قمرالزماں خاں

عجب محفل تھی۔ ملتان کے تمام زندہ لوگ ہی موجود تھے۔ ان میں سے بیشتر دوست اور سیاسی طور پر ہم سفر تھے۔ افتخارفخرچھاوڑی کے ڈرائنگ روم میں فرشی نشست تھی مگر پھر بھی بیٹھک شرکا سے اٹی پڑی تھی۔ گو محفل میں منو بھائی اور جاوید شاہین جیسے نابغہ روزگار لکھاری، شاعر اور دانشور بطور مہمان موجود تھے۔ جن کی شہرت اور کشش بہت ساروں کو یہاں کھینچ لائی تھی۔ مگریہ الگ بات تھی کہ شمع محفل ڈاکٹر لال خان قرار پائے تھے۔ لال خان بول رہے تھے اور سب سن رہے تھے۔ ماضی کے انقلابی، سوشلسٹ، قوم پرست، دانشور اور عمل سے پچھڑے سیاسی کارکنوں کی سوئی ہوئی رومانیت جاگ رہی تھی۔ ان کی یادوں کے جھروکوں سے انقلاب کی ان بجھی چنگاریوں میں حرارت پیدا ہو رہی تھی۔ وہ سارے ہی اپنی اپنی ذات میں تاریخ تھے۔ صبح انقلاب کا سویرا دیکھنے کی آرزو میں ان میں سے بیشتر نے طویل جدوجہد کی تھی۔ ان میں سے کوڑے کھانے والے بھی تھے اور فوجی عہد کی بدترین قید و بند جھیلنے والے بھی۔ ان میں سے بیشتر دیانتد ار سیاسی ورکر تھے۔ محفل میں ایک دو حضرات ایسے بھی تھے جنہوں نے کسی بھی وجہ سے جدوجہد چھوڑ کر اپنے کیرئیر کو آگے بڑھایا تھا۔ محفل میں انقلاب اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کے ساتھ سوویت یونین کے ستر سالوں کی اونچ نیچ بھی زیر بحث تھی۔ مقامی شرکا محفل کا ردعمل یوں تھا جیسے کسی مسافر کو چھوٹی ہوئی ٹرین پھر سے مل گئی ہو۔ یوں لگتا تھا کہ یہاں آنے سے پہلے ان کے پاس صرف یادیں تھیں۔ قربانیوں، جدوجہد، مارشل لا، قید و بند اور جلاوطنی کی یادیں۔ مگراب ان کی جدوجہد اور انقلابی سوچ عمومی سیاست سے آگے بڑھنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ سوویت یونین کے انہدام کا بلیک ہول ان کی آدرشوں کو کھانے کے درپے تھا۔ مگر یہ تب کی بات تھی جب محفل ابھی شروع ہوئی تھی۔ اب راستے کھل چکے تھے۔ منزل پھر دھندلکوں سے نکل آئی تھی۔ رات کا پہلا پہر ڈھلا تو سوال و جواب کا محور نہ تو قومی مسئلہ تھا اور نہ ہی سٹالن شاہی کے انہدام کو سوشلزم کی ناکامی قرار دیا جانے والا قضیہ۔ اب طریقہ کار پر گفتگو ہو رہی تھی۔ سب پرجوش تھے۔ سوائے ایک دو اعلیٰ سرکاری افسروں اورایک جج رہنے والے بڑے نام کے جو اپنی موجودہ پارٹی میں کسی بڑے سیاسی موقع کے متلاشی تھے‘ سب ہی ”کام“ کرنا چاہتے تھے۔ جب عملی کام کے طریقہ کار پر بات شروع ہوئی تو کامریڈ لال خان نے شرکا محفل پر واضح کیا اور راقم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ملتان میں آپ کامریڈ سے مل کر کام کریں گے اور اسی کے ساتھ آنے والے دنوں کا شیڈول طے کریں گے۔ یہ وہی محفل تھی جس میں کامریڈ الیاس خان جیسے عظیم انقلابی اورطویل قید و بند کاٹنے والے سیاسی کارکن باقاعدہ ”طبقاتی جدوجہد“ کا حصہ بنے جب کہ رضو شاہ جیسے عاجز اور مجسم اخلاص قوم پرست، سردارافتخارفخر چھاوڑی جیسے مہمان نواز اور علم و انقلاب کے قدر دان، حبیب اللہ شاکرجیسے تاریخی انقلابی، طارق چوہدری جیسے بے لوث اوربے ریا سوشلسٹ اور حیدرعباس گردیزی جیسے خوش الہان مدبر، نظریاتی وسعتوں اور سیاسی گہرائیوں سے واقفیت رکھنے والے انقلابی سے ملاقات ہوئی۔ اسی محفل میں میرے ساتھ کامریڈ رؤف خان، اسدپتافی، مجید پتافی اور عابد ملک بھی تھے۔ رات گہرے جذبوں کے ٹھہراؤ کے ساتھ تمام ہوئی۔ صبح سوائے کامریڈ عابد ملک اور میرے باقی سب مہمان چلے گئے۔ رات بہت سے عہد و پیمان ہوئے تھے اور پورا ایک پروگرام تشکیل دیا گیا تھا۔

چند دن بعد بمطابق وعد ہ ہمیں تمام ساتھیوں کے پاس جانا تھا اور ہم گئے۔ یہ ملاقاتیں اور واقعات بھی اپنی جگہ بہت اہمیت کے حامل ہیں‘ جن کا ذکر کہیں اور ہو گا۔ مگر سب سے دلچسپ ملاقات حیدر عباس گردیزی کے ساتھ ان کے گھر میں ہوئی۔ ان کا گھر کیسا تھا یہ تو ہمیں ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر معلوم نہ ہو سکا مگر انہوں نے بالائی منزل پر اپنی لائبریری دکھا کر حیران کر دیا۔ یہ کتب خانہ انقلابی کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔ مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی بیشتر کتب یہاں موجود تھیں۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان کا کتب خانہ نمائشی کمرہ نہیں تھا بلکہ یہ لائبریری ان کے روز و شب کی مطالعہ گاہ تھی جہاں وہ پڑھتے اور لکھتے تھے۔ وہ نہ صرف بہت اعلیٰ مقرر تھے جس کا ہمیں اگلے سالوں میں عملی طور پر مشاہدہ کرنے کا موقع بھی ملا‘ بلکہ بہت اچھے لکھاری بھی تھے۔ انہوں نے اپنے خیالات کو شعری قالب میں بھی ڈھالا۔ کامریڈ عابد ملک اورمیرے ساتھ اس ملاقات میں حیدر عباس گردیزی نے لال خان کی محفل کے مختلف پہلوؤں پر بات کی۔ چونکہ ہم نے اب مل کر کام کرنا تھا اس لئے انہوں نے شرکا محفل کے بارے میں بھی فرداً فرداً اپنی رائے کا اظہار کیا۔ میرے استفسار پر انہوں نے سابق جج صاحب کے بارے میں بتایا کہ ”اس رات جب محفل اپنے عروج پر تھی اور پاکستان میں سوشلزم کے امکانات پر اتفاق رائے پر مبنی گفتگو ہو رہی تھی تو جج صاحب نے میرے کان میں کہا کہ جب ہم باہر نکلیں گے تو ٹریفک ویسے ہی چل رہی ہو گی جیسے ہم آنے سے پہلے چھوڑ کر آئے تھے۔“ گویا وہ کسی انقلابی تبدیلی کو یکسر ماننے سے انکاری تھے۔ میں نے جب حیدر عباس گردیزی کے منہ سے یہ باتیں سنیں تو مجھے کچھ عجیب محسوس ہوا اور مایوسی کی ایک لہر نے مجھے گھیر لیا۔ میری صورتحال کو بھانپ کر حیدر عباس گردیزی کہنے لگے بوڈاپسٹ میں جب انقلاب مخالف ریاست نے انقلابیوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی تو مقامی تنظیم کے سیکرٹری کو خاص طور پر ہدف بنا کر اٹھا لیا گیا۔ سارا دن سرکاری عقوبت خانے میں اس کو الٹا لٹکا کر تشدد کیا جاتا رہا۔ سرکاری اہلکار اس سے پارٹی کے راز اگلوانا چاہتے تھے۔ انہوں نے مار مار کر اس انقلابی لیڈر کی کھال ادھیڑ دی تھی مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا تھا۔ اس صورتحال کو بہت سے افسر اور مشاق ریاستی اہلکار ڈیل کر رہے تھے۔ انہوں نے تھک کر اپنی ایجنسی کے ٹاپ کے ماہر نفسیات کے سپر د یہ کام کیا۔ اس نے آ کر سب سے پہلے کامریڈ کو ہوش میں لانے کا حکم صادر کیا۔ جب کامریڈ نے آنکھیں کھولیں تو ماہر نفسیات ایجنسی اہلکار یکایک تشدد کرنے والے اپنے ساتھیوں پر دھاڑنے لگ گیا۔ وہ چیخ رہا تھاکہ ”تم کتنے بد تہذیب اور اجڈ ہو۔ تم نہیں جانتے کہ جس کو تم نے الٹا لٹکایا ہوا ہے کتنا عالم فاضل اور مہذب انسان ہے۔“ اس نے حکم دیا کہ ان کی زنجیریں کھول کر ان کو سیدھا کیا جائے۔ ادھ موئے کامریڈ کو زمین پر بٹھا کر ماہر نفسیات نے اس کو گرما گرم کافی کا کپ پیش کیا۔ پھر کامریڈ کی طرف رخ کیا اور اپنے ساتھیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا ”یہ بہت جاہل ہیں۔ انہیں نہیں پتہ کہ کس کے ساتھ کیسے بات کرنا ہے، یہ صرف تشدد کرنا ہی جانتے ہیں۔“ پھر اس نے اپنے ساتھی اہلکاروں کو حکم دیا کہ کامریڈ کے گھر سے اس کا پسندیدہ سوٹ لے کر آئیں۔ کامریڈ کے زخم دھو کر اس کا پسندیدہ لباس پہنایا گیا۔ پھر ماہر نفسیات اپنی کارمیں انقلابی کو بٹھا کر سیدھا دریا ڈینیوب کے کنارے رکھے اسی بنچ پر لے گیا جس پر یہ کامریڈ ہر روز شام کے وقت بیٹھ کر یہاں سے شہر کا نظارہ دیکھا کرتا تھا۔ ایجنسی کے ماہر نفسیات نے بنچ کے سامنے والے میز پر وہی شام کا مشروب سجا دیا جو کامریڈ کا من پسند برانڈ کا تھا۔ اس نے جیب سے دو گلاس نکالے اور دونوں میں ایک ایک پیگ بنایا۔ کامریڈ کی من پسند ڈرنک تھی اوپر سے تشدد نے اس کے جسم سے جان نکال کر رکھ دی تھی۔ خفیہ والا ماہر نفسیات جب اپنے تئیں کامریڈ کو ٹن کر چکا تو پھر بڑی ملائمت سے بولا، ”دیکھو یہ (تشدد کرنے والے سرکاری اہلکار) بالکل ہی درندے ہیں۔ اگر تم نے ان کے ساتھ تعاون نہ کیا اور اپنے ساتھیوں کا اتا پتہ اور اپنے عزائم کے بارے میں نہ بتایا تو یہ تمہیں تشدد کے ذریعے جان سے ماردیں گے۔“ ایک توقف کے بعد دریا ڈینیوب کے دوسرے طرف لائٹوں سے جگ مگ جگ مگ کرتے شہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا کہ اگر تم مر گئے تو یہ لائٹیں یونہی جلتی رہیں گی۔ ان میں سے ایک بھی تمہارے لئے نہیں بجھے گی۔ وہ بڑے معنی خیز انداز میں اس انقلابی کو دیکھ رہا تھا۔ میز پر دو بھرے ہوئے پیگ پڑے تھے۔ یکایک وہ انقلابی اٹھا۔ اس نے پوری قوت مجتمع کرکے میز کو دوسری طرف الٹ دیا اور چیخ کر کہا ”میری جدوجہد اپنی ذاتی تعظیم کیلئے نہیں ہے۔ مار دو مجھے! مگریہ مت سمجھنا کہ میں تمہاری اطاعت کرونگا۔“ یہ کہہ کر حیدر عباس گردیزی ہماری طرف دیکھ کر مسکرائے اور بولے مجھے اس جج کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی میں اس کی سوچ کو پسند کرتا ہوں۔ ہم مل کر کام کریں گے۔ بس میری صحت کا خیال کرنا۔ میں بھاگ دوڑ نہیں کر سکتا۔

