لال خان

3 جنوری کی صبح پھوٹنے سے پیشتر امریکی میزائل حملے سے بغداد کے ہوائی اڈے پر ایران کے جنرل قاسم سلیمانی اور انکے ساتھیوں کا قتل ایک ایسا واقعہ ہے جو پورے خطے میں پچھلے کئی مہینوں سے چلنے والے انتشار کو ایک آتش فشاں بنا سکتا ہے۔ لیکن حقائق ایسے ہیں نہیں جیسے سرمایہ دارانہ ذرائع ابلاغ ان کو پیش کررہے ہیں۔ صدام حسین کی آمریت میں بھی عراقی عوام کی اکثریت امریکی سامراج کے خلاف تھی۔ آج صدام حسین کے خاتمے اور امریکہ کے انخلا کے بعد بھی سامراج دشمنی عراق میں بڑھی ہے کم نہیں ہوئی۔ واشنگٹن اور تہران دس ہزار میل کے فاصلے پر ہیں۔ اتنی دور سے آ کر امریکیوں کاایران پر حملہ کرنا ان کے مفادات کو لاحق خطرات کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکی سامراج دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی طاقت ہونے کے دعوے کے باوجود ایران جیسی نسبتاً کم طاقت یافتہ ریاست پر برسرپیکار آخر کیوں ہے؟ سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ ”مغربی“، ”کافر“اور ”یہودی“ وغیرہ وغیرہ امریکہ اور ملاؤں یا شیعہ فرقہ پرست مبلغوں کی اسلامی حاکمیت کے معاشی، اقتصادی اور سماجی نظاموں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

امریکہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک بھی ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے مارے امریکی محنت کش عوام اور نوجوان نہایت ہی تلخ زندگیاں گزار رہے ہیں۔ کسی ملک کی عوام کی اصل حالت کا اندازہ اس کے معاشی اعداد و شمار اور پراپیگنڈے سے نہیں لگایا جاسکتا۔ امریکہ کی سیاست میں پچھلی دو دہائیوں سے پھیلنے والی افراتفری اسکی سماجی بے چینی سے جنم لے رہی ہے۔ امریکی عوام سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کا شکار ہے۔ ان میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے اور تمام ترذلتوں کے باوجود ان کو مجبور کردیا گیا ہے کہ وہ اسی دولت کی جمہوریت کے ذریعے صرف یہ چناؤ کرسکیں گے کہ اگلے پانچ سال ان کی حکمرانی بالادست طبقات کا کونسا حصہ کرے گا۔ امریکی سیاست بارے مشہورڈپلومیٹ اور امریکی سیاستدان جان کینن فلبرائیٹ نے کہا تھا کہ”امریکہ میں صرف ایک سیاسی پارٹی ہے“۔ بعد میں یہ حقیقت منظر عام پر آئی کہ2016ء کے انتخابات میں ٹرمپ کو (سوشلسٹ) سینڈرز ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹکٹ پر شکست فاش دے سکتا تھا۔ لیکن کلنٹن اور ڈیموکریٹک پارٹی کی بیوروکریسی (جو امریکی سرمایہ داروں پر مشتمل ہے) نے ایک سازش کے ذریعے خود اپنی پارٹی کو شکست دلوائی۔ امریکی سامراجیوں کو اپنی داخلی اور خارجی برتری اور جبر برقرار رکھنے کے لئے دوسری عالمی جنگ کے بعدویتنام سے لے کر افغانستان میں بھی جارحیت کرنی پڑی۔

