گریگ اوکسلے

ترجمہ: حسن جان

1871ءکا پیرس کمیون محنت کش طبقے کی تاریخ کے عظیم ترین اور انتہائی ولولہ انگیز واقعات میں سے ایک ہے۔ جس میں پیرس کے محنت کش طبقے نے ایک شاندار انقلابی تحریک کے ذریعے سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ کر اس کی جگہ اپنے حکومتی ادارے قائم کیے اور مئی کے آخری ہفتے میں اپنے انہدام تک سیاسی طاقت اپنے ہاتھوں میں رکھی۔ مشکل ترین حالات میں پیرس کے محنت کشوں نے استحصال اور جبر کا خاتمہ کر کے سماج کو نئی بنیادوں پر استوار کرنے کی جدوجہد کی۔ ان تاریخی واقعات کے اسباق آج کے سوشلسٹوں کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

فرانس میں جون 1848ءمیں محنت کشوں کی سرکشی کی شکست کے بعد 2 دسمبر 1851ءکی فوجی بغاوت کے نتیجے میں بادشاہ نپولین سوئم اقتدار پر براجمان ہوا۔ شروع شروع میں نئی بوناپارٹسٹ ریاست مضبوط دکھائی دیتی تھی۔ محنت کشوں کو کچل دیا گیا اور ان کی تنظیموں کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ تاہم 1860ءکی دہائی کے اواخر میں معاشی ابھار کے خاتمے اور مزدور تحریک کی بحالی نے ریاست کو بہت کمزور کر دیا۔ یہ بات واضح تھی کہ صرف ایک نئی اور کامیاب بیرونی جنگی مہم ہی ریاست کو کچھ عرصے تک نئی سانسیں فراہم کر سکتی ہے۔ چنانچہ اگست 1870ءمیں نپولین سوئم کی فوجیں جرمنی کے خلاف مہم کے لئے روانہ ہوئیں۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس جنگ سے نئے علاقے ملیں گے، فرانس کے حریف کمزور ہوں گے اور صنعتی اور مالیاتی بحران کا خاتمہ ہو گا۔

جنگیں اکثر انقلابات کو جنم دیتی ہیں۔ یہ کوئی حادثاتی اَمر نہیں ہے۔ جنگ محنت کشوں کو ان کے روزمرہ کے معاملات سے نکال دیتی ہے۔ زمانہ امن کی نسبت ریاستی اداروں، جرنیلوں، سیاست دانوں اور ذرائع ابلاغ پر عوام کی نظریں زیادہ مرکوز ہو جاتی ہیں۔ شکست کی صورت میں ایسا اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ نپولین سوئم کی جانب سے جرمنی پر حملے کی کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی۔ 2 ستمبر کو فرانس کی مشرقی سرحد پر بسمارک کی فوج نے بادشاہ کو اس کی ایک لاکھ فوج کے ساتھ پکڑ لیا۔ پیرس کی سڑکوں پر وسیع عوامی مظاہرے پھوٹ پڑے جو بادشاہت کے خاتمے اور نئی جمہوریہ (Republic) کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے۔

نام نہاد جمہوری اپوزیشن اس تحریک سے خوفزدہ ہو گئی لیکن بہر کیف انہیں 4 ستمبر کو جمہوریہ کا اعلان کرنا پڑا۔ ایک نئی ”قومی دفاع کی حکومت“ قائم کی گئی جس میں ایک اہم شخص جنرل ٹروچو تھا۔ جولز فورے، جو حکومت کا حصہ اور سرمایہ دارانہ جمہوریہ کا خاص نمائندہ تھا، نے اعلان کیا کہ ”سرزمین کا ایک قطعہ اور ایک پتھر بھی“ پروشیا کو نہیں دیں گے۔ جرمن فوج نے تیزی سے پیرس کا گھیراﺅ کیا۔ شروع میں بیرونی دشمن کے خلاف ”اتحاد“ کے نام پر لوگوں نے نئی حکومت کی حمایت کی لیکن یہ اتحاد جلد ہی ٹوٹ کر بکھر گیا۔

