ذکا اللہ

تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد لکیر کی دونوں اطراف لاکھوں انسانوں نے جن مسائل کا سامنا کیا ان میں ایک مسئلہ شناخت کا بھی تھا۔ یہ لوگ اپنی جان و مال اور عزت کے تحفظ کی خاطر اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کر کے نئی قائم ہونے والی ریاستوں (بھارت، مشرقی اور مغربی پاکستان) میں ایک بہتر مستقبل کی امید میں آن بسے۔ تقسیم ہند کے بعد ہونے والی ہجرت معلوم تاریخ کی سب سے بڑی انسانی ہجرت تھی۔ جس میں ایک کروڑ چالیس لاکھ انسان دونوں اطراف اپنی آبائی سر زمین کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہنے پر مجبور ہوگئے۔ انڈیا سے پاکستان کی جانب 3 بڑے صوبوں کی طرف ہجرت ہوئی جن میں بنگال، پنجاب اور سندھ شامل تھے۔ اس میں مغربی بنگال اور بہار سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے مشرقی بنگال کی جانب، بھارتی پنجاب سے پاکستانی پنجاب کے جانب اور ممبئی، سی پی، یو پی، حیدر آباد دکن اور دیگر علاقوں سے سندھ بالخصوص سکھر، حیدر آباد اور کراچی (شہری سندھ)کی جانب ہجرت کی۔ مغربی بنگال اور مشرقی پنجاب سے مشرقی اور مغربی پاکستان کی جانب ہجرت کرنے والوں میں اکثریت بنیادی طور پر مشترکہ ثقافتی و سماجی روایات کے حامل مہاجرین کی تھی۔ جس کے باعث وہ نو مولود ریاست میں اپنی شناخت بڑی حد تک تحلیل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن آج بھی صوبہ پنجاب کے کئی علاقوں میں ”لوکل“ اور ”مہاجر“ کی اصطلاح فرد کی شناخت کے اظہار کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد وسائل کی قلت اور ہموار ترقی نہ ہونے کی وجہ سے ریاست میں قومی سوال نے اپنا سر اٹھانا شروع کر دیا۔ پاکستان ایک کثیرالقومی جغرافیائی خطہ تھا جسے ریاست پاکستان ”دوقومی نظریئے“ کی بنیاد پر ”اسلام“ اور ”پاکستانیت“ کے لبادے میں سمیٹنا چاہتی تھی۔

قومی شناخت کے بحران کا سب سے پہلا اظہار 1948ءمیں ہوا جب بنگلہ کو اردو کے ساتھ بطور سرکاری زبان نافذ کرنے کی تحریک شروع ہوئی۔ جسے ”بھاشا اندولن“ کا نام دیا گیا۔ فروری 1952ءمیں ڈھاکہ میں اس تحریک کے ایک بڑے مظاہرے پر ریاستی جبر کے باعث ہونے والی ہلاکتوں نے ایک نہ ختم ہونے والی نفرت کو جنم دیا۔”اردو“ ریاست پاکستان میں ایک زبان کی بجائے جبر کے استعارے کے طور پر پہچانی جانے لگی۔

اردو بولنے والے مہاجرین کا ایک بڑا المیہ ان کی کسی واضح قومی شناخت کا نہ ہونا تھا اور پاکستان کے جن علاقوں میں یہ ہجرت کر کے آئے وہاں بسنے والے لوگوں کے ساتھ ان کا کوئی نسلی یا لسانی تعلق موجود نہیں تھا۔ جیسا کہ مغربی بنگال اور مشرقی پنجاب کے مہاجرین کا تھا۔ اپنی شناخت کے اس بحران کو ابتدا میں ان مہاجرین نے ریاست کی شناخت کے ساتھ جوڑ کر اپنے لیے تحفظ کی ایک راہ ہموار کی۔ یعنی مذہب اور پاکستانیت کو بطور شناخت خود سے منسوب کر لیا۔ یوں یہ اردو بولنے والے مہاجرین ریاست پاکستان کے جبر کی علامت بن کر ابھرے اور ان مہاجرین کو وسائل پر قبضے کے حوالے سے ایک حملہ آور سے تشبیہ دی جانے لگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست نے اپنے نظرئیے کے فروغ کے لیے ان مہاجرین کے ”شناخت کے بحران“ کو بڑی بے رحمی سے استعمال کیا۔ بنگال کی قومی آزادی کی لڑائی میں ریاست نے انہی مہاجرین کو البدر اور الشمس جیسے فاشسٹ گروہوں میں استعمال کیا۔ اس کے نتیجے میں آج بھی 3 لاکھ سے زائد ”بہاری“ جنہیں ”محصورین پاکستان“ بھی کہا جاتا ہے ڈھاکہ کے کیمپوں میں بے یار و مدد گار پڑے ہیں۔ جو بر صغیر کے آبائی باشندے تو ہیں لیکن بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں سے کسی ایک ریاست کے بھی شہری نہیں۔ بڑی لسانی اکائیوں کی شناخت کا بحران اور ایک قوم کی تشکیل میں ناکامی‘ بر صغیر میں سرمایہ دارانہ نظام کی تاخیر زدگی اور اس خطے کے مسائل کے حل کے حوالے سے ناقابل عمل ہونے کے مفروضے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں۔ 1973ءکے آئین کا پہلا باب جو بنیادی حقوق سے متعلق ہے اس کا آرٹیکل 27 وفاقی اور صوبائی محکموں میں روزگار کے حوالے سے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ آئین پاکستان کے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق فراہم کرتا ہے۔ سرکاری محکموں میں تعیناتی کے حوالے سے کسی بھی شہری کو نسل، مذہب، ذات، جنس ،رہائش یا جائے پیدائش کی بنیاد پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن دوسری طرف پھر اسی ریاست کو کوٹہ سسٹم کا نفاذ بھی کرنا پڑا۔

1958ءتک کئی اہم سول سروسز اور ریاستی عہدے، جن میں وزارتِ عظمیٰ اور تعلیم، اطلاعات، مہاجرین اور آبادکاری کی وزارتیں شامل ہیں، مہاجرین کے پاس تھیں۔ پاکستان میں کوٹہ سسٹم ستمبر 1948ءمیں وزیراعظم لیاقت علی خان نے نافذ کیا۔ جس میں 1956ءکے آئین میں 15 سال کے لیے توسیع کر دی گئی۔ 1970ءتک پاکستان کے 12 بڑے صنعتی گروپس میں سے 7 بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کی ملکیت تھے۔ پاکستان کی آبادی کا 3 فیصد ہونے کے باوجود سول بیورو کریسی کی 33 فیصدگزٹڈ پوزیشنوں، پبلک انٹرپرائزز کی تقریباً نصف سینئر پوزیشنوں اور 48 میں سے 11 (23 فیصد) ٹاپ رینکنگ ملٹری پوزیشنوں پر ہندوستان سے آئے مہاجرین فائز تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 50ءاور 60ءکی دہائی میں مہاجر اشرافیہ نے نہ تو اپنی علیحدہ سیاسی شناخت کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی کسی علیحدہ انتظامی یونٹ کی۔ گو چند موہوم سی آوازیں اس وقت بھی موجود تھیں۔ 1973ءمیں کوٹہ سسٹم کی نئی تشکیل سے وفاق میں سندھ کے 19 فیصد حصے کو مزید دیہی اور شہری تفریق میں تقسیم کر دیا گیا۔ 1972ءمیں صنعتوں اور تعلیمی اداروں کو قومیائے جانے کی پالیسی کے تحت کئی صنعتیں اور تعلیمی ادارے جو ان مہاجرین کی ملکیت تھے حکومتی تحویل میں چلے گئے اور 1973ءمیں ان اداروں میں داخلے اور روزگار کے حوالے سے کوٹہ سسٹم نافذ کر دیا گیا۔ کوٹہ پالیسی کے لاگو ہونے کے باعث 1000 سے زائد مہاجر افسران کو جبری برطرفیوں اور عہدوں سے تنزلی کا سامنا کرنا پڑا جس نے قومیائے جانے کے عمل کو ان مہاجرین کی پیٹی بورژوازی کی نظر میں مشکوک کر دیا اور ان کی جانب سے اس تمام عمل کو ”مہاجروں“ کو دیوار سے لگانے کی سازش قرار دیا گیا۔ جس کے بعد پہلی بار مہاجر سیاست اور شناخت کا سوال سندھ کے سیاسی منظر نامے پر ابھرا۔ جس میں مہاجر محاذ، قومی اردو کونسل اور متحدہ طلبہ محاذ کراچی قابل ذکر تھے۔ 1988ءتک سول سروسز میں مہاجر افسران کی تعداد 33 فیصد سے کم ہو کے 18 فیصد، 1994ءتک 9.4 فیصد اور 2014ءکے گورنمنٹ ریکارڈ کے مطابق فیڈرل سروسز ایمپلائمنٹ میں 3.9 فیصد رہ گئی۔ جس سے مہاجر اشرافیہ اور پیٹی بورژوازی کے تحفظات میں اضافہ ہوا۔ 1973ءکے آئین میں سندھ دیہی اور شہری کوٹے کی تقسیم کو 10 سال کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔ ان دس سالوں میں دیہی سندھ کے تعلیمی اور صنعتی ڈھانچے کو شہری سندھ کے برابر لانا تھا۔ لیکن اس نظام میں اتنے وسائل اور صلاحیت ہی موجود نہیں تھی۔ 1984ءمیں اس کی مدت ختم ہونے کے بعد جنرل ضیا الحق نے اس میں مزید 10 سال کی توسیع کر دی۔ 