ذکا اللہ

دسمبر 2019ء کے پہلے ہفتے میں چین کے ووہان شہر کے ہسپتالوں میں ایک مخصوص بیماری میں مبتلا مریضوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ ووہان شہر کے ڈاکٹروں نے چینی وزارت صحت کے حکام کی اس غیر معمولی بیماری کی طرف توجہ دلائی۔ 31 دسمبر 2019ء کو چینی حکام نے عالمی ادارہ صحت کو اس غیر معمولی بخار سے ہونے والے نمونیا اور اس سے ہونے والی اموات سے آگاہ کیا اور اس کی وجہ ایک وائرس کو قرار دیا جس کو ”2019ء نوول کورونا وائرس“ اور اس سے لگنے والی بیماری کو ”کووڈ 19“ کا نام دیا گیا۔ 30 جنوری 2020ء کو عالمی ادارہ صحت نے کووڈ 19 کو ”پبلک ہیلتھ ایمرجنسی فار انٹرنیشنل کانسرن“ قرار دے دیا۔ 2009ء کے بعد یہ پانچواں موقع تھا جب عالمی ادارہ صحت نے کسی بیماری کو عالمی سطح کا خطرہ قرار دیا ہے۔ اس سے پہلے سوائن فلو کو 2009ء، پو لیو کو 2014ء، مغربی افریقہ میں ایبولا کو 2014ء، زیکا وائرس کو 2015ء اور عوامی جمہوریہ کانگو میں ایبولا کو 2019ء میں خطرہ قرار دیا جا چکا ہے۔ 11 فروری 2020ء کو عالمی ادارہ صحت نے اس وائرس کو باقاعدہ نام ”SARS-CoV-2“ دیا۔

”کورونا“ نسل سے تعلق رکھنے والا ہی ایک وائرس 2003ء میں چین میں جانور (چمگادڑ) سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔ اِس پہلے سارس کورونا وائرس نے 26 ممالک کے آٹھ ہزار سے زائد افراد کو متاثر کیا تھا۔ 2012ء میں کورونا وائرس کی ایک دوسری شکل ”MERS“ اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہوئی۔ اس کا آغاز سعودی عرب سے ہوا جس نے 24 ممالک میں ایک ہزار سے زائد افراد کو متاثر کیا جس میں 400 سے زائد اموات ہوئیں۔

گذشتہ دو دہائیوں میں سیلاب، سمندری طوفان، گلیشیئروں کے پگھلاؤ اور بے موسمی بارشوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ سرمایہ دارانہ ریاستیں اور حکومتیں تسلسل کے ساتھ ہونے والی اس تباہی کو قدرتی آفات یا مشیت ایزدی کا نام دے کر خود کو اس تباہی سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشس کرتی ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ منافعوں کی ہوس کے باعث بڑے پیمانے پر ماحولیات کی تباہی نے اس زمین اور اس پر بسنے والے لوگوں کے مستقبل کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ قیمتی لکڑیوں اور معدنیات کے حصول کے لئے بڑے پیمانے پر جنگلات کا کٹاؤ، رئیل اسٹیٹ اور نئی آبادیوں کے لئے زمین کے حصول کی خاطر درختوں کا خاتمہ، گوشت اور کھالوں کی تجارت کے لئے بڑے پیمانے پر جانوروں کا شکار وغیرہ سب وہ عوامل ہیں جنہوں نے ایکو سسٹم کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

