عمر عبداللہ

جب انسان کا حال بربادی کی تصویر بن چکا ہو اور اس کے پاس مستقبل کو لے کر کوئی خاطرخواہ امید موجود نہ ہو تو وہ ماضی میں پناہ ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے۔ ماضی کی یادوں کو اپنی خواہشات پر ترتیب دیتے ہوئے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور ان کے ذریعے اپنی تلخ حقیقت سے فرار حاصل کرتا ہے۔ 2008ء کے معاشی بحران کے بعد جنم لینے والی سیاسی صورت حال بھی کچھ ایسی ہی کیفیت کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں دائیں بازو کے پاپولسٹ لیڈروں کا ابھار نظر آتا ہے جو ماضی کی خوبصورت اور مبالغہ آرائی پر مبنی منظر کشی کرتے ہوئے مستقبل کے ایسے سہانے خواب دکھاتے ہیں جو اب اس نظام کے اندر ممکن ہی نہیں ہیں۔ 1929ء کے گریٹ ڈیپریشن کے بطن سے جنم لینے والے انقلابی حالات اور سوویت یونین کی موجودگی سے خوف زدہ ہو کر امریکی حکمران طبقے نے وقتی طور پر نام نہاد ویلفیئر سٹیٹ کو اپنایا تھا۔ روز ویلٹ کی نیو ڈیل کے ذریعے محنت کش بے شمار مراعات جیتنے میں کامیاب ہوئے اور اگلی کئی دہائیوں تک نسبتاً خوشحالی کا دور دیکھا گیا۔لیکن آج کی سرمایہ داری میں یہ سب ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں 2008ء کے بحران کے بعد پیدا ہونے والا برنی سینڈرز کا ڈیموکریٹک سوشلزم اور اس کی گرین نیو ڈیل درحقیقت وہی سوشل ڈیموکریسی ہے جو 1984ء میں اپنا عروج دیکھ کر ختم ہو چکی ہے۔ دوسری طرف ہمیں ٹرمپ جیسوں کی صورت میں ایک اور رحجان نظر آتا ہے جو ’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے‘ کے خیال کے ذریعے قوم پرستی کے کھنڈرات میں مستقبل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے۔

سرمایہ داری کے موجودہ بحران میں دولت ہر بدلتے دن کے ساتھ چند لوگوں کے ہاتھوں میں مجتمع ہوتی جا رہی ہے۔ شرح منافع گراوٹ کا شکار ہے لہٰذا سرمایہ کاری پیداواری شعبے کی بجائے رئیل سٹیٹ اور سٹاک مارکیٹ میں کی جا رہی ہے جو نیاروزگار جنم دینے سے قاصر ہیں۔ سماج کے اندر بیروزگاری اپنے عروج پر کھڑی ہے اور حقیقی اجرتیں مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔ موجودہ عہد کا حکمران طبقہ ماضی کی طرح سو سو سال کی منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے اور اب مسلسل بحرانات اور ان سے جنم لینے والے واقعات کے ردعمل میں صرف وقتی ”کرائسز مینیجمنٹ“ کرنے پر مجبور ہے۔ جو بائیڈن کا حالیہ 1.9 ٹریلین ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج اسی عمل کی عکاسی کرتاہے جس میں ایک خاص سطح سے کم آمدنی والے لوگوں کو اگلے چند مہینوں تک ماہانہ 1400 ڈالر دیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ چائلڈ کیئر کی مد میں مزید 300 ڈالر دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے معیشت میں پیسہ انجیکٹ کر کے اس کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بائیڈن کے اس عمل پر لبرل بغلیں بجاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں لیکن اس سے اصل بحران کی صحت پر کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔ بلکہ اس کے برعکس یہ سارا عمل اسی کنزیومرازم کی بلا کو خوراک فراہم کرے گا جو ماحولیاتی تباہی کی ماں ہے اور جس کی وجہ سے حالیہ وبا جیسی قدرتی آفات پھوٹ رہی ہیں۔

