حسن جان

بولیویا میں 18 اکتوبر کے انتخابات کے نتیجے میں سابق صدر ایوو مورالس کی پارٹی ’تحریک برائے سوشلزم‘ (MAS) ایک بار پھر انتخابات جیت گئی۔ اگرچہ اس بار وہ خود انتخابات میں حصہ نہ لے سکا۔ ایک سال پہلے اس کی حکومت کو ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں ختم کر دیا گیا تھا۔ سپریم الیکٹورل ٹریبیونل نے جمعہ کے دن اعلان کیا کہ ’MAS‘ کے صدارتی امیدوار لوئس آرسے، جو ایک دہائی سے زائد عرصے تک ایوو مورالس کا وزیر خزانہ بھی رہا، نے 55 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ سنٹرسٹ امیدوار کارلوس میسا نے 29 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ بولیویا کے دائیں بازو کے رجعتی عناصر اور ان کے امریکی آقاؤں نے یہ سوچا تھا کہ ایوو مورالس کو فوجی بغاوت کے ذریعے ہٹانے کے بعد تمام معاملات خوش اسلوبی سے چلیں گے اور کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن چیزیں ان کے طے شدہ منصوبوں کے مطابق نہیں چلیں۔ عوام نے اس فوجی بغاوت کو مسترد کیا اور ایوو مورالس کے چودہ سالہ دور میں حاصل کردہ معاشی اور سماجی حاصلات کے دفاع کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ عوام اور بالخصوص آدی واسیوں نے فوجی بغاوت کے نتیجے میں بننے والی غیر قانونی حکومت کی شدید مزاحمت کی اور ایک سال تک مظاہروں، جھڑپوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بالآخر نئی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا اور انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ تحریک برائے سوشلزم کی یہ کامیابی شاید ان کے لیے بولیویا سے سرمایہ داری کے خاتمے کا نادر موقع ہو گا۔ یاد رہے کہ سرمایہ داری کو ختم کرنے میں اسی ناکامی کی وجہ سے ایوو مورالس کو مستعفی ہو کر ملک چھوڑنا پڑا تھا۔

موجودہ انتخابات دراصل پچھلے سال کے منسوخ شدہ انتخابات کا دوبارہ انعقاد تھے جس میں ایوو مورالس کو 47.08 فیصد کے ساتھ فاتح قرار دیا گیا تھا۔ بولیویا کے دائیں بازو کے رجعتی عناصر نے سامراجی اداروں بالخصوص او اے ایس (Organization of American States) کی مداخلت اور حمایت سے”بے تحاشا بے قاعدگیوں“ اور ”واضح دھاندلی“ کی بنیاد پر ان نتائج کو مسترد کیا تھا اور دائیں بازو کے فسادیوں کے مظاہروں اور جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا جس میں تحریک کی قیادت، کارکنوں اور آدی واسیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کارپوریٹ میڈیا بھی ان تمام کاروائیوں میں پیش پیش رہا۔ ایوو مورالس نے پسپائی اختیار کی اور نئے انتخابات کا اعلان کیا لیکن دایاں بازو اس کے استعفے سے کم پر راضی نہ تھا۔ نتیجتاً مورالس نے استعفیٰ دے دیا اور میکسیکو میں جلا وطنی اختیار کی۔ اس کے بعد مہینوں تک پارٹی ورکروں، ٹریڈ یونین اور آدی واسیوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنان اور بائیں بازو کے خلاف پرتشدد کاروائیوں کا سلسلہ جاری رہا۔

