آصف رشید

ایک ہنگامہ خیز سال سرمایہ دارانہ نظام کے بدترین بحران اور تحریکوں کے ساتھ اختتام پذیر ہو رہا ہے اور ایک نیا سال دھماکہ خیز تضادات اور بحرانوں کے ساتھ شروع ہونے جا رہا ہے۔ جہاں انسانیت کے لیے وبائیں، بیروزگاری، جنگیں، خانہ جنگیاں اور بربادی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ایک مرتے ہوئے نظام کے تعفن کا اظہار کر رہا ہے۔ 2020ءسرمایہ داری کے بدترین سالوں میں سے ایک تھا۔ تقریباً 15 لاکھ سے زائد لوگ پوری دنیا میں کورونا وبا سے لقمہ اجل بن گئے اور وبا کی دوسری لہر کے دوران ہر روز دنیا میں 10 ہزار لوگ اس خوفناک وبا کے باعث موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ منڈی کی معیشت پر مبنی یہ نظام بے پناہ تکنیکی ترقی کے باوجود اس بیماری کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہا ہے۔ کورونا وبا کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاﺅن نے دنیا کے 97 فیصد ممالک کو معاشی طور پر برباد کیا ہے۔ یہ معاشی بحران ریاستوں کی ٹوٹ پھوٹ اور سماجی تحریکوں کا موجب بن رہا ہے۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے ریاستیں اور مالیاتی ادرے بہت بڑے پیمانے پر قرضے دے کر بڑی کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ اس طریقے سے بحران کو وقتی طور پر تو ٹالا جا سکتاہے لیکن جونہی ریاستی اور مالیاتی اداروں کی امداد بند ہو گی تو بے شمار کمپنیا ں جو پہلے ہی قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہیں دیوالیہ ہو جائیں گی۔ کیونکہ شرح منافع اس قابل نہیں کہ پیداوار کر کے اتنا منافع کمایا جا سکے کہ قرض پر سود کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔ کورونا وبا نے بے شمار صنعتوں کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ انٹرٹینمنٹ، ہوٹل، ریستوران، ایئر لائنز، سیاحت اور تقریبات کی صنعت پوری دنیا میں متاثر ہو چکی ہے اور لاکھوں لوگ مستقل بیروزگاری کا شکار ہو رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاستوں کی تمام تر امیدیں ویکسین کے کامیاب تجربے سے جڑی ہوئی ہیں لیکن اس کے بارے میں بھی ابھی تک وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کتنی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ بڑے پیمانے پر ریاستی سرمایہ کا ری سے ادویات بنانے والی کمپنیوں کو رعایتیں دی جا رہی ہیں تا کہ ویکسین تیار کر کے مارکیٹ میں اتاری جا سکے اور ویکسین کی کامیابی کے بعد لاک ڈاﺅن ختم ہو گا اور معیشت دوبارہ بحال ہو جائے گی۔

یہ سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران ہے جس میں مستقل بیروزگاری، معاشی تباہی اور انتشار اس نظام کا خاصہ ہےں اور یہ بحران نئے تضادات کو جنم دے رہا ہے۔ اس بحران کا سرمایہ دارانہ ملکیت اور قومی ریاست کی حدود کے اندر کوئی حل موجود نہیں ہے۔ آنے والا سال جہاں تباہی کی نوید لے کر آ رہا ہے وہیں پوری دنیامیں محنت کش طبقے کی نئی صف بندیاں بھی ہو رہی ہیں۔ آنے والا سال محنت کش طبقے کی جاندار تحریکوں کا سال بھی ہو گا۔

2020ءمیں کورونا وبا کے باعث پیدا ہونے والا معاشی بحران سرمایہ داری کے پچھلے تمام بحرانوں سے مختلف ہے۔ سرمایہ داری میں سرمائے کے منافع میں اتار چڑھاﺅ عروج و زوال کی بنیادی وجہ ہوتی ہے لیکن اس کی دیگر فوری وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔ 1974-75ءکے معاشی بحران کی فوری وجہ عرب اسرائیل جنگ کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میںہونے والا اضافہ تھا۔ 1990-92ءکے بحران کی وجہ بھی خلیجی جنگ تھی۔ اسی طرح موجودہ بحران کی بظاہر وجہ کورونا وبا ہے جس نے لاک ڈاﺅن کی صورت میں عالمی معیشت کو شدید متاثر کیا ہے لیکن حقیقت اس سے کچھ مختلف ہے۔ سرمایہ دارانہ کمپنیوں کی منافع کمانے کی ہوس نے تیل پیدا کرنے، جنگلات کی کٹائی، کان کنی اور شہری آبادی کے بے ہنگم پھیلاﺅ سے قدرتی ماحول کو برباد کر کے ایسے حالات پیدا کیے ہیں جس کی وجہ سے ایسے وائرس آ رہے ہیں جن سے لڑنے کے لیے انسانی آبادی میں کوئی مدافعت موجود نہیں ہے۔

