قمرالزماں خاں

تمام تر ممکنہ جولانیوں اور انتہاﺅں کے بعد سیاسی کشمکش اپنی اصل کی طرف واپس مڑ چکی ہے۔ سیاسی جعلی سازی سے بننے والے بہن بھائی اب حریفوں کی طرح ایک دوسرے پر لفظی تیر برسا رہے ہیں۔ کھیل کے خاتمے کے بعد اپوزیشن اتحاد تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکا ہے۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر بازووں کو بلند کرنے والوں نے اب ایک دوسرے کے بازو مروڑنا شروع کر دیئے ہیں۔ یہ کوئی انہونی نہیں ہے۔ ایسا ہی ہونا تھا اور ہم نے اس کی نشاندہی بہت پہلے کر دی تھی۔ نظریات سے کردار تک فریقین کے پاس کچھ بھی تو اپنا نہیں ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں مضطرب حکمران جعلی ہیں تو اپوزیشن کون سی اصلی ہے؟ عوام دشمن سیاسی اور غیر سیاسی غولوں کے مختلف حصے عوامی مفادات کے برخلاف مصنوعی لڑائیاں اور تضادات ابھارتے، سودے بازی کرتے اور اقتدار میں شراکت کی راہیں تراشتے رہتے ہیں۔ اس سارے عمل کو ڈیزائن اس طرح کیا جاتا ہے کہ کبھی یہ جمہوریت اور آمریت کی لڑائی نظر آتی ہے اور کبھی ڈیپ سٹیٹ کے مسلسل بڑھتے ہوئے رسوخ کے مقابلے میں سول بالادستی کے عنوان کو جلی لفظوں سے ابھارا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں سرمایہ دارانہ عدل و انصاف کے طبقاتی ادارے کی بالادستی کے ذریعے اذہان کو مسخ کیا گیا تھا۔ ایسے ہی ماضی بعید میں مذہب کے فرق کو بہت مبالغہ آرائی سے بڑا کر کے دکھایا گیا تھااور اس کے گرد ایک خونی کھیل کھیلا گیا تھا جس کا خمیازہ آج تک نسلیں بھگت رہی ہیں۔ یہ حکمران طبقے کی چالوں کی ایک لمبی سیریل ہے۔