ایوو مورالس، جو کوکا کاشت کرنے والوں کی یونین کا لیڈر تھا، ایک وسیع عوامی تحریک، جس کے نتیجے میں اُس وقت کے صدر کارلوس میسا نے 6 جون 2005ء کو استعفیٰ دے دیا تھا، کے بعد ہونے والے انتخابات میں 53.7 فیصد ووٹ لے کر 18 دسمبر 2005ء میں ملک کا صدر منتخب ہوا تھا۔ وہ ملک کی تاریخ کا پہلا آدی واسی صدر تھا۔ بولیویا لاطینی امریکہ کا ایک زمین بند ملک ہے جس کی معیشت کا حجم امریکی معیشت کے ایک ہزارویں حصے سے بھی کم ہے۔ نوے کی دہائی میں نیو لبرل معاشی نسخوں کے نتیجے میں پانی کی فراہمی کے نظام، گیس اور دیگر معدنیات کی نجکاری کی گئی جس کے نتیجے میں ملک میں شدید غربت، بیروزگاری اور محرومی اپنی انتہاؤں کو پہنچ گئی۔ ایو مورالس نے حکومت میں آنے کے بعد گیس کی صنعت کو قومی تحویل میں لے لیا۔ اسی طرح ٹیلی کمیونیکیشن، بجلی کی پیدوار، پانی کی فراہمی اور معدنیات کی کانوں کو بھی قومی تحویل میں لیا گیا۔ سابقہ دور میں ان صنعتوں سے حاصل ہونے والا منافع غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جیبوں میں جاتا تھا اور ملکی معیشت کے لیے بہت کم رقم بچتی تھی۔ مورالس کے آنے کے بعد یہ عمل رک گیا۔

ان کلیدی صنعتوں کی نیشنلائزیشن سے حکومت اس قابل ہوئی کہ عوام کی صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر، پبلک منصوبوں اور زرعی مصنوعات کی سبسڈی پر خاطر خواہ رقم خرچ کر سکے۔ ان اقدامات سے غربت میں میں خاطر خواہ کمی ہوئی اور اس کی شرح 2006ء میں 59.9 فیصد سے گر کر 2017ء میں 34.6 فیصد پر آ گئی جبکہ اسی عرصے میں شدید غربت کی شرح 38.28 فیصد سے گر کر 15.2 فیصد ہو گئی۔ صرف 2018ء میں حکومت نے سکولوں، ہسپتالوں، پاور پلانٹس، بجلی اور آبپاشی وغیرہ پر 6.5 اَرب ڈالر خرچ کیے جبکہ 2005ء میں یہ رقم محض 629 ملین ڈالر تھی۔ کم سے کم حقیقی اجرت ماہانہ 440 بولیوار سے بڑھ کر 2000 بولیوار ماہانہ ہو گئی۔ عوامی خواندگی کے ایک منصوبے کے تحت 850,000 افراد کو تعلیم دی گئی اور 2008ء میں بولیویا سے ناخواندگی کے خاتمے کا اعلان کیا گیا۔ آج پورے خطے میں کیوبا کے بعد بولیویا تعلیم پر زیادہ خرچ کرنے والا دوسرا ملک ہے۔ اس پورے عرصے میں معیشت اوسطاً سالانہ 4.9 فیصد کی شرح سے بڑھی۔

مورالس کی حکومت نے وسیع زرعی اصلاحات کیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2006ء سے پہلے زرخیز زمینوں کا 66 فیصد، 0.63 فیصد امیر زمینداروں کے پاس تھا۔ حکومت نے نجی کمپنیوں کے ہر دس ہیکٹر میں سے چار ہیکٹر قومی تحویل میں لے کر بے زمین کسانوں اور آدی واسیوں میں تقسیم کیے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، ”2010ء تک 56,000 خاندانوں میں 3,945,641 ہیکٹر زمین تقسیم کی گئی۔“

لیکن ان تمام تر اقدامات اور معیشت میں ریاست کے بڑھتے ہوئے کردار کے باوجود سرمایہ داری کا سماجی معاشی نظام قائم رہا۔ ان اقدامات سے صرف بیرونی اور مقامی سرمایہ داروں کے منافعوں کا ایک بڑا حصہ ریاستی خزانے میں منتقل ہوا جس سے حکومت کو عوامی فلاح و بہبود پر سرمایہ کاری کا موقع ملا جبکہ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار پر آنچ تک نہیں آئی۔ مثلاً جتنی نیشنلائزیشن کی گئی وہ دراصل کمپنیوں کے ساتھ پرانے حکومتی معاہدوں کی تجدید تھی جس کے تحت ٹیکسوں اور حکومتی حصے داری میں اضافہ کیا گیا جبکہ کسی کمپنی کی ملکیت کو نہ ضبط کیا گیا اور نہ ہی کسی کمپنی کو ملک سے نکالا گیا۔سب سے بڑھ سرمایہ دارانہ ریاست قائم رہی جسے ایک مزدور ریاست کے ڈھانچوں سے تبدیل نہیں کیا گیا۔