عراق، شام، لبیا اور دوسرے ممالک میں اسکی شکستوں نے اسکی جنگی اور اقتصادی زوال پذیری کی بہت واضح نشاندہی کردی تھی۔ امریکی ایجنٹ رضا شاہ پہلوی(شاہ ایران) کے خلاف انقلاب میں سامراج دشمنی کا عوامی عنصر بہت نمایاں تھا۔ المیہ یہ ہے کہ ایران کی اس وقت کی ”تودہ“ (کمیونسٹ) پارٹی جس کے لیڈروں نے انقلاب کو منظم اور متحرک کیا تھا، اسکی قیادت نے امریکی سامراجیوں کے مذہبی بلکہ شیعہ فرقہ واریت کے آگے سرجھکا دیا تھا۔ جس سے کمیونسٹوں کے کیے ہوئے انقلاب پر قبضہ ملاں شاہی کا ہوگیا۔ اس شیعہ آمریت نے نہ تو معاشی واقتصادی نظام بدلا، نہ ہی ریاستی اداروں اور ڈھانچوں میں کوئی انقلابی تبدیلی کی اور نہ ہی مذہبی اخلاقی اور فرقہ وارانہ اقدار میں کوئی تبدیلی پیدا کی۔ بلکہ اسی نظام کو داڑھی رکھوا اور چغے پہنا کر مسلط کردیا جو شاہ ایران کے زمانے سے چل رہا تھا۔ ایرانی یا ”فارسی قوم“ کے زوال پذیر اور بکھرنے کے ہزار سال بعد اس کو دوبارہ اجاگر کرنے کے لئے ایرانی پرستی کی سامراج دشمنی کو استعمال کرتے ہوئے اسے اسلامی شیعہ مملکت کے ڈھانچے میں نئی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔ 1980ء کی دہائی میں ہونے والی ایران عراق جنگ میں ملاں اشرفیہ نے اس شیعہ شاونزم کو مزید تقویت دلائی۔ صدام کے لئے امریکی سامراجی حمایت بھی انکے بہت کام آئی۔ اسی سے ایران دوسری حاکمیتوں کی زوال پذیری کی وجہ سے خطے کی بڑی طاقت بن کرابھری۔ لیکن اسکے وجود اور داخلی جبر و حاکمیت کے لئے اس کو ایک بیرونی تضاد بھی درکار تھااور امریکہ سے بہتر اس کے پاس بھلا اورکیا اوزار ہوسکتا تھا۔

دنیا کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ سامراجی طاقت بننا ایک بات ہوتی ہے اور اس کا تسلط قائم رکھنا بالکل مختلف عمل ہوتا ہے۔ روم سے لے کر مصر اور چین سے لے کر یونان تک کی سامراجی سلطنتوں کی یہی تاریخ ہے۔ فرانس اور برطانیہ کے سامراجیوں کی داستان بھی ان سے مختلف نہیں ہے۔ لیکن ہر سامراجی تسلط ایک مرحلے پر آکر دم توڑنا شروع کردیتا ہے۔ اس کو برقرار رکھنے کی جستجو میں سامراجیوں کو قبضوں، نوآبادیات اور وسائل کی لوٹ مار کے عمل میں بہت کٹھن اور عموماً مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج امریکی سامراج کو عالمی طور پر جس زوال اور پسپائی کا سامنا ہے وہ یہی ہے کہ نہ اسکے پاس وہ وسائل ہیں، نہ ہی وہ طاقت اور نہ ہی طاقت کے توازن میں اتنی شدید ناہمواری۔ اس گلوبلائزیشن کی دنیا میں ہر روز اربوں کھربوں ڈالر سرحد پار ہوتے ہیں لیکن کسی حکومت و ریاست میں اتنی سکت اور جرات نہیں ہے کہ اس دولت کی گردش میں کوئی رخنہ اندازی کرسکے۔ آج جبکہ دنیا کی 80 فیصد دولت 62 افراد کے پاس ہے تو اس میں ریاستیں بڑی ہیں یا اجارہ دارانہ سرمایہ دار اور ملٹی نیشنل کارپوریشنیں؟

امریکی سامراج کاکردارجو عالمی طور پر ہے ایرانی ملاں اشرافیہ اس کو اپنے خطے میں ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جہاں امریکی سامراج ناکام ہے وہاں ایرانی ملاں اشرافیہ بھی نامراد ہیں۔ لیکن جہاں امریکی اور ایرانی حکمرانوں میں شدید تناؤ اور تضادات ظاہر کیے جاتے ہیں وہاں یہ ایک دوسرے کے لئے حکمرانی کااہم ترین ذریعہ بھی ہیں۔ جہاں امریکی سامراجی جمہوریت اور انسانی حقوق کا ناٹک کرکے بدترین آمریتوں کو مسلط کرتے ہیں وہاں مذہبی مسلک کو استعمال کرنے والے ایرانی سرمایہ داروں نے اپنی بغل بچہ حاکمیتوں کو یمن سے لے کر لبنان کے عوام پر مسلط کررکھاہے۔ لیکن آج نہ وہ وقت ہے، نہ وہ حالات ہیں، نہ وہ مالیات ہیں اور نہ وہ تجارت ہے کہ شرح منافع بھی جاری رہتی اورحاکمیت کے لئے وسائل کاحصول بھی جاری رہ سکتا۔ اگر ایرانی ملاں امریکہ کو شیطان کہہ کر اسکے خلاف عوام کی پیدا ہونے والی نفرت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتےہیں تو خطے میں اور عالمی طور پر ایرانی اشرافیہ بھی امریکی سامراجیوں کی کرتوتوں بارے عوام کے دلوں میں خاطرخواہ نفرت پیدا کرتی رہی ہے۔ 40 سال سے ایرانی ملاؤں کی حکمرانی کی بقا اسی میں رہی ہے کہ بیرونی خطرے اور تنازعے ابھار کر داخلی جبر کو جاری رکھے لیکن اب وقت اتنا بدل گیا ہے کہ وہ”پرانے“ حالات اسی طرح چل نہیں سکتے۔ دوسری طرف ایرانی ملاؤں اور امریکی سامراجیوں کوبھی اس باہمی دشمنی کی شدید ضرورت ہے کہ جس سے وہ اپنے اپنے ملک یا عالمی طور پر محنت کش طبقات اور نوجوانوں کا استحصال اورلوٹ مارجاری رکھ سکیں۔