پچھلے سال سے نام نہاد اپوزیشن اتحاد کی قائم کردہ ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ“ کی بلند آہنگ بڑھک بازیوں میں سب کچھ تھا۔ اگر نہیں تھا تو عوام کی نجات کا کوئی واضح پروگرام نہیں تھا۔ یہ سارا عرصہ 22 کروڑ لوگوں کیلئے بہت ہی اذیت ناک گزرا ہے۔ ایک طرف زرعی اجناس کی پیداوار میں تاریخی کمی ہوئی۔ غیر متوقع موسمی تبدیلیوں اور بیماریوں نے زراعت کے شعبے کا بھرکس نکال دیا۔ کاروباری مافیا کی منافع خوری کےلئے آٹے اور گندم کو بلاتعطل افغانستان سمگل کیا جاتا رہا۔ چینی کو پہلے (حکومتی امدادی رقم کے ساتھ) ایکسپورٹ اور قلت ہو جانے پر (پھر امدادی رقم لے کر) امپورٹ کیا جاتا رہا۔ دوسری طرف پور ے ملک میں 2019ءسے معاشی سرگرمیوں میں بھی تاریخی گراوٹ رہی۔جی ڈی پی کی شرح نمو منفی میں چلی گئی۔ یہ سارا عمل صرف اعداد و شمار کی اونچ نیچ کا معاملہ نہیں تھا بلکہ معاشی تنزلی اور سرگرمیو ں میں بڑے پیمانے پر تعطل کے اثرات زندہ سماجوں پر غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کے بڑھتے ہی چلے جانے کی شکل میں مرتب ہوتے ہیں۔ کورونا کے وار ابھی تک جاری ہیں اور اس کے اثرات مزید مہلک ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن صرف قدرتی آفت ہی نہیں تھی بلکہ اسی عرصے میں اقتدار پر فائز حکمرانوں نے سامراجی اداروں سے قرضوں کے حصول کیلئے کڑی شرائط کو پورا کرنا بھی شروع کر دیا۔ نتیجہ بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافوں کی شکل میں نکلا۔ صرف پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافے کے نتیجے میں ہر وہ چیز مہنگی ہو جاتی ہے جس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا ہے۔ اسی طرح بجلی کے نرخ بڑھنے سے پھر سارے پیداواری عمل کی لاگت بڑھ جاتی ہے اور صارفین کو اشیائے ضرورت پہلے سے زیادہ داموں میں خریدنا پڑتی ہیں۔ جب پاکستان کے 22 کروڑ عوام کا سامراجی اداروں کی شرائط اور حکمرانوں کی سنگ دلانہ پالیسیوں سے جینا دوبھر تھا تب حکمران طبقے کے باقی حصے، جو خود کو ”اپوزیشن“ قرار دیتا ہے، کے سیاسی ایجنڈے میں عوامی مشکلات کے حل کی کاوشوں کی بجائے سینیٹ الیکشن کی مار دھاڑ اور دھونس دھاندلی سر فہرست تھی۔ ایک طرف یہ پاکستان کی طاقتور مقتدرہ سے لڑنے کی بات کر رہے تھے تو دوسری طرف اسی مقتدرہ سے ملاقاتیں کر کے ”گڈ بوائے“ کے تاثر کو مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی تگ و دو میں لگے تھے۔ حتیٰ کہ زچ ہو کر ایک دفعہ فوجی ترجمان کو ان ملاقاتوں اور درپردہ سازشوں کی نفی کرنے کیلئے خود کو ”سیاست سے لاتعلق“ تک قرار دینا پڑ گیا۔ مگر کسی تردید اور تصدیق کے باوزن ہونے کیلئے بھی کردار کا مصدقہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ پھر تاریخ کو کسی بھی جعل سازی سے محو یا زائل نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت کے یہ نام نہاد علمبردار اخلاقیات کی اچھی یا بری صنف کے اسی حصے کو ماننے کی ضد کرتے ہیں جس میں ان کا مفاد پورا ہوتا ہو۔ صاف اور شفاف الیکشن، جو ہر قسم کی مداخلت سے پاک ہو، کے نعرے لگانے والوں اور اس نظام کو چلانے والوں کے تین قسم کے شعبدے حالیہ سینیٹ الیکشن میں دیکھے گئے۔ سب سے پہلے ووٹ پورے نہ ہونے کے باوجود یوسف رضا گیلانی کا اسلام آباد کی نشست سے سینیٹر بن جانا، دوسرا چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں سات ووٹوں کو یوسف رضا گیلانی کے حق میں تسلیم نہ کیا جانا اور پھر سینیٹ میں قائد حزب اختلاف بننے کیلئے ”باپ“ پارٹی کے بھی ووٹ لے کر اپنی کامیابی کو مزید مستحکم بنانا۔ اس سارے عمل نے جہاں ”پی ڈی ایم“ کی بے معتبری کو ننگا کیا ہے وہاں واضح ہوا ہے کہ پیپلز پارٹی نظریاتی اور سیاسی تنزلی اور دیوالیہ پن کی کن انتہاﺅں کو چھو رہی ہے۔ دوسری طرف ضیا الحق کی کوکھ سے نکلی ن لیگ کی ”جمہوریت پسندی“ بھی خاصی مزاحیہ سی ہے۔ چھوٹا بھائی اور بڑا بھائی دو علیحدہ قطبین پر رہ کر ایک ہی پارٹی کے اعلیٰ عہدے دار ہیں۔ پارٹیوں کے ڈھانچے جمہوری تو کجا وہاں الگ سے موقف تک بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہر پارٹی ایک چھوٹی سی بادشاہت کا نمونہ ہے۔ ایک ہی خاندان کے سارے گندے انڈے پارٹی کی ٹرے میں رکھ دیئے جاتے ہیں۔ اب کارکنوں کا رواج ویسے بھی نہیں رہا۔ بس ”الیکٹیبلز“، عہدے داران اور اشرافیہ چیخ و پکار میں مشغول ہیں۔ حکمران سیاست کے اس غلیظ میدان میں برہنہ پا سیاسی پارٹیوں کا سب سے مکروہ کردار ان کے معاشی ایجنڈے کا ایک ہونا ہے۔ حکومت سامراجی اداروں کے ہاتھو ں یرغمال بنی ہوئی ہے اور لوگوں پر پے در پے سامراجی مالیاتی حملے ہو رہے ہیں۔ مگر نواز لیگ سے پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی سے جمعیت علمائے اسلام تک کسی کے پاس کوئی متبادل معاشی پروگرام نہیں ہے۔ کسی کے پاس مہنگائی روکنے کا فارمولا ہے نہ ملک کے رہے سہے صنعتی ڈھانچے کو فعال اور بہتر بنانے کی کوئی تجویز ہے۔ اپوزیشن بھی اسی میدان میں گونگے اور بہرے کا کردار اداکر کے اپنی وقعت، بساط اور قابلیت عیاں کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کی معیشت قرضوں، امداد، خیرات اور ٹیکسوں میں اضافوں سے شروع ہوتی ہے اور تارکین وطن کی ترسیلات زر پر ختم ہو جاتی ہے۔ بات یہاں تک ہی نہیں رکتی بلکہ تحریک انصاف کی حکومت اور عمران خان کی بذعم خود ”دبنگ قیادت“ جس بھونڈے انداز میں آئی ایم ایف کی شرائط کے سامنے لیٹ گئی ہے اس کی مثال حکمرانوں کے تاریک ماضی میں بھی نہیں ملتی۔ اب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی پاکستان کو قرض دینے کی شرائط کے تحت یہ حکومت سٹیٹ بینک آف پاکستان کو زیادہ ”خود مختاری“ دینے کی بات کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے سٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ 1956ءمیں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو مرکزی بینک کسی حکومتی ادارے کو اپنی پالیسیوں کیلئے جوابدہ نہیں ہو گا۔