عالمی پیداوار، تجارت، سرمایہ کاری اور روزگار کا موجودہ بحران کسی مالیاتی یا سٹاک مارکیٹ کے انہدام سے شروع نہیں ہوا بلکہ اس کی وجہ کورونا وبا سے ہونے والا لاک ڈاﺅن ہے جس نے آمدنی، اخراجات اور تجارت میں بے نظیر گراوٹ کو جنم دیا ہے۔ بظاہر یہ بحران ایک خارجی محرک (کورونا لاک ڈاﺅن) کی پیداوار ہے جس نے پہلے رسد اور پھر طلب کے بحران کو جنم دیا ہے لیکن ابھی تک مالیاتی جھٹکے کا آغاز نہیں ہوا۔ بڑے ممالک کے بانڈز اور سٹاک مارکیٹیں اس وقت اپنی بلند ترین سطح پر موجود ہےں۔ جس کی وجہ بڑے مالیاتی اداروں اور حکومتوں کی طرف سے کھربوں ڈالر کے مالیاتی انجکشن اور امدادی پیکیج ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں بیروزگاروں کو حکومتوں کی طرف سے دی جانے والی امداد نے بھی بہت سی چھوٹی اور بڑی کمپنیوں کو سہارا دیا ہوا ہے۔

جدید سرمایہ داری کی تاریخ میں مرکزی بینکوں کی طرف سے اتنے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپ کر قرض دینے کی مثال ماضی میں کبھی نہیں ملتی۔ 2008ءکے معاشی بحران کے برعکس اس بحران میں بینک اور مالیاتی ادارے دیوالیہ نہیں ہوئے بلکہ بینکوں کے کھاتے کورونا وبا سے پہلے کی نسبت زیادہ مستحکم ہیں۔ جیسے ہی مرکزی بینکوں نے کمرشل بینکوں، کمپنیوں اور گھریلو اخراجات کے لیے قرضے دینے شروع کیے بینکوں میں رقوم جمع ہونا شروع ہو گئیں اور بینکوں کے منافع بڑھنا شروع ہو گئے۔

اسی طرح پیداوار سے منسلک کمپنیاں حکومتوں سے آسان اور سستے قرضے لے کر اپنے اثاثوں میں مزید سرمایہ کاری کر رہی ہیں اور حکومتی پرگراموں سے فائدہ اٹھا کر نئے نئے بانڈ جاری کر رہی ہیں۔ لاک ڈاﺅن کی وجہ سے کمپنیوں کو ٹیکس اور قرض کی ادائیگی میں ملنے والی چھوٹ کی وجہ سے بھی اس رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ او ای سی ڈی‘ کے مطابق حکومتوں کی طرف سے ملتوی کیے گئے ٹیکس اٹلی میں جی ڈی پی کے 13 فیصد اور جاپان میں 5 فیصد کے برابر ہیں۔

کورونا وبا کے دوران کمپنیوں کی تمام تجارتی سرگرمیاں بند ہونے کے باوجود امریکہ میں کارپوریٹ سیکٹر کے منافعوں میں اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ ٹیکس چھوٹ، حکومتی قرض اور امداد ہے۔ امریکہ میں کارپوریٹ سیکٹر کو ٹرمپ نے 12 سو ارب ڈالر کا امدادی پیکیج دیا تھا۔ 2020ءکی تیسری سہ ماہی میں کارپوریٹ منافعوں میں 495 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ 2019ءکی دوسری سہ ماہی میں 209 ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ حکومتی مداخلت کے ذریعے کارپوریٹ سیکٹر کے منافعوں کو برقرار رکھا جا رہا ہے جس سے حکومتی بجٹ خسارہ اور قرضہ بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ امید لگائی جا رہی ہے کہ 2021ءمیں کورونا ویکسین کے مارکیٹ میں آنے کے بعد لاک ڈاﺅن ختم ہو جائے گا اور عالمی معیشت دوبارہ ترقی کے راستے پر گامزن ہو جا ئے گی۔ کارپوریٹ منافعے اور گھریلو بچتیں جب دوبارہ سرمایہ کا ری کے لیے مارکیٹ میں آ ئیں گی تو معیشت میں دوبارہ طلب پیدا ہو جائے گی اور مارکیٹ معمول پر آ جائے گی۔ عالمی طور پر سیاحت کا آغاز ہو گا، سفری پابندیاں ختم ہوں گی، تجارت بحال ہو جائے گی اور صارفین اخراجات دوبارہ سے شروع کر دیں گے اور کمپنیاں سرمایہ کاری کرنا شروع کر دیں گی اور حالات واپس اپنی جگہ پر آ جائیں گے۔