اعلانات کے باوجود قومی دفاع کی حکومت کو یقین نہیں تھا کہ وہ پیرس کا دفاع کر سکے گی۔ باقاعدہ فوج کے ساتھ ساتھ دو لاکھ کی مضبوط عوامی ملیشیا (نیشنل گارڈ) بھی موجود تھی جو پیرس کا دفاع کرنے کو تیار تھی۔ لیکن فرانسیسی سرمایہ دار غیر ملکی فوج کی نسبت پیرس کے مسلح مزدوروں کو اپنے طبقاتی مفادات کے لئے زیادہ بڑا خطرہ محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ جلد از جلد بسمارک کے آگے ہتھیار ڈال دیئے جائیں۔ تاہم پیرس کے عوام اور نیشنل گارڈ کی حب الوطنی اور جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے حکومت کھل کر ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ ٹروچو کو خاص وقت کا انتظار تھا۔ اسے امید تھی کہ پیرس کے گھیراﺅ کے نتیجے میں سماجی اور معاشی دباﺅ پیرس کے محنت کشوں کی مزاحمت کو کمزور کر دے گا۔ اسی اثنا میں حکومت نے بسمارک سے خفیہ مذاکرات شروع کر دئیے۔

دن گزرتے رہے اور حکومت کے خلاف غم و غصہ بڑھتا گیا۔ بسمارک کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بارے افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ 8 اکتوبر کو میٹز (Metz) کے سقوط کے بعد مزید عوامی مظاہرے شروع ہو گئے۔ 31 اکتوبر کو نیشنل گارڈ کے متعدد یونٹوں نے بلانکسٹوں کی قیادت میں حملہ کر کے عارضی طور پر عمارتوں پر قبضے کر لیے۔ اس مرحلے پر محنت کش اب تک حکومت کے خلاف اٹھنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اس لئے سرکشی تنہا رہ گئی۔ بلانکی زیر زمین چلا گیا اور بیلول بٹالین کے بہادر کمانڈر فلورنس کو قید کر دیا گیا۔

پیرس میں گھیراﺅ کی وجہ سے قحط اور غربت کے تباہ کن نتائج سامنے آ رہے تھے اور محاصرے کو توڑنے کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔ بزنوال گاﺅں پر قبضہ کرنے کے لئے کیا جانے والا حملہ بھی شکست سے دوچار ہوا۔ ٹروچو نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کی جگہ ونوئے کو تعینات کیا گیا جس نے اپنے پہلے بیان میں ہی کہہ دیا کہ پیرس والوں کو کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ ہم پروشیا کو شکست دے پائیں گے۔ اب یہ واضح تھا کہ حکومت ہتھیار ڈالنا چاہتی تھی۔ سیاسی گروہوں اور نگران کمیٹیوں نے نیشنل گارڈ سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلح ہو کر شہری حکومت کی عمارت پر چڑھائی کریں۔ کچھ دستوں نے فلورنس کو رہا کروانے کے لئے جیلوں پر دھاوا بول دیا۔ عوامی دباﺅ میں آ کر جمہوری اتحاد کے متوسط طبقے کے جمہوریت پسندوں نے ”عوامی حکومت“ کے قیام کا مطالبہ کیا تاکہ پروشیا کے خلاف مو¿ثر مزاحمت منظم کی جا سکے۔ لیکن جب نیشنل گارڈ شہری حکومت کی عمارت کے پاس پہنچ گئے تو حکومتی نمائندے چھودری نے جمہوری اتحاد کے مندوبین پر غصے سے چلانا شروع کیا۔ یہ بات ہی جمہوریت پسندوں کو فوری طور پر منتشر کرنے کے لئے کافی تھی۔ اس غداری کی مخالفت کرنے والے نیشنل گارڈ اور مظاہرین پر حکومتی محافظوں نے فائرنگ کی۔ نیشنل گارڈ نے بھی جوابی فائرنگ کی لیکن بالآخر انہیں پسپا ہونا پڑا۔