یو ایس سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے اندازے کہ مطابق تین چوتھائی نئی پیدا ہونے والی بیماریاں جو انسانوں کو متاثر کر رہی ہیں وہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہورہی ہیں۔ 2008ء میں ماہرین نے 335 ایسی بیماریوں کا مطالعہ کیا جو 1960ء سے 2004ء کے درمیان ظہور پذیر ہوئیں۔ ان میں 60 فیصد بیماریاں ایسی تھیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئی ہیں۔ ایچ آئی وی ایڈز بندر سے انسانوں میں منتقل ہوئی۔ سوائن فلو سور سے اور سارس اور ایبولا چمگادڑ سے منتقل ہوئیں۔ ماحولیاتی تبدیلی نے اس عمل کو مزید تیز کردیا ہے۔ ماحولیات کی تبدیلی نے نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کے طور طریقوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سرمایہ دارانہ پالیسیاں جتنا زیادہ ماحولیات اور ایکو سسٹم کو متاثر کریں گی اتنے ہی زیادہ نئی وبائی امراض کے پیدا ہونے کے امکانات بڑھتے چلے جائیں گے۔ ہم ابھی تک صرف ایسے 10 فیصد جرثوموں کے بارے میں واقفیت رکھتے ہیں جو جانوروں میں موجود ہیں اور انسانوں کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔ پچھلی پانچ دہائیوں میں ماحول کی تبدیلی اور انسانوں اور جانوروں کے باہمی اختلاط میں جرثوموں نے وہ معیاری صلاحیت حاصل کرلی ہے جس سے وہ بڑے پیمانے پر انسانی آبادیوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ کووڈ 19 مستقبل میں درپیش خطرات کی بہت چھوٹی سی جھلک ہے۔ ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے جن وسائل اور تکنیکوں کی ضرورت ہے وہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہیں۔

”کورونا پہلے بڑھے گا، پھر ایک خوف کی صورت اختیار کر لے گا، اس کے بعد ایک آسمانی مداخلت کورونا کا خاتمہ کردے گی۔ “ یہ الفاظ کسی مولوی، پنڈت یا پادری کے نہیں بلکہ انسانی تاریخ کی سب سے ترقی یافتہ تہذیب کے نمائندہ ملک امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہیں۔ اور یہ دیوالیہ ذہنیت صرف ٹرمپ کی نہیں بلکہ میکرون، مرکل اور جانسن کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ جنوری 2020ء میں چین کورونا وائرس کی وبا سے نبرد آزما تھا تو عالمی سامراج اور اس کے حواری اس انتظار میں تھے کہ کورونا چین کی معیشت و طاقت کا بھٹہ بٹھا دے گا اور عالمی سطح پر سامراجی ممالک اور سرمایہ داروں کو زیادہ کھل کر کھیلنے کا موقع ملے گا۔ 30 جنوری کو جب عالمی ادارہ صحت نے کورونا کو عالمی سطح کی وبا قرار دیا، باوجود اس کے کہ یہ اعلان تاخیر سے کیا گیا، عالمی سطح پر کسی فورم پر اس خطرے سے نمٹنے کے لئے کسی اجتماعی کوشش کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ سکیورٹی کونسل، جی 7 اور جی 10 وغیرہ جیسے تمام ادارے غیر فعل نظر آئے۔

ایران، وینزویلا اوردیگر کئی ممالک پر عائد امریکی پابندیوں نے دنیا بھر میں عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ لیکن اسی دوران امریکانیٹو کے ساتھ مل کر یورپ کی تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقوں کی تیاریاں کر رہا تھا۔ جس کے لئے امریکا کا اصرار تھاکہ نیٹو ممالک اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ کریں اور جو ممبر ممالک ایسا نہیں کریں گے ان پر تجارتی جرمانے عائد کیے جائیں گے۔ ان مشقوں کو اس وقت ملتوی کرنا پڑا جب اس کی تیاریوں کے سلسلے میں ہونے والے پلاننگ اجلاسوں میں یورپین کمانڈ کے ملٹری آفیشل خود کورونا وائرس کا شکار ہو گئے۔