لیکن او ای سی ڈی اس صورت حال کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اوسط آمدنی والے افراد کی بچتیں ختم ہو گئی ہیں۔ کورونا وبا کے دوران ان کے قرضوں میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی امداد کے خاتمے کے بعد اوسط آمدنی والے افراد کی حالت مزید ابتر ہو گی۔ ایسی ہی صورت حال کارپوریٹ سیکٹر کی بھی ہے جہاں حکومتی امداد کا زیادہ حصہ بڑی کمپنیوں کو دیا گیا ہے جس میں ٹیکنالوجی کی کمپنیاں شامل ہیں جو اس بحران میں سب سے کم متاثر ہوئی ہیں۔ حکومتی امداد کی بندش اور ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کے بعد قرض پر سود اور تنخواہوں کے اخراجات بڑھ جائیں گے جبکہ چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیوں کو دیوالیہ پن کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عالمی مالیاتی ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عالمی قرضہ 2019ءمیں عالمی جی ڈی پی کے 320 فیصد کے برابر تھا جو کہ 2020ءمیں بڑھ کر 365 فیصد ہو چکا ہے۔ یہ 15 ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہے جو کہ کورونا وبا کے بعد ہو ا ہے۔ اسی طرح وبا سے پہلے بھی کارپوریٹ قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود تھا جو کہ ان کی جی ڈی پی کے 125 فیصد کے برابر تھا۔ کورونا وبا میں کارپوریٹ سیکٹر کے قرض میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی امداد کی بندش کے بعد بہت سی کمپنیوں کو دیوالیہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پہلے ہی ”زومبی کمپنیوں“ (ایسی کمپنیاں جن کے منافعے اس قابل نہیں کہ وہ قرضوں پر سود ادا کر سکیں اور وہ نیا قرض لے کر پچھلا قرض ادا کرتی ہیں) کی تعداد میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ رہائش، ایئر لائن، تقریبات اور سیاحت کے شعبوں سے وابستہ کمپنیوں کو اگر حکومتی امداد نہیں ملتی تو ان کا دیوالیہ نکلنا ناگزیر ہے۔ کارپوریٹ اور حکومتی قرضوں میں ہونے والے اضافے سے بہت سے کمزور ممالک اور کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

نام نہاد ابھرتی ہوئی معیشتوں کی صورتحال اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے۔ خاص کر چین جہاں معیشت کی بحالی عالمی طور پر سب سے تیز رفتار رہی ہے۔ چین میں ایک بڑی تعداد ان کمپنیوں کی ہے جو اتنی مقروض ہیں کہ اپنے بانڈز پر سود کی ادائیگی نہیں کر سکیں گی اور حکومت کے لیے بہت مشکلات پیدا کریں گی۔ چین کی حکومت کو ان کمپنیوں کو بچانے کے لیے مزید قرض دینا پڑے گا۔ چین کو یہ مراعت حاصل ہے کہ وہ اپنے بڑے مالیاتی ذخائر کے ذریعے ان کو بچا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی 2021ءمیں کارپوریٹ سیکٹر میں قرضوں کے ایک سونامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 2021ءمیں سب سے بڑا سوال یہ ہو گا کہ کیا کارپوریٹ سیکٹر حکومتی امداد کے بغیر اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو سکے گا؟

موجودہ قرضوں پر کم شرح سود کے باوجود اگر 2021ءمیں کارپوریٹ منافعوں میں گراوٹ ہوتی ہے تودنیا کی 30 فیصد کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی اور سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو گی۔ او ای سی ڈی کے مطابق ایسی صورتحال میں سرمایہ کاری عالمی سطح پر 2019ءکی نسبت 2 فیصد کم ہو گی۔ قرضوں کے سونامی کے باوجود اگر مالیاتی دیوالیہ نہ بھی ہو تو بھی بہت سے سرمایہ دارانہ ممالک میںمعاشی بحالی بہت ہی کمزور ہو گی۔ کورونا وبا کے باعث جو معاشی نقصان ہوا ہے اس کو پورا کرنے میں کم از کم دو سال کا عرصہ درکار ہو گا۔

