حسن جان

بالآخر امریکی حکمران طبقات نے ڈونلڈ ٹرمپ سے جان چھڑا لی جو امریکی صدارتی تاریخ میں حکمرانوں کا سب سے ڈراﺅنا خواب تھا۔ 20 جنوری کو ٹرمپ نے قصر صدارت کوخیرباد کہہ دیا۔ اس نے نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں بھی شرکت نہیں کی۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے کارپوریٹ میڈیا نے پورا زور لگا کے ٹرمپ کو اقتدار سے باہر کر دیا جو ان کے نزدیک اقتدار کے ایوانوں کے لیے ایک اجنبی( Outsider) تھا۔ امریکی زر خرید میڈیا اور ان کے ماہرین اس بات پر مصر ہیں کہ ٹرمپ کا مظہر ایک عارضی بگاڑ تھا جسے انہوں نے کامیابی سے ٹھیک کر کے اب اقتدار بائیڈن کو سونپ دیا ہے۔ درحقیقت یہ امریکی سامراج کی تاریخی شکست و ریخت اور عالمی سرمایہ داری کی نامیاتی زوال پذیری ہے جو ایک کے بعد ایک ملک میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لا ابالی پن اور منہ پھٹ رویوں سے امریکی سامراج کے گھناﺅنے چہرے کو بے نقاب کیا جو اب تک منافقانہ سفارتکاری کے پردے کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ جو بائیڈن، جو امریکی حکمرانوں کا گھاگ نمائندہ ہے، کو اقتدار میں لا کر امریکی سامراج پھر سے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ اور عالمی تھانیداری کو بحال کرنا چاہتا ہے‘ لیکن زیادہ شاطرانہ سفارتکاری کے ذریعے!

ڈونلڈ ٹرمپ چار سالوں تک اپنی من چلی حرکتوں کی وجہ سے امریکی حکمران طبقات اور ان کی نام نہاد لبرل جمہوری روایات کے لیے درد سر بنا ہوا تھا۔ اس نے روایتی بورژوا اخلاقیات اور رکھ رکھاﺅ کو پرے پھینک دیا۔ اس نے امریکی کارپوریٹ میڈیا کے بیہودہ چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے انہیں درست طور پر ”جھوٹی خبریں پھیلانے والے“ کا خطاب دیا۔ 2016ءکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران اس نے اپنے مد مقابل امیدوار ہیلری کلنٹن کو ”غلیظ عورت“ کا نام دیا تھا۔ اگرچہ کلنٹن کے بطور وزیر خارجہ مجرمانہ ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اسے اس سے اعلیٰ خطاب بھی دیا جا سکتا تھا۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے جرنیلوں کو بھی نہیں بخشا۔ ان پر تنقید کرتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ لوگ جنگ کی حمایت کرتے ہیں ”تاکہ بم اور جنگی طیارے بنانے والی شاندار کمپنیاں خوش رہ سکیں۔“ اگرچہ یہ بات تو ساری دنیا ہی جانتی ہے کہ ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس جنگوں کے لیے ہمیشہ بے تاب ہوتا ہے لیکن اس طرح کی باتیں امریکی صدر کے منہ سے انتہائی غیر معمولی تھیں۔

اس کے بہت سے بیانات اور اقدامات پوری امریکی تاریخ میں انتہائی عجیب و غریب تھے۔ مثلاً لاطینی امریکہ سے آنے والے تارکین وطن کو جرائم پیشہ کہنا، کئی مسلمان ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنا، گلوبل وارمنگ کو فریب کہنا اور سربراہان مملکت سے تلخ جملوں کا تبادلہ کرنا۔ اگرچہ اس نے داخلی اور خارجی محاذ پر امریکی پالیسیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کی لیکن اس کی جلد بازی اور لا پرواہی سے امریکہ کو دنیا بھر میں خجالت کا سامنا کرنا پڑتا۔ اور بعض اوقات تو وہ سارا کام ہی بگاڑ دیتا تھا۔ اس پر نسل پرستی اور سفید فام بالادستی کو پروان چڑھانے کا بھی الزام لگا۔ تاہم تاریخی طور پر منظم نسل پرستی اور سفید فام بالادستی کے رجحانات امریکی سامراجی ریاست کی بنیادوں میں موجود رہے ہیں۔ ایک ایسا ”آﺅٹ سائیڈر“ جو نسل پرستانہ، تارکین وطن دشمن اور سفید فام بالادستی کے رجحانات رکھتا ہو اور جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہ ہو اس کی انتخابات میں کامیابی جبکہ حکمرانوں کی گھاگ نمائندہ ہیلری کلنٹن کا انتخابات میں شکست کھانا دراصل امریکی سامراج اور اس کی تمام تر لبرل اور جمہوری اقدار کی تاریخی زوال پذیری کی غمازی کرتاہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی پرآشوب اور پرانتشار صدارت 3 نومبر کے انتخابات کے بعد ختم ہوئی جب امریکی حکمران طبقات کے ایک زیادہ گھاگ، ”مہذب“ اور شاطر نمائندے جو بائیڈن سے اسے شکست ہوئی۔ ٹرمپ نے شکست قبول نہیں کی اور اپنے حریف پر بے تحاشا دھاندلی کے الزامات لگائے۔ تاریخی طور پر انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنا اور دھاندلی کے الزامات لگانا عام طور پر تیسری دنیا کے ممالک کا خاصہ رہا ہے جہاں معیشتیں اور سیاست ہمیشہ بحرانی کیفیت میں ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور عسکری طاقت کا ہے۔ ہم غیر معمولی وقتوں میں رہ رہے ہیں جہاں عالمی سرمایہ داری اپنی تاریخ کے سب سے گہرے بحران سے دو چار ہے۔ ایک موقع پر تو اقتدار کی منتقلی بھی انتہائی مشکل نظر آ رہی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے جیالے اپنے قائد کے اکسانے پر امریکی کانگریس کی بلڈنگ میں گھس گئے جہاں جو بائیڈن کی جیت کی توثیق کے لیے کانگریس کا مشترکہ اجلاس جاری تھا۔ ایوان اقتدار میں توڑپھوڑ کے یہ غیر معمولی مناظر پوری دنیا میں امریکی سامراج کی خجالت اور رسوائی کا سبب بنے۔

حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ مجبوراً امریکی فوج کو واضح انداز میں مداخلت کرنا پڑی۔ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف نے ایک بیان جاری کیا جس میں کانگریس پر حملے کی مذمت کی گئی اور جو بائیڈن کی جیت کی توثیق کی گئی۔ بیان میں کہا گیا، ”آئینی عمل کو سبوتاژ کرنے کا کوئی بھی اقدام نہ صرف ہماری روایات، اقدار اور حلف کے خلاف ہے بلکہ یہ قانون کے بھی خلاف ہے۔“ فوج کا اس طرح واضح طور پر مداخلت کرنا بھی امریکی تاریخ میں بے سابقہ ہے۔ اگرچہ ڈیپ سٹیٹ اور اعلیٰ فوجی حلقے ہمیشہ سے ہی پس پردہ اپنی وارداتیں کرتے رہے ہیں۔

بائیڈن ایک ایسے وقت میں اقتدار سنبھال رہا ہے جب کورونا وبا اور لاک ڈاﺅن کی وجہ سے امریکی معیشت 2020ءمیں 4 سے 5 فیصد سکڑ گئی ہے اور 22 ملین سے زائد امریکی بیروزگار ہو چکے ہیں۔ کاروبار دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ اب تک 456,000 افراد کورونا وبا کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ ’V‘ طرز کی معاشی بحالی ایک احمقانہ خواہش بن چکی ہے کیونکہ متعدد تجزیے اب یہ کہہ رہے ہیں کہ 2022ءکے اختتام تک معیشت 2019ءکی سطح پر نہیں آ سکتی۔ جو بائیڈن نے معاشی بحالی اور کورونا وبا سے مقابلے کے لیے 1.9 ٹریلین ڈالر کے پیکیج کی تجویز امریکی کانگریس میں پیش کی ہے۔ لیکن یہ رقم بھی معیشت میں خاطر خواہ جان ڈالنے سے قاصر ہو گی۔ معیشت میں ایک معنی خیز ابھار لانے کے لیے سرمایہ داروں کی بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے لیکن اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ سرمایہ دار سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں کیونکہ شرح منافع اس وقت 1945ءکے بعد اپنی سب سے کم ترین سطح پر ہے۔

خارجہ پالیسی پر اپنی پہلی تقریر میں جو بائیڈن نے اعلان کیا، ”امریکہ واپس آ چکا ہے۔ سفارت کاری واپس آ چکی ہے۔“ اس شخص کے منہ سے سفارت کاری کی واپسی کی باتیں انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس کے پیشرو نے صرف جنگیں لڑی ہیں اور اب ان جنگوں کو ختم کرنے کا وقت آیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مدت میں کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی جبکہ مرد ِ سفارت کاری اور امن کے نوبل انعام یافتہ باراک اوباما نے لیبیا، عراق اور شام میں نئی جنگیں شروع کر کے ان ممالک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ یہ لوگ اب سفارت کاری کی بات اس وجہ سے کر رہے ہیں کیونکہ نظام کی تاریخی زوال پذیری کی صورت حال میں یہ لوگ اب مزید جنگوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ پہلے ہی افغانستان اور عراق میں امریکی سامراج کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اس کے باوجود یہ عراق اور افغانستان میں اپنے جرائم کو آگے بڑھانے کے لیے داعش جیسی وحشی تنظیموں کو پال رہے ہیں۔