یورپی یونین کے سربراہ یونین کے اتحاد اور اس کے ممبر ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے خود مذکورہ بالا جنگی مشقوں پر بہت انحصار کر رہے تھے۔ لیکن کورونا کے باعث بگڑتی ہوئی صورتحال کو دیکھ کر رکن ممالک نے ایک دوسرے کے لئے ہی اپنی سرحدیں بند کردیں۔ پچھلی دو دہائیوں سے فرانس اور جرمنی یورپی یونین کے اندر سیاسی و معاشی طور پر انتہائی کلیدی کردار ادا کرتے چلے آئے ہیں۔ لیکن جب اٹلی نے کورونا کے پھیلاؤ کے باعث جرمنی سے مدد طلب کی تو جرمنی نے کسی بھی قسم کی مدد سے واضح انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ میڈیکل کے سامان کی برآمد پر پابندی عائد کردی جو بعد میں اٹلی کو چین سے امداد کی صورت فراہم کیا گیا۔ دسمبر 2019ء میں جب چین میں کورونا اپنے پنجے گاڑھ رہا تھا تو برطانیہ میں لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کاربن نظامِ صحت میں بڑی ریاستی سرمایہ کاری کا پروگرام پیش کر رہے تھے۔ لیکن لیبر پارٹی کے اندر موجود بلیرائٹ گروپ، کنزرویٹو پارٹی، برطانوی اسٹیبلشمنٹ اور امریکی سامراج کے درمیان لیبر کو شکست دینے کے لئے ایک مقدس اتحاد قائم ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کو پرائیویٹائزیشن کے ذریعے امریکی سرمائے کے لئے کھولنا تھا۔ بالکل اسی طرح امریکی صدارتی انتخاب کے امیدوار برنی سینڈرز نے جب ”علاج سب کے لئے“ کا نعرہ بلند کیا تو خود برنی کی ڈیموکریٹک پارٹی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک مقدس اتحاد وقوع پذیر ہوا اور یہ برنی کو صدارتی انتخاب کی دوڑ سے باہر کرنے کے لیے متحد ہوگئے۔ جیرمی کاربن اور برنی سینڈرز دونوں ہی کسی انقلاب کی بات نہیں کررہے تھے بلکہ سرمایہ داری میں کچھ عوامی اصلاحات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان دونوں رہنماؤں پر جو سب سے بڑا اعتراض تھا وہ یہ کہ سب لوگوں کو علاج کی مفت فراہمی کے لئے اتنے بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کے لئے سرمایہ کہاں سے آئے گا، ریاستیں اس کی متحمل نہیں ہوسکتیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن آج کورونا کی وبا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی بحران کے پیش نظر  کئی گنا زیادہ اخراجات ریاستوں کو کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ کوئی حل نکالنے سے قاصر ہیں۔

ہم نے شعوری طور پر کورونا سے معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا جائزہ نہیں لیا۔ کیونکہ کورونا کے معیشت پر اثرات کے ہم انتہائی آغاز میں ہیں اور فی الوقت اس کا حتمی اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ اس کے سیاسی، سماجی اور معاشی اثرات کے لئے ایک علیحدہ مضمون درکار ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے پہلے عالمی معیشت بہت صحتمند تھی؟ ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ کورونا نے اس معیشت کے بحران کی رفتار کو صرف تیز کیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر موجود تضادات کو سطح کے اوپر لاکھڑا کیا ہے۔ کورونا نے صرف سرمایہ دارانہ ذہانت، سیاست، معیشت اور ثقافت کے دیوالیہ پن کو دنیا کے سامنے آشکار کیا ہے۔ آج سماجی ترقی جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہاں ایک شعبے کو دوسرے شعبے سے علیحدہ رکھ کر نہ تو دیکھا جا سکتا اور نہ ہی ترقی دی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے ایک مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس میں مستقبل کی پیش بینی بھی شامل ہو۔

آج مندر، مسجداور کلیسا سب ان لیبارٹریوں کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں جہاں سے کورونا ویکسین کا معجزہ ظہور پذیر ہوگا۔ انسان بذات خود مادے کا سب سے شاندار مظہر ہے اور وہ اپنی پوری معلوم تاریخ میں اپنی بقا کی جنگ کامیابی سے لڑتا اور جیتتا چلا آیا ہے۔ آج کا جدید تہذیب و تمدن‘ انسان کی شاندار اجتماعی محنت اور شعور کا تاریخی مظہر ہے۔ انسان کی محنت اور شعور بانجھ نہیں ہوئے۔ وہ کورونا سے کئی گنا زیادہ طاقتور جرثوموں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بانجھ یہ نظام ہوگیا ہے جسے ہم سرمایہ داری کہتے ہیں۔ یہ انسانی محنت و شعور کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وقت قریب آگیا ہے جب عام انسانوں کا اجتماعی شعور ایک معیاری جست لے گا۔ اس نظام کے خلاف ایک انقلاب برپا کرے گا۔ اپنی غربت، بیماریوں اور سرمائے کی غلامی سے نجات کے لئے سوشلسٹ انقلاب!