2021ءکا نیا سال معاشی بحران اور سماجی عدم استحکام کے حوالے سے ایک پر انتشار سال ہو گا۔ نظام کا بحران اتنا شدید ہے کہ کسی قسم کی بہتری کے امکانات بہت محدود ہیں۔ 2020ءکے اختتام پر سب سے اہم واقعہ امریکی صدارتی انتخابات تھے جہا ں بائیڈن انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوا۔ بائیڈن کی جیت کو پوری دنیا میں اصلاح پسندوں کی جانب سے کمتر برائی قرار دیا جا رہا ہے لیکن وہ بھی امریکی سرمایہ داروں کا ہی نمائندہ ہے۔ ٹرمپ امریکی سرمایہ داری کے اس دھڑے کی نمائندگی کر رہا تھا جس کو ٹرمپ کی تجارتی تحفظاتی پالیسیوں سے بہت فائدہ ہوا۔ ٹرمپ کا ابھار بنیادی طور پر امریکی معیشت کے بحران سے پیدا ہونے والی تقسیم کا اظہار تھا۔ اس وقت امریکہ مکمل طور پر دو دھڑوں میں منقسم نظر آتا ہے۔ ٹرمپ جس سرمایہ دار دھڑے کی نمائندگی کر رہا تھا وہ امریکہ کی روایتی سرمایہ دار لابی سے مختلف تھا۔ ان میں پراپرٹی ڈیلر، پرائیویٹ ایکویٹی سے منافع کمانے والی کمپنیاں، جواری اور خاندانی کاروبار کرنے والے افراد شامل ہیں۔ بائیڈن کی جیت بنیادی طور پر لبرل کارپوریٹ سرمائے کی فتح ہے۔ امریکی روایتی سرمایہ دار بائیڈن کی جیت سے امید وابستہ کیے ہوئے ہیں کہ سب کچھ دوبارہ مستحکم ہو جائے گا اور دنیا ایک بار پھر ٹرمپ سے پہلے والی کیفیت میں چلی جائے گی۔ ٹرمپ نے جن تضادات کو ابھارا تھا وہ امریکی معیشت کے گہرے ہوتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتے ہیں۔ بائیڈن کے پاس کوئی ایسا نسخہ کیمیا نہیں کے وہ ان تضادات پر قابو پا سکے۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ٹرمپ کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے علاوہ اس کے پاس کو ئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ امریکی سامراج کی مختلف خطوں میں مداخلت بھی کم و بیش جاری رہے گی۔

مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی میں کسی بڑی تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ امریکی سامراج کی عراق اور شام میں ذلت آمیز شکست کے بعدمختلف علاقائی سامراجی طاقتوں کے درمیان چپقلش میں اضافہ ہوا ہے۔ اب امریکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے ذریعے اپنے سامراجی عزائم کو بڑھاوا دے رہا ہے جس سے خطے میں نئی خونریز پراکسی جنگوں میں شدت آئے گی۔ بائیڈن ٹرمپ کی پالیسیوں کو ہی اپنی منافقانہ سفارتکاری کے ذریعے جاری رکھنے پر مجبور ہو گا۔
چین کے بڑھتے ہو ئے عالمی کردار نے نہ صرف معاشی بلکہ سیاسی طور پر امریکہ کے کردار کو چیلنج کر نا شروع کیا ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی اور سفارتی جنگ کا آغاز ہو ا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ امریکی سامراج کی معاشی کمزوری اور داخلی ٹوٹ پھوٹ ہے۔ یہ جنگ اب مختلف شکلوں میں جاری رہے گی۔ ٹرمپ نے جس بھونڈے طریقے سے امریکی سامراج کے داخلی تضادات کو بے نقاب کیا ہے اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب بائیڈن کے لیے دوبارہ نارمل حالات کی طرف جانا ممکن نہیں ہو گا۔ چین کے ساتھ تجارتی جنگ کو کسی معاہدے کے ذریعے طے کرنے کی کوششیں بھی ہوں گی لیکن ان تضادات کو حل کرنا آج کے سرمایہ دارانہ زوال کے عہد میں ممکن نہیں۔ حالات کو یہاں تک پہنچانے والے تمام معاشی اور سیاسی عوامل اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ چین اور امریکہ کے یہ تضادات بالخصوص جنوب ایشیا میں نئے تضادات اور تصادموں کو جنم دیں گے۔ ٹرمپ دور میں انڈیا کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی جہت ملی ہے۔ اب امریکہ انڈیا کے ذریعے چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین بھارت سرحدی تنازعہ بھی اس پالیسی کا شاخسانہ ہے۔ خطے کے دوسرے ممالک پاکستان، نیپال، سری لنکا اور مالدیپ میں چین کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری بھی انڈیا اور امریکہ کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔ اب امریکہ مالی امداد اور سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی سفارتکاری کو جاری نہیں رکھ سکتا۔ وہ اپنے سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے انڈیا کے اوپر آنے والے دنوں میں زیادہ انحصار کرے گا۔

