حسن جان
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ایک حالیہ ٹویٹ میں لکھا ہے کہ”ایران کے ساتھ’مختصرجنگ‘ایک خام خیالی ہے۔ جنگ شروع کرنے والا جنگ کو ختم نہیں کرسکے گا۔“ جواد ظریف کا اشارہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کی طرف تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ”میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم ایک ملین فوج بھیجیں گے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر کچھ ہوا تو وہ بہت مختصر ہوگا۔“
حالیہ دنوں میں ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب ایران نے ایک امریکی ڈرون کو مار گرایا جو ایران کے مطابق اس کے صوبے ہرمزگان کی فضائی حدود میں گھس آیا تھا۔ جبکہ امریکہ کے مطابق ڈرون ایرانی فضائی حدود کے باہر تھا۔ اس ڈرون کے مارگرانے کے جواب میں امریکی صدر نے ایران میں بعض تنصیبات پر فضائی بمباری کا حکم دے دیا لیکن کچھ دیر بعد ہی اپنا یہ حکم واپس لے لیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ اپنے حملے کے فیصلے پر عمل درآمد کو آگے بڑھانے ہی والے تھا کہ آخری لمحات میں امریکی وزارت دفاع پینٹاگان کے اس حملے سے متعلق تحفظات کے بعد منصوبے کو ترک کردیا گیا۔ یہ یوٹرن بذات خود امریکی ریاست میں موجود تذبذب اور غیر یقینی کیفیت کی غمازی کرتاہے جو اپنے جوہر میں امریکی سامراج کی زوال پذیری اور بحیثیت مجموعی پوری سرمایہ داری کی نامیاتی زوال پذیری کا عکاس ہے۔
حالیہ دنوں میں امریکہ نے قطر میں اپنے فوجی اڈے پر F-22 طیارے بھیجے ہیں جبکہ اس سے قبل مئی کے آغاز میں امریکہ نے خلیج فارس میں یو ایس ایس ابراہم لنکن نامی ایئر کرافٹ کیریئر اور B-52 بمبار طیارے تعینات کیے۔ جو امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے مطابق خطے میں موجود امریکی فورسز کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے بھیجے گئے ہیں اوراسکے علاوہ ایران کو یہ پیغام دینا بھی مقصود ہے کہ امریکی مفادات پر حملے کی صورت میں منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ چند دن بعد 12 مئی کو متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ الفجیرہ کے قریب چار کمرشل کشتیوں پر حملے ہوئے جن سے کشتیوں کو جزوی نقصان پہنچا۔ اسی طرح 13 جون کو دو اور کشتیوں پر حملے ہوئے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے دونوں حملوں کو ایران کی کارستانی قرار دیا۔ لیکن ایران نے حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی۔
اس وقت خلیج فارس میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور اگرچہ امریکی ڈرون کو گرانے کے واقعے کے بعد حالات بظاہر ٹھنڈے ہوتے دکھائی دیتے ہیں لیکن عدم استحکام اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی بھی واقعہ پھر سے جنگی ماحول کو گرما سکتا ہے۔ حتیٰ کہ براہ راست جنگ کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم امریکی مشیربرائے قومی سلامتی جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو جیسے جنگی جنونیوں کے بر عکس عالمی سطح پر سرمایہ داری کے تمام سنجیدہ ماہرین اس وقت امریکہ کی ایران کے ساتھ کسی بھی طرح کی عسکری پنجہ آزمائی کے خلاف ہیں اور ایران کو ’قابو‘ کرنے کے لئے وہ سفارتی ذرائع استعمال کرنے اور مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔
امریکہ اور ایران کے درمیان حالات اس وقت زیادہ خراب ہوئے جب پچھلے سال ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا اور اس معاہدے کے تحت ایران پر سے اٹھائی گئیں تمام تر اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کردیں۔ سب سے بڑھ کر ایرانی تیل کی برآمدات کو نشانہ بنایا گیا جو ایران کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق یہ ایٹمی معاہدہ، جسے اس سے پیشتر باراک اوباما نے ایران کے ساتھ طے کیا تھا، انتہائی کمزورمعاہدہ تھا جو ایران کو ایٹم بم بنانے سے مستقل بنیادوں پر نہیں بلکہ صرف عارضی طور پر روکتا تھا۔ اس لئے ایران کو امریکہ کے ساتھ ایک نئے ایٹمی معاہدے کے لیے مذاکرات کرنے ہوں گے۔ لیکن اس معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن بار بار تبدیل ہوتی رہی ہے۔ مثلاً پچھلے سال امریکی وزیر خارجہ نے اقتصادی پابندیوں کے خاتمے اور نئے ایٹمی معاہدے کے لئے ایران کے سامنے بارہ شرائط رکھی تھیں۔ جس میں شام اور عراق سے اپنی فوجیں نکالنا، یمن اور لبنان میں مداخلت بند کرنااورایٹمی اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو ترک کرناوغیرہ شامل تھا۔ لیکن پچھلے مہینے ہی مائیک پومپیو نے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ غیرمشروط طور پر مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ اسی طرح ٹرمپ نے جاپان کے دورے کے دوران کہا کہ ایران اپنی موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے بھی ترقی کرسکتا ہے۔ ٹرمپ کی یہ قلابازیاں دراصل امریکی سامراج کی اپنی کم اعتمادی اور تذبذب کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ دراصل معیشت اور نظام کی نامیاتی گراوٹ کی غمازی ہے جو اپنا اظہار سیاسی قیادت کے معیار میں گراوٹ کی صورت میں کرتی ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق ایران نے مذکورہ بالا جوہری معاہدے میں طے شدہ افزودہ یورینیم کی مقدار سے تجاوز کا اعلان کیا ہے اور یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اسے نئے معاہدے کی پیشکش نہ کی گئی (یعنی پابندیاں اٹھائی نہ گئیں) تو وہ 7 جولائی کے بعد سے یورینیم کو اس قدر افزودہ کرنے لگے گا جس سے ایٹمی ہتھیار تیار ہو سکتے ہیں۔ یوں ایران بھی اپنے پتے کھیل کے دباؤ بڑھا رہا ہے۔
دوسری طرف امریکی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی معیشت شدید گراوٹ کا شکار ہے۔ اس سال معیشت 6 فیصد سکڑ گئی ہے اور تیل کی برآمدات 2.5 ملین بیرل یومیہ سے گھٹ کر پانچ لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ گئی ہیں۔ جس سے بیروزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے اور افراط زر 70 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ملاؤں کی سماجی بنیادیں ختم ہو رہی ہیں۔ اگر کوئی چیز اس موجودہ ملاں ریاست کو قائم رکھے ہوئے ہے تو وہ امریکہ دشمنی، اقتصادی پابندیوں کا بہانہ اور جنگی ماحول ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایران کی خطے میں مداخلت اور اثر و نفوذ میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہی چیز امریکہ اور خطے میں اس کے اتحادیوں کے لئے ناقابل قبول ہے۔ اسی وجہ سے ایران پر ہر طرح سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
لیکن کسی بھی طرح کی جنگ، حتیٰ کہ محدود پیمانے کی جنگ ہی کیوں نہ ہو‘کی صورت میں معاملات صرف امریکہ اور ایران کے درمیان محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اگرچہ ایرانی تنصیبات پر امریکی حملے کی صورت میں ایران شاید امریکہ کے ساتھ براہ راست جنگ نہ لڑے کیونکہ ایرانی عسکری قوت کا امریکی فوجی طاقت سے کوئی موازنہ ہی نہیں بنتا۔ ایران کا پورا دفاعی بجٹ ایک امریکی ایئرکرافٹ کیریئر کی قیمت کے برابر ہے۔ لیکن خطے کے مختلف ممالک میں پھیلی ہوئی اس کی پراکسیاں امریکی مفادات اور اس کے اتحادیوں کو خاطر خواہ نقصانات پہنچا سکتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے مختلف شہروں پر یمن میں موجود حوثیوں کی جانب سے میزائل حملے صرف جھلکیا ں ہیں۔ ایک کھلی جنگ کی صورت میں اس طرح کے حملے زیادہ بڑے پیمانے پر ہوسکتے ہیں۔ جس سے واقعات کا ایک ایسا تسلسل شروع ہوگا جو شاید کسی کے قابو میں نہیں رہے گا۔ میکاولے کے بقول ”جنگ آپ کی مرضی سے شروع تو ہوسکتی ہے لیکن اس کا خاتمہ آپ کی مرضی سے نہیں ہوتا۔“ اس کے علاوہ پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لینے والی اس طرح کی جنگ تیل کی قیمتوں کو بعض اندازوں کے مطابق 300 ڈالر فی بیرل تک بھی پہنچا سکتی ہے جو پہلے سے انتہائی نحیف اور کمزور عالمی معیشت کو مزید گراوٹ کا شکار کردے گی۔ دوسری طرف عالمی مالیاتی ادارے پہلے ہی عالمی معیشت میں ایک کساد بازاری (Recession) کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔
اسی لئے خطے کے دوسرے ممالک بالخصوص کمزور عرب بادشاہتیں بشمول سعودی عرب اس کشیدگی کو ایک کھلی جنگ کی طرف لے جانا نہیں چاہتے۔ ایسی کسی جنگ کی صورت میں یہ کمزور بادشاہتیں ڈھے بھی سکتی ہیں۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ لڑائی اس خطے کے محنت کشوں کی لڑائی نہیں ہے۔ خطے کے محنت کشوں کی لڑائی تو اس خطے کی بادشاہتوں اور رجعتی ملائیت سے ہے جسے اس جنگی جنون کے ماحول میں کہیں دبا دیا گیا ہے۔ لیکن اس لڑائی کو حکمرانوں کی ہوس اور توسیع پسندی کی جنگ میں مصنوعی طور پر سدا دبایا نہیں جاسکتا۔ خطے کے محنت کشوں کی جب ان حکمرانوں سے جنگ کا آغاز ہوگا تو پیسے کے لئے لڑی جانے والی ان تمام جنگوں کا خاتمہ ہوگا۔