راہول

گزشتہ پورا سال غیر یقینی کیفیت میں رہنے کے بعد دو ماہ پہلے تک یہ سمجھا جا رہا تھا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا چکا ہے اور اب بہت جلد یہ دنیا اپنے معمول پر لوٹ آئے گی۔ مگر ابھی نہ اسکول مکمل طور پر کھل سکے تھے اور نہ ہی وبا کے دنوں میں ہوئے بیروزگاروں کو اپنا روزگار مل سکا تھا کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر نے یورپ اور امریکہ سمیت ایک بار پھر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔

یورپ میں درجنوں شہروں میں دوبارہ لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے جہاں گزشتہ چند دنوں میں روزانہ ایک لاکھ سے زائد کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اسپین میں اس وقت روزانہ 12 ہزار سے زائد نئے کیس دیکھے جا رہے ہیں جبکہ فرانس میں 13 ہزار سے زائد نئے کیس رپورٹ کیے جا چکے ہیں جو کہ اپریل سے لے کر اب تک سب سے زیادہ ہیں۔ دوسری طرف یہاں روزانہ ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پچھلے چند دنوں میں 3 ہزار 626 سے زائد افراد ہسپتالوں میں داخل ہو چکے ہیں جن کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ فرانس کے پاسٹر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یہاں نومبر کے آغاز تک گیارہ ہزار سے زائد افراد کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت پڑ سکتی ہے جوکہ ملک کی کل گنجائش سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ وبا کے عروج کے دنوں میں بھی اس قدر انتہائی نگہداشت والے مریضوں کی تعداد میں اضافہ نہیں دیکھا گیا تھا۔ اسی صورتحال کے پیش نظر فرانس اور برطانیہ نے ایک بار پھر مکمل لاک ڈاؤن کر دیا ہے جبکہ اسپین میں لوگوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کرنے پر پولیس اور لوگوں میں جھڑپیں دیکھی جا رہی ہیں جہاں لوگ حکومتی احکامات کو ماننے سے انکاری ہیں۔

اسی طرح امریکہ میں بھی تیزی سے وبا ایک بار پھر پھیل رہی ہے اور صرف اکتوبر 8 سے 14 تک کے ایک ہفتے میں امریکہ میں ساڑھے تین لاکھ نئے کیس رپورٹ کیے گئے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا وبا کے آغاز سے لے کر اب تک روزانہ کیس بڑھنے کا رکارڈ 30 اکتوبر کو اُس وقت ٹوٹا جب صرف ایک دن میں امریکہ میں 99 ہزار کیس رپورٹ کیے گئے۔ اسی کے ساتھ ساتھ 46,600 مریض صرف اُسی دن ہسپتال میں داخل بھی ہوئے۔ امریکہ میں گزشتہ ایک ہفتے سے روزانہ آٹھ سو کے لگ بھگ اموات رکارڈ کی جا رہی ہیں اور مجموعی طور پر اس وبا سے صرف امریکہ میں اب تک دو لاکھ تیس ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

جنوبی ایشیا سمیت لاطینی امریکہ اور دیگر خطے بھی اب دوبارہ اس وبا کی لپیٹ میں آ رہے ہیں اور کچھ اندازوں کے مطابق حالیہ لہر شاید پہلی لہر سے زیادہ خطرناک اور غریب عوام کے لئے دردناک ثابت ہو۔ خاص طور پر بھارت میں روزانہ کی بنیاد پر 70 ہزار تک لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ پورا سال جہاں عالمی معیشت کے لئے بدتر ثابت ہوا وہیں محنت کش طبقے پر اس کے سب سے بدتر ین اثرات مرتب ہوئے۔ عالمی بینک کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کی معیشت اس سال کے اختتام تک 7 فیصد تک سکڑ جائے گی اور مجموعی طور پر عالمی معیشت 5.2 فیصد تک سکڑ سکتی ہے۔ جبکہ زیادہ تر ممالک کی معیشتیں کساد بازاری کی لپیٹ میں رہیں گی۔ معیشتوں کی اس قدر ابتر صورتحال کے سب سے زیادہ بھیانک اثرات بھی محنت کش طبقے پر ہی پڑیں گے جو پہلے ہی ابتر صورتحال سے دو چار ہے۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں ہی تیس کروڑ محنت کشوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے قبل صرف سال کے پہلے تین ماہ میں تیرہ کروڑ لوگ اپنی نوکریاں گنوا چکے تھے۔ اسی طرح غریب ممالک کے تقریباً 1.6 ارب غیر رسمی مزدوروں کو لاک ڈاؤن اور اس کے بعد پیدا ہوئی صورتحال کی وجہ سے غربت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کرونا وبا کے آغاز میں یہ واویلا کیا جا رہا تھا کہ یہ وائرس امیروں اور غریبوں پر ایک ہی طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ درحقیقت گزشتہ پورا سال یہ ثابت کرنے کے لئے کافی تھا کہ اس وبا سے اگر کوئی طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے تو وہ محنت کش طبقہ ہی ہے۔ جن کے پاس نہ خود کو ”کوارنٹائن“ کرنے کے لئے اپنے چھوٹے چھوٹے گھروں میں جگہ ہے‘ نہ ہی علاج کے لئے درکار پیسے۔