1999ءمیں سولہویں آئینی ترمیم کے ذریعے کوٹہ سسٹم کو آئین کے نفاذ کے دن سے 40 سال کے لیے توسیع دے دی گئی۔ اس چالیس سالہ مدت کی معیاد بھی 2013ءمیں ختم ہوگئی۔ کوٹہ سسٹم کی اہمیت و افادیت پر جو مباحث ہمارے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اس کا براہ راست تعلق نہ سماجی ترقی سے ہے اور نہ ہی معاشی ترقی سے۔ پاکستان نے بطور ریاست پچھلے 72 سالوں میں سیاسی، سماجی و معاشی تنزلی کا سفر کیا ہے۔ جہاں موروثیت نے صرف سیاست میں ہی اپنے پنجے نہیں گاڑے ہوئے بلکہ سول و ملٹری بیوروکریسی میں بھی ایک غیر محسوس موروثیت قائم ہے۔ ریاست کے اداروں میں اس موروثیت کے حوالے سے ایک مقدس اتحاد ہمیں ہر وقت موجود نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسی اجارہ داری ہے جس میں کسی اچھوت کے آگے بڑھنے کی گنجائش موجود نہیں ہوتی۔ پاکستان کی سیاست میں نظریاتی فقدان نے نہ صرف سیاسی کاسہ لیسی کے رجحان میں اضافہ کیا ہے بلکہ سیاسی قیادتوں نے بھی اس رجحان کو پروان چڑھایا ہے۔ سکڑتی معیشت کے ساتھ محدود ہوتے ترقی کے راستے سماج کی مڈل کلاس پرت میں شدید عدم تحفظ کو جنم دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر عام حالات میں سماج پر حاوی سیاسی رجحان اسی مڈل کلاس نفسیات کا ہوتا ہے جو طاقت کو واحد خدا سمجھتی ہے۔ جسے سرمایہ دارانہ ریاست سماج پر اپنے جبر و استحصال میں اضافے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یعنی ”لڑاﺅ اور حکومت کرو۔“ درمیانے طبقے کی غالب اکثریت اپنے سماجی و معاشی مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنے نسلی و لسانی سیاسی گروہ کی جانب مائل ہوتی ہے۔ وفاق کی سیاست کی علمبردار جماعتوں‘ حتیٰ کہ مذہبی جماعتوں کے اندر بھی ایک مخصوص نسلی و لسانی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ یوں سماج میں موجود مختلف لسانی اکائیوں کی تفریق نہ صرف ان سیاسی جماعتوں کو بالواسطہ طور پر ایک ہموار راستہ فراہم کرتی ہے بلکہ ریاستی مقتدرہ کو بھی کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

پاکستان میں تعلیم اور سرکاری روزگار کے کوٹے کی اس تقسیم سے پہلے ہی موجودہ معاشی اعشارئیوں نے محنت کشوں کی اکثریت کو معاشی سرکل سے باہر نکال دیا ہے۔ کوٹہ سسٹم کو ریاست ہر شہری کو تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی کی اپنی آئینی ذمہ داری سے فرار حاصل کرنے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ تقسیم کے وقت 1947ءمیں کراچی کی آبادی 4 سے 5 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ 1947ءسے 1951ءتک شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ تقسیم کے بعد اس شہر کی معیشت پر مہاجروں نے بلا شرکت غیرے حکمرانی کی۔ لیکن وقت کیساتھ تعلیم و روزگار کی تلاش میں دوسرے علاقوں سے مختلف قومیتوں کے لوگوں کی ہجرت کراچی کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ جس سے پھر مختلف قومیت اور لسانیت کی پیٹی بورژوازی کے درمیان مسابقت بھی بڑھنے لگی۔ اس کاروباری مسابقت کا پہلا سیاسی اظہار ایوب خان اور فاطمہ جناح کے صدارتی انتخابات میں ہوا۔ جب کراچی میں پہلے پشتون مہاجر فسادات کا آغاز ہوا۔ بھٹو حکومت میں بیوروکریسی اور مقامی معیشت پر کمزور ہوتی گرفت نے مہاجر پیٹی بورژوازی کو سندھی پیٹی بورژوازی کے مد مقابل لاکھڑا کیا۔ یہ اہم بات ہے کہ مہاجر شناخت کا مطالبہ ہمیشہ معاشی تناظر میں اٹھایا گیا۔ بہت کم مہاجر ثقافت کی بنیاد پر شناخت کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی بات کی گئی۔ 