انور پنہور

آئی ایم ایف کے دبا¶ میں موجودہ حکومت نے پاکستان کے عوامی اداروں کی لوٹ سیل شروع کی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں حکمران طبقے کی جانب سے عوامی اداروں اور یہاں کام کرنے والے محنت کشوں کے خلاف مسلسل غلیظ پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ اپنی محنت کے بلبوتے پر جن محنت کشوں نے ان اداروں کو ترقی دی، آج حکمران اپنی نااہلی اور کرپشن چھپانے کے لئے سارا ملبہ ان محنت کشوں پر ڈال رہے ہیں۔ پاکستان سٹیل ملز ملک میں صنعتوں کی ماں کا درجہ رکھتی ہے۔ کئی صنعتوں کو قائم رکھنے اور ترقی دینے کے لئے یہ اہم ترین ادارہ ہے۔ ادارے کے مسلسل ’مالی خسارے‘ کو بنیاد بنا کر اس کو نجی مافیا کے ہاتھوں فروخت کرنے کی کوششیں کی جا ر ہی ہیں۔ جون 2020ءمیں سٹیل ملز کے تمام محنت کشوں کی جبری برطرفیوں کی باقاعدہ طور پر وفاقی حکومت کی اکنامک کوآرڈینیشن کونسل کی جانب سے منظوری دی گئی۔ تاہم محنت کشوں کی جدوجہد اورعدالتوں کی مداخلت کی وجہ سے وقتی طور پر جبری برطرفیا ں نہیں کی گئیں۔ اب نومبر 2020ءمیںوفاقی حکومت کے احکامات پر انتظامیہ سٹیل ملز کی جانب سے 4,544 ملازمین کو جبری برطرفیوں کے لیٹران کے گھروں میں ارسال کیے جا چکے ہیں۔ باقی ماندہ ملازمین کو برطرف کرنے کے لئے انتظامیہ سٹیل ملز کی جانب سے لیبر کورٹ میں کیس داخل کیا گیا ہے تا کہ ملازمین کو ’قانونی ‘ طریقے سے برطرف کیا جا سکے۔ آئی ایم ایف کے ایما پر تیار کردہ حکومت کے ’ادارہ جاتی اصلاحات‘ پروگرام کے مطابق سٹیل ملز کے ملازمین کو جبری برطرف کرنے کے بعد ادارے کو دو حصوں کور اور نان کور میں تقسیم کر کے بیچا جائے گا۔ فوری طور پر سٹیل ملز کی 1200 ایکٹر اراضی الگ کی جائے گی اور ساتھ 19 ہزار ایکٹر اراضی حکومت کو منتقل کر نے کے بعد پرائیویٹ سیکٹر کو لیز پر 1200 ایکٹر اراضی پر مشتمل سٹیل ملز دی جائے گی۔ یعنی آسان الفاظ میں محنت کشوں کو جبری برطرف کر کے زمین پرائیویٹ مافیا کو نوازی جائے گی۔ تاہم حکومت کے ظالمانہ فیصلے کو سٹیل ملز کے فولادی محنت کشوں نے ماننے سے انکار کرتے ہوئے جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ نومبر 2020ءمیں سٹیل ملز کی تحریک کا دوبارہ احیا ہوا۔ 21 نومبر کو آل ایمپلائز جوائنٹ ایکشن کمیٹی آف سٹیل ملز نے اجلاس مرتب کر کے لائحہ عمل کا اعلان کیا اور اگلے دن سٹیل ٹاﺅن تا ملیر پریس کلب تک شاندار احتجاجی ریلی نکالی گئی اور روزانہ کی بنیادو ں پر احتجاج جاری ہے۔ اسی دوران انتظامیہ کی جانب سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جاتا رہا اور محنت کشوں کے گھروں میں جبری برطرفیو ںکے حکم نامے بھجوانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ خودرو طریقے سے محنت کشوں نے ’بڑی مزدور قیادتوں‘ کا انتظار کیے بغیر ہی رات گئے تک نیشنل ہائی وے کو بلاک کر دیا اور کئی گھنٹے دھرنا دیا۔ یکم دسمبر کو تحریک نے اس وقت نئی اٹھان لی جب ریلوے ٹریک پر سٹیل ملز کے فولادی محنت کشوں نے 16 گھنٹوں سے زائد دھرنا دیا۔ یہ تحریک اپنے نشیب و فراز کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ اس صورتحال میں تحریک کو بدنام اور زائل کرنے کے لئے حکمرانوں کی جانب سے میڈیا پر مسلسل جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ اس تحریر کے ذریعے ہمارا مقصد سٹیل ملز کے چند حقائق عوام و الناس کے سامنے رکھنا ہے۔

سوویت یونین کی جانب سے مملکت خداداد پاکستان کو تحفے میں ملی ہوئی پاکستان سٹیل ملز کراچی کا افتتاح 30 جون 1973ءکو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ امریکی سامراج کے ساتھ پاکستان میں اس کی اتحادی بنیاد پرست قوتوں کی جانب سے سخت مخالفت کرنے کے باوجود سٹیل ملز کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سٹیل ملزکو قائم کرنے کا بنیادی مقصد ایک زرعی ملک کو صنعتی طور پر طاقتور بنانا تھا۔ یہ سٹیل ملز 19 ہزار 500 ایکڑ پر قائم کی گئی تھی۔ جس کی زمین سندھ کے مختلف دیہاتوں اور برادریوں مثلاً جوکھیو، گبول اور کلمتی کے لوگوں سے خریدی گئی تھی۔ جبکہ کچھ لوگوں نے عطیہ کے طور پر بھی زمین مفت فراہم کی تھی۔ سات سالوں کی مسلسل محنت اور 25 ارب کی سرمایہ کاری کے بعد 1984ءسے اس ادارے نے اپنی پیداوار دینا شروع کی۔ سٹیل ملز پر آنے والی لاگت کی رقم ملک میں موجود قومی بینکوں سے بطور قرض حاصل کی گئی تھی۔ اس ادارے نے 1984ءسے اپنی پیداوار 11 لاکھ ٹن فولاد پیدا کرنے سے شروع کی اورپانچ سالوں کے اندر ہی پیداوار کو تین گنا بڑھانے یعنی 33 لاکھ ٹن فولاد تیار کرنے کی پیداواری صلاحیت حاصل کی گئی۔ اس سلسلے میں پلانٹ کی پیداوار کو مزید بڑھانے کے لئے مزید بلاسٹ فرنس اور دیگر ضروری مشینری بھی نصب کی گئی۔ اسی کے ساتھ یہاں 165 میگا واٹ بجلی پیداکرنے کا تھرمل پاور پلانٹ بھی نصب کیا گیا تھا۔ جیسے ہی یہ پلانٹ چلایا جاتا تو اس سے خارج ہونے والی بھاری گیسوں، جو کوک اوون اور سٹیل بنانے کے پیداواری مراحل میں پیداہوتی ہےں، کو پاور پلانٹ میں منتقل کر کے سستی بجلی پیدا کی جاتی۔ جب ادارے میں 100 فیصد پیداواری عمل جاری تھا تو چار ہزار گھروں پر مشتمل رہائشی کالونی ’سٹیل ٹا¶ن‘ اور تین ہزار سے زائد گھروں پر مشتمل ’گلشن حدید فیز 1‘ سمیت ڈا¶ن سٹریم انڈسٹریز کی بجلی کی ضروریات ان پاور پلانٹس کے ذریعے پوری کی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (KESC) کو گزشتہ کئی سالوں تک بجلی فروخت بھی کی جاتی رہی۔ اسی طرح یہاں کام کرنے والے آکسیجن گیس کا پلانٹ جو کہ تقریباً 15 سے 20 ہزار کیوبک فٹ آکسیجن پیدا کرتا تھا، کے ذریعے فرنس پلانٹ کی ضرورتیں پوری کرنے کے بعد ہزاروں کیوبک گیس کی بچت کی جاتی جسے بعد میں آکسیجن سلنڈروں کی شکل میں کراچی کے تمام سرکاری ہسپتالوں کو مفت فراہم کر دیا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ یہاں واحد مائع گیس بھی تیار کی جاتی تھی۔ اس سٹیل ملز میں 110 ملین گیلن پانی ذخیرہ کرنے والا فلٹر پلانٹ بھی موجود ہے۔ جو کہ پچاس کلومیٹر کی پائپ لائن کے ذریعے کینجھر جھیل سے پانی حاصل کرتا ہے۔ اس کا فلٹر کیا گیا پانی پلانٹ کے ساتھ رہائشی کالونی اور پرائیویٹ ڈا¶ن سٹریم انڈسٹریز کو بھی فراہم کیا جاتا تھا۔ سٹیل ملز کی چار ہزار ایکڑ زمین کو مکمل انفراسٹرکچر کے ساتھ نیشنل انڈسٹریل پارک کے حوالے کیا گیا جہاں نجی شعبے کی دیگر سٹیل فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ کار مینوفیکچرنگ کے ادارے ’پاک سوزوکی‘، ’یاماہا موٹرز‘ و دیگر ادارے قائم ہیں۔ اسی کے ساتھ یہاں ایک بہت بڑا ٹرانسپورٹ کا شعبہ بھی ہے جس میں 850 بڑی گاڑیوں سمیت 200 کے قریب ہیوی لوڈنگ والے ڈمپر اور ڈوزر شامل ہیں۔ ان گاڑیوں کی مرمت کرنے کے لئے ورکشاپیں بھی موجود ہیں جہاں ماہر مکینک اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایک ریلوے ڈیپارٹمنٹ بھی ہے جس میں 15 ریلوے انجن موجود ہیں۔

ملک کے باہر سے کچا لوہا پورٹ قاسم سے جہازوں سے سیدھا ملز کے اندر لانے کے لئے ایک جیٹی بھی موجود ہے جہاں بحری جہازوں سے خام مال بنا کسی ٹرانسپورٹ کے اپنے کنویئر بیلٹ کے ذریعے اتارا جاتا ہے۔ یہ بیلٹ سات کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ پلانٹ میں سٹیل فولاد بننے کے بعد جو سکریپ اور بائی پراڈکٹ بچتا وہ ملک کی دیگر فیکٹریوں کو بیچا جاتا۔ یاد رہے کہ ایسے بائی پراڈکٹ اس سٹیل ملز کے علاوہ ملک کی کسی دوسری جگہ موجود نہیں۔ سٹیل ملز کا اپنا ایک میٹالرجیکل ٹریننگ سینٹر (MTC) بھی ہے جہاں تربیت کے ذریعے لاکھوں ہنرمند تیار کیے گئے ہیں۔ جوآج دنیا کے مختلف ملکوں کے اندر سٹیل کے کارخانوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ ملک کا ایسا سب سے بڑا صنعتی منصوبہ ہے جس سے فولاد کے علاو ہ دیگر مختلف صنعتیں بھی منسلک ہیں۔ ان تمام تر وسائل کے ہونے کے باوجود بھی اس ادارے کو ترقی دینے کے بجائے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تباہ و برباد کرنے کے جتن شروع کیے جا چکے ہیں۔ سٹیل ملز کراچی 1984ءسے پیداوار شروع کرنے سے لے کر 2007ءتک ملکی بینکوں سے لیا گیا 25 ارب روپے قرض واپس کرنے کے ساتھ ساتھ 114 ارب روپے ٹیکسوں کی صورت میں بھی وفاقی حکومت کو ادا کر چکی ہے۔ 2006ءمیں فوجی آمر مشرف کی طرف سے نجکاری کی پالیسی کے تحت اس سٹیل ملز کو ردی کے برابر انتہائی سستے داموں یعنی 21 ارب اور 65 کروڑ میں فروخت کیے جانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ اس کی 19 ہزار 500 ایکڑ زمین کی قیمت اس سے کہیں زیادہ تھی اور گیارہ ارب روپے کی نئی تیار شدہ مصنوعات انونٹری میں موجود تھیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سٹیل مل اُس وقت چار ارب روپے سالانہ منافع کما رہی تھی او ر ٹیکس الگ سے جمع کروا رہی تھی۔ اس وقت سٹیل ملز کے فولادی محنت کشوں کی جدوجہد کی وجہ سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے مداخلت کر کے اس نجکاری کو کالعدم قرار دیا۔