امریکی اقتصادی پابندیوں کے ایرانی حکمرانی پر منفی اثرات ضرور مرتب ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایرانی ملاں انکے اثرات کو عوام پر پہلے سے ہی پڑے بھاری بوجھ میں اضافے کا سبب بنا دیتے ہیں۔ ظاہری طور پر دشمنی اور خفیہ دوستی انکی حکمرانی کے لئے کلیدی حیثیت کی حامل ہیں۔ حالیہ امریکی جبر سے ٹھونسی گئی اقتصادی پابندیوں سے ایران(جس کی سب سے بڑی پیداوار ہی تیل ہے) میں تیل کی قیمتوں میں 200 فیصد کا اضافہ ہو ا ہے۔ لیکن لبنان، عراق، لیبیا اور شام میں ابھرنے والی بعض حقیقی طبقاتی تحریکوں کو کچلنے میں انکے مفادات مشترک ہیں۔ اسی طرح 2019ء میں ایران ہڑتالوں اور مزدور تحریکوں کے طوفانوں میں گھرا ہوا تھا۔ 80 شہروں میں تقریباً ایک نیم انقلابی کیفیت تھی۔ حکمرانوں کے ”اصلاح پسند“ اور ”سخت گیر“ دھڑوں کے جعلی تضادات عوام کے آگے بے نقاب ہورہے تھے۔ پچھلے40 سال سے مسلط جابرانہ سیاست عوام کی نظروں میں بے نقاب ہو کر اپنی ساکھ کھورہی ہے۔

دوسری جانب جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے خلاف جو آوازیں اٹھیں ان میں امریکی صدارتی امیدوار برنی سینڈرز کی آواز سرفہرست ہے۔ امریکہ اور ایران کے لئے دوستی اور دشمنی حاکمیت کی ضرورتیں ہیں لیکن اب ان کو یک وقت جاری رکھنا شاید ممکن نہیں رہا۔ یہ سفارتی دھوکے بازیاں، یہ خطرات کے چیلنج اور یہ چناوتیاں بہت حد تک اپنی افادیت کھوچکی ہیں۔ حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کے امریکہ اور ایران میں مفادات کی جڑت اب بہت حد تک بے نقاب ہوچکی ہے۔ اسی لیے اب یہ دونوں حاکمیتیں ہی اپنے اصلی اور ازلی دشمن طبقاتی جدوجہد سے خوفزدہ ہیں۔ تحریکیں جب لبنان اور عراق جیسے ممالک میں چلیں تو ان ملاؤں اور سامراجیوں کا خوف بری طرح عیاں ہو گیا۔ وہ وقت شاید قریب آپہنچا ہے جب یہ مذہبی، قومی، فرقہ وارانہ تقسیموں اور منافرتوں کے تضادات اور تعصبات کاسامان نہیں بن سکیں گے۔ حکمران مختلف ہتھکنڈوں سے انکے خلاف سازشیں کررہے ہیں لیکن پچھلے عرصے میں جو تحریکیں ابھری ہیں ان سے بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ محنت کش طبقات کا شعور بہت اجاگر ہوچکا ہے اور محنت کشوں کے لئے صرف اس بات کے شعور پر اجاگری ہی فتح کا پیام بن سکتی ہے کہ وہ یہ سمجھ جائیں کہ اصل جنگ طبقاتی ہے۔ قومی، جنسی، لسانی یا مذہبی نہیں ہے۔