امریکی سماج اور محنت کش طبقہ اس وقت بدترین پولرائزیشن کا شکار ہے جو سیاسی افق پر تین بڑے سیاسی رجحانات میں اپنی عکاسی کر رہی ہے۔ ایک رجحان وائٹ کالر پروفیشنل کارپوریٹ ورکنگ کلاس کا ہے جو امریکہ کے سب اربن علاقوں میں مجتمع ہے اور جو بائیڈن جیسے کارپوریٹ ڈیموکریٹوں یا نیو لبرل ازم میں اپنا سیاسی اظہار ڈھونڈتی ہے۔ دوسرا رجحان محنت کش خاندانوں کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اور کسی حد تک منظم بلیو کالر ورکنگ کلاس کا ہے جو برنی سینڈرز کی طرف مائل ہوئے اور آنے والے دنوں میں زیادہ ریڈیکل رجحانات کی طرف جھکاؤ اختیار کر سکتے ہیں۔ تیسرا رجحان سفیدپرولتاریہ کی پچھڑی ہوئی پرتوں کا ہے جو امریکہ کی ان ریاستوں میں موجود ہے جو نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے تحت ہونے والی آؤٹ سورسنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ یہ رجحان ٹرمپ کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا رہا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد امریکہ کی جنوبی ریاستوں کی وہ مڈل کلاس بھی شامل ہے جنہیں حالات بہتر ہونے کی امید نے ٹرمپ جیسوں کی حمایت پر مجبور کیا ہوا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کا حکمران طبقہ ہے جو پہلے ٹرمپ کی حمایت کر کے اسے اقتدار میں لائے لیکن ٹرمپ کے طرز عمل اور طریقہ کار، جو پورے نظام کے لئے عدم استحکام کا باعث تھا، کی وجہ سے ایک دفعہ پھر بائیڈن جیسے اپنے قابل اعتبار نمائندے کو اقتدار میں واپس لانے پر مجبور ہوئے۔ یوں اس کورونا بحران کی تمام تر ذمہ داری ٹرمپ پر ڈال دی گئی جو بنیادی طور پر امریکہ کے پرائیویٹ صحت کے نظام کی ناکامی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ لبرل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی تو ٹرمپ جیسی بلائیں ان کی گردنوں پر چڑھ جائیں گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ امریکی حکمرانوں نے ٹرمپ کو ہمیشہ کے لئے بے دخل کر دیا ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال حالیہ الیکشن میں ٹرمپ کا اقتدار منتقل کرنے سے انکار اور اپنے حامیوں کے ذریعے پارلیمنٹ پر حملہ کروانے کے باوجود اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہ ہونا ہے۔ جبکہ اگر یہی حرکت برنی سینڈرز کے حامیوں یا بلیک لائیوز میٹر کے کارکنوں نے کی ہوتی تو امریکی ریاست انہیں عبرت کا نشان بنا دیتی۔

اس سب کے ساتھ ساتھ ایک اور بنیادی تبدیلی یہ ہے کہ آج کے ”پوسٹ ماڈرن حکمران“ حقائق کو ماننے سے ہی انکاری نظر آتے ہیں۔ مثلاً ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں اوباما کی تقریب سے کم لوگوں نے شرکت کی لیکن ٹرمپ اس بات پر بضد تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ٹرمپ کی ایک ترجمان نے آ کر ”آلٹرنیٹ فیکٹس“ (متبادل حقائق) نامی ایک اصطلاح ایجاد کرتے ہوئے اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش کی۔ آج سوشل میڈیا بنیادی طور پر لوگوں کے گرد ایک ”ایکو چیمبر“ کھڑا کر دیتا ہے جس میں انہیں صرف اپنی آواز ہی سنائی دیتی ہے۔ ٹرمپ کی سپورٹ بھی اسی طرح کے ایکو چیمبر میں پھنس چکی ہے جن کی اس حقیقی دنیا سے باہر اپنی ایک دنیا ہے جہاں ٹرمپ ایک مسیحا ہے جو ساری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لڑ رہا ہے۔ رائٹ ونگ کے سازشی نظریہ دان مسلسل اس دنیا کی تعمیر کرتے رہتے ہیں اور جو بھی وہ کہتے ہیں ٹرمپ کے حامی اسے سچ سمجھ کے قبول کر لیتے ہیں۔ پاکستان میں عمران خان کا مظہر بھی اس سے خاصا ملتا جلتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ہم اس پورے عمل کو پھیلتا ہوا دیکھ سکتے ہیں جہاں دن بدن سچ کو جھوٹ سے الگ کرنا مشکل ہوتا چلا جائے گا۔