حکومت کے ساتھ اس پہلی مسلح جھڑپ میں ہی جمہوری اتحاد ٹوٹ گیا۔ تاہم حکومت کے خلاف تحریک عارضی طور پرتھم گئی۔ 27 جنوری کو قومی دفاع کی حکومت نے اپنے ہتھیار ڈالنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔

دیہی علاقے امن کے حق میں تھے اور فروری میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں کسانوں کے ووٹوں سے شاہ پرست اور قدامت پسند اکثریت میں آ گئے۔ اسمبلی نے ایک سخت رجعتی ایڈولف تھیرز کو سربراہ حکومت منتخب کیا۔ اسمبلی میں پیرس اور دیہی اکثریت کے بیچ ایک جھڑپ ناگزیر تھی۔ رد انقلاب نے اپنا سر اٹھایا اور انقلاب کی چنگاری کو بھڑکانے کا موجب بنا۔ پروشیا کی فوجیں جلد ہی دارالحکومت میں داخل ہونے والی تھیں۔ تحریک میں جمود نے زیادہ طاقتور احتجاجوں کی راہ ہموار کی۔ نیشنل گارڈ کی جانب سے مسلح مظاہرے ہوئے جنہیں مزدوروں اور سماج کی غریب پرتوں سے بھرپور حمایت ملی۔ انہوں نے تھیرز اور شاہ پرستوں کو غدار قرار دے کر ان کی مذمت کی اور جمہوریہ کے دفاع میں خون کے آخری قطرے تک لڑنے کا اعادہ کیا۔ 31 اکتوبر اور 22 جنوری کے واقعات آنے والی تحریک کا پیش خیمہ تھے۔ پیرس کا محنت کش طبقہ اب کھلی بغاوت پر اتر آیا تھا۔

رجعتی قومی اسمبلی پیرس کے باسیوں کو مسلسل اشتعال دلا رہی تھی اور انہیں قاتل اور جرائم پیشہ افراد قرار دیا جا رہا تھا۔ اسمبلی نے نیشنل گارڈ کی پہلے سے کم تنخواہیں اس وقت تک منسوخ رکھنے کا اعلان کیا جب تک وہ اپنے آپ کو کام کے قابل ثابت نہیں کرتے۔ محاصرے کی وجہ سے بہت سے مزدور بے روزگار ہو چکے تھے اور اس اثنا میں صرف نیشنل گارڈ میں خدمات کے بدلے ملنے والا وظیفہ ہی انہیں قحط سے بچائے ہوئے تھا۔ کرایوں کے بقایا جات اور تمام تر قرضوں کو اڑتالیس گھنٹوں میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس سے چھوٹے کاروبار دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے۔ پیرس کو فرانس کے دارالحکومت کے رتبے سے معزول کر کے دارالحکومت کو ورسائی منتقل کر دیا گیا۔ اس اقدام سے سماج کی غریب ترین پرتیں سب سے زیادہ متاثر ہوئیں لیکن پیرس کے مڈل کلاس والے بھی اس اقدام سے مشتعل ہو گئے۔ ان کی نجات اب صرف تھیرز اور قومی اسمبلی کو اکھاڑنے میں مضمر تھی۔

پروشیا کے سامنے ہتھیار ڈالنے اور بادشاہت کی بحالی کے خطرے سے نیشنل گارڈ میں تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔ ”نیشنل گارڈ کی فیڈریشن کی مرکزی کمیٹی“ کا انتخاب عمل میں لایا گیا جو 215 بٹالینوں کی نمائندگی کر رہی تھی جن کے پاس 2000 توپیں اور 450,000 بندوقیں تھیں۔ نئے قوانین بنائے گئے جن میں اعلان کیا گیا کہ ”نیشنل گارڈ کو مکمل اختیار ہے کہ وہ اپنے لیڈر کا انتخاب خود کرے اور اگر لیڈران اپنے انتخاب کنندگان کا اعتماد کھو دیتے ہیں تو ان کا انتخاب منسوخ ہو جائے گا۔“ بنیادی طور پر یہ مرکزی کمیٹی اور بٹالینوں کی سطح پر دیگر تنظیمی شکلیں مزدوروں اور سپاہیوں کی ان سوویتوں کی ابتدائی کیفیتیں تھیں جو روس میں 1905ءاور 1917ءکے انقلابات کے دوران نمودار ہوئیں۔