اپنی اس تقریر میں اس نے سعودی عرب کی قیادت میں یمن کی جنگ کے لیے امریکی حمایت کے خاتمے کا اعلان کیا۔ سعودی عرب نے یہ جنگ دراصل یمن میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و رسوخ اور ایران اور امریکہ کے درمیان ایٹمی مذاکرات (جس کے نتیجے میں ایٹمی معاہدہ وجود میں آیا) کے ردعمل میں شروع کی تھی۔ ایٹمی مذاکرات کے دوران اسرائیل اور سعودی عرب نے اسے ناکام کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ معاہدے کے بعد سعودیوں نے پاکستان سے ایٹمی ہتھیار خریدنے کے بارے میں بھی سوچا۔ اسی وجہ سے امریکہ کو مجبوراً یمن کی جنگ میں سعودی عرب کی حمایت کرنا پڑی۔ لیکن ٹرمپ نے آ کر ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو ہی ختم کر دیا اور ایران پر تمام تر اقتصادی پابندیاں دوبارہ نافذ کر دیں۔ ایران کی اقتصادی ناکہ بندی کر دی گئی۔ لیکن ٹرمپ کے ”زیادہ سے زیادہ دباﺅ“ کی پالیسی کے باوجود مشرق وسطیٰ میں ایران کی مداخلت کو ختم نہیں کیا جا سکا۔ ایرانی ملاﺅں نے عوام کی تمام تر معاشی مشکلات کی وجہ امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کو قرار دیا۔ ٹرمپ کے ان تمام تر اقدامات سے مشرق وسطیٰ میں تنازعات مزید شدت اختیار کر گئے۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت سے خطہ جنگ کے دہانے تک پہنچ گیا تھا۔ حتیٰ کہ امریکہ کے خلیجی اتحادی بھی ایک کھلی جنگ کے امکانات سے خوفزدہ ہو گئے۔

اب جو بائیڈن کی صدارت میں امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو بحال کرنا چاہتا ہے۔ صدر جو بائیڈن نے رابرٹ مالے کو ایران کے لیے اپنا نمائندہ خاص مقرر کیا ہے۔ مالے نے 2015ءکے ایٹمی معاہدے کو تشکیل دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ تقرری اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ امریکہ معاہدے کو بحال کرنے کی واقعی خواہش رکھتا ہے۔ انہوں نے صرف یہ شرط رکھی ہے کہ پہلے ایران ایٹمی معاہدے کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ اس کے بعد امریکہ معاہدے کا حصہ بنے گا۔ جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ پہلے امریکہ معاہدے کی طرف واپس آئے اور ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کو ختم کرے تب ہی ایران اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔

جو بائیڈن کے حلف لینے سے پہلے ایران نے یورینیم کی 20 فیصد افزودگی کا آغاز کیا جس کا مقصد معاہدے کی بحالی کے مذاکرات کے دوران اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنا ہے۔ لیکن ایسے بہت سے عوامل ہیں جس سے معاملات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اسرائیل نے امریکہ کی معاہدے کی طرف واپسی کو مسترد کیا ہے۔ حتیٰ کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملوں کی بات بھی کی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ایران نہ صرف اسرائیل کے لیے ناقابل قبول ہے بلکہ خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کے لیے بھی ناقابل قبول ہے۔ وہ معاہدے کی بحالی کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ حال ہی میں ایک نامور ایرانی ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران میں قتل کیا گیا۔ مبینہ طور پر یہ اقدام اسرائیل نے کیا تھا تا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان کسی ممکنہ معاہدے کا راستہ روکا جا سکے۔ ایٹمی معاہدے کی رو سے ایران کے ایٹمی ہتھیار بنانے کی مدت کو ایک سال رکھا گیا ہے۔ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے امکانات کی غیر موجودگی میں اسرائیل ایران کے ایٹمی ”بریک آﺅٹ“ وقت کو بڑھانے کی کوشش کرے گا۔

معاہدہ ہو یا نہ ہو‘ دونوں صورتوں میں مشرق وسطیٰ میں تنازعات جاری رہیں گے۔ ایٹمی معاہدے کی بحالی کی صورت میں ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ختم ہوں گی اور نہ صرف بیرون ملک بینکوں میں منجمد شدہ ایرانی ریاست کے اربوں ڈالر انہیں واپس ملیں گے بلکہ وہ اپنا تیل بھی بیچنے کے قابل ہوں گے جس سے ایرانی ملاﺅں کی طاقت میں مزید اضافہ ہو گا اور خطے میں ان کی مداخلت مزید بڑھے گی۔ اس سے خطے میں پراکسی جنگیں بھی اور تیز ہوں گی۔