ایک مارکسی قیادت کی غیر موجودگی اور تحریک کی عمومی پسپائی کے نتیجے میں ایوو مورالس کی حکومت اپنی بائیں بازو کی بنیادوں کو فراموش کرنے لگی۔ اگرچہ وہ واضح طور پر سرمایہ داری پر تنقید کرتا اور سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کو تمام مسائل کی بنیاد گردانتا تھا لیکن کبھی اس کے خلاف کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ اس کی متعارف کردہ اصلاحات سے عام لوگوں کی زندگیوں میں بڑی تبدیلیاں آئیں لیکن سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں ان اصلاحات کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ نتیجتاً ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر مورالس کی حکومت بھی سرمایہ دارانہ اصلاح پسندی کاشکار ہو گئی جو حکومتی پالیسیوں میں صاف نظر آتی تھی۔

لاطینی امریکہ کے مطالعے پر پچیس سالہ تجربہ رکھنے والی لکھاری لینڈا فاردنگ نے 2017ء میں لکھا، ”2014ء میں انتخابی کامیابی کے بعد ’MAS‘ حکومت نے نیشنلائزیشن کے خاتمے کا اعلان کیا۔ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ مورالس بینکوں کو قومی تحویل میں لینے کا منصوبہ بنا رہا ہے لیکن ایسا کرنے کا مطلب دارالحکومت لا پاز کے روایتی سرمایہ داروں سے ٹکر لینا تھا۔ کسی سماجی تحریک کے دباؤ کی عدم موجودگی میں منصوبہ تبدیل کر کے مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کی بجائے صرف اُن پر ٹیکسوں کو بڑھا دیا گیا۔“ وہ مزید لکھتی ہے، ”اس کے باوجود ملک کی بنیادی معاشی ساخت کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔ اس دوران آدی واسی تاجروں اور چھوٹے کاروباریوں کی دولت میں اضافہ ہوا۔ روایتی حکمرانوں کی سیاسی طاقت ختم ہوئی لیکن ان کی معاشی حیثیت برقرار رہی۔ سانٹا کروز کے مشرقی معاشی حب میں سرمایہ داروں کی معاشی طاقت میں اضافہ ہوا جنہوں نے 2008ء کی ناکام بغاوت کے بعد حکومت سے مصالحت کر لی تھی۔“

اقوام متحدہ نے ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کے اعتراف میں ایوو مورالس کو ”دھرتی ماں کا عالمی ہیرو“ قرار دیا۔ لیکن اس کی باتوں اور اقدامات میں کافی خلیج تھی۔ چھوٹی معیشت اور سماجی و ترقیاتی منصوبوں کی فنڈنگ کی ضرورت نے حکومت کو مائننگ یا آدی واسیوں اور ماحولیات کی حفاظت کے مخمصے میں ڈال دیا۔ 2011ء میں حکومت نے ملک کے شمال مشرقی علاقے بینی کو ملک کی مین ہائی وے سے جوڑنے کے لیے ایک سڑک تعمیر کرنے کی منظوری دی۔ اس سڑک کو آدی واسیوں کے علاقے ٹیپنس سے گزرنا تھا جس سے ان کی روایتی طرز زندگی اور جنگلات کو کٹاؤ کا خطرہ تھا۔ آدی واسیوں کی شدید مزاحمت اور ملکی سطح پر تحریک کی وجہ سے یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا۔ اسی طرح حکومت نے 2015ء میں ایک قانون کی منظوری دی جس کے تحت ہائیڈرو کاربن اور کانکنی کی کمپنیوں کو 20,000 ہیکٹر زمین پر معدنیات اور تیل کی تلاش کی اجازت دی گئی۔ یہ زیادہ تر علاقے ”پروٹیکٹڈ ایریاز“ تھے۔ لینڈا فردنگ نے لکھا، ”2017ء کے بعد حکومت کا مطمع نظر سماجی تبدیلی کی بجائے معاشی استحکام کی شیخی بگھارنا تھا۔ اس عمل میں اس کا سیاسی ایجنڈا مزید سنٹرسٹ ہو گیا۔ اجتماعی سوشلزم کے وعدوں کو بھول کر سرمایہ دارانہ ترقی کی پالیسیوں کی طرف جھکاؤ آیا۔“ بولیویا کی چھوٹی معیشت اور وسائل کی کمی ایک ملک میں سوشلزم کی تعمیر کے یوٹوپیائی خیال کی حماقت کو مزید واضح کرتی ہے۔ یہ حقائق اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کے تناظر کے فقدان نے ’MAS‘ کو مزید دائیں جانب دھکیل دیا۔