سٹیٹ بینک کے نئے کردار میں ملکی معاشی ترقی کو سب سے نیچے رکھا گیا ہے جو معیشت کے ماہرین کے نزدیک ایک خطرناک منظر نامے کی نشاندہی کرتا ہے۔ سٹیٹ بینک کے قوانین میں تجویز کردہ ان ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک حکومت کو ادھار نہیں دے گا لیکن بوقت ضرورت وفاقی حکومت کو اسے ضروری رقم فراہم کرنا پڑے گی۔ اس طرح حکومت کو کمرشل بینکوں سے ادھار لینا پڑے گا جو مہنگا اور غیریقینی ہوتا ہے۔ مجوزہ ترامیم کے تحت نیب، ایف آئی اے اور دوسرے وفاقی و صوبائی اداروں کو بینک کے ملازمین، ڈائریکٹروں، ڈپٹی گورنروں اور گورنروں کے خلاف کسی قسم کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہو گا۔ سٹیٹ بینک کے نظام کو چلانے اور ملک کی زری (مانیٹری) اور مالیاتی (فسکل) پالیسیوں کو مربوط رکھنے کےلئے ایک ’کوآرڈینیشن‘ بورڈ ہوتا ہے۔ تاہم مجوزہ ترامیم کے تحت اب گورنر سٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ باہمی رابطے سے یہ کام کریں گے۔ وفاقی سیکرٹری خزانہ مجوزہ ترامیم کے مطابق سٹیٹ بینک کے بورڈ کا رکن نہیں ہو گا۔ گورنر سٹیٹ بینک کی مدت ملازمت تین سال کی بجائے پانچ سال ہو گی اور مجوزہ قانون میں تین برس کی توسیع کی بجائے پانچ سال توسیع کی تجویز دی گئی ہے۔ موجودہ قانون میں صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ذمہ داریاں نہ نبھانے پر گورنر کو اس کے عہدے سے ہٹا سکتا ہے۔ تاہم مجوزہ ترامیم کے تحت صدر بہت ہی سنگین غلطی پر، جس کا فیصلہ عدالت کر ے گی، گورنر کو ہٹا سکتا ہے۔ موجودہ قانون کے تحت دیہی علاقوں، صنعت، ہاﺅسنگ اور دوسرے شعبوں کیلئے سٹیٹ بینک کا قرض دینا لازمی ہے۔ تاہم ترامیم کے تحت اب حکومت کی جانب سے ایسے شعبوں کےلئے قرض کی فراہمی کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ ان ترامیم کے تحت سٹیٹ بینک اور اس میں کام کرنے والے ہر قسم کی جوابدہی سے بالاتر ہو جائیں گے اور ان کے اقدامات کو قانون کے شکنجے میں نہیں لایا جا سکے گا۔ جب نئے بورڈ میں حکومتی نمائندگی سرے سے موجود ہی نہیں ہو گی تو کیسے ملک کی زری اور مالیاتی پالیسی کو مربوط بنایا جائے گا؟ اسی طرح حکومت کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے مطلوبہ رقم بھی سٹیٹ بینک سے نہیں لے سکے گی۔ اس خود مختاری کے نتیجے میں جس قسم کے فیصلے ہوں گے اس کے نتیجے میں معاشی امور کے ماہرین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ مالی سال کے آخری چار مہینوں میں مہنگائی کی شرح میں ہوشربا اضافے کا امکان ہے۔ اگرچہ ریاست کے سنجیدہ پالیسی سازوں میں ان مجوزہ ترامیم کے بارے میں تشویش موجود ہے اور حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹایا جانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے لیکن ایسی تجاویز کا آنا بھی واضح کر دیتا ہے کہ یہ سامراجی ادارے اپنے مطالبات میں کس نہج تک جا سکتے ہیں۔