سرمایہ داری کا گھناؤنا چہرہ پچھلے ایک سال میں پور ی دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکا ہے۔ منافع کی ہوس پر مبنی یہ نظام اور اس کے رکھوالے اپنے منافعوں میں کمی کرنے کے بجائے لوگوں کی جانوں کو قربان کرنے کو زیادہ مفید اور فائدہ مند محسوس کر رہے ہیں۔ محنت کش عوام اگر خوش قسمتی سے وائرس سے بچ بھی گئے ہوں تو وہ بھوک سے مرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف سرمایہ داروں کے نجی منافعوں میں اس بحرانی صورتحال میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہی دیکھا جا رہا ہے۔ وبا کے شروعاتی پانچ مہینوں میں صرف امریکی ارب پتیوں کی کُل دولت میں 637 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آن لائن تعلیم ہو یا مختلف اجناس کی آن لائن کھپت‘ کرونا وبا کے دوران بھی ان سرمایہ داروں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا ہے جس سے ان کی دولت میں اضافہ ہو سکے۔ دولت میں اضافے کی یہ ہوس اس قدر شدت اختیار کر چکی ہے کہ آج ہمارا ایکو سسٹم بھی اس کی زد میں آ چکا ہے۔ چین سے جس وبا کا آغاز ہوا وہ محض کوئی حادثہ نہ تھا بلکہ یہ فطرت میں پیدا کیے گئے بگاڑ ہی کا نتیجہ تھا جس کا خمیازہ آج پوری دنیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک دنیا بھر میں ماحولیاتی تباہی کو معاشی بحرانات اور سیاسی و سماجی مسائل سے کاٹ کر دیکھا جا رہا تھا۔ ان کے مابین تعلق کو بڑی ڈھٹائی سے کوئی بھی ماننے کو تیار نہ تھا۔ لیکن پچھلی چند دہائیوں میں جو بلادکار ماحولیات کے ساتھ ”ترقی“ کے نام پر ان سرمایہ داروں نے کیا ہے اُس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ منافع کی ہوس میں آج سرمایہ دار اس قدر اندھے ہو چکے ہیں کہ انہیں اپنی دولت میں اضافے کے سوا کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں۔ کیلیفورنیا کے جنگلوں میں آگ لگے یا پھر دنیا کے پھیپھڑے سمجھے جانے والے ایمازون کے جنگل برباد ہو جائیں‘ سرمایہ داری آج اپنے وحشیانہ تاریخی کردار سے دستبردار ہونے سے انکاری ہے۔ آسٹریلیا، ایمازون اور آرکٹک کے علاوہ وسیع و عریض خطوں میں جنگلوں میں آگ لگنا اب معمول کا حصہ سمجھا جانے لگا ہے اور ہر سال اس کے امکانات اور تباہی میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ رواں سال مختلف خطوں میں لگی آگ نے لاکھوں افراد کو فوری طور پر موت اور نقل مکانی کے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے تمام تر معاہدوں کو محض دستاویزی حیثیت ہی حاصل رہ گئی ہے۔ دوسری طرف کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لئے پوری دنیا میں قابل تجدید توانائی (Renewable Energy) کو مختلف حلقوں کی جانب سے اس تباہی سے بچنے کے لئے بطور متبادل دیکھا جا رہا ہے مگر اس نظام میں رہتے ہوئے قابل تجدید توانائی درحقیقت معاشی فائدوں ہی کے ماتحت رہے گی اور اس کے سرمایہ داروں کے شکنجے میں ہونے کے سبب یہ کوئی بھی خاطر خواہ نتائج دینے سے قاصر رہے گی۔ مثال کے طور پر چین اس وقت دنیا کے تقریباً 70 فیصد سولر ماڈیولز تیار کرتا ہے جنہیں پوری دنیا میں فروخت کیا جاتا ہے مگر خود چین ماحولیاتی تباہی کے سب سے زیادہ ذمہ دار ممالک میں سے ایک ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہاں قابل تجدید توانائی کو فروغ بھی آخری تجزیے میں محض اسی لئے دیا جاتا ہے تا کہ منافعوں میں مسلسل اضافے کو جاری رکھا جاسکے نہ کہ اس دنیا کو تباہی سے بچایا جا سکے۔

سرمایہ دارانہ نظام آج اپنے جوہر میں محض تباہی کا سامان بن چکا ہے۔ یہاں اٹھائے جانے والا ہر قدم اس دھرتی کو ایک قدم پیچھے کی جانب لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ گز شتہ چند دہائیوں میں صحت کے جس نجی نظام کو فروغ دیا گیا تھا وہ اس وبا کے دوران خاک ہو کر رہ گیا ہے۔ یوں حالیہ بحران نے اس نظام کے کھوکھلے دعووں کو مٹی میں ملا دیا ہے۔ اس خوفناک وبا کے باجود بھی لوگو ں کے احتجاج پورا سال جاری رہے اور اب تک جاری ہیں۔ کیونکہ لوگ اگر اس وائرس سے نہ بھی مریں تو بھوک سے ضرور مر جائیں گے۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ سے مشرق وسطیٰ تک ہر خطہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف سڑکوں پر ہے۔ آنے والے حالات بد سے بدتر ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں محنت کش طبقے کو اپنے لئے طبقہ بنتے ہوئے اپنی طاقت کو پہچاننا ہو گا۔ دنیا بھر میں ہوئے لاک ڈاؤن نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس سماج کی ڈور محنت کشوں کے ہاتھوں میں ہے اور اگر یہ ہاتھ رُک جائیں تو سماج تھم سکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مفلسی کے دامن میں لپٹی خلق کو صرف یہی طبقہ انقلاب کے ذریعے نجات دلا سکتا ہے۔ جیسا کہ مارکس نے لکھا تھا کہ ”انقلاب ضروری ہے…نہ صرف اس لئے کہ حکمران طبقے کو کسی اور طریقے سے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس لیے بھی کہ اس کا تختہ الٹنے والا طبقہ صرف ایک انقلاب ہی میں تمام عمر کے فسادات سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور معاشرے کو نئے سرے سے ڈھال سکتا ہے۔“