1977ءمیں ضیا مارشل لا کے بعد پنجابی کاروباری اشرافیہ کی مداخلت نے مہاجر کاروباری اشرافیہ کی آخری امید بھی ختم کر دی۔ کراچی میں مختلف لسانی اکائیوں کے مابین تعصب کی فضا کا جو شور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سنائی دیتا ہے بنیادی طور پر اس کا تعلق کراچی میں بسنے والے مہاجر اور دیگر لسانی اکائیوں کے محنت کشوں سے نہیں بلکہ ان لسانی اکائیوں کی کاروباری اشرافیہ اور مڈل کلاس کے معاشی مفادات سے جڑا ہے۔ جسے مختلف لسانی اکائیوں کے درمیان تعصب کا رنگ دے کر پیش کیا جاتا ہے۔ 1961ءسے لے کر 1971ءتک کراچی میں ہونے والی مردم شماری کا ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ مردم شماری یا تو مارشل لا ایڈمنسٹریشن کے تحت ہوئی یا پھر اس وقت جب کراچی میں فوجی آپریشن جاری تھا۔ کراچی کی آبادی کو کم شمار کیے جانے کا اعتراض 1981ءسے موجود ہے۔ اس کی بڑی وجہ دیہی سندھ، کے پی کے اور پنجاب سے آ کر بسنے والے لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں میں شمار کیا جانا ہے۔ دیہی اور شہری کی تقسیم سندھ کی سیاسی اشرافیہ کے سیاسی و معاشی مفادات سے جڑی ہے۔ جس طرح مرکز کی سیاست میں پنجاب کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے اس طرح سندھ کی صوبائی حکومت میں دیہی سندھ کو فوقیت حاصل ہے۔ لیکن معاشی حب ہونے کے باعث کراچی مسلسل مرکز اور صوبے کے درمیان سیاسی رسہ کشی کا شکار رہتا ہے۔

یہاں کی بحران زدہ سرمایہ داری میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ آبادی میں مسلسل اضافے کے باوجود شہر کے انفراسٹرکچر پر کوئی خاطر خواہ خرچ کیا جا سکے۔ دنیا کے 10 بڑے شہروں میں شامل اس شہر کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ کراچی کی آبادی کے حوالے سے کیے جانے والے مختلف دعووں میں انتہائی محتاط اندازے کے مطابق بھی اس وقت اس شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ جس کا ’گلوبل لِوبلٹِی انڈیکس‘ دنیا کے دس نچلے ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق شہر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی مربوط نظام موجود ہی نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بس کی ایک سیٹ کے لئے 45 افراد منتظر ہوتے ہیں۔ شہر کی ضرورت کا صرف 55 فیصد پانی روزانہ کی بنیاد پر مہیا کیا جاتا ہے۔ شہر کی 60 فیصد آبادی کو بہتر سیوریج کی سہولت میسر نہیں۔ شہر کا ہزاروں ٹن کچرا اٹھانے اور اسے ڈمپنگ پوائنٹ تک پہنچانے کا کوئی خاطر خواہ انتظام ہی موجود نہیں۔ لاہور میں 281 شہریوں کے لئے ایک سپاہی ہے جبکہ کراچی میں 571 شہریوں کے لئے 1 پولیس کا سپاہی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ میں رینجرز کے 24 ہزار اہلکاروں میں سے 18000 رینجرز اہلکار تمام تر قانونی اختیارات کے ساتھ کراچی شہر میں تعینات ہیں۔ کراچی 20 سے زائد وفاقی، صوبائی اور لوکل اداروں میں تقسیم ہے جو آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں جن کے درمیان رابطے کا بھی بڑا فقدان ہے۔ ان میں زیادہ تر ادارے سندھ حکومت کے ماتحت ہیں۔ کراچی کے بلدیاتی ادارے اپنے مالی وسائل کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور پر سندھ حکومت پر انحصار کرتے ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ وسائل غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں خرچ ہوتے ہیں جس کے بعد شہر کے بلدیاتی ڈھانچے کی مرمت کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے۔ شہر کے بلدیاتی انفراسٹرکچر میں بہتری لانے کے لیے بلدیاتی نظام میں بڑی اصلاحات کے ساتھ تقریباً 10 ارب ڈالر اگلے دس سال کے لئے درکار ہیں۔ یہ تمام تخمینے ڈیڑھ کروڑ آبادی کی بنیاد پر وضع کیے گئے ہیں۔ یعنی اگر آپ کسی طور بیان کردہ تمام چیزیں پوری کر لیں تب بھی دس سال بعد شاید ہم اسی جگہ کھڑے ہوں جہاں آج کھڑے ہیں۔