نیشنل گارڈ کی نئی قیادت کو فوری طور پر اپنی طاقت کا امتحان لینا تھا۔ جب پروشیائی فوج پیرس میں داخل ہونے والی تھی‘ پیرس کے ہزاروں لوگ مسلح ہو کر حملہ آوروں پر حملے کے لئے اکٹھے ہو گئے۔ مرکزی کمیٹی کو مداخلت کرنا پڑی تاکہ ایک ایسی غیر مساوی جنگ کو روک سکے جس کے لئے وہ تیار نہیں تھے‘ جس میں وہ کامیاب ہوئی۔ اس کامیابی سے ایک قابل قبول قیادت کے طور پر اس کی اتھاڑتی قائم ہو گئی۔ حکومتی کمانڈر کلیمنٹ تھامس کو چار و ناچار استعفیٰ دینا پڑا۔ پروشیائی فوج نے شہر کے کچھ حصوں پر دو دن تک قبضہ کیے رکھا اور پھر پسپا ہوگئی۔

تھیرز نے دیہی علاقوں کے اسمبلی نمائندوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بادشاہت کو بحال کر دے گا۔ اس کا فوری مقصد پیرس میں ”دوہرے اقتدار“ (Dual Power) کی کیفیت کا خاتمہ کرنا تھا۔ نیشنل گارڈ کے پاس موجود توپ خانہ، بالخصوص مونٹمارٹر کی بلندیوں پر موجود توپیں، سرمایہ دارانہ ”نظم و نسق“ کے لئے خطرے کی علامت تھیں۔ 18 مارچ کو صبح 3 بجے جنرل لیکامٹے کی قیادت میں بیس ہزار سپاہیوں کو ان توپ خانوں پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجا گیا جنہوں نے آسانی سے توپوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ تاہم ان توپوں کو لے جانے کے لئے ان کے پاس گاڑی نہیں تھی۔ 7 بجے تک کوئی گاڑی نہیں پہنچی۔ اس دوران فوج مزدوروں بشمول خواتین اور بچوں کے گھیرے میں آ گئی۔ نیشنل گارڈ بھی موقع پر پہنچ چکے تھے۔ لیکامٹے نے اپنے سپاہیوں کو فائر کھولنے کا حکم دیا لیکن کسی نے بھی گولی نہیں چلائی۔ سپاہی اور نیشنل گارڈ آپس میں گھل مل گئے۔ اکا دکا فائرنگ کے واقعات کے بعد فوج بغیر کسی مزاحمت کے بکھر گئی۔ لیکامٹے اور کلیمنٹ تھامس (نیشنل گارڈ کا سابقہ کمانڈر جس نے 1848ءمیں مزدوروں پر گولی چلائی تھی) دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ مشتعل سپاہیوں نے انہیں فوراً ہی پھانسی دے دی۔

تھیرز کو فوجیوں کی بغاوت کا اندازہ نہیں تھا۔ بوکھلاہٹ میں وہ پیرس سے بھاگ گیا اور فوج اور شہری انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ فوراً شہر سے نکل جائیں اور آس پاس کے قلعوں کو خالی کر دیں۔ وہ چاہتا تھا کہ فوج کے بچے کھچے حصوں کو شہر سے دور لے جائے تاکہ انہیں پیرس کی انقلابی ”وبا“ سے بچایا جا سکے۔ اس کی بچی کھچی فوج، جس میں اکثریت باغیوں کی تھی، انقلابی نعرے لگاتے اور گیت گاتے ہوئے ورسائی کی طرف مارچ کرنے لگی۔

