی کی طرف دھکیلتا ہے۔ اسرائیل کے نزدیک فلسطینی اتھارٹی اس کی سروس انڈسٹری کے لیے سستی محنت کا بڑا ذریعہ ہے جسے ضرورت کے وقت کام پر لیا جاتا ہے اور بعد میں نکال باہر کیا جاتا ہے۔

آج 1993ءکے اوسلو معاہدے کی بنیاد پر تشکیل پانے والے ”امن عمل“ میں کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ 1996ءمیں نیتن یاہو کی حکومت (جو اوسلو معاہدے کی مخالفت پر منتخب ہوئی تھی) کے آنے کے بعد اسرائیل سابقہ لیبر حکومت کے معاہدوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ 1997ءمیں جب نیتن یاہو نے مشرقی یروشلم میں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے منصوبے کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا تو اس کا مطلب صرف اوسلو معاہدے پر عمل درآمد کو روکنا نہیں بلکہ اسے نئے سرے سے ترتیب دینا تھا۔

کیا اسرائیل اب بھی خطے کی تھانیدار ریاست ہے؟

اسرائیل، جو خطے کی واحد ایٹمی قوت ہے، خطے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ پچھلی دہائیوں میں اسرائیل نے خطے کی تمام بڑی جنگوں کا یا تو آغاز کیا یا ان میں حصہ لیا۔ یہ باقاعدگی سے اپنی سرحدوں سے باہر فوجی آپریشن کرتا رہتا ہے۔ جیسے 1996ءمیں لبنان پر بمباری کر کے چار لاکھ سے زائد شہریوں کو بے گھر کیا۔ اس کے علاوہ اپنی خفیہ ایجنسی موساد کی تیار کی ہوئی فہرست کی بنیاد پر باقاعدگی سے اپنے دشمنوں پر قاتلانہ حملے کرتا رہتا ہے۔ باوجودیکہ ”کمیونزم“ کو قابو کرنے کے لیے اسرائیل کی حمایت کرنے کی دلیل ختم ہو چکی ہے‘ امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اسرائیل کا کردار موجود ہے۔ سابق اسرائیلی جنرل شلمو گازت نے اسرائیل کی سامراجیت کے لیے خدمات کو واضح طور پر بیان کیا ہے، ”سرد جنگ کے بعد بھی اسرائیل کے فرائض تبدیل نہیں ہوئے اور اس کی اہمیت برقرار ہے۔“

گازت کے مطابق اسرائیل کسی بھی عرب ریاست میں فوجی مداخلت کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ بالخصوص ایسی ریاستوں میں جہاں عوامی یا فوجی بغاوت کا خطرہ ہو۔ ایسے خطرات کا عرب اسرائیل کشمکش سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ خطرات ان ریاستوں کی سماجی و معاشی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے وجود رکھتے ہےں۔ اس طرح کی تبدیلی اسرائیل اور اس کے ہمسایوں کے درمیان تعلقات کو یکسر تبدیل کر سکتی ہے۔ گازت نے مزید لکھا ہے، ”سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مشرق وسطیٰ کی بہت سی ریاستوں کے سرپرست ختم ہو گئے۔ ایک خلا پیدا ہوا جس سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ ایسے حالات میں مشرق وسطیٰ میں استحکام برقرار رکھنے کا اسرائیل کا کردار کم نہیں بلکہ اور زیادہ ہوا۔ اسرائیل کی غیر موجودگی میں مغرب کو یہ کام خود کرنا پڑے گا لیکن موجودہ عالمی طاقتیں مختلف داخلی اور عالمی مسائل کی وجہ سے یہ کام نہیں کرسکتیں۔ اس کے برعکس اسرائیل کے لیے مداخلت کرنا اس کے وجود کے لیے لازمی ہے۔“

اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے ”استحکام“ کا ضامن ہے۔ استحکام قائم رکھنے کا مطلب خطے کی صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنا ہے اور صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا مطلب جابرانہ حالات کو قائم رکھنا ہے۔ جو مستقبل میں مزید جنگوں کی بنیاد بنیں گے۔