قمرالزماں خاں
اکسویں صدی کی دوسری دہائی کا آخری سال ان مٹ زخموں، حوادث، بربادیوں اور ناکامیوںکے سفر کو تین سو چھیاسٹھ دنوں سے بڑھاتے ہوئے نئے سال میں منتقل ہو رہا ہے۔ صرف کیلنڈر پر درج سال اور مہینے بدل رہے ہیں‘ تبدیلی کااس سے زیادہ مفہوم مادی معنوں میں کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ وہی عالمی وبا جس نے پوری دنیا کو 2019ءمیں لپیٹ میں لینا شروع کیا تھا‘ 2020ءکے بعد نئے سال میں بھی انسانی زندگیوں کو نگلنے میں مصروف ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی تمام تر ترقی اور کامیابیاں نسل انسان کی سلامتی، صحت اور بقا کیلئے استعمال ہونے کی بجائے ایک انسان دشمن اقلیت کو نوازنے میں مصروف ہیں۔ سرمایہ داری اپنی سرشت کے مطابق عالمی وبا کی وحشت کو بھی اپنے منافعے بڑھانے کےلئے استعمال کرنے میں مصروف ہے۔ دنیامیں غربت اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ امیر اور غریب کے فرق میں بھی اس سال بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس وبا کی وجہ سے جب امریکہ کے 4 کروڑ لوگ بے روزگار ہو رہے تھے اور بہت بڑی آبادی کی آمدنیاں سکڑ رہیں تھیں، تنخواہیں کم ہو رہی تھیں اور معیار زندگی گراوٹ کا شکار ہو رہا تھا تو اسی دوران امریکہ کے ہی چند امیر کاروباری افراد کی دولت میں 637 ارب ڈالر کا اضافہ ہو رہا تھا۔ اندازہ ہے کہ کورونا کے باعث غریبوں سے 9 کھرب ڈالر چھن کر امیروں کی تجوریاں بھر دیں گے۔ اسی نسبت سے ہم پوری دنیا میں اس منظر کی تکرار دیکھ سکتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کا یہ کھیل ہے جس میں ایک طرف آبادی کی اکثریت اور بالخصوص کمزور پرتیں اپنے وسائل سے محروم ہو رہی ہوتی ہیں تو اسی دوران حکمران طبقے کی کمپنیاں اور انکے ڈائریکٹر اربوں ڈالر اپنی تجوریوں میں سمیٹ رہے ہوتے ہیں۔ ایسا کرنے میں ان کو ریاستی اداروں، مالیاتی اداروں اور پالیسی ساز وں کی مکمل اعانت حاصل ہوتی ہے۔ جب سرمایہ دار مارکیٹ سے اربوں کھربوں سمیٹ رہے ہوتے ہیں تو اسی دوران عالمی اور مقامی بینکوں کے ذریعے حکومتیں انہیں بڑی بڑی رقموں کے ریلیف پیکیج بھی عطا کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ منظر ہم نے پاکستان میں بھی دیکھا جب غریبوں کے چولہے بجھ رہے تھے، فیکٹریوں سے مزدوروں کو نکال کر بے روزگارکیا جارہا تھا، دیہاڑی دار گھروں میں بیٹھ گئے تھے، چھوٹے کاروباری اور آبادی کا بہت بڑا حصہ معاشی سرگرمیوں اور آمدنی کے ذرائع سے محروم ہورہاتھا… تب پاکستان میں حکومت نے 1200 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ اس خطیر رقم میں سے 64 فیصد غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والی آبادی کی نگہداشت، خوراک اور زندگی کی بقا کے لوازمات پورے کرنے کیلئے محض 140 ارب روپے مختص کیے گئے۔ جس کو 12000 روپے فی خاندان کے حساب سے دیا جانا تھا۔ جبکہ باقی 1060 ارب روپے چند سو مالکان کو عطا کر دیئے گئے۔ فیض یاب ہونے والوں میں 100 ارب روپے کی خطیر رقم ان بجلی بنانے والی کمپنیوں کیلئے بھی رکھی گئی جن کو پاکستان میں لوٹ مار کی کھلی چھوٹ ہے اور حکومت کی طرف سے بنا بجلی بنائے بھی (پیداواری صلاحیت کے مطابق) ان کو مسلسل ادائیگیاں کی جاتی ہیں۔ یوں ہر مصیبت، ابتلا، وبا اور آزمائش محنت کش طبقے کے حصے میں آ جاتی ہے اور اسی دوران طبقہ امرا، حکمران دھڑوں اور منڈی کے حصہ دار وں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ایک طرف پور ی دنیا کی طرح اہل پاکستان کورونا کا شکار تھے، ان کی آمدن کے ذرائع محدود اور مسدود ہو چکے تھے تو دوسری طرف تبدیلی کے نام پر بننے والی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اپنے سامراجی آقاﺅں اور مقامی مالکان کے احکامات پر معاشی حملے تواتر سے جاری رہے۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں سال بھر تسلسل سے اضافہ ہوتا رہا۔ دوسری طرف حکومتی وزرا، مشیروں اور کارپوریٹ مافیاﺅں نے چینی، آٹا، ادویات اور ضروریات زندگی کے نرخوں میں اضافے سے مبینہ طور پر حکومتی پشت پناہی سے بے پناہ دولت کمائی۔ عالمی وبا کے ضمن میں آنے والی بیرونی امداد میں بھی مبینہ طور پر بہت بڑی کرپشن کی گئی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے سربراہ جنرل افضل کو انہی الزامات میں عہدے سے ہٹایاگیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے بیرون ملک سے آنے والی مالی امدادمیں سے مبینہ طور پر 300 ملین ڈالر کا غبن کیا ہے۔ پاکستانی عوام پر افتاد ہر طرف سے جاری رہی۔ گزشتہ سال ٹڈی دل کے حملے کو بھی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے ڈیل کیا۔ ٹڈی دل کے لشکر گزشتہ دو سالوں سے مسلسل فصلوںپر حملہ آور ہوتے آ رہے ہیں۔ تدارک کی تمام تدابیر کاغذی کاروائیاں ہی ثابت ہوئیں اور یہ ٹڈی دل پچھلے سال ربیع کی اہم ترین فصل کپاس کو بیجائی کے چند ہفتوں کے بعد ہی چٹ کر گئی۔ کاشتکاروں کو دوبارہ کاشت کرنی پڑی۔ یوں خرچ ڈبل ہو گیا۔ مگر کاشتکاروں کی مصیبت یہاں پر کم نہیں ہوئی۔ اس سال ملک گیر سطح پر ناقص بیج اور جعلی ادویات بیچنے والوں نے بھی کاشت کاروں کی خوب جیبیں کاٹیں۔ غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے کپاس کی فصل پر سفید مکھی حملہ آور ہوئی‘ جس کو تلف کرنے کیلئے بار بار کیڑے مار ادویات سپرے کی گئیں مگر یہ سب رائیگاں گیا اور زیادہ تر فصل خراب ہو گئی۔ کپاس کی پیداوار میں 6.9 فیصد کمی ہوئی جب کہ کپاس کی جننگ میں 4.61 فیصد کمی واقع ہوئی۔ ایک وقت تھا کہ کپاس، دھاگہ، کاٹن اور دیگر ایسی مصنوعات برآمدہوتی تھیں۔ اب ملکی ضروریات کیلئے بھی کپاس درآمد کرنا پڑے گی۔ یہ آزاد منڈی کے آزاد اور کھلے حملے ہیں۔ جن سے بڑے مافیا اور ان کے نیٹ ورک پورے سماج کی دولت سمیٹ کر اپنی جیبیں بھر لیتے ہےں اور دوسری طرف محنت کش عوام برباد ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں براہ راست زراعت سے متعلقہ ورک فورس 2010ءمیں 44 فیصد تھی جو اب کم ہو کر 34 فیصد رہ گئی ہے۔ یہ کمی مسلسل ہے اور آنے والے سالوں میں اس میں مزید کمی کا اندیشہ ہے۔ رئیل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبے کو سرکاری سطح پربہت بڑی مراعات دینے اور ایمنسٹی اسکیموں کے ذریعے کالادھن سفید کرنے کی ترغیب کے باعث زراعت پر عدم توجہی اور بھی بڑھ گئی ہے۔ جس کے باعث پاکستان میں کھیتی باڑی اتنی بے وقعت ہو چکی ہے کہ کھیتوں پر رہائشی کالونیاں بن رہی ہیں۔ حکومتیں اتنی بےگانہ ہیں کہ کپاس کے علاقے کی زرخیز زمینوں پر گنے کی کاشت پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ دھڑا دھڑا (انسانی صحت کیلئے مضر ) چینی بنانے کے کارخانوں کے لائسنس جاری کیے جا رہے ہیں۔ آبپاشی کا پرانا نظام فرسودہ ہو چکا ہے۔ پانی 64 فیصد کھیتوں میں پہنچنے سے پہلے ضائع ہو جاتا ہے۔ بیج جعلی اور ناکارہ فروخت ہو رہے ہیں۔ موسموں اور تبدیلیوں سے مطابقت رکھنے اور زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں کے تحقیقی مراکز بانجھ ہو چکے ہیں۔ فصلوں کی لاگت بڑھا کر کھاد اور بجلی بنانے، زرعی ادویات درآمدکرنے اور بیچنے والوں کو کھربوں روپے کا فائدہ پہنچا کر کسان کی محنت کو بیگار میں بدل دیا گیا ہے۔ سبزیوں کی زیادہ پیدوار کو مفید بنانے اور بر آمد کرنے کی تکنیک اور اسباب فراہم کرنے کی پالیسی نہ بنا پانے کی وجہ سے سبزیوں کے کھیتوں میں کالونیاں بن چکی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ٹماٹر، مرچیں، ادرک بھی چین، ایران اور بھارت سے در آمد کرنے پڑتے ہیں۔ جن دنوں آلو، ٹماٹر، مرچیں اور پیاز کی فصلیں مارکیٹ میں آتی ہیں تو ان کی قیمت اتنی حقیر ہوتی ہے کہ لاگت پوری نہیں ہوتی اور یہ فصلیں محفوظ نہ ہونے کے سبب ضائع ہو جاتی ہیں۔ پھر آف سیزن میں یہی سبزیاں اتنی مہنگی ہو جاتی ہیں کہ عام آدمی کی رسائی سے باہر ہو جاتی ہیں۔ باغات کی بے قدری کی جا رہی ہے۔ اربوں روپے کے پھل ہنزہ سے خضدار تک ضائع ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ انکو پراسس کر کے بر آمد کیا جا سکتا ہے۔ اب سیب اور ناشپاتی تک نیوزی لینڈ، ایران اور چین سے منگوائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ستر فیصد آبادی دیہی پیداواری رشتوں سے منسلک ہے۔ اتنے اہم سیکٹر کو نظر انداز کر کے آنے والے وقت میں قحط اور افلاس کی پرتیں گہری کی جا رہی ہیں۔ پسماندہ طرز پیدوار اور جدید تکنیک اور مشینری کے بغیر زراعت کا شعبہ تباہی کی نذر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ٹریکٹر، ہارویسٹر اور دیگر زرعی آلات عام اور چھوٹے کسان کی قوت خرید سے دور ہیں۔ دنیا میں کھیتی باڑی کیلئے جدید مشینری استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان کی لاکھوں ایکٹر زمین غیر مزروعہ اور بے کار پڑی ہے۔ چولستان کی زمینوں کی بے دریغ لوٹ مارکے باوجود وہاں بھی لاکھوں ایکٹر زمین بے کار اوربے مصرف پڑی ہے۔ کھارے اور ویسٹ واٹر کو کار آمد بنانے کی طرف بالکل توجہ نہیں دی جا رہی اور بڑی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ کھاد، بیج، زرعی ادویات اور بجلی کے نرخ غیر حقیقی ہونے کی وجہ سے زرعی پیدوار کی لاگت زیادہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے کاشتکاروں کیلئے زراعت بے معنی ہوتی جا رہی ہے۔ کالا دھن بھی زراعت کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ رئیل اسٹیٹ نے زرعی زمینوں پراپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہیں۔ کسان سے دس ہزار روپے مرلہ زمین لے کر اسے چار سے دس لاکھ روپے مرلہ تک میں بیچا جاتا ہے۔ یوں کالا دھن سفید بھی ہو جاتا ہے اور لاکھ روپیہ کروڑمیں بدل جاتا ہے۔ زراعت فوری توجہ کی متقاضی ہے مگر ایک زرعی ملک میں اس شعبے پر نہ تو جہ دی گئی اور نہ ہی اب سامراجی حملہ آوروں کے نئے زرعی ایجنڈے کے باعث ایسا ہونا ممکن ہے۔
اپوزیشن (پرانے حکمران ) اور موجودہ حکمرانوں کو زراعت کی ترقی اور تحقیق میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ پاکستان بھی ہندوستان کے کسانوں جیسی ایک تحریک مانگ رہا ہے جو اپنے پورے ایجنڈے اور مانگوں کے ساتھ میدان عمل میں آئے اور اپنے مطالبات کو قومی ایجنڈے کاحصہ بنوا سکے۔
زراعت کی طرح صنعت‘ بطور خاص مینوفیکچرنگ سیکٹر بھی گراوٹ کاشکار رہا ہے۔ پاکستان میں کسی قسم کی بر آمدی مشینری تیار نہیں ہوتی۔ اس کی وجوہات تاریخی بھی ہیں اور سامراجی شرائط پر قرضوں کی وصولی اور بندشیں بھی کارفرما ہیں۔ پاکستان میں عمومی طور پر مینوفیکچرنگ کی بجائے اسمبلنگ کی جاتی ہے۔ درآمدی پرزوں کو جوڑ کر اور بطور خاص گاڑیوں کے مقامی نام رکھ کر پیداوار کا تاثر دیا جاتا ہے۔ مگر عالمی معیارسے بہت نچلی سطح کی اسمبل شدہ گاڑیوں پر ٹیکسوں کی بھرمار اور پرزے جوڑنے والوں کی کھلی لوٹ مارکے باعث ان کی قیمتیں غیر حقیقی ہو چکی ہیں۔ کورونا کے باعث قوت خرید گرنے کی وجہ سے گاڑیوں کی فروخت بہت کم ہوئی ہے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ، سٹوریج اور مواصلات کے شعبوں میں 7.13 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے پاکستانی کرنسی ڈالر کے مقابلے میں حقیر ہوتی رہی ہے۔ اس کا نتیجہ در آمدی اشیا، خام مال اور پرزوں کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں نکل رہا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں عالمی منڈی کے تناسب سے کمی نہ ہونے کا ایک سبب ٹیکسوں کی بھر مار ہے تو دوسری طرف ڈالر کا مہنگا ہونا بتایا جاتا ہے۔ قومی پیدوار کی نمو گزشتہ مالی سال میں منفی0.38 فیصد رہی ہے۔ مگر یہ صرف کورونا وبا کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ معاشی اشاریے پہلے سے ہی نیچے کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے عمران خان حکومت ایک طرف تو عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات پر عوام پر بوجھ بڑھا رہی ہے تو دوسری طرف معیشت کو ”کک سٹارٹ“ کرنے کی نقالی بھی کر رہی ہے۔ دراصل تعمیراتی شعبے پر توجہ، قرضے، ایمنسٹی سکیمیں اور مکانوں کی تعمیرات کے اہداف وغیرہ چینی تجربے کی بھونڈی نقالی ہے جس کے مادی حالات یہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ مگر پاکستان میں اصل معاملہ کالے دھن کا تحفظ ہے۔ جس کے مالکان با اثر غیر سرکاری اور با اختیار اعلیٰ سرکاری حکام ہیں۔ کالے دھن کو محفوظ جگہوں پر جمع کرنے اور جائیدادوں میں منتقل کرنے کے ماضی کے بہت سے طریقے متروک ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف عالمی پابندیوں اور ”فنانشل ایکشن ٹاسک فورس“ (FATF) کی گرفت کی وجہ سے اب بیرون ملک انتقال دولت کی بجائے اس کو مقامی طور پر ہی کھپانے اور ضربیں لگا کر بڑھانے کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ مگریہ قدم اپنے مقاصد کی طرح ملکی معیشت اور ترقی کیلئے ناکافی ہے۔
پاکستانی معیشت کا جائزہ لینے والے تمام سنجیدہ ادارے اور تجزیہ نگار اپنے ابتدائیے میں پاکستان کی معاشی زبوں حالی، عدم استحکام اور بحرانوں کی بڑی وجہ پاکستان کے غیر مستحکم سیاسی نظام کو گردانتے ہیں۔ اگرچہ یہ پورا سچ نہیں ہے اور بڑی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور اس طرز کے دیگر ممالک موجودہ سامراجی نظام معیشت میں بڑے پیمانے کی ترقی دینے کی اہلیت سے ہی عاری ہے۔ ان ممالک کی (بالفرض ممکن ہو تو) بے پناہ ترقی بھی ایک خاص دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی اور ان کا اصل استحکام ایک مسلسل غیر مستحکم کیفیت میں تسلسل ہی سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان ممالک کی معیشت کا طرز ارتقا بطور پرچون معیشت اور سامراجی منڈیوں کے طور پر ہی ڈیزائن شدہ ہے۔
جہاں تک سیاسی عدم استحکام کی بات ہے تو یہ بھی ایک طرح کی نورا کشتی طرز کا کھیل ہے۔ اپوزیشن اتحاد (پی ڈی ایم) کے پاس غیر سیاسی مداخلت کو سیاست سے بے دخل کرنے کا کوئی موثر فارمولہ نہیں ہے بلکہ وہ پس پردہ مذاکرات کیلئے بھی غیر سیاسی عناصر (اسٹیبلشمنٹ) کی طرف ہی رجوع کرتی ہے۔ دوسری طرف اس اپوزیشن کے پاس مہنگائی، بے روزگاری، جہالت، بے علاجی، ادویات کی گراں فروشی، بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کے تدارک کا بھی کوئی فارمولہ نہیں ہے۔ فوج کے خلاف دبے لفظوں سے کھلے عام الزامات تو لگائے جاتے ہیں۔ لیکن پوری احتیاط کی جاتی ہے کہ منڈی کی معیشت اور اس کے مالیاتی اداروں کے خلاف پختہ چارج شیٹ نہ لگائی جائے۔ عمران خان کو یہ طعنہ تو دیا جاتا ہے کہ اس نے ”آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاﺅں گا، ایسا کرنا پڑا تو خود کشی کر لوں گا“ کا نعرہ لگاکر انحراف کیا ہے۔ مگر یہ نہیں کہا جاتا کہ پی ڈی ایم موجودہ حکومت کا خاتمہ کر کے ان عالمی مالیاتی اداروں اوراستحصالی مالیاتی نظام کابائیکاٹ کرے گی اور سامراجی ہدایات پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح پاکستان سٹیل ملز پر سیاست کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی یا دیگر پارٹیاں کہیں بھی نجکاری پالیسی کے خاتمے کی بات نہیں کرتیں۔ تعلیم اور صحت پر سیاسی بیان بازی کے وقت کبھی کسی سیاسی رہنما یا پارٹی نے بھولے سے بھی نہیں کہا کہ وہ اقتدار میں آ کر تعلیم، صحت اور ادویات سازی کے نجی کاروبار کو بند کر کے ان خدمات کو ریاست کی ذمہ داری بنا کر مفت فراہم کریں گے۔ بلکہ سابق دور میں نون لیگ نے صوبہ پنجاب میں تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی خود مختیاری کے نام پر نجکاری کے تمام راستے ہموارکیے تھے اور یہی عمل سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت نے بھی کیا تھا اور اب بھی کر رہی ہے۔ پی ڈی ایم جلسوں میں بلوچستان اور وزیرستان سمیت مظلوم قوموں، مذہبی اقلیتوں اور پچھڑے ہوئے طبقات کے بارے میں بھی سوائے نعرہ بازی کے کوئی سنجیدہ حل پیش نہیں کیا جاتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت‘ پی ڈی ایم سے ڈر رہی ہے اور خود پی ڈی ایم‘ حکومت گرانے سے ڈر رہی ہے۔ بغیر عوامی ایجنڈے کے اتنے ہی بندے اکھٹے کیے جا سکتے ہیں۔ اور محدود طاقت ہی مرتکز کرنا مقصود ہے۔ حکومت سے زیادہ اپوزیشن جماعتیں عوام کی طاقت سے ڈر رہی ہیں۔ ان سب کو معلوم ہے کہ عام لوگوں کامسئلہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اشتراک حکمرانی کا فارمولہ طے کرنا نہیں بلکہ ان کی بھوک اور محرومیاں سب سے بڑے مسائل ہیں۔ ان مسائل کا براہ راست ٹکراﺅ سرمایہ داری نظام کے ساتھ ہے۔ عوامی مانگوں اور ان کے حقیقی حل کے مدعوں کے ساتھ اپوزیشن نہ سیاست کرنے کا ارادہ رکھتی ہے نہ ہی عوامی طاقت اکھٹا کرنے کا رسک لے سکتی ہے۔ ایسا کرنے سے صرف حکومت اور نظام ہی نہیں بلکہ ان کی طبقاتی سیاست اور نام نہاد حق حاکمیت کا بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف عوام شعوری یا لا شعوری طور پر سمجھ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کے ایجنڈے اور ان کی مانگوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ لہٰذا وہ کیوں جلسوں میں جا کر اپنا وقت بھی ضائع کریں اور خوار بھی ہوں۔ اس ساری صورتحال میں وہ سیاسی عدم استحکام جاری ہے جو اس کمزور، گرتے پڑتے نظام کو اسی حالت میں رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہی کام ماضی میں عمران خان کرتا رہا ہے اور یہی کام موجودہ اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف کرتی رہی ہے۔ مگر اس گندے کھیل کا کہیں تو انت ہونا ہے۔ جب بلاول بھٹو یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ ”گیم ہمارے ہاتھ سے نکل کر کنٹرول سے باہر ہوسکتی ہے“ تو وہ اسی ممکنہ پیش منظر کو دہرا رہا ہوتا ہے جس کی ہم نشاندہی کئی برسوں سے کر رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔ دھوکوں اور سراب کے اس کھیل میں حقیقی تضادات پس پردہ ہیں مگر پوری شدت سے موجود اور ارتقا پذیر ہیں۔ یہ حقیقی اور بڑھتے ہی جا نے والے تضادات کسی بھی نہج پر پھٹ کر اپوزیشن، حکومت اور نام نہاد مقتدر قوتوں کے سارے مکروہ کھیل کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ آنے والے سالوں کے کیلنڈر کو اپنے خانوں میں حقیقی تبدیلی کی تاریخوں کا اندراج کرنا پڑے۔