پرانی ریاستی مشینری کے ڈھے جانے کے بعد نیشنل گارڈ نے شہر کے تمام اہم مقامات پر بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کر لیا۔ مرکزی کمیٹی نے ان واقعات میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود 18 کی شام کو نیشنل گارڈ کی مسلح طاقت کی بنیاد پر وہ نئی انقلابی حکومت بن چکی تھی۔

مرکزی کمیٹی نے سب سے پہلے تو اس بنیاد پر اس نئی طاقت سے ہی جان چھڑانے کی کوشش کی کہ ان کے پاس حکومت کرنے کا کوئی ”قانونی اختیار“ نہیں ہے۔ کافی بحث و مباحثے کے بعد اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کچھ دنوں تک شہری حکومت میں رہا جائے تاکہ اس دوران میونسپل (کمیون) انتخابات منعقد ہوں۔ ”کمیون زندہ باد“ کے نعروں سے مرکزی کمیٹی کو تھوڑی راحت ملی کہ طاقت زیادہ دیر تک ان کے پاس نہیں رہے گی۔ فوری مسئلہ تھیرز اور ورسائی جانے والی فوج تھی۔ یوڈس اور ڈول نے تجویز دی کہ نیشنل گارڈ ان کا پیچھا کر کے تھیرز کی باقی ماندہ فوج کا بھی خاتمہ کر دے۔ لیکن ان کی بات پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ مرکزی کمیٹی میں زیادہ تر مصالحت پسند لوگ تھے جو اپنے مزاج اور نظریات میں تاریخ کی جانب سے تفویض کیے گئے فرائض کی ادائیگی کے لئے ہرگز تیار نہیں تھے۔

مرکزی کمیٹی نے انتخابات کی تاریخ کے لئے سابقہ میئروں اور متعدد ”مصالحت پسندوں“ کے ساتھ طویل مذاکرات شروع کیے۔ 26 مارچ یعنی الیکشن کے انعقاد کے دن تک ان کی ساری توجہ اسی کام پر مرکوز رہی۔ تھیرز نے اس قیمتی وقت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ صوبوں میں پیرس کے خلاف جھوٹ اور بہتان تراشی کی بنیاد پر خوب پراپیگنڈا کیا گیا اور بسمارک کی مدد سے پیرس پر حملے کے لئے فوجیوں کی تعداد، اسلحے اور مورال کو خوب بڑھاوا دیا گیا۔

نئے منتخب کمیون نے نیشنل گارڈ کی قیادت کی جگہ انقلابی پیرس کی حکومت سنبھال لی۔ اس میں زیادہ تر انقلابی تحریک سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے جن کی اکثریت کو ”بائیں بازو کے ریپبلکن“ کہا جا سکتا ہے جو عظیم انقلاب فرانس کی جیکوبن حکومت کو اپنا آئیڈیل مانتے تھے۔ ا س کے 90 ممبران میں سے 25 مزدور تھے، 13 نیشنل گارڈ کی مرکزی کمیٹی کے ممبران تھے اور 15 کے لگ بھگ کا تعلق انٹرنیشنل ورکنگ مینز ایسو سی ایشن (پہلی انٹرنیشنل) سے تھا۔ (پرجوش لیکن مبہم نظریات کے حامل) بلانکسٹ اور انٹرنیشنلسٹ کمیون کا ایک چوتھائی حصہ تھے۔ بلانکی خود ایک صوبائی جیل میں بند تھا۔ گنتی کے منتخب دائیں بازو کے ممبران نے مختلف وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دے دیا۔ کچھ کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب پولیس کی پرانی فائلیں کھلنے پر معلوم ہوا کہ وہ سابقہ شہنشاہی حکومت کے جاسوس تھے۔