نجکاری کے وار میں پسپائی اختیار کرنے کے بعد حکمرانوں نے اس منافع بخش ادارے کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اسی کے ساتھ نجکاری کے ذریعے اس قیمتی ادارے کو بیچنے کی سازشیں جاری رہیں۔ 2011ءمیں اس کے کُل اثاثوں کا تخمینہ 1200 ارب روپے لگایا گیا تھا جبکہ ادارے کے پروویڈنٹ فنڈ اور گریجویٹی کی مد میں 38 ارب روپے بھی موجود تھے مگر وہ اچانک غائب کردیئے گئے۔ ایک سال کے اندر ملازموں کی تنخواہوں کی ادائیگیوں اور ریٹائرڈ ملازموں کو بقایاجات کی ادائیگی اچانک رک گئی۔ آخر کار تمام تر سازشیں اُس وقت اپنے منطقی انجام کو پہنچیں جب 10 جون 2015ءسے سٹیل ملز کی پیداوار بنا کسی جواز کے بند کر دی گئی۔ جس سے نہ صرف ادارے کے 13 ہزار مستقل ملزموں کی ملازمتیں دا¶ پر لگ گئیں بلکہ ادارے سے منسلک دیگر شعبوں کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں مزدوروں کے پیٹ پر بھی لات ماری گئی۔ یاد رکھا جائے کہ 1990ءاور 1991ءمیں یہاں پیداوار کے عروج کے دنوں میں سٹیل ملز میں 24 ہزار ملازم روزگار سے منسلک تھے۔ پھر آہستہ آہستہ مختلف سازشوں کے تحت محنت کشوں کو نوکریوں سے فارغ کرنا شروع کر دیا گیا۔

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ جب سٹیل ملز کی پیداوار اپنے عروج کی طرف بڑھنے لگی تو ادارے کے 1988ءمیں سول چیئرمین کوہٹا کر میجر جنرل شجاعت بخاری کو سٹیل ملز کا نیا چیئر مین مقرر کیا گیا۔ جس کے بعد 1990ءمیں اُس کی جگہ لیفٹیننٹ جنرل صبیح الزمان، 1997ءسے 1999ءتک میجر جنرل سکندر حیات، 1999ءسے 2004ءتک لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) محمد افضل، 2004ءسے 2006ءتک لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالقیوم، 2006ءسے 2008ءتک اور 2010ءسے 2014ءتک میجر جنرل محمد جاوید کو چیئرمین مقرر کیا گیا۔ 2014ءسے 2015ءتک میجر جنرل ظہیر احسان اور اس وقت بریگیڈیئرریٹائرڈ سید شجاع چیئرمین مقرر ہیں جن کے احکامات سے ملازموں کی برطرفیوں کے آرڈر جاری ہو رہے ہیں۔

آج 2020ءمیں کورونا وبا کا بہانہ بنا کر 9 ہزار سے زائد ملازمین کوجبری بر طرف کرنے اور ادارے کی ایک بار پھر نجکاری کرنے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ 27 نومبر کو اچانک غیر قانونی طور پر 4544 ملازمین کو ڈاک کے ذریعے اُن کی ملازمتوں سے برطرف کئے جانے کے لیٹر ارسال کیے گئے۔ جبکہ باقی چار ہزار ملازمین کی برطرفیوں کے آرڈر بھی تیارکیے جا چکے ہیں جو انتظامیہ سٹیل ملز کی جانب سے لیبر کورٹ سندھ کی منظوری کے بعد کسی بھی وقت جاری کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں چند مزید حقائق بیان کرنا بھی ضروری ہے۔ سوویت یونین کی طرف سے پاکستان کے ساتھ دیگر کئی ممالک کو ایسی سٹیل ملز فراہم کی گئیں جن میں بھارت کو دو اور ایران، ترکی اور مصر میں ایک ایک سٹیل ملز لگائی گئی۔ ان ممالک میں یہ سٹیل ملز آج تک پیداوار فراہم کر رہی ہیں اور منصوبہ بندی کے تحت اُن کے پیداواری عمل میں توسیع بھی کی گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سٹیل ملز ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ اس کو ناکام کرنے کی سازشیں شروع ہو گئیں۔ یہاں ایک اور بات پر توجہ کی جائے کہ اس سٹیل ملز میں استعمال ہونے والا کچا لوہا آسٹریا اور ہنگری سے درآمد کیا جاتا ہے جس میں خالص لوہے کی شرح 52 فیصد ہے۔ جبکہ تھر سندھ سے کچے لوہے کی پیوریفیکیشن کی شرح 58 سے 64 فیصد تک ہے۔ کوہلو اور دالبدین بلوچستان کی شرح 52 فیصد ہے۔ یہ سب کچھ ہونے کے باجود ملکی وسائل استعمال نہیں کیے گئے۔ اگر یہ سب استعمال کیے جاتے تو اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بچایا جا سکتا تھا۔ ان تمام حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ آخر سٹیل ملز کے برباد ہونے میں کون حضرات ملوث تھے اورہیں!

آج اس ملز کی پیداوار کو بند کرنے کے بعد لوہے کی ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہر سال غیر ملکی کمپنیوں سے 75 سے 80 لاکھ ٹن فولاد درآمد کیا جا رہا ہے یعنی چار ارب ڈالر سالانہ اس کی درآمد پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ اگر حکمران اپنی انفرادی ہوس کو ایک طرف رکھ کر ملکی مفاد میں سوچتے تو یہ چار ارب ڈالر سالانہ زرمبادلہ بچا سکتے تھے۔

پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) اپنے آغاز سے ہی پاکستان سٹیل ملز کے محنت کشوں کے ساتھ کھڑی ہے اور سٹیل ملز کی موجودہ ’آل ایمپلائز ایکشن کمیٹی آف سٹیل ملز ‘میں بھی فعال کر دار ادا کر رہی ہے۔ دیگر مزدور تنظیموں کے برعکس ہمارا واضح موقف ہے کہ محنت کشوں کی جنگ صرف ان کے اپنے زور ِبازو پر ہی جیتی جا سکتی ہے۔ اس لئے جون 2020ءمیں کورونا وبا کے دوران بھی پی ٹی یو ڈی سی کی جانب سے ملک گیر احتجاج کیے گئے اور سٹیل ملز کے محنت کشوں کی تحریک سے اظہار یکجہتی کے لئے دیگر اداروں کو بھی شامل کیا گیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ 13 دسمبر سے ایک بار پھر ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ ہم 4544 ملازموں کی جبری برطرفیوں، جو کہ ناجائز اور غیر قانونی ہیں، کی سخت لفظوں میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہےں کہ اُن کو فوری طور پر بحال کیا جائے۔ اسی کے ساتھ سٹیل ملز کو کسی سرمایہ دارانہ منافعے کی بجائے عوام کے مفاد میں چلایا جائے۔ ساتھ ہی ہم ملک کے تمام محنت کشوں، نوجوانوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ برطرف ہونے والے محنت کشوں کی بحالی اور اپنے اثاثے پاکستان سٹیل ملزکراچی کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس جدوجہد میں شریک ہوں۔