حیدر عباس گردیزی نے جس محبت اور انقلابی جذبوں سے ہمیں حوصلہ دیا تھا وہ ہمیں توانا کرنے میں بہت معاون ثابت ہوا۔ حیدر عباس گردیزی نے کبھی ہمیں نوآموز ہونے کا تاثر نہیں دیا۔ ہمیشہ حوصلہ بڑھایا۔ وقت بہتا رہا۔ 2016ء میں ملتان آرٹس کونسل میں ایک پروگرام تھا۔ کامریڈ لال خان نے مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ ہم رات کو بھی اکھٹے تھے۔ ان کے گھر بڑی محفل ہوئی۔ انہوں نے کھانے پر دوستوں کو بلایا ہوا تھا۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ ان میں سے بیشتر کو کامریڈ لال خان کے کالم زبانی یاد تھے اور انہی کے مختلف موضوعات کے گرد بات چیت ہوتی رہی۔ گویا یہ ایک برانچ میٹنگ ہو رہی تھی۔ حیدر عباس گردیزی کی مہمان داری غیر روایتی تھی۔ اس میں کوئی تصنع یا تکلف نہیں تھا۔ وہ ایک کامریڈ کی باقی کامریڈوں کے ساتھ اشتراکی ثقافت میں رچی بسی بے تکلفانہ دعوت تھی۔ جیسے ہم سب اپنے ہی گھر میں ہوں۔ محفل کے اختتام سے قبل بار بار فون کے تبادلے کے بعد وہی جج صاحب وارد ہوئے۔ محفل اب تمام ہو چکی تھی مگر تکلفاً چند لمحات اور گزارے گئے۔ وہ جج صاحب اب پہلے سے بھی زیادہ بہک چکے تھے اور اول فول باتیں کر رہے تھے۔ سب کے جانے کے بعد ہمارے لئے رہائشی بندوبست والے کمرے میں ہم تینوں (کامریڈلال خان، حیدرعباس گردیزی اور راقم) رات کے آخری پہر تک باتیں کرتے رہے۔ یہ بہت ہی قیمتی نشست تھی۔ شاید ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ اب ہم سب ایک دوسرے سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑ جائیں گے۔ کامریڈ لال خان 21 فروری 2020ء کو جب ہمیں تنہاچھوڑ گئے تو ہم سب کیلئے بہت بڑا زخم تھا۔ سب بہت ہی غم زدہ اور ہلکان تھے۔ مجھے علم ہے کہ ہماری محبت، ساتھ اور لال خان سے اٹوٹ وابستگی پر مبنی زندگی کا بڑاحصہ اور یادیں اپنی جگہ‘ مگر حیدر عباس گردیزی نے ہم سے بڑھ کر اس غم کو محسوس کیا۔ وہ لال خان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ وہ لال خان کے نظریاتی مقام سے واقف تھے اور اس کے قدر دان تھے۔ ابھی تک تو ہم لال خان کی جدائی سے بھی نہیں سنبھلے تھے۔ ابھی تو لال خان کی جدائی کا گھاؤ ہر لمحہ تڑپا رہا تھا کہ یہ خبر آئی کہ حیدر عباس گردیزی بھی داغ مفارقت دے گئے۔ یہ بہت ہی غم ناک خبر ہے۔ یہ پاکستان کے علم دوست حلقوں، ادب شناسوں اور انقلابیوں کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے۔

حیدر عباس جیسے سراپا علم وفضل اور حلیم طبع دانش ور کا یوں محفل کو چھوڑ کر چلے جانا صرف اہل ملتان اور وہاں کی محفلوں کو ہی بے رونق نہیں کر گیا بلکہ اس خطے میں سماجی، معاشی اور سیاسی تبدیلی کے ان کے ساتھیوں کے دل پر ایک اور مہلک گھاؤ لگا گیا ہے۔ حیدرعباس کی آدرشیں، خواب اور انقلابی خواہشیں ہم سب کی منزل ہیں۔ یہ کاروان انقلاب اپنے اس ساتھی کے ناقابل فراموش ساتھ کو کبھی نہیں بھلا پائے گا۔