اسی طرح نئی امریکی انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ امریکہ کے معاہدے پر نظر ثانی کا بھی اعلان کیا ہے۔ امریکہ طالبان معاہدے کے تحت مئی 2021ءتک امریکہ اور نیٹو نے افغانستان سے اپنی تمام فوجوں کا انخلا مکمل کرنا ہے۔ طالبان کے ساتھ یہ معاہدہ امریکہ کاشرمناک اعلان شکست ہے۔ امریکہ اپنے تمام تر جدید اسلحے کے باوجود طالبان سے شکست کھا گیا۔یہ حقیقت سامراجی جارحیتوں کی محدودیت کو آشکار کرتی ہے۔افغانستان میں فوجی مہمات پر ایک ٹریلین ڈالر اور ”تعمیر نو“ اور ”جمہوریت “ پر 100 اَرب ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی امریکہ اپنے پیچھے ایک برباد اور طالبان زدہ ملک چھوڑ رہا ہے جبکہ آبادی کی وسیع اکثریت غربت اور محرومی میں غرق ہے۔

طالبان کے ساتھ معاہدے کو امریکی کانگریس کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے بہر کیف معاہدے کو آگے بڑھایا تھا۔ لیکن اب خطے کی نئی صورت حال اور چین کے ساتھ امریکہ کی بڑھتی ہوئی چپقلش کے تناظر میں نئی بائیڈن انتظامیہ کے منصوبے مختلف ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جو بائیدن فوجی انخلا کو معطل کرنا چاہتا ہے۔ حال ہی میں دو جماعتی کانگریس پینل نے انخلا کی معیاد کو مئی سے آگے بڑھانے کی تجویز دی ہے۔ حتیٰ کہ مزید افواج بھیجنے کے امکانات بھی ہیں۔ ایسی صورت حال میں امریکہ طالبان معاہدہ صرف کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ جائے گا جس کے بعد خونریزی کا ایک اور دور شروع ہو گا۔

دوسری طرف پاکستان نے نئی امریکی انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ امریکہ طالبان معاہدے کی پاسداری کرے۔ یہ معاہدہ پاکستان کے لیے ایک بہت بڑی جیت تھی۔ اگر ٹرمپ دوبارہ جیت جاتا تو طالبان جلد ہی اقتدار میں ہوتے۔ معاہدے کی منسوخی پاکستان کے لیے ایک ڈراﺅنا خواب ثابت ہو گی۔ چین کے ساتھ اپنی چپقلش میں امریکہ بھارت کو مزید اپنے قریب لانے کی کوشش کرے گا اور افغانستان میں بھی اس کا کردار بڑھے گا‘ جس سے پاکستان پر دباﺅ میں اضافہ ہو گا۔ اس سے پاکستانی ریاست، جو پہلے ہی معاشی بحران کی زد میں ہے، کا اندرونی بحران مزید بڑھے گا ۔

نئی امریکی انتظامیہ کی تمام تر سفارت کاری کی باتوں اور خوبصورت الفاظ کے استعمال کے باوجود مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں تنازعات اور بحرانات مزید بڑھیں گے۔ فروعی تبدیلیوں کے علاوہ امریکی محنت کشوں کے حالات کچھ بہتر نہیں ہوں گے۔ دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور عسکری طاقت کے طور پر امریکہ کمیونزم کے خلاف سرمایہ داری کا سب سے طاقتور قلعہ رہا ہے اور یہاں کمیونزم اور مارکسزم کے خلاف سب سے زیادہ پروپیگنڈا بھی کیا گیا۔ امریکی حکمران طبقات ”امریکی خواب“ (American Dream) کے بارے میں شیخی بگھارتے تھے کہ اگر کوئی شخص دنیا کے کسی بھی حصے سے امریکہ آئے اور اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو وہ امریکہ میں محنت کر کے کامیاب اور امیر شخص بن سکتا ہے۔ لیکن آج یہ ملک باقیوں کے لیے سہانا خواب تو درکنار خود اپنے شہریوں کے لیے ایک ڈراﺅنا خواب بن چکا ہے۔ لوگ دو دو نوکریاں کر کے بھی اپنی ضروریات پوری نہیں کر پاتے۔ اسی وجہ سے پہلی مرتبہ حکمران طبقات اور ان کے زر خرید میڈیا کے تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود سوشلزم اور بائیں بازو کے نظریات کی طرف لوگوں کی وسیع اکثریت کا رجحان بن رہا ہے جس کا اظہار برنی سینڈرز کی مقبولیت میں نظر آیا ہے‘ جو اعلانیہ اپنے آپ کو جمہوری سوشلسٹ کہتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معاشی، عسکری اور تکنیکی طاقت کے حامل ملک امریکہ میں سرمایہ داری کے خاتمے کا مطلب پوری دنیا میں سوشلسٹ انقلاب کا برپا ہونا ہو گا۔