ان اقدامات اور پارٹی اور حکومت میں دشمن طبقات کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے عوام میں بد دلی پھیلی جس کی عکاسی 2016ء کے ریفرنڈم کی شکست کی صورت میں ہوئی جس میں ایوو مورالس نے صدارتی الیکشن لڑنے کی حدود کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ عالمی سطح پر تیل اور گیس کی قیمتیں گرنے سے حکومت کو عوامی منصوبوں پر خرچ کرنے میں مشکلات پیش آنا شروع ہوئیں جس سے عوام میں مزید مایوسی پھیلی۔ گرتی ہوئی عوامی حمایت اور ملک کے سرمایہ داروں اور اشرافیہ کی جانب سے اصلاحات کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت کو محسوس کرتے ہوئے ایوو مورالس نے کسی ممکنہ کُو سے بچنے کے لیے تمام ریاستی اداروں پر ”اپنے“ بندے لگا دیئے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے پاپولسٹ رہنما اپنے آپ کو بچا نہیں سکتے کیونکہ اصل مسئلہ سرمایہ داروں اور مالک طبقات کی معاشی طاقت ہے جسے توڑے بغیر انقلاب کو مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک انقلابی حکومت کا سب سے پہلا کام سرمایہ دار طبقات کی تمام تر دولت اور سرمائے کو ضبط کرنا ہوتا ہے کیونکہ یہی طبقہ تمام تر ردانقلاب اور رجعت کا گڑھ ہے۔

ایوو مورالس کے خلاف پچھلے سال کی فوجی بغاوت پاکستان میں جولائی 1977ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت سے کافی مماثلت رکھتی ہے۔ بھٹو کے پاس سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے تمام تر مواقع تھے۔ اس نے کچھ ریڈیکل اصلاحات کیں لیکن سماجی معاشی نظام کو تبدیل نہیں کیا۔ اپنے آخری دنوں میں وہ مزید دائیں جانب جھک گیا اور طبقاتی مصالحت کی پالیسی اپنائی۔ جنرل ضیاالحق نے اس کا تختہ الٹ دیا اور بعد میں پھانسی دی۔ لیکن پاکستان کے برعکس آج ایوو مورالس اور اس کی ’MAS‘ پارٹی کو انقلاب کو مکمل کرنے کا ایک اور موقع ملا ہے۔ عوامی مزاحمت کے نتیجے میں کُو شکست سے دوچار ہوا ہے۔ رد انقلاب کے کوڑے نے انقلاب کو مہمیز دی ہے لیکن یہ عوامی تحریک ہمیشہ نہیں رہنے والی۔ اگر قیادت ایک دفعہ پھر سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہتی ہے تو تحریک تحلیل ہو گی اور رجعتی عناصر کو سر اٹھانے کا موقع ملے گا اور وہ مناسب موقع پا کر جوابی حملہ کر کے حکومت کو ختم کر دیں گے۔

موت کی کال کوٹھڑی میں زندگی کے آخری دنوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے یہ تاریخی جملے تحریر کیے جس میں آج کے بولیوین انقلابیوں کے لیے ایک سبق پوشیدہ ہے: ”اس فوجی بغاوت سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ ایک درمیانی راستہ یا سمجھوتہ ایک یوٹوپیائی خیال ہے۔ اس بغاوت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ طبقاتی جدوجہد ناقابل مصالحت ہے اور اس کا نتیجہ ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر فتح کی صورت میں نکلنا ہے۔“