بچہ بچہ جانتا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط مہنگائی لاتی ہیں۔ آئی ایم ایف کے کردار سے دنیا آگاہ ہے۔ یہ ادارہ جس ملک میں گھس جاتا ہے وہا ں عام لوگ مہنگائی اور بے روزگاری سے برباد ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان میں آئی ایم ایف نے صرف اس وجہ سے پچھلے سال 50 کروڑ ڈالر کی قسط روکے رکھی کہ حکومت نے کورونا وبا کے نتیجے میں کاروباری گراوٹ کے عروج پر بجلی کے نرخ بڑھانا موخر کیے رکھا تھا۔ اب حکومت نے جن شرائط پر رضامندی ظاہر کی ہے ان میں بجلی کے شعبے میں نرخوں کو مزید بڑھانا اور ٹیکسوں پر چھوٹ کا خاتمہ بھی شامل ہے۔ آنے والے دنوں میں مہنگائی پر قابو پانے کےلئے سٹیٹ بینک شرح سود میں اضافہ کر سکتا ہے جو ملکی معاشی پیداوار کو بری طرح متاثر کرے گا۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ موجودہ معاشی زبوں حالی اور سامراجی جکڑبندی میں اپوزیشن کے پاس بھی دوا دارو کےلئے اسی عطار کے لونڈے کا ایڈریس ہے جس کے سبب حالات یہاں تک پہنچے ہیں۔

حکومت نے بجلی کے نرخوں میں اس سال کے شروع میں 16 فیصد اضافہ کیا تھا۔ جبکہ اس سال کی آخری سہ ماہی تک 36 فیصد اضافے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے حال ہی میں بجلی کے فی یونٹ پر 5.65 روپے بڑھانے کی منظوری دی ہے جس کے ذریعے اکتوبر تک صارفین سے آٹھ سو ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے جس کا مقصد بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے کو کم کرنا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی تکمیل میں سرگرم تحریک انصاف کی حکومت جہاں مختلف درآمدی ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کر رہی ہے وہاں بہت سے صنعتی و غیر صنعتی شعبوں کے ٹیکس استثنا کو بھی ختم کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔ نیپرا کو مکمل خود مختار بنایا جا رہا ہے۔ یوں کم بجلی استعمال کرنے والے یعنی 300 یونٹ تک کے استعمال والے صارفین کی چھوٹ بھی ختم کی جا رہی ہے۔ پبلک سیکٹر میں بچے کھچے اداروں کی نجکاری کیلئے حکمران کمر بستہ ہو چکے ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافے سے اس سال کے آخر میں مہنگائی کی شدت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

اس سنگین معاشی صورتحال اور سامراجی لوٹ کھسوٹ کے دوران کورونا وبا کی تیسری لہر اپنی شدت میں دن بدن اضافہ کر رہی ہے۔ سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں مریضوں کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ نجی ہسپتال اربوں روپے صرف اس وبا سے کما رہے ہیں۔ غیر معمولی ٹیکسوں کے نفاذ اور ہر قسم کی رعایتوں کے خاتمے کے بعد یہ ریاست اپنے شہریوں کو کورونا ویکسین خریدنے پر مجبور کرنے والی پہلی ریاست بن چکی ہے۔ دنیا میں ایسا تصور کہیں نہیں ہے کہ شہریوں سے اتنے زیادہ ٹیکس بٹور کر اس قسم کی بے حسی کا مظاہرہ کیا جائے جیسے پاکستان میں کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں عمر رسیدہ افراد کو وہ ویکسین مفت فراہم کی جا رہی ہے جو مختلف ممالک سے خیرات میں ملی تھی۔لیکن اس کی مقدار انتہائی ناکافی ہے۔ جبکہ ریاستی سطح پر ابھی تک ایک روپے کی ویکسین شہریوں کیلئے نہیں خریدی گئی۔ صرف مکمل یا جزوی لاک ڈاﺅن پر اصرار کر کے غربت زدہ سماج کو اور زیادہ برباد کرنے کی راہ اختیار کی جا رہی ہے۔ حکومت کے بالائی اجلاسوں میں ایس او پیز کو نظر انداز کر کے لوگوں کو ”احتیاط“ کرنے کا کہا جا رہا ہے۔

اس ساری صورتحال میں عام لوگوں کا اضطراب اور غصہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ متبادل سیاسی پارٹیوں کے منہ پر چڑھے دھوکے بازی کے ماسک بھی اترتے جا رہے ہیں۔ یوں لوگوں بالخصوص محنت کش طبقے کے پاس اپنی قیادت خود سنبھالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ لیکن اس مقصد کےلئے محنت کشوں کو موسمی ہڑتالوں، دھرنوں اور مارچوں سے بہت آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ عام مزدور کے مجروح کیے گئے اعتماد کو واپس بحال کرنے کیلئے مزدور قیادت کو ”مزدور اشرافیہ“ کے الزام کا تدارک کرنا ہو گا۔ عدالتوں کے دروازوں کی بجائے عام مزدور پر بھروسہ کر کے طبقاتی جدوجہد کے طبل کو بجانے کے علاوہ اب مزدوروں، کسانوں اور طلبہ کے پاس کوئی اور حل بچا ہی نہیں ہے۔