پاکستان ماضی میں اپنی سٹریٹجک اہمیت کے حوالے سے امریکہ کا ایک اہم اتحادی رہا ہے لیکن چین کے ساتھ سی پیک معاہدے پر ابھرنے والے تضادات نے پاکستان کی مشکلات میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ بائیڈن کے اقتدار میں آنے سے امریکہ کے پاکستان کی طرف رویے میں کسی بڑی تبدیلی کے امکانات نظر نہیں آتے۔ افغانستان میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اتار چڑھاﺅ کے ساتھ جاری رہیں گے۔ پاکستان کی معاشی ابتری اور سیاسی عدم استحکام نئے سماجی اور سیاسی دھماکوں کو جنم دے سکتا ہے۔

2021ءکا سال طبقاتی کشمکش میں بھی شدت لے کر آئے گا۔ پچھلا سال پوری دنیا میں نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف جاندار تحریکوں کا سال تھا۔ امریکہ میں ریاستی جبر اور نسل پرستی کے خلاف ابھرنے والی تحریک نے سامراج کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ آنے والے دنوں میں بائیڈن سرمایہ داری کے بحران کے باعث امریکی محنت کش طبقے پر نئے حملے کرے گا جس سے نئی تحریکیں زیادہ جاندار انداز میں ابھرنے کے زیادہ امکانات ہیں۔

کورونا وبا کے باعث یورپ کا معاشی بحران بہت شدت اختیار کر گیا ہے۔ پرتگال، اٹلی، سپین، برطانیہ اور یونان کی معیشتیں شدید پیداواری اور مالیاتی بحران سے گزر رہی ہیں۔ اس بحران کے تحت معاشی کٹوتیوں کی پالیسیوں میں شدت آئے گی اور کورونا کی وجہ سے تعطل کا شکار تحریک یورپ میں ایک بار پھر اپنا اظہار کرے گی۔ لاطینی امریکہ میں ایکواڈور، چلی، ارجنٹائن میں بھی نیو لبرل پالیسوں کے خلاف جاندار تحریکیں کے نئی شدت اختیار کرنے کے امکانات کھل رہے ہیں۔ پورے لاطینی امریکہ میں ایک بار پھر پاپولسٹ بائیں بازو کی حکومتیں بننے کی طرف گئی ہیں۔ امریکی سامراج کی مداخلت اور دائیں بازو کی حمایت سے ان حکومتوں کو گرانے کی کوششیں بار بار ناکام ہو رہی ہیں۔ لاطینی امریکہ کے پاپولسٹ بائیں بازو کا نظریاتی ابہام اور سرمایہ داری سے مصالحت کی کوشش انقلاب کی حتمی فتح میں ایک فیصلہ کن رکاوٹ بن چکی ہے۔ یہی ابہام امریکی سامراج کی مداخلت کو مواقع فراہم کر رہا ہے۔ سرمایہ داری کا بحران اتنا شدید ہے کہ سرمایہ داری کی حدود میں کوئی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ لاطینی امریکہ کے محنت کش طبقے کو سرمایہ داری کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی میں منظم کر کے ہی اس بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔

سب سے اہم پیش رفت ہندوستان میں مودی کی نیم فاشسٹ حکومت کے خلاف ابھرنے والی کسانوں کی حالیہ تحریک ہے۔ جس کو تمام بڑی ٹریڈ یونینوں اور بائیں بازو کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں کا نظریاتی ابہام اور اصلاح پسندی کئی عام ہڑتالوں کے باوجود ایسی تحریکوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن یہ حالیہ تحریک پورے جنوب ایشیا بالخصوص پاکستان پر اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے۔

پوری دنیا میں ابھرنے والی تحریکیں سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت کا واضح اعلان کر رہی ہیں۔ آنے والا سال انقلابیوں کو آگے بڑھنے کے مزید مواقع فراہم کرے گا۔ انہی تحریکوں کے اندر سے انقلابی قیادتیں سامنے آئیں گی جو سرمایہ داری کو فیصلہ کن شکست دے کر سوشلزم کا علم بلند کریں گی۔