کراچی کی سیاسی معاشیات کو سمجھنے کے لیے چھ عدد بحریہ ٹاﺅن ایک ٹیسٹ کیس ہیں جہاں سندھ کی سیاسی اشرافیہ (پی پی پی اور ایم کیو ایم) نے ملک ریاض کو کراچی کی ہزاروں ایکڑ زمین کوڑیوں کے بھاﺅ فروخت کر دی۔ بحریہ ٹاﺅن کی 44 ہزار ایکڑ زمین میں سے 11 ہزار ایکڑ قانونی طور پر بحریہ ٹاو¿ن کی ملکیت ہے۔ بقایا 33 ہزار ایکڑ زمین پر 360 سے زائد بلوچوں کے گوٹھ تھے جو 150 سال سے یہاں آباد تھے۔ ان میں 40 سے زائد گوٹھ ایسے تھے جو 1960ءسے یہاں رجسٹرڈ تھے۔ جو سندھ پولیس کی سرپرستی میں بحریہ ٹاو¿ن کی سکیورٹی نے خالی کروائے اور یہاں آباد لوگوں کو زبردستی ان کی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ دوسری طرف کورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ڈائریکٹر پروین رحمان کو کراچی کے قدیم گوٹھ رجسٹر کروانے کی پاداش میں لینڈ مافیا نے کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں قتل کروا دیا۔ لیکن کوئی توانا آواز اور احتجاج صوبائی سطح پر اس ظلم کے خلاف ہمیں نظر نہیں آیا۔ اپنے منافعوں کی ہوس کی خاطر لسانیت کو فروغ دینے والی سیاسی اشرافیہ‘ چاہے اس کا تعلق کسی بھی لسانی اکائی سے ہو‘ ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ کراچی آج ایک بڑے انسانی المیے کے دہانے پر ہے۔ حالیہ بارشوں سے ہونے والی تباہی کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی کو قرار دیا گیا۔ لیکن اس شہر کے معاشی استحصال کی دوڑ میں سبقت لے جانے اور کم وقت میں زیادہ منافع کمانے کی ہوس نے شہر کی تمام ٹاﺅن پلاننگ کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ کراچی کنکریٹ کا جنگل ہے جہاں تعمیراتی ٹھیکے ہیں، قیمتی زمین اور کمیشن ہیں، جائز و ناجائز پیسہ اور منافع ہے۔ جس بنیاد پر کوئی اس شہر کو علیحدہ صوبہ بنانے کی بات کرتا ہے تو کوئی سندھ کی وحدت کو تقسیم کرنے پر نشان عبرت بنانے کے دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن کراچی پاکستانی سرمایہ دارانہ نظام کی سیاسی و معاشی نااہلی کی ایک مجسم تصویر ہے۔ نہ تو کراچی کے صوبہ بن جانے سے اس شہر کے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں کوئی بھی صوبائی حکومت اس شہر کے مسائل حل کرنے کے قابل ہے۔

کراچی پاکستان میں مزدوروں کا سب سے بڑا شہر بھی ہے اور مزدور وطن ہونا ہی ان کی سب سے منفرد شناخت ہے۔ اس شہر نے پچھلی کئی دہائیوں میں اپنی ایک علیحدہ ثقافت کو جنم دیا ہے جہاں مہاجر نسوار اور پشتون پان کھاتے ہیں۔ یہاں بلوچ جینز اور مہاجر گھیرے والی شلوار اور اجرک پہنتے ہیں۔ یہ نظام کراچی میں بھی محنت کشوں کے مصائب و آلام میں دن بدن اضافے کا باعث ہی بن رہا ہے۔ کراچی میں موجود محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر خود کو سیاسی طور پر منظم کرنا پڑے گا۔ اس شہر، اس صوبے اور اس ملک کو ایک انسانی المیے میں تبدیل ہونے سے بچانے کے لیے واحد امید محنت کش طبقے کی طبقاتی بنیادوں پر انقلابی سیاست کا فروغ ہے۔ کراچی کے محنت کشوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا علم بلند کریں۔ کراچی باب الانقلاب ہے اور یہاں کا محنت کش طبقہ پاکستان کے انقلاب کا ہر اول دستہ ثابت ہو گا۔