اس تمام تر صورت حال میں جہاں حکمران طبقے کی طرف سے جدید صنعتوں کے مزدوروں کو منظم نہ ہونے دینے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے وہاں گوگل اور ایمازون جیسے اداروں کے محنت کشوں کی یونین سازی کی جدو جہد ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانندہے۔ گوگل کے محنت کشوں نے پچھلے سال ٹیک انڈسٹری کی پہلی یونین کی بنیاد رکھی ہے۔ ایمازون کے اندر یونین سازی کی پہلی کوشش اگرچہ کامیاب نہیں ہو سکی (جس کی ایک بڑی وجہ ایمازون کے محنت کشوں کے کام کی نوعیت ہے) لیکن آنے والے دنوں میں ایسی مزید تحریکیں ابھر سکتی ہیں۔ دوسری طرف ایمازون جیسے اداروں کی انتظامیہ کی دیو ہیکل طاقت ہے جو یونین سازی کو روکنے کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔ لیکن ایک ایسی کمپنی جس کا مالک آنے والے چند سالوں میں پہلا ٹریلینئر بننے والا ہو اور اس کے مزدوروں کو باتھروم تک جانے کی بریک نہ ملے اور ڈبیوں میں پیشاب کرنا پڑے وہاں کب تک یونین سازی کو روکا جا سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ان تمام جدید شعبوں میں جو 1984ء کے بعد وجود میں آئے یا وہ شعبے جہاں یونین کا اب تک کوئی تصور موجود نہیں تھا جیسے میکڈونلڈز وغیرہ میں یونین سازی کے لئے جدوجہد دیکھنے میں آ سکتی ہے اور چونکہ یہ ٹرانس نیشنل کمپنیاں ہیں چنانچہ کسی ایک خطے کے اندر ان کے محنت کشوں کی کامیابی پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کرے گی۔

یہ قدرت کا قانون ہے کہ سماجی نظام تاریخ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے پیدا ہوتے ہیں، اپنا عروج دیکھتے ہیں اور پھر ایک نئے نظام کو پیدا کرتے ہوئے مٹ جاتے ہیں۔ سامراج کے گڑھ امریکہ کی موجودہ صورت حال اس نظام کے گہرے بحران کی نشاندہی کر رہی ہے۔ اوباما، ٹرمپ، بائیڈن یا برنی سینڈرز سب اسی متروک نظام کے اندر کوئی نہ کوئی جگاڑ ڈھونڈنے کی کوشش کر تے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کا محنت کش طبقہ جہاں ان کو بار بار موقع دے رہا ہے وہاں پر وہ سیکھ بھی رہا ہے اور آنے والے دنوں میں وہ ان سب کو مسترد کرنے کی طرف بھی جا سکتا ہے۔ ایسے میں ناگزیر طور پر نئے سیاسی مظاہر دیکھنے میں آئیں گے۔ چنانچہ امریکہ میں نئی نسل کے انقلابیوں کو اس انقلابی اوزار کی تعمیر کے عمل کو تیز کرنا ہو گا جسے استعمال کر کے امریکی محنت کش طبقہ سرمایہ داری کا خاتمہ کر سکے۔