کمیون کی حکومت میں تمام ریاستی اہلکاروں کے لئے مراعات کا خاتمہ کر دیا گیا۔ کرایوں کو منجمد کر دیا گیا اور بند کارخانوں کو مزدوروں کے کنٹرول میں دے دیا گیا۔ رات کے وقت کام کو محدود کرنے اور بیماروں اور غریبوں کو زندگی کی سہولیات فراہم کرنے کے اقدامات کیے گئے۔ کمیون نے ”سرمایہ داروں کے منافع کے لئے مزدوروں کے بیچ تباہ کن مقابلے کے خاتمے“ اور ”سوشلسٹ مقاصد کے پھیلاﺅ“ کو اپنا مقصد قرار دیا۔ تمام صحت مند افراد نیشنل گارڈ کا حصہ بن سکتے تھے اور اسے مکمل طور پر جمہوری خطوط پر استوار کیا گیا۔ ”عوام سے الگ تھلگ“ باقاعدہ فوج کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ مذہب کو ریاست سے الگ کیا گیا اور ایک نجی معاملہ قرار دیا گیا۔ سرکاری عمارتوں کو بے گھر افراد کے لئے مختص کر دیا گیا۔ نہ صرف تعلیم بلکہ تھیٹر اور ثقافت کے دروازے بھی سب کے لئے کھول دیئے گئے۔ تارکین وطن مزدوروں کو بھائی اور ”مزدوروں کی بین الاقوامی جمہوریہ“ کا سپاہی قرار دیا گیا۔ دن رات اجلاس ہوتے تھے جن میں ہزاروں مرد اور خواتین مفاد عامہ کی خاطر زندگی کو بہتر بنانے کے لئے بحث و مباحث کرتے تھے۔

نیشنل گارڈ اور کمیون کی قیادت میں تشکیل پانے والے سماج کا سماجی اور سیاسی کردار یقینا سوشلسٹ تھا۔ لیکن کسی تاریخی مثال کی عدم موجودگی، منظم اور واضح قیادت اور پروگرام کے فقدان اور محاصرے میں آئے ہوئے شہر کی سماجی اور معاشی ناکہ بندی کی وجہ سے مزدوروں کو ہر قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑتا تھا تاکہ سماج کو اپنے مفادات کے مطابق منظم کر سکےں۔ ان کے اقدامات کی بے ربطگی، ادھورے پن، وقت اور محنت کے زیاں اور دس ہفتے کے اقتدار کے دوران غلطیوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ کمیون والوں نے بہت سی غلطیاں کیں۔ مارکس اور اینگلز نے ان کی جانب سے بینک آف فرانس کو اپنے کنٹرول میں نہ لینے پر سخت تنقید کی۔ بینک تھیرز کو لاکھوں فرانک ادا کرتا رہا جس سے وہ پیرس پر حملے کی تیاری کرتا رہا۔ تاہم بنیادی طور پر مزدوروں کی جانب سے اٹھائے گئے تمام تر اہم اقدامات محنت کش طبقے کی مکمل سماجی اور معاشی آزادی کی راہ ہموار کر رہے تھے۔ سب سے بڑھ کر کمیون کے پاس وقت بہت کم تھا۔ سوشلزم کی جانب پیش قدمی کو ورسائی کی فوج کی واپسی نے روک دیا جس کے بعد بدترین خونریزی ہوئی جس نے کمیون کا خاتمہ کر دیا۔

کمیون نے ورسائی سے درپیش خطرے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ نہ اُن پر حملہ کیا گیا اور نہ ہی سنجیدگی سے اپنے دفاع کی تیاری کی گئی۔ 27 مارچ کے بعد ورسائی کے اگلے دستوں اور پیرس کے گرد مورچوں کے بیچ وقتاً فوقتاً جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں۔ 2 اپریل کو کوربوا کی جانب جانے والے کمیون کے یونٹ پر حملہ کیا گیا اور انہیں پسپا کر دیا گیا۔ تھیرز کی فوج نے بندی بنائے گئے تمام سپاہیوں کو قتل کر دیا۔ اگلے دن نیشنل گارڈ کے دباﺅ میں کمیون نے ورسائی پر تین اطراف سے حملہ کیا۔ تاہم کمیون کی بٹالینوں کے تمام تر جوش و خروش کے باوجود سنجیدہ سیاسی اور عسکری تیاری کے فقدان (18 مارچ کو یہ سوچا گیا تھا کہ نیشنل گارڈ کو دیکھتے ہی ورسائی کی فوج ان کے ساتھ مل جائے گی) کی وجہ سے یہ حملہ ناکامی سے دوچار ہوا۔

اس شکست سے نہ صرف بہت سے لوگ زخمی ہوئے اور جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے (جن میں فلورنس اور ڈول بھی شامل تھے جنہیں پکڑتے ہی قتل کر د یا گیا) بلکہ پیرس کے اندر متذبذب لوگ مزید کمزور پڑ گئے۔ ابتدائی ایام کی خطرناک رجائیت کی جگہ ممکنہ شکست کے خطرے کے احساس نے لے لی جس سے عسکری قیادت میں مزید انتشار اور پھوٹ نے جنم لیا۔ بالآخر 21 مئی 1871ءکو ورسائی کی فوج پیرس میں داخل ہوگئی۔ ایک سنجیدہ عسکری حکمت عملی بنانے میں ناکامی کے بعد کمیون فیصلہ کن وقت پر ناپید ہو گیا اور تمام تر اختیارات ایک غیر مو¿ثر ”عوامی تحفظ کی کمیٹی“ کے حوالے کر دیے گئے۔ نیشنل گارڈ کی جانب سے ”اپنے اپنے علاقوں میں لڑنے“ کے فیصلے اور کسی مرکزی قیادت کی غیر موجودگی وہ عناصر تھے جن سے کمیون کی فوجیں ورسائی کی فوج کے سامنے اپنی قوتیں مرتکز نہیں کر پائیں اور مزاحمت کرنے میں ناکام رہیں۔ کمیون والے پوری بہادری اور جرات سے لڑے لیکن بتدریج انہیں شہر کے مشرق کی طرف دھکیلا گیا اور بالآخر 28 مئی کو شکست دے دی گئی۔ تھیرز کی فوج نے شہر میں بدترین قتل عام کرتے ہوئے لگ بھگ تیس ہزار مردوں، خواتین اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ آنے والے دنوں میں بیس ہزار مزید لوگوں کو قتل کیا گیا۔ فائرنگ سکواڈ جون کے مہینے تک کام کرتا رہا۔ جس کسی پر کمیون سے کسی بھی طرح تعاون کرنے کا شک ہوتا اسے فوراً گولی مار دی جاتی۔

مارکس اور اینگلز نے کمیون کے واقعات کا قریبی مشاہدہ کیا اور مزدور ریاست کی تعمیر کی اس پہلی کوشش سے اہم نتائج اخذ کیے۔ ان کے مشاہدات اور نتائج ایک کتاب ”فرانس میں خانہ جنگی“ کے نام سے شائع ہوئے جس کا شاندار پیش لفظ اینگلز نے لکھا۔ 18 مارچ سے پہلے ان کا کہنا تھا کہ غیر موافق حالات کے پیش نظر طاقت پر قبضہ کرنا ”احمقانہ اقدام“ ہو گا۔ اس کے باوجود 18 مارچ کے واقعات نے طاقت کو مزدوروں کے اوپر مسلط کر دیا۔ پیرس کے مزدوروں نے اپنے آپ کو ایک ایسی کیفیت میں پایا جہاں وہ نہ صرف اپنے فوری مقاصد بلکہ ایک ”عالمی فلاحی جمہوریہ“ کے لئے لڑ رہے تھے جہاں استحصال، طبقاتی تفریق، رجعتی عسکریت اور قومی مخاصمتوں کا خاتمہ ہونا تھا۔ آج کے جدید فرانس میں تمام تر صنعتی ممالک کی طرح ان مقاصد کے حصول کے لئے مادی حالات 1871ءکی نسبت کہیں زیادہ موافق ہیں۔ ہمیں اس سماج کی تعمیر کے لئے اپنی جدوجہد کو تیز کرنا ہو گا جس کے لئے کمیون کے مرد